ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
21 مارچ 2025
اسلام اور اخلاق ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں بالکل اسی طرح جیسے اسلام اور ایمان۔ ایک بڑی بنیادی بات اسلام کے بارے میں مستند عام ہے کہ اس کا دعویٰ انسان سازی میں وہ حسن، کمال و جمال پیدا کرنے کا ہے جس کی دوسری مثال ممکن ہی نہیں۔ کامل انسان جو اس جسم کا مکلف ہو جس میں مادیت و روحانیت کا بہترین امتزاج ہو اور جو کائنات اور خدائے وحدہٗ لا شریک کی پیدا کردہ ہر مخلوق اور وجود کے لئے اپنے مفید کردار و عمل کا متحمل ہو۔ مومن کی معراج کا تعلق سیدھے ایمان کامل، اخلاق حسنی، تذکیہ نفس و تصفیہ قلب سے جڑا ہواہے۔
پہلے اپنے نفس وذہن میں صاف کرلیں کہ انسان سازی کا اسلام میں نمونہ حق کون ہے؟ انبیاء کرام کی جماعت جس کی ابتداء حضرت آدم جو پہلے انسان اور نبیؐ بھی ہیں، ان سے ہوتی ہے۔ یہ سفر ایک لاکھ ۲۳؍ ہزار ۹۹۹؍انبیائے کرام اور رسولوں سے ہوتا ہوا آقائے نامدار محمد مصطفیٰ سردار الانبیاء و خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم پر آکر مکمل ہوتا ہے۔ اجمالی طور پر اس پوری جماعت کا احترام، ان پر ایمان، ہر تفریقی فکر و عمل سے محفوظ رویہ، سب کو حق تسلیم کرتے اور سب کی تعظیم کرتے ہوئے اس یقین کے ساتھ کہ ہر نبی و رسول ایک مخصوص قوم، علاقے و نسل کے لئے وارد ہوا۔ یہ اعزاز محض سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ہی حاصل ہے کہ آپ تمام کائنات اور تمام عالم کے لئے رحمت العالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔اسلام پوری انسانیت سے مخاطب ہے یا یوں کہیے کہ تمام انسانی نسل اس کی مخاطب ہے۔
انسانی وجود میں سب سے اہم حیثیت عبدیت اور اس کے تقاضوں کے پورا کرنے کو حاصل ہے۔ جب میں لفظ انسان کی تشریح کرتا ہوں تو اس میں پہلا حصہ انس کا ہے۔ جس کے معنی، مفہوم و مخاطب حب الٰہی و حب رسول اللہ ہے۔ انس کے بعد الف اللہ سے منسوب ہے یعنی حب کا وجود، اس کی تشریح و تعریف اور مخاطب ذات اللہ رب جلیل کے سوا کوئی نہیں، الوہئیت صرف اور صرف اسی کا خاصہ ہے۔ بقیہ سب درجات کے اعتبار سے اس کے طفیلی ہیں۔ آخری لفظ ن ہے جس کو میں نعمت سے تعبیر کرتا ہوں اس سے بڑا انعام کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کو اشرف المخلوقات میں شامل کیا اور اسلام کی دولت عظمی ٰسے نوازدیا۔ اللہ اکبر!
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اشرف سے مراد کیا ہے مادی رئیسی یا روحانی عظمت و حرمت یا پھر دونوں کے درمیان اعتدال اور توازن! توازن کیسے پیدا کیا جائے جواب غیر مشروط اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس سے پہلے کہ کوئی بد گمانی پیدا ہو واضح کردوں کہ پورا قرآن اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کو ساتھ لے کر چل رہا ہے ۔پیغام رب و ہدایت ربی کا وسیلہ نبی و رسول اللہ ہیں۔ اللہ کی اطاعت بنا اطاعت رسول ممکن ہی نہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے اس طرح منسلک ہیں کہ ان کو علیحدہ کرکے یا رکھ کر نہ دیکھا جا سکتا ہے، نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس کی کہیں کوئی زمین ہی موجود ہے۔
اخلاق اور اخلاقیات کی درستگی کے لئے عقیدے کی درستگی پہلی شرط ہے۔ صراط مستقیم سے مراد اسلام جس کو بطور ہدایت انسانی اللہ رب العزت نے اپنے لئے پسندیدہ اور انسانیت کے لیے واحد نجات دہندہ قرار دیا ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا کہ آج میں نے تم پر اپناانعام مکمل کیا۔ اب تم اس میں پوری طرح داخل ہوجاؤ۔ گویا اس حوالے کے بعد کسی بھٹکاؤ، انحراف، انکار، اختلاط، ابہام، بحث و تکرار کے لئے کوئی زمین بچتی ہی نہیں ما سوا اس پر عمل اور صرف عمل کرنے کے اللہ اکبر!
اب آتی ہے بات نمونے اور اس کی تشریح کی تو آپ کے اخلاق کو اخلاق جمیلہ اور اخلاق حسنیٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ گویا آپ کی تمام تر زندگی، آپ کے افعال و اقوال، عدل و انصاف کے حوالہ جات، ازدواجی، خاندانی، نسلی معاملات گویا بحیثیت نبیٔ آخر الزماں صراط مستقیم کی شکل میں آپ کا سارا وجود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی عملی شکل میں ہمارے اور آپ کے سامنے موجود ہے۔ قرآن کریم وحی خدا، احکام خداوند، فرمان الٰہی، مشیت و منشائے الٰہی سے تعبیر ہے اور اس کاعملی احساس، نمونہ و پیکر ذات بر حق سردار الانبیاء کی ذات مقدسہ ہے۔ قرآن اور سنت کا رشتہ جسم اور روح کا ہے دونوں کو ایک ساتھ لئے بنا مسلم نہ مسلم بن سکتا ہے، نہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی زمین اپنا وجود ہی رکھتی ہے ۔
آج مسلمانان عالم، مسلم معاشرے،مسلم نفس و نفسیات میں کس حد تک اوپر دی گئی تشریحات اپنا وجود رکھتی ہیں ایک سوال ہے؟ اسلام یقیناً آج دنیا میں سب سے تیزی سے پھلنے پھولنے والا دین ہے۔ کیا اسلام ایک مخصوس تعداد کے ہونے کا محتاج ہے؟ کیا یہ کہہ دینا کہ آج ہر چوتھا شخص مسلم ہے کافی ہے؟ ہر گز نہیں! اسلام اور سیرت رسول اللہ نے کچھ فرائض اور ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر ڈالی ہیں اور اسی سے ہماری دنیا میں سرخ روئی اور آخرت میں نجات کو مشروط کر دیا ہے عبادات کو حقوق کے حوالے سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے حقوق اللہ ان میں کوتاہی پر جہاں مکمل پکڑ ہے وہیں وہ غفور، رحمان و رحیم ہے مگر حقوق العباد کے معاملے میں اس نے معاملات کو فریقین کے ما بین محدود رکھا ہے۔ ان قیود سے مراد انسان کا انسان کا کسی بھی طرح حق مارنا اور اس پر پکڑ کی دو صورتیں ہیں اول فریقین آپس میں باہمی رضامندی سے عدل پر مبنی صلح صفائی کر لیں ورنہ غضب الٰہی سے روز حشر کوئی سفارش یا حیلہ کام نہ آئے گا۔ اخلاق کی وہ انتہائی کیفیت ہے جس میں عدل کو اس کی انتہا تک پہنچادیا گیا ہے۔
آج مسلم معاشرے میں وہ کونسا جرم نہیں پایا جاتا ہےجو غضب الٰہی کو آواز نہ دے رہا ہو۔’’دین مسلک کا شکار ہو گیا، دنیا آخرت پر غالب آ گئی، حق حق تلفی میں تبدیل ہو گیا، حلال اور حرام محض وعظ و نصیحت کا موضوع بن کر رہ گئے، سود خوری، حرام خوری، حرام کاری، بد کاری، زنا کاری، جھوٹ، فریب، منافقت، کفر و شرک، بدعت اور ریاکاری اب جیسے عام ہے اور اس کو نہ برا مانا جا رہا ہے۔ نہ سمجھا جا رہا ہے۔ اب فحاشی، بے پردگی، بے حیائی، جسمانی حسن و جمال کی پر کشش نمائش میں کچھ معیوب نہیں بچا ہے۔ دیندار گھرانے تک ان لعنتوں سے اب محفوظ نہیں ہیں۔ جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ دین میں اب نمائشی پہلو زیادہ عام ہیں۔ اصل روح سے خالی ہماری عبادات ہیں۔ مساجد بہت شاندار مگر سجدے بڑے بیجان۔ معاذ اللہ!
تصویر کا یہ ایک رخ ہے!
’’ اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ آج بھی اس دور فتن میں اللہ کے وہ نیک بندے کم نہیں جو دعوت دین اور اس کی دی گئی اخلاقیات کو اپنی ذاتی زندگی میں اتار کر اس فرض کفایہ کو ادا کر رہے ہیںجس کا ہر مسلم کو مکلف ہونا چاہیے۔ اللہ رب العزت اپنا کام کب کہاں اور کس سے لیتا ہے وہی بہتر جانتا ہے۔‘‘
اسلام کا بول بالا مگر مسلمان کا چو طرفہ زوال اس کا راز کیا ہے بہت سادہ اور سیدھا جواب ہے:
’’ ہم اسلام کو مانتے ہیں اسلام کی نہیں مانتے، ہم قرآن کو مانتے ہیں قرآن کی نہیں مانتے، ہم رسول اللہ کو مانتے ہیں مگر ان کی نہیں مانتے، ہم اہل بیت کو مانتے ہیں مگر ان کی تقلید و احترام نہیں کرتے، ہم شہدائے کربلا کی مجلس پڑھتے ہیں مگر شہادت کاحق ادا نہیں کرتے،ہم فقہ اسلامی کو مانتے ہیں مگر اسے مسلک پرستی کے لئے استعمال کرتے ہیں نہ کہ معمولات زندگی میں عمل کے لئے، ہم اخلاق حسنیٰ کے شیدائی ہیں مگر عمل اس کے بر خلاف کرتے ہیں۔ گویا ہم نام کے مسلم ہیں۔ کاش کہ مومن ہوتے۔‘‘
دنیا کو فتح محض دعاؤں سے کرنا چاہتے ہیں ۔جبکہ اس کی کنجی جہاد اکبر، اخلاق حسنیٰ و حمیدہ پر عمل آوری ۔میں پوشیدہ ہے۔ ہماری زبان و بیان ، عمل و اخلاق میں جو یکسانیت درکار ہے ہم اس سے فارغ ہیں ۔نجی، نسلی، خاندانی، قبائلی، ادارہ جاتی، علاقائی، قومی و حکمرانی مفادات زیادہ عزیز ہیں۔
’’امت ایک، دین ایک، رسول ایک، کتاب ایک، سر چشمہ ہدایت بھی ایک پھر یہ تفریق و تفرقہ، آپسی جنگ و جدل، نفرت و منافرت، منافقت، بے ظرفی ۔ معاذ اللہ!
’’یاد رکھیں فتوحات میدانوں سے پہلے دلوں میں زمین بناتی ہیں، نفسیات اس کے لئے تیار ہوتی ہیں ، حوصلے بلندی پاتے ہیں، ارادے آہنی دیوار بن کر ابھرتے ہیں، لغزش اور تذبذب اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں، رضائے الٰہی اور خوشنودئ رسول اللہ پر آن، بان، شان، جان سب قربان کا جذبہ حاوی و غالب آ جاتا ہے۔ زندگی میں موت اور موت میں زندگی عقیدہ بن جاتی ہے۔‘‘اخلاق وہ تلوار ہے جس سے اصل فتح کا تعلق ہے۔ کاش ہم یہ سمجھ سکیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
21 مارچ 2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/ethics-guarantee-decisive-victory/d/134956
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism