New Age Islam
Fri May 16 2025, 07:27 PM

Urdu Section ( 27 Dec 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Examples of Animals in the Quran قرآن میں چوپایوں اور جانداروں کی مثالیں

سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام

27 دسمبر،2022

قرآن ایک ایسے خطے میں نازل ہوا جہاں کے لوگ فصاحت و بلاغت کے لئے پوری دنیا میں مشہور تھے۔ انہیں اپنی اس امتیازی خصوصیت کا احساس اتنا زیادہ تھا کہ وہ اپنے سوا دیگر تمام قوموں کو گونگا یا بے زبان یا عجمی سمجھتے تھے۔ حالانکہ یہ بھی ایک دلچسپ سچائی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ ان پڑھ ہوتے تھے۔ یہ اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ فصاحت و بلاغت خواندگی سے نہیں آتی بلکہ ماحول اور تہذیب سے آتی ہے اور خدا کی نعمت ہے۔۔

قبل اسلام۔عرب میں فن خطابت کو بہت ترقی ملی تھی۔ اس دور میں بہت سے خطیب تھے جو پر اثر گفتگو کا فن جانتے تھے۔ ان کے یہاں اظہار کے کئی اسالیب مروج تھے۔ ان میں سے ایک اسلوب مسجع و مقفی زبان کا تھا۔ اس اسلوب میں لوگ قافیہ کا اہتمام کرتے تھے۔ ان کے اسلوب کی ایک خصوصیت تشبیہوں اور استعاروں کا استعمال تھا۔ لوگ اپنی گفتگو کو مؤثر بنانے کے لئے تشبیہوں اور استعاروں اور دوسرے صنائع کا استعمال کرتے تھے۔ ان کے یہاں خطیبانہ سوالوں کی بھی کافی اہمیت تھی جو بات میں زور پیدا کرنے کے لئے کہے جاتے تھے۔

لہذا قرآن جب عربوں پر نازل کیا گیا تو ان کے ہی اسلوب میں نازل کیا گیا۔ کیونکہ کسی قوم کو کوئی پیغام پہنچانا ہو تو نہ صرف ان کی زبان جاننا ضروری ہوتا ہے بلکہ ان کے اسلوب اور ان کے محاورے کو بھی جاننا ضروری ہوتا ہے۔ قرآن کی مخاطب ایسی قوم تھی جو ان پڑھ ہونے کے باوجود ایک ترقی یافتہ زبان بولتی تھی جو ہر طرح کے صنائع بدائع سے پر ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے ایک امی نبی سے ان سے بھی بہتر اسلوب میں کلام سنا تو حیران رہ گئے ۔ عرب میں کئی بڑے شعرا تھے جو فن شاعری میں یکتا تھے اور ایسے خطیب تھے جو اپنی خطابت کے لئے پورے عرب میں مشہور تھے۔جب انہوں نے قرآن کی آیتیں سنیں تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ایسے اسلوب اور زبان میں کوئی عام انسان بات نہیں کرسکتا ۔بے شک یہ خدا کا کلام ہے۔ جس طرح فرعون کے جادوگروں نے کہا کہ موسی علیہ السلام جو معجزے دکھارہے ہیں وہ جادو نہیں ہے۔ کیونکہ جادو گر ہی جادو اور معجزے کے فرق کو سمجھ سکتا ہے۔ عرب کے شعرا بھی یہ سمجھ گئے کہ حضرت محمد ﷺ جوکہتے ہیں وہ شاعری نہیں ہے کیونکہ وہ شعرا شاعری کی حد سمجھتے تھے۔ عام لوگ جو شاعری کی سمجھ نہیں رکھتے تھے وہی کہتے تھے کہ یہ تو شاعری ہے ۔

لہذا قرآن صرف عربوں کی زبان میں ہی نہیں اترا بلکہ ان کے اسلوب میں بھی اترا اور قرآن نے ان کےاسلوب کو اور بھی نکھارا۔ اس اسلوب کی ایک خاصیت مثالوں یا تشبیہوں کا استعمال ہے۔ قرآن میں جہاں مختلف چیزوں کو تشبیہ کی حیثیت سے استعمال کیا گیا ہے وہیں چوپایوں اور دیگر جانداروں کو بھی تشبیہ کی حیثیت سے استعمال کیا گیا ہے۔ ذیل میں ان جانداروں اور چوپایوں کا ذکر ہے جن سے مثال دی گئی ہے۔

چوپایوں کی مثال

۔"اور ہم نے پیدا کئے دوزخ کے واسطے بہت سے جن اور آدمی ان کے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ۔ وہی لوگ ہیں غافل۔۔"(الاعراف: 179 )۔۔

یہاں بے دین اور گمراہ لوگوں کو چوپایوں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ گمراہ اور بے دین لوگ چوپایوں کی طرح ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ وہ خدا کی نشانیوں پر غور نہیں کرتے اور ہدایت کی روشنی نہیں پاتے۔ دوسرے انہیں چوپایوں سے بھی زیادہ بے راہ کہا گیا ہے۔ چوپائے تو دن کو کہیں بھٹک کر دور چلے جاتے ہیں لیکن شام کو اپنے گھر اپنے مالک کے پاس آجاتے ہیں لیکن نا سمجھ لوگ تو زندگی بھر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں اور خدا کی طرف لوٹ کر نہیں آتے۔۔

مکڑی کی مثال

۔"جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اولیا ء بنائے ہیں ان کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جس نے اپنا گھر بنایا۔ اور سب گھروں میں سب سے پھسپھسا گھر مکڑی کا۔۔"( العنکبوت۔41)۔

اس آیت میں اولیاء کا لفظ استعمال کیا گیا ہےجس کا معنی دوست ہے اور اصطلاحی معنی صوفی اور صاحب کرامات بزرگ ہے۔لہذا قرآن نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو یا انسانوں کو مطلوب بنایا ہے ان کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جس نے ایک پھسپھسا جالا بنایا ہے اور اس کو اپنا گھر سمجھ لیا ہے۔ یہ آیت قرآن کی بلاغت کی عمدہ مثال ہے۔

کتے کی مثال

۔"تو اس کا حال ایسے جیسے کتا۔ تو اس پر بوجھ لادے تو ہانپے اور چھوڑدے تو ہانپے۔ یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو سو بیان کر یہ احوال تاکہ وہ دھیان کریں۔"(الاعراف: 176)۔۔

اس آیت میں نا سمجھ لوگوں اور منکروں کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے جن کو سمجھانا نہ سمجھانا برابر ہے۔

مکھی کی مثال

۔"اے انسانوں تمہارے لئے ایک مثال ہے سو غور سے سنو۔ وہ بت جن کو تم اللہ کے سوائے پکارتے ہو۔ وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اگر چہ وہ سب ایک ہو جائیں، اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز,چھین لے تو وہ سب ملکر اس سے وہ چیز نہ چھین سکیں۔ کتنے کمزور ہیں یہ پکارنے والے اور پکارے جانے والے۔"(الحج: 73)

یہ آیت بھی قرآن کے اسلوب کا شاہکار ہے۔ انسانوں کی حقیقت اور منکروں کی اوقات کو ایک مکھی کے مقابلے میں بھی کمزور ثابت کرکے قرآن نے خدا کی قدرت کا اندازہ کرادیا ہے۔

گدھے کی مثال

۔"اور میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز نیچی رکھو بیشک سب سے بری آواز گدھے کی ہے۔۔"(لقمن:19)۔۔

ایک دوسری آیت میں بھی ناسمجھ اور بے دین لوگوں کو گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لاد دی گئی ہوں۔ اردو میں گدھے کی پیٹھ پر کتابیں محاورے کی طرح بولا جاتا ہے۔ ۔

۔۔"جن لوگوں کو توریت دی گئی پھر انہوں نے عمل نہیں کیا ان کی مثال یسی جیسے گدھے کی پیٹھ پر کتابیں۔"الجمعہ: 5)۔۔

یہ چند مثالیں قرآن سے پیش کی گئیں جن میں خدا بات کو پراثر اور بلیغ بنانے کے لئے جانداروں اور چوپایوں کی مثال دیتا ہے تاکہ انسانوں کو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے کیونکہ مثالوں کے ذریعہ بات کو بہتر طور پر سمجھایا جاسکتا ہے۔ خدا اپنی بات کو مؤثر طریقے سے پیش کرنے کے لئے ہر اس چیز کا استعمال تشبیہ کی حیثیت سے کرتا ہے جو انسان کو اس کے پیغام کی ترسیل میں معاون ہو چاہے وہ مکھی کی مثال ہو یا گدھے اور کتے۔ لہذا قرآن میں خدا کہتا ہے

۔"خدا مچھر یا اس سے بڑی چیز کی مثال دینے سے نہیں ہچکچاتا ۔"(البقرہ:26)۔۔۔۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/examples-animals-quran/d/128723

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..