New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 02:49 PM

Urdu Section ( 17 Aug 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Europeans Divided India, Forged EU For Themselves یورپ نے ہندوستان کو تقسیم کیا اور اپنے لیے یورپی یونین بنالی

 ثاقب سلیم، نیو ایج اسلام

 13 اگست 2022

ہندوستان کے وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ 14 اگست کو 'تقسیم کی ہولناکی کی یادگار دن' کے طور پر منایا جائے گا۔ یہ 1947 میں تقسیم ہند کے اعلان کے بعد ہونے والے تشدد میں ہندوستان نے جو نقصانات اٹھائے انہیں یاد کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اگرچہ جانوں کے ضیاع کو یاد رکھنا ضروری ہے، لیکن تقسیم کے پیچھے وجوہات کا تجزیہ کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم تفرقہ انگیز سیاست کی بنیادوں کا خود جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس نے کبھی ہماری مادر وطن کو تقسیم کیا تھا اور آج بھی اس سے ہماری قومی سلامتی کو خطرہ ہے۔

Indians moving between the two domains of India and Pakistan after partition

----

 آزادی کے 75 سال

 دوسری جنگ عظیم (WWII) کے اختتام کے بعد سے یورپ نے اپنے رکن ممالک کے درمیان مفاہمت کی مختلف سطحوں پر تعاون کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تعاون کو ہم 'یورپی یونین' کے نام سے جانتے ہیں۔ یاد رہے کہ یورپی یونین کے رکن وہ ممالک ہیں جنہوں نے 18ویں، 19ویں اور 20ویں صدی کے دوران تقریباً پوری دنیا کو اپنی کالونی بنائے رکھا تھا۔ انگلستان کی قیادت میں انہی ملکوں نے سلطنتیں بنائیں جہاں تقریباً تین صدیوں تک ’’خون کبھی خشک نہیں ہوا‘‘۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، ایشیا، افریقہ اور دیگر جگہوں پر ان کالونیوں کو براہ راست کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا اور اس طرح ہم نے دیکھا کہ 1946 کے بعد، بتدریج ان کالونیوں کا خاتمہ ہوا۔ زیادہ تر کالونیاں آنے والی دو دہائیوں میں اپنی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

ان کالونیوں کے حکمرانوں نے کالونیوں کو چھوڑ دیا لیکن وہ کبھی بھی ان علاقوں پر اپنا کنٹرول ختم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ ان خطوں پر براہ راست کنٹرول نہ بھی کریں تو بھی وہ انہیں کمزور رکھ کر اپنی معیشت اور سیاست کا غلبہ قائم رکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب استعماری طاقتوں نے 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کی پالیسی کا تجربہ کیا تھا۔ ایشیا چھوڑنے سے پہلے ان استعماری طاقتوں نے انہیں چھوٹے چھوٹے غیر فطری ملکوں میں تقسیم کر دیا، جو ایک دوسرے کے ساتھ دائمی جنگ کرتے رہیں گی۔

کیا یہ حیران کن بات ہے؟ نہیں، درحقیقت، نیتا جی سبھاس چندر بوس نے اس کی پیشن گوئی کم از کم ایک دہائی پہلے 1938 میں کر دی تھی۔ ہری پورہ میں، نیتا جی نے کہا تھا،

"یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہر سلطنت کی بنیاد تقسیم کرو اور حکومت کرو کا اصول ہے۔ لیکن مجھے شک ہے کہ شاید ہی دنیا کی کسی سلطنت نے اس پالیسی پر اتنی سنگدلی، مہارت، نظم و نسق کے ساتھ عمل کیا ہو جتنا برطانیہ نے کیا ہے۔ اسی پالیسی پر عملدرآمد کے لیے اقتدار آئرش لوگوں کے حوالے کرنے سے پہلے السٹر کو باقی آئرلینڈ سے الگ کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح اس سے پہلے کہ کوئی طاقت فلسطینیوں کے حوالے کی جائے، یہودیوں کو عربوں سے الگ کر دیا جائے گا۔ اقتدار کی منتقلی کو بے اثر کرنے کے لیے داخلی تقسیم ضروری ہے۔ تقسیم کا یہی اصول نئے ہندوستانی آئین میں ایک مختلف شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس میں ہمیں مختلف برادریوں کو الگ کرنے اور انہیں ایک دوسرے سے جدا رکھنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے۔ اور وفاقی اسکیم میں برطانوی ہندوستان کے مطلق العنان شہزادوں اور جمہوری طور پر منتخب نمائندوں کو ایک ساتھ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر نئے آئین کو بالآخر مسترد کر دیا جاتا ہے، چاہے برطانوی ہندوستان کی مخالفت کی وجہ سے ایسا کیا جائے یا شہزادوں کے اس میں شامل ہونے سے انکار کی وجہ سے، مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانوی سفاک ہندوستان کو تقسیم کرنے کے لیے کوئی اور آئینی آلہ تلاش کر لیں گے اور اس طرح ہندوستانی عوام کے ہاتھوں حکومت کی منتقلی کو وہ بے اثر کر دیں گے۔"

انگریز ہندوستان کے لوگوں کو مذہبی گروہوں، ذاتوں، نسلوں اور لسانی گروہوں میں تقسیم کر کے ہندوستان پر حکومت کر رہے تھے، اور ہندوستانی انقلابیوں کو بخوبی اس بات کا اندازہ تھا۔ جب 1911 میں جنرل فریڈرک وان برن ہارڈی نے Germany and the Next War لکھی تو یہ ہندوستانی انقلابیوں کے لیے اسے پڑھنا لازمی بن گیا۔ کتاب کے پہلے ایڈیشن کے تین سالوں کے اندر سات مرتبہ شائع کی گئی اور اس نے غدر کے انقلابیوں، عوامی تحریکوں، سوشلزم اور اتحاد اسلامی سب کو یکساں طور پر متاثر کیا۔

برنارڈی کا کہنا تھا کہ انگلستان ترک عوام اور ہندوستانی لوگوں کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کر کے ایشیا پر راج کر رہا ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’ہندوستان میں، جہاں تقریباً ستر ملین مسلمان انگریزی حکومت کے سائے میں رہتے ہیں۔ انگلستان نے اب تک پھوٹ ڈالو اور راج کرو کے اصول کے مطابق ہندو آبادی کے خلاف محمڈن کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اب جب کہ ان میں ایک واضح انقلابی اور قوم پرستانہ رجحان ظاہر ہو رہا ہے، خطرہ قریب ہے کہ اتحاد اسلامی بنگال کے انقلابی عناصر کے ساتھ متحد ہو جائیں۔ ان عناصر کا تعاون ایک بہت بڑا خطرہ پیدا کر سکتا ہے، جس میں دنیا کے اندر انگلستان کے اقتدار کی بنیادوں کو ہلانے کی صلاحیت ہو سکتی ہے۔

یہ سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ غدر پارٹی، نیتا جی سبھاس چندر بوس، عبید اللہ سندھی، برکت اللہ، مولانا ابوالکلام آزاد، راجہ مہندر پرتاپ اور دیگر انقلابیوں نے کیوں ہندو مسلم سکھ اتحاد پر زیادہ زور دیا؟

 'پھوٹ ڈالو اور راج کرو' یورپی سیاست کی ایک مضبوط بنیاد تھی۔ 18ویں صدی کے مشہور فلسفی امینیوئل کانٹ نے اس پالیسی کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا کہ ’’اگر لوگوں میں کچھ خاص مراعات یافتہ افراد ہیں، جو لوگوں کے درمیان اختیار رکھتے ہیں، جنہوں نے محض آپ کو اپنا حاکم بطور ہمسروں کے درمیان اول کے منتخب کیا ہے، تو ان کے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے گا، اور ان کے اور لوگوں کے درمیان فساد ہو گا۔ اب بڑی آزادی کے شاندار وعدے کے ساتھ لوگوں کو مضبوط بنائیں۔ اب سب کچھ غیر مشروط طور پر آپ کی مرضی پر منحصر ہوگا۔ منصوبہ واضح تھا۔ لوگوں کو آپس میں لڑاؤ اور پھر جج بن کر کام کرو۔ جب  تمام متحارب گروہ آپس میں لڑیں گے فیصل کو بہت عزت دی جائے گی۔

 یونیورسٹی آف ایبرڈین، یو کے کی ڈاکٹر الیا زیپولیا نے اپنے پراثر مقالے Divide et Impera: Vertical and horizontal dimensions of British imperialism میں یہ کہا ہے کہ "برطانوی سلطنت نے جان بوجھ کر 'پھوٹ ڈالو اور راج کرو' کا ڈھانچہ متعارف کروایا تاکہ مقامی برادریوں کے درمیان موجودہ یا ابھرتی ہوئی دشمنی سے فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ "۔ وہ کہتی ہیں کہ پہلے برطانوی سلطنت نے ہندوستانیوں میں تقسیم پیدا کی اور پھر ان تقسیموں کے اندر عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک حاکم طبقہ پیدا کیا۔

وہ لکھتی ہیں، "برطانوی حکمرانوں نے علیحدگی اور تقسیم کے ذریعے علاقائی علیحدگی سے متعلق 'پھوٹ ڈالو اور راج کرو' کی پالیسی اپنائی۔ سامراجی حکومتوں نے لسانیات، مذہب، نسل اور رنگ کی بنیاد پر آبادیوں کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم کیا۔ وہ مزید کہتی ہیں، "برطانوی حکومت نے جان بوجھ کر ایک 'پھوٹ ڈالو اور راج کرو' کا ڈھانچہ قائم کیا تاکہ مقامی لوگوں کے درمیان موجودہ اور ابھرتی ہوئی دشمنیوں کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔ مقامی اشرافیہ کے اشتراک عمل نے ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پالیسیوں کو ایک اور افقی جہت دی۔ اس لیے ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پالیسی کو دو مختلف طریقوں سے لاگو کیا جا سکتا ہے۔ پہلی طریقہ یہ ہے کہ غیر ملکی حکمران مقامی آبادی کو عمودی طور پر تقسیم کرے، یعنی انہیں مذہبی، نسلی یا لسانی خطوط پر الگ الگ برادریوں میں تقسیم کرے۔ دوسرا ایک افقی جہت رکھتا ہے کیونکہ یہ اس وقت ہوتا ہے جب انگریزی حکومت پوری آبادی یا ایک کمیونٹی کو طبقاتی خطوط پر تقسیم کرتی ہے، لہٰذا اشرافیہ کو عوام سے الگ کر دیتی ہے۔ انگریزی حکومت اکثر ایک کمیونٹی یا پوری آبادی کو اشتراکی حکمران اشرافیہ اور مزاحمتی عوام میں تقسیم کرتی ہے۔ دو مختلف طریقے عام طور پر ایک تکمیلی انداز میں کام کرتے ہیں۔

زیپولیا نے جو کچھ بیان کیا وہ ہندوستانی انقلابیوں مثلاً نیتا جی، عبید اللہ سندھی اور دیگر لوگوں کو اچھی طرح معلوم تھا۔ وہ لوگوں کو بتا رہے تھے کہ انگریز ہمیں کمزور کرنے کے لیے ملک چھوڑنے سے پہلے ہماری مادر وطن کو تقسیم کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نیتا جی کے اہم ساتھی فقیر ایپی 1947 کے بعد بھی پاکستان کو برطانوی سلطنت کا حصہ کہتے رہے۔

یہ یورپی سیاسی مفکرین کی سمجھ تھی کہ ہندوستان، چین، عرب اور جاپان جیسی ایشیائی تہذیبوں پر ان کا تسلط اسی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے جب وہ چھوٹے متحارب گروہوں میں تقسیم ہوں۔ نیتا جی اس بات کو سمجھتے تھے اسی لیے انہوں نے 1943 میں غیر منقسم ہندوستان کی حکومت بنائی۔ آج ہمارا وطن کئی ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے۔ ہماری زمین اور ہمارے لوگ تقسیم ہیں۔ 1937 سے میانمار، پاکستان اور بنگلہ دیش کو ہمارے ملک سے چھین لیا گیا اور ہماری طاقت کو کم کر دیا گیا۔

 جب دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ تعاون کی کنفیڈریشن (EU) بنانے کی کوشش کر سکتا ہے، تو ہم اپنے پرانے خطوں کو تعاون کی ایک وحدت بنانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچ سکتے۔ اس سے ہماری مادر وطن کی شان ایک بار پھر ’سنہری چڑیا‘ کے طور پر بحال ہو جائے گی۔ ایک غیر منقسم ہندوستان کے لیے ہی نیتا جی سبھاس چندر بوس نے جنگ لڑی، بھگت سنگھ نے اپنی جان دی اور ہزاروں لوگوں نے شہادت کو گلے لگایا۔

 ماخذ: Europeans Divided India, Forged EU For Themselves

English Article: Europeans Divided India, Forged EU For Themselves

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/europeans-india-eu/d/127728

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..