New Age Islam
Sun Mar 16 2025, 11:48 AM

Urdu Section ( 5 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Establishment of a Collective Takaful System for the Destitute, Divorced or Widowed Is Required-Concluding Part بے سہارا، مطلقہ یا بیوہ کیلئے اجتماعی نظام تکافل کے قیام پر توجہ دینی چاہئے

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

2 اگست،2024

(آخری حصہ)

اگر مطلقہ کے پاس خو داپنے نفقہ کا سامان نہ ہو اور والد بھی نہ ہوں تو پھر اس کے نفقہ کی ذمہ داری دوسرے محرم رشتہ داروں (مثلاً چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں وغیرہ) سے متعلق ہوجاتی ہے۔ بہت بڑے حنفی فقیہ علامہ سر خسیؒ نے صراحت کی ہے کہ یہ جو مختلف رشتہ داروں پر نفقہ واجب ہوتاہے، یہ صرف مستحب یا مستحسن نہیں بلکہ واجب ہے، اس لئے محرم رشتہ دار بچوں، عورتوں او رمعذور مردوں کا نفقہ ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔(المبسوط اللسر خسی: 223/5)

لیکن اللہ سے بے خوفی، احکام شریعت سے بے اعتنائی رشتوں کے معاملہ میں بے مروتی اور خود غرضی کی وجہ سے آج کل والدین کی موجودگی میں بیٹی اگر خدانخواستہ طلاق یا بیوگی سے دوچار ہوجائے تو اولاً تو اس کے نکاح ثانی کی فکر کرنی چاہئے، قرآن نے ایسے لوگوں کے نکاح کا حکم دیاہے: (سورہ نور:32)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رصحابہ کے عہد میں جوں ہی کوئی خاتون بیوہ یا مطلقہ ہوتی تھی، جلد سے جلد اس کا نکاح کردیا جاتاتھا۔ عدت گزرنے سے پہلے ہی ان کے رشتے آنے لگتے تھے، اس لئے قرآن مجید نے عدت وفات گزرنے سے پہلے رشتہ طے کرنے کو منع فرمایا۔(سورۃ بقرہ:232) اس طرح نہ صرف ان کی کفالت ہوتی تھی، بلکہ ان کو ایک مکمل خاندان مل جاتا تھا۔

افسوس کہ آج کل والدین ایسی خواتین کے نکاح کی طرف متوجہ نہیں دیتے، بعض اوقات ایک نوجوان لڑکی بیوہ ہوتی ہے او راسے پوری زندگی بیوگی میں گزارنا پڑتاہے، وہ خود حیا کے مارے کہہ نہیں پاتی اور ماں باپ توجہ نہیں دیتے۔ غور کیجئے یہ خواتین کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے۔ اگر کوئی شوہر یا بیوی چند دنو ں ایک دوسرے سے دور رہیں تو یہ چیز ان کو ذہنی طور پر بے سکون دیتی ہے، تو ایک لڑکی کو زندگی بھر تجرد کی سزا دی جائے، کیا یہ انصاف کی بات ہے، اس لئے ان کے نکاح کی فکر کرنی چاہئے، او راگر وہ خود حیا کریں تو ان کو سمجھانا چاہئے، لیکن اگر کسی وجہ سے ان کا نکاح نہ ہوسکے تو کم سے کم اتنا تو ہوکہ ان کی کفالت کا مناسب انتظام کیا جائے۔ اس انتظام کی ایک شکل یہ ہے کہ والد ین اپنی جائیداد کا ایک حصہ ایسی بے سہارا بیٹی کو ہبہ کردیں، جس سے آئندہ اس کی گزر اوقات کا انتظام ہوسکے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حالات میں اس بات کو ناپسند فرمایا ہے کہ اولاد کے درمیان نابرابری برتی جائے، اولاد میں سے کسی ایک کو کوئی چیز دی جائے اور دوسرے کونہیں دی جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح کا ایک معاملہ آیا، حضرت بشیر بن سعدؓ نے اپنے صاحبزادہ نعمان ابن بشیرؓ کو کوئی خاص چیز خصوصی طور پر ہبہ کرنی چاہی او ران کی خواہش تھی کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنایا جائے، چنانچہ وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اپنی گزارش پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تم نے اپنے تمام بچوں کو یہ چیز دی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں ایسے نامنصفانہ اور ظالمانہ عمل پر گواہ نہیں بن سکتا۔(نسائی، کتاب النحل، حدیث نمبر:3711) چنانچہ وہ (حضرت نعمانؓ) اس سے باز آگئے، لیکن یہ حکم عام حالات کیلئے ہے۔

اگر خصوصی حالات کی بنیاد پر کسی کو زیادہ دے دیا جائے، یا اولاد میں سے ایک کو دیا جائے اور دوسرے کو نہ دیا جائے تو وہ اس ممانعت میں شامل نہیں ہے، مثلاً ایک شخص کے کئی بچے ہیں، بعضوں نے تعلیم حاصل نہیں کی،بعض کاروبارمیں لگ گئے، لیکن ایک بیٹا تعلیم کی طرف متوجہ ہے اور اس نے میڈیکل انٹرنس پاس کرلیا تو اب باپ ایک خطیر رقم اس کی فیس پر ادا کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں: کیونکہ یہ ایک خاص مصلحت کی وجہ سے ہے، اگر ایسا نہ ہو تو ایک بچہ کے جاہل رہنے کی وجہ سے یا اس کی تعلیم کے وقت والد کے تنگ دست ہونے کی وجہ سے تمام ہی بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھنا پڑیگا جو مزاج شریعت کے مطابق نہیں ہوگا۔

اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر چہ تمام اولاد کے درمیان مساونہ سلوک کرناچاہئے، اور یہی بہتر ہے لیکن یہ ہر حال میں واجب نہیں ہے۔ اگر اولاد میں سے کسی کی مجبوری یا اس کی کسی خاص ضرورت کی وجہ سے اس کو خصوصی طور پر کچھ زیادہ دے دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(مجمع الانہر: 3581/2)صحابہ کے دور میں بھی ایسی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ انہوں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو عطیہ دینے میں ترجیح دی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو کھجور کی پیداوار میں سے بیس وسق (اس زمانہ کا ایک پیمانہ) اپنے تمام بچوں کے مقابلہ زیادہ دیا کرتے تھے، حضرت عمرؓ کو اپنے صاحبزادہ حصرت عاصمؓ سے خصو صی اُنس تھا، چنانچہ انہوں نے ان کو خصو صی طور پر کچھ چیزیں عطا فرمائی تھیں، (شرح السنہ للبغوی: 297/8) حضرت عبدالرحمن بن عوفؓنے اپنی ایک صاحبزادی کواپنی دوسری اولاد کے مقابلہ چار ہزار درہم زیادہ عنایت فرمائے تھے۔(عمدۃ القاری: 147/1) غرض کہ ماں باپ کے لئے گنجائش ہے کہ اپنی اولاد میں سے کسی کی خصوصی حالت اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے اس کو جائیداد کا کوئی حصہ اضافی طور پر ہبہ کردیں اس لئے اگر والدین کے اندر استطاعت ہو اور خدانخواستہ کوئی بیٹی ایسی حالت سے دوچار ہو او را سکے اندر ایسی صلاحیت نہ ہو کہ وہ خودکسب معاش کرسکے تو بہتر ہے کہ اس کے لئے کچھ سرمایہ محفوظ یا زمین ومکان کا کوئی حصہ ہبہ کردیں، جو اس کے لئے سہارا بن سکے۔

اگر والد موجود نہ ہو ں یا اس موقف میں نہ ہو ں کہ اس کی کفالت کرسکیں تو پھر خاندان کے لوگوں کو اجتماعی طو رپر اس ذمہ داری کو انجام دینا چاہئے، جیسے اگر مطلقہ عورت کے چار بھائی ہیں تو چاروں کو اس کے خرچ کو اپنے اوپر تقسیم کرلیں، اگر اس کے کئی چچا یا کئی ماموں ہوں تو ان سب کو مل کر اس ذمہ داری کو ادا کرناچاہئے، ورنہ عنداللہ سب کے سب جوابدہ ہونگے اور حق تلفی ایسا گناہ ہے کہ انسان کی عبادتیں بھی اس کی تلافی نہیں کرسکتیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ مسلم سماج میں خاندا کاایک اجتماعی نظام تکافل ہو، جیسے ایک شخص کے تحت آنے والی دوپشتیں، بیٹا، باپ اور دادا مل کر ایسا نظام بنائیں کہ گر خاندان کی کوئی عورت بیوہ ہوجائے یا طلاق کی نوبت آجائے یا اس کا شوہر معذور ومفلوج ہو اور اس کے لئے کوئی سہارا نہ ہو، تو ہم اجتماعی طور پر ایسی خواتین کی کفالت کرینگے۔اگر خاندان کے دوپشتوں کو سامنے رکھا جائے،جو دادا سے لے کر پوتوں تک ہو تو عام طور پر اس کی تعداد پچیس تیس تک پہنچ جاتی ہے، اس میں دس پندرہ افراد کمانے والے ہوتے ہیں اور خاندان کے اس مختصر ڈھانچہ میں بمشکل ایک آدھ ایسی مطلقہ یا بیوہ عورت ہوسکتی ہے جس کی اولاد کمانے اور اس کی کفالت کرنے کے لائق نہیں ہوئی ہو، اتنے سارے افراد مل کر بآسانی ایسی ایک آدھ بیوہ و مطلقہ عورت کی بے سہارگی کو دور کرسکتے ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ؤں میں حضرت ابوطالب غریب تھے، دوسرے چچا حضرت عباسؓ صاحب ثروت تھے اور حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے بعد خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی حالت بہتر ہوگئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر حضرت عباسؓ کو تیارکیا او رحضرت ابوطالب سے پیشکش کی کہ ہم دونوں آپ کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتے ہیں، حضرت ابوطالب حضرت عقیلؓ کو تو اپنے پاس سے ہٹانے پر آمادہ نہ ہوئے لیکن حضرت علیؓ کو آپ کی اور حضرت جعفرؓ کو حضرت عباسؓ کی کفالت میں دے دیا، پس اپنے اعزہ کی کفالت کرنا اور ان کاسہارا بننا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

افسوس کہ اُمت میں ترجیحات کاشعور ختم ہوگیاہے، بعض حضرات بار بار عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں، حج نفل ادا کرتے ہیں، مسجد کی تزئین وآرائیش پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، چھوٹی سی آبادی جہاں سو پچاس مصلی بھی جمع نہیں ہوتے، وہاں لق ودق مسجد تعمیر کرتے ہیں، پہلے سے اچھی خاصی موجود مسجد کو منہدم کرکے پرشکوہ مسجد بناتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے نماز قبولت بڑھ جائے، لیکن  صلہ رحمی کا جو فریضہ شریعت کی طرف سے عائد کیا گیاہے، اس سے غافل ہیں، ایک بے سہارا عورت کی سسکی ان کے گوشِ دل تک نہیں پہنچ پاتی اور باپ کی شفقت و محبت سے محروم بچوں کے آنسو انہیں تڑپانے سے عاجز ہیں۔ ہماری یہ بے شعوری نہ صرف سماج میں نا انصافی اور ظلم کوبڑھاوا دیتی ہے، بلکہ اس سے اخلاقی مفاسد پیداہوتے ہیں اور لوگوں کو شریعت اسلامی پر زبان کھولنے او رانگلیاں اٹھانے کاموقع ملتاہے، کاش! ہم سماج کے اس فراموش کردہ طبقہ پر بھی محبت کی نگاہ ڈالیں او رایمانی تقاضوں کو پورا کریں۔

2اگست،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------------

Part: 1 - Islamic Sharia Established A Comprehensive System Of Alimony And Maintenance For Widows And Children-Part-1 شریعت نے مطلقہ اور بچوں کیلئے نفقہ و کفالت کا ایک پورا نظام رکھا ہے

URL: https://newageislam.com/urdu-section/establishment-collective-takaful-divorced-concluding-part/d/132865

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..