سمیع الرحمان
23 اپریل 2025
حال ہی میں ریختہ اردو لرننگ کے ایک اشتہار پر نظر پڑی۔ اس میں لکھا تھا: ’وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے، ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے۔‘ یہ شعر پڑھتے ہی دل میں کچھ ہلچل سی ہوئی۔ اردو سے محبت رکھنے والوں کے لیے یہ محض الفاظ نہیں، بلکہ جذبات، نفاست اور حسن کا حسین امتزاج ہے۔ جو لوگ اسے سیکھنے کے خواہاں ہیں، ان کے لیے یہ شعر ایک آرزو پیدا کرتا ہے۔ آرزوزبان کو حسن دینے کی، آرزو نغمگی میں معنی پرونے کی۔ اردو صرف زبان نہیں،بلکہ ایسے ہنر سے آراستہ کرتی ہے جو پڑھنے اور سننے والوں کی روح تک پہنچتاہے۔حال ہی میں معروف صحافی و کالم نگارتولین سنگھ کی ایک پوسٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اردو سے متعلق سامنے آئی، جس پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔کچھ یادوں میں ڈوبے ہوئے، کچھ سخت منقسم۔ انھوں نے یہ احساس دِلایا کہ اردو زبان ہندوستانی شعور میں کتنی گہرائی سے پیوست ہے اور کس طرح سماجی،سیاسی گفتگو اسے کبھی ورثے کی علامت، تو کبھی مفاد پرستی کی یادگار کے طور پر پیش کرتی ہے۔
تاریخی پس منظر اور مزاحمت: ۱۷۹۸ء میں شاہ عبد القادر، جو کہ معروف عالم شاہ ولی اللہ دہلوی کے صاحبزادے تھے، نے جب قرآن کا اردو ترجمہ کیا تو پورے ہند-اسلامی علمی منظرنامے میں ایک ہلچل مچ گئی۔ یہ عمل نہ صرف مذہبی علم کو عام مسلمانوں کے قریب لایا، بلکہ اردو کو ایک مذہبی و ثقافتی زبان کے طور پر ابھرنے کی بنیاد بھی فراہم کی۔
اردو کے ارتقا میں سنگ میل: اردو، جسے ابتدا میں ریختہ یا ہندوی کہا جاتا تھا، انیسویں صدی میں ایک ادبی اور ثقافتی قوت بن کر ابھری۔ کلکتہ میں۱۸۰۰ء میں فورٹ ولیم کالج اور۱۸۷۵ء میں سر سید احمد خان کے قائم کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے اداروں نے اردو کو باقاعدہ شکل دینے اور فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔تحریکِ آزادی ہند کے دوران اردو نے مزاحمت اور اصلاح کی زبان کا روپ دھار لیا۔ مولانا آزاد جیسے رہنماؤں نے اسے مذہبی اور سیاسی دونوں حلقوں سے مخاطب ہونے کے لیے استعمال کیا۔ اردو کے اخبارات، رسائل اور شاعری نے آزادی کے جذبے کو عام کیا اور عوام کو مختلف طبقات اور علاقوں میں متحد کیا۔
لسانی سیاست:شاہ عبدالقادر کے انقلابی اقدام کے کئی دہائیوں بعد۱۹۴۸ء میں محمد علی جناح نے اعلان کیا کہ ’پاکستان کی سرکاری زبان صرف اردو ہوگی ۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ جناح خود روانی سے اردو نہیں بول سکتے تھے۔ ان کی ترجیحی زبان انگریزی تھی اور ان کی شناخت ایک مہذب، کاسموپولیٹن اشرافیہ سے جڑی ہوئی تھی۔ان کا یہ اعلان کہ اردو تمام جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی فطری زبان ہے، ایک سیاسی چال تھی تاکہ ایک متحدہ مسلم شناخت قائم کی جا سکے، جو ہندو اکثریتی بھارت سے مختلف ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نہ تو لسانی اور نہ ہی ثقافتی طور پر مسلمانوں کی مکمل نمائندگی کرتی تھی، خاص طور پر ان علاقوں میں جیسے بنگال، سندھ اور پنجاب، جہاں دیگر زبانیں زیادہ رائج تھیں۔
انتساب اور اس کے نتائج:جناح کا اردو کو سیاسی طور پر استعمال کرنا مہنگا پڑا۔ پاکستان میں اس فیصلے نے لسانی قوم پرستی کو جنم دیا، خاص طور پر مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان تحریک کی صورت میں، جو بالآخر ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔بھارت میں جناح کے اس فیصلے نے اردو کے حوالے سے شک و شبہات کو جنم دیا۔ آر ایس ایس اور ساورکر کے نظریات رکھنے والوں نے اردو کو ایک پُل کی بجائے تقسیم کا نشان تصور کیا۔ گنگا-جمنی تہذیب میں جڑیں رکھنے کے باوجود اردو کو آہستہ آہستہ سیاسی ’مفاد پرستی‘ کے بیانیے میں قید کر دیا گیا۔
موجودہ سماجی-سیاسی صورت حال اور میڈیا کا کردار:آج کے بھارت میں اردو کو ادارہ جاتی سطح پر محدود مواقع حاصل ہیں، اگرچہ اس کی ثقافتی موجودگی فلم، شاعری اور روزمرہ کی گفتگو میں نمایاں ہے۔ ریختہ جیسے ادارے اس زبان کو محفوظ رکھنے اور عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر سرکاری سرپرستی نہایت کم ہے۔ زبان پر گفتگو اکثر مذہبی شناخت تک محدود ہو جاتی ہے، بجائے اس کے کہ اردو کے ادبی اور جمالیاتی حسن کو سراہا جائے۔فی الحال بیانیہ رومانوی یادوں اور سیاسی شک و شبہات کے درمیان جھولتا ہے۔ دائیں بازو کی تحریکوں کے عام کارکن شاید فلمی گیتوں میں اردو کے اشعار کو پسند کرتے ہوں، مگر ان کی سیاسی قیادت اردو کی سرپرستی کو شکوک سے دیکھتی ہے۔
آئندہ کا راستہ:اردو کا سفرقرآن کے ترجمے پر فتوے سے لے کر شناخت کے سیاسی آلے کے طور پر استعمال تک اس بات کا مظہر ہے کہ زبان صرف رابطے کا ذریعہ نہیں، بلکہ طاقت، ثقافت اور مزاحمت کی علامت بھی ہے۔ شاہ عبدالقادر کا عمل عام مسلمانوں کو علم سے جوڑنے والا تھا، جبکہ جناح کا دعویٰ تنوع کی قیمت پر یکسانیت پیدا کرنے والا۔پھر بھی اردو زندہ ہےنہ تو پارلیمانوں میں، نہ وزارتوںمیں بلکہ عاشقوں، شاعروں اور خواب دیکھنے والوں کے دلوں میں۔ ریختہ کا اشتہار،تولین سنگھ کا ٹویٹ، یا چائے پر سنی گئی کوئی غزل ہر ایک ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اردو صرف زبان نہیں، احساس ہے۔ اور جب تک احساس باقی ہے، اردو سانس لیتی رہے گی۔
------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/evolution-politics-urdu-south-asia/d/135289
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism