ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
21 مئی 2025
بھارت ایک ایسی سر زمین ہے جو تہذیبی تنوع کے ساتھ ساتھ عقائد و نظریات کے اختلاف کے لیے جانی جاتی ہے۔ ہندوستان میں جتنے بھی نظریات و افکار پائے جاتے ہیں ان تمام کا نشو و نما اسی سرزمین پر ہوا ۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ زمانہ قدیم سے ہی ہندوستان کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ اس نے اپنے جلو میں رشیوں، منیوں ،واعظین ،مبلغین اور بانیان مذاہب جیسی عظیم ترین روحانی ہستیوں کو جگہ دی ہے۔ جنہوں نے اقوام عالم میں ہندوستان کو روحانیت کے اعلی مقام کی حامل سرزمین کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے ۔ بلاشبہ یہ سرزمین رنگ و نسل ،آب و ہوا بحرو بر، بہار و خزاں، آبادی و صحرا اور دوسرے جغرافیائی اور ماحولیاتی تنوعات و تضادات کے لحاظ سے انفرادیت کی شان رکھتی ہے۔ افکار و نظریات اور ادیان و مذاہب کے لحاظ سے بھی دنیا کا کوئی خطہ اس کا مثیل نظر نہیں آتا۔ ہندوستان کی آغوش تربیت میں جس طرح غیر سامی مذاہب پلے بڑھے اور خوب برگ و بار لائے ہیں اسی سامی مذاہب کا بھی خاصا نشو و نما ہوا ہے ۔ آج بھارت جیسی عظیم سرزمین کی خوبی یہ ہے کہ تمام مذاہب ، تہذیبیں اور زبانیں پوری آب و تاب کے ساتھ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ان کے حاملین یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم بھارت میں ہیں، اسی لیے اپنی تہذیب و ثقافت اور دینی رسومات پر عمل پیرا ہیں ۔ خاص طور پر جب ہم بھارت کی تاریخ و تہذیب کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت طشت ازبام ہوتی ہے کہ یہاں زمانہ قدیم ہی سے ایسے بہت سے امور انجام دیئے گئے ہیں جو ہندو مسلم اتحاد و یکجہتی کی اعلیٰ مثال ہیں ۔ بھارت کی ایک پہچان وہ ہے جسے آج لوگ پیش کررہے ہیں کہ جس طرح مسلم کمیونٹی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، ان کی حب الوطنی کو مشکوک ٹھہرایا جارہاہے اور انہیں آئے دن وطن سے چلے جانے کی دھمکی مل رہی ہیں یہ واقعات ہوسکتاہے کسی کے لیے فائدہ پہنچا سکیں لیکن سچ یہ ہے کہ ان غیر انسانی حرکتوں سے اصل بھارت کی تصویر مخدوش ہورہی ہے ۔ اس لیے ہمیں اپنے مفادات سے اوپر اٹھ کر اپنے وطن کے قدیم ورثہ کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے ۔ مذہبی آزادی اور دینی اقدار کی ادائیگی کے نام پر جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے یا کیا جارہاہے وہ بالکل بھی درست نہیں ہے۔ اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کیونکہ ہم دیکھتے آئے ہیں کہ اور یہ سچ بھی ہے کہ آج بھی مسجد کے دروازے پر جس طرح مسلمان اپنے بچوں کو لاکر امام سے اور نمازیوں سے دعا کراتے ہیں، اسی طرح ہمارے برادران وطن بھی اپنے بچوں کو لاکر مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ مسجد سے نمازی باہر آئیں گے تو دعا کرائیں گے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہندو ہونے کے باجود اس بات کا یقین ہے کہ اگر ہمارے بچے کے لیے مسجد کا امام دعا کردے گا تو بچہ بیماری سے نجات پا جائے گا ۔ یہ بات پرانے زمانہ کی نہیں ہے بلکہ رواں حالات میں بھی اس طرح کی ان گنت مثالیں موجود ہیں اور ہر روز اس طرح کے واقعات شہروں ، دیہاتوں اور قصبوں میں پیش آتے ہیں ۔ شیخ اکرام نے اپنی کتاب " آب کوثر" میں لکھا ہے:
" مزارات کا ہندو احترام کرتے ہیں اور مسجدوں کے تبرکات بڑی شوق سے لیتے ہیں"
اسی طرح کتنے ہندو بھائی آج بھی مزارات پر اپنی مرادیں مانگنے جاتے ہیں ۔ مزارات پر جانا یا مسجد کے امام سے بچوں اور بیماروں کے لیے دعا کرانا عقیدت و احترام کا شاندار مظہر ہے۔ جو بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کو مستحکم کرتا ہے ۔ اس طرح کی روایتیں اور کلچر ہم صرف بھارت میں ہی دیکھ سکتے ہیں اور ہم کو یہ ملی جلی تہذیب ہندوستان ہی میں مل سکتی ہے ۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بھارت کی عوام سیکولرمزاج کی حامل ہے اور مل جل کر رہنے کو پسند کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک گلی اور ایک ہی گاؤں میں مختلف مذاہب کے لوگ آج بھی رہ رہے ہیں ۔ کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوتی ۔ ہاں سیاسی طاقتوں نے اپنے مفادات اور اقتدار کی خاطر بھارت جیسے معاشرے میں تفریق و امتیاز اور مخاصمت و نفرت کے بیج شروع سے ہی بوئے ہیں اور آج تک وہ اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لیے عوام کو ان کے سیاسی عزائم و مقاصد کو نہ صرف سمجھنا ہوگا بلکہ بھارت کی ملی جلی تہذیب کو زندہ کرنے کے لیے اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ تمام بھارتیوں کو عملی طور پر کرنا ہوگا ۔
حسن سلوک کے معاملہ میں یا رواداری کے فروغ میں بھارت کے قدیم ہندو راجاؤں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کی رواداری اور مشفقانہ برتاؤ کے متعلق شیخ زین الدین نے اپنی کتاب " "تحفة المجاھدین" ( اس کتاب کو عہد اکبری میں تصنیف کیا گیا ہے) میں لکھا ہے:
" تیسری صدی ہجری میں جب مسلمان درویشوں کی ایک جماعت لنکا میں حضرت آدم علیہ السلام کے نقش قدم کی زیارت کے لیے جا رہی تھی تو باد مخالف ان کا جہاز مالابار کے شہر کدنکلو (کدنگاه نور) کے ساحل پر لے گئی۔ وہاں کے راجہ یمورن سامری نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی۔ ان سے ان کے مذہب کا حال دریافت کیا اور ان کے بیان سے اتنا متاثر ہوا کہ جب زائرین لنکا سے واپس آئے تو وہ اپنی حکومت اپنے سرداروں کے سپرد کر کے خود ان کے ساتھ عرب چلا گیا۔ وہاں اس کی وفات ہو گئی لیکن مرنے سے پیشتر اس نے عرب درویشوں سے کہا کہ ملیبار میں اسلام پھیلانے کی صورت یہ ہے کہ تم لوگ ملیبار سے تجارت اور سوداگری کا کام شروع کرو اور اپنے امراء کے نام ایک وصیت نامہ لکھ کر دیا کہ ان پردیسی سوداگروں سے لطف و محبت کا سلوک کرنا۔ چنانچہ انہوں نے نووارد عربوں سے یہی سلوک کیا اور وہاں کثرت سے عرب سوداگر آنے جانے اور رہنے سے نے لگے" اس لیے یہ بات کہنا بجا ہے کہ قدیم ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو راجاؤں نے نہ صرف حسن سلوک اور توازن و اعتدال کا رویہ اختیار کیا بلکہ انہیں رہنے سہنے اور اسلامی ثقافت کے فروغ کے مواقع بھی عطا فرمائے۔ اس طرح ان کو تجارت کے مواقع بھی فراہم کیے۔ ان حقائق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں دونوں قومیں باہم مل کر رہتی تھیں ۔افکار و عقائد اور تہذیب و ثقافت کے متغیر ہونے کے باوجود دونوں برادریوں کے خوشگوار تعلقات کا کا پتہ چلتا ہے۔ آج بھی ہمیں ضرورت ہے کہ ہم ماضی کی روشن و تابناک روایتوں کو فروغ دیں اور ملک میں ایسے خطوط متعین کریں جن سے باہم طبقات انسانی کے رشتے مستحکم ہو سکیں ۔ سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کا اثر جب منفی طور پر دکھنے لگے تو پھر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اب سماج میں اِنسانیت کا احترام اور انسانیت کے نام پر حقوق کا تحفظ نابود ہورہا ہے اور اس کی جگہ وہ جرائم جگہ لے رہے ہیں جن کی وجہ سے انسانیت کے نام پر چلنے اور فروغ پانے والے رشتوں کے اثرات مفقود ہوتے دکھ رہے ہیں ۔ آج کے بھارت کی تصویر نے ان تمام سماجی و معاشرتی روایات کے اثر کو ہلکا کر دیا ہے جن پر عمل کرنے سے بھارت کی ملی جلی تہذیب میں چار چاند لگتے ہیں جسے تاریخ میں انڈو اسلامک تہذیب کے نام س جانا گیا ہے ۔
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/examples-tolerance-india/d/135610
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism