New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 08:34 PM

Urdu Section ( 26 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Faith and Conscience Are Still Alive ابھی ایمان اور ضمیر زندہ ہے

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

23 فروری،2024

ہر صحیح العقیدہ شخص جس کا ایمان سالم ہے اس کے یہاں دنیا و مافیہا سے تعلق رکھنے والے کسی بھی معاملے میں ابہام کی کوئی زمین نہیں پائی جاتی! آج کی گفتگو کا تعلق براہ راست اطمینان قلب، نفسیات میں استحکام، مستقل مزاجی،طبیعت میں عزم جواں، ہوش میں غور فکر،پہل میں جامعیت، عمل وردعمل میں ٹھہراؤ، تحریک میں نظم وڈسپلن، حرکت میں برکت اور نصرت کاملہ میں پختہ یقین سے ہے۔عقیدہ ہمارے رگ وخوں اور حرکت قلب میں روح بن کر دوڑ تاہے۔ دین متین کوئی چھوئی موئی کا پتہ یا پودا نہیں جس پر ذرا سی جنبش نازیبا یا کوئی سازش بیجا ضرب لگاسکے۔ ایمان کی تعریف، تفصیل وتشریح بالکل واضح او رابہام سے پاک ہے۔ کائنات کا خالق ومالک اللہ وحدہ لاشریک ہے،الوہیت صرف اسی کا خاصہ ہے،دنیا وآخرت میں کچھ بھی اسکی قدرت، حکمت ومصلحت سے نہ باہر ہے اور نہ ہی کسی کے پاس اس میں کچھ دخل دینے کا اختیار ہے۔ ہر حکم، شئی،نظم ونظام،تعمیر وتشکیل وتخریب بحوالہ تعمیل اس کی مشیت کے تابع ہے۔ جسم، عقل، علم وتحقیق انسانی حد اور حدود کی پابند ہیں۔کیونکہ ان کی بنیاد وشرح چند حقائق کے بیشتر مفروضوں پر قائم ہے۔ جب مشیت الہی کسی حد اور حدود پرنہ موقوف ہے او رنہ ہی اس کی قیود ہی ہیں۔ کن فیکون اللہ رب العزت کی وہ صفت جلیلہ ہے جو عملاً الاحد کی تشریح ہے۔ خدا اور خدائی جو علم غیبیہ سے متعلق ہیں ان کا تعلق او ران پر دسترس واختیار صرف اللہ وحدہ لاشریک کو ہے۔ ہر مخلوق اس کو جوابدہ ہے جبکہ وہ کسی کو نہیں! سب اس کے محتاج ہیں لیکن وہ سب سے بے نیام! اس کے بغیر نہ نظام دنیا چل سکتاہے او رنہ ہی کارخانہ حیات وکائنات!

ترقی کا یہاں معیار مادی وسائل او ران سے حاصل فوائد ونقصانات ہیں۔ جب کہ آخرت الہی، حب رسول، فقہ اسلامی کی غیر مشروط اتباع ہے ماخوذ ہے۔نجات کادارومدار ایمان سالم، اعمال صالح سے تنہا نہیں بلکہ یہ فضل الہٰی پر موقوف ہے۔ بنی نوع انسان کو فضل تلاش کرنے کا حکم ہے نہ کسی دیگر شئی کا! روحانیت، معرفت وعرفان اس کی اصل منزلیں ہیں! زندگی ایک سفر ہے جس کی مدت، قیام، کیفیات ومعیارات سب من جانب اللہ مقرر ہیں۔ اس کے نشیب وفراز،امتحان وآزمائش، خیر وشر،فتح وشکست، فیصلے،انتخاب و انکار کا اختیار اورظاہر وباطن نتائج سب مشیت ربی کی گرفت میں ہیں۔دنیا کی کیفیت دارالعمل، دارالعمل،دارالامتحان اور دارالفانی کی ہے۔ کامیابی کا معیار نام ونمود، تاج وتخت، حصول یا محرومی، مال ودولت، مرتبہ ومنصب،عزت ومنزلت،عظمت وحشمت، اقتدار، جنگ، فتح یا شکست، یافراوانئی وسائل نہیں ہیں بلکہ اصل کامیابی جسم سے زیادہ روح کی غذا ہے۔ تزکیہ نفس وتصفیہ قلب پر محنت دریاضت، ذکر، فرائض دین، حقوق اللہ وحقوق العباد کی ادائیگی پر ہے۔ یادرکھیں نجات کا معاملہ ایمان وعمل کا احتساب اور رحمن ورحیم کے فضل کے مابین ہے۔ یہ وہ فہم ایمان ہے جس سے ہم بیشتر غافل رہتے ہیں۔

فلاحی معاشرے کا قیام عین دینی تقاضہ ہے جس کی بنیاد او راس کا واحد مستند نمونہ سیدالانبیاء، خاتم النبین، رحمت اللعالمین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کااسوہ حسنہ اور سیرت رسول اللہ ہے بقیہ سب مراتب آپ کی اتباع کلیہ سے مشروط ہیں۔ اسلام میں افضلیت تقوے کو حاصل ہے نہ کہ دنیاوی چمک دمک کو! یادرکھئے حرام وحلال، جائز وناجائز کے دینی معیار سے کوئی بھی انسانی امر فارغ نہیں! عزت و ذلت کی ہر شکل اللہ کی عطا ہے! جسے تم او رمیں کامیابی سمجھتے ہیں اصل وہ نہیں ہے بلکہ وہ ہے جو مشیت ربی ظاہر کرے۔بھلے ہی وہ آ پ کی امید وتوقع کے مطابق ہو یا نہ ہو۔ ایمان کامل کا امتحان اللہ کی رضا میں راضی رہنا اور رسول عربی کی خوشنودی میں پنہاں ہے نہ کہ اپنی نفس پرستی یاذاتی خواہشات نفس کی غلامی میں۔ہر وہ آزمائش جس کی وجہ آپ کاایمان او رعمل محکم ہے بھلے ہی اس کا انجام کچھ بھی کیوں نہ ہو اللہ کے یہاں آپ کی سرخ روئی تومقدم ہے۔ شہادت مومن کی معراج ہے غزہ میں معصومین کو مسلم مومن ہونے کی سزادی جارہی ہے مگر ظالم یہ بھولتے ہیں کہ ان کے دربار ربی میں کیا درجات ہیں؟ اگر یہ ظالم جان لیں تو ایمان لے آئیں او راس ظلم سے باز آجائیں!

امتحان وایمان ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ یا پھر دوپہیے جن پر زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔کردار وسیرت کی اسلامیات و انسانیت کی اختراع او رجامع تشکیل انسانی کلیدی حیثیت ہے کیونکہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ حالات اونچے نیچے ہوتے رہتے ہیں، عروج وزوال کا تناسب درست ہو تو پھر توکل، قناعت، شکر وجہد مسلسل مومن کے اصل بازو بن جاتے ہیں۔ایمان اور حوصلہ مومن کی وہ طاقت ہے جو اس کی توانائی کو کبھی کم ہی نہیں ہونے دیتے۔ شرط ایمان کو ہر حال میں دنیاوی وسوسوں سے پاک رکھنا ہے! تمام عالم میں اسلام او رمسلمان اس وقت ایک امتحانی کیفیت سے گزررہے ہیں۔ یہ وقت حکمت ومصلحت سے کام لینے کاہے مشتعل ہونے کا ہر گز نہیں! وفاع سے غفلت، تدبیر کاکیا جانا او ربدترین صورتحال سے قبل از وقت آگاہی او را س سے نپٹنے کی مضبوط ومربوط حکمت عملی سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہئے۔

وطن عزیز کے تناظر میں برادران وطن کی اکثر یت امن او رصلح پسند ہے ہمیں یہ لحاظ رہے کہ اس کی حمایت او راس کے ساتھ اس بات پر موقوف ہے کہ آپ کتنی رواداری اس کے ساتھ برتتے ہیں۔ بابری مسجد کے معاملے میں ہم من حیث القوم اکثریت کی اس اکثریت کو اخلاقی طاقت دینے میں فیل ہوگئے جس کی وہ ہم سے توقع کرتی تھی نتیجہ! آج ایک طبقہ یہ گفتگو کررہا ہے کہ بھائی دو مسجد یں دے کر امن خرید لو! یہ موقف ادراک عمل سے خالی ذہن کا ہوسکتاہے کسی مومن کا نہیں! یا سمجھوتہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی محاذ سے بھاگ جانے کا نام نہیں ہے بلکہ اس پوری سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کا ایک طویل عمل درکار ہوتاہے۔ تمام متعلقہ فریقین کو میز پر لایا جاتاہے! آئین وقانون، مہذب زاویے،موقف میں دو طرفہ لچک او رمعاملہ فہمی کے ساتھ باوقار حل کی نیت وہ عوامل ہیں جن کی پابندی پر سولازم ہوتی ہے تب کچھ نکلتا ہے۔ملک کا ماحول آلودہ ہے! بے اعتمادی او ربے لگامی بڑھی ہوئی ہے،انتظامیہ کا رویہ روز بروز جارحانہ ہوتا جارہا ہے! متشدد عناصر وبنیاد پر ست قوتیں خود کو آئین وقانون سے بالا تر سمجھ رہی ہیں۔ کچھ زبان و اسلوب،عدالتی فیصلے او ر سیاست کی شعبدے بازیاں اس رخ پر دکھائی دے رہی ہیں جس سے سرکاری مشینری پر سوال قائم ہورہے ہیں۔

ریاست کو ریاست کی طرح برتاؤ کرنا ہوگا تب چیزیں ٹھیک ہوں گی۔ تاریخ کو مٹانا مسئلے کا حل نہیں اس کے تکلیف وہ تجربات دوہرائے نہ جائیں، ماحول میں خوشگوار ی خیر سگالی او رباہم اعتماد جو دوطرفہ قربانی مانگتے ہوں وہ دی جانی چاہئے۔ ہتھیار ڈال کر نہیں معاملہ فہمی سے او رامن، صلح و سلامتی کے قیام اور فتنہ وفساد کی جڑ کا ٹنا ایسی کسی بھی پہل کا مقصد ہوناچاہئے۔ ہندواور مسلم کے مابین حساس مسائل کے حل کے لئے ایک جامع پیش قدمی کا وقت اب آچکا! آخر میں کہنا چاہتاہوں کہ انتہا پسندی،ہٹ دھرمی، بیجا ضد اور اکڑ وہ مہلک بیماریاں ہیں جو پورے سماج کو آگ میں جھونک دیتی ہیں۔

عزت نفس کا ڈھہ جانا اور پروقار زندگی کا اجیرن ہوجانا، معاملات میں خود کش پیچیدگیاں،امن وامان جشن اور غمی کی مجلسوں کا انعقاد کچھ بھی تونہیں بچتا!حالات کو وہاں جانے سے روکنا ملی وقومی فرض بن ہوچکا ہے۔ یہ وطن ہمارا ہے اس کی عزت وآبرو پر ہماری آن بان شان وجان سب قربان! شک وہ بلا ہے جس کا علاج صرف باہمی ربط کے سوا کچھ نہیں اور ربط سے رشتے بنتے اور استوار ہوتے ہیں۔ آئیے کھوئے ہوئے کل کو آج میں تلاش کریں تاکہ کل پچھتانا نہ پڑے!اصلاح اب سب کو درکار ہے اسے تسلیم کرہی منزلوں کو سرکیا جاسکتا ہے۔

23 فروری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/faith-conscience-still-alive/d/131800

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..