سعید نقوی
5 اگست،2024
امریکہ کے انتہائی جنوب
میں ایک سفید پودے کا مالک، اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھا،دوباہم متصادم غلاموں کو
خوفناک انجام تک لڑتے ہوئے دیکھتا ہے یا کم از کم اس وقت تک جب تک کہ ان میں سے
ایک دوسرے کی آنکھیں باہر نہ نکال لے۔باہر، بھوکے کتوں کا ایک غول، جن کا سائز
بھیڑیوں سے بھی بڑاہے، ایک ایسے غلام پر چھوڑ دیا جاتاہے جو درخت پرچڑھنے کی عبث
او رناکام کوشش کرتاہے۔”جیسا کہ مکھیاں بے ہودہ لڑکوں کیلئے ہیں‘ ہم خدا کے لیے
ہیں“۔ ویرانے میں لیئر اظہار افسوس کرتاہے، ”وہ ہمیں اپنے کھیل کے لیے قتل کرتے
ہیں۔“ شیکسپیئر کی سطر میں ”خدا“ کی جگہ لفظ ”گورے“ رکھ دیں او راسے براڈوے یا
ویسٹ اینڈ پرکسی موسمی لمحے میں خون آلودہ سیاہ فارم غلام کے منہ میں رکھ دیں۔ شاید
لوگ اداکار کابار بار کھڑے ہوکر خیر مقدم کریں۔
پچھلے دنوں اسرائیل کے
وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو کا امریکی پارلیمنٹ کیپٹیل ہل میں جس طرح امریکی
کانگریس کے ارکان نے دوران تقریباً بار بار کھڑے ہوکر استقبال اور خیر مقدم کیا اس
کے سامنے ایسی تمام مثالیں پھیکی پڑجائیں گی۔ امریکی کانگریس کے اراکین بار بار
ایسے کھڑے ہورہے تھے جیسے اس کے نشستوں میں کیل کانٹے لگے ہوں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب نتن یاہو نے
کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا ہو۔ کانگریس کے اراکین اس سے پہلے چار مواقع
پر نتن یاہو کے سامنے رقص پیش کرچکے ہیں۔ اس طرح نتن یاہو نے ونسٹن چرچل کے
کانگریس کے سامنے پیش ہونے کے ریکارڈ کو مات دے دی ہے۔ ایک موقع پر صدر براک
اوباما واشنگٹن میں یاہو کی موجودگی کے مخالف تھے۔ نتن یاہو نے ایوان صدارت (وہائٹ
ہاؤس) کی خواہش کے خلاف مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، او رپارلیمنٹ کے اراکین نے بار
بار کھڑے ہوکر ان کا خیر مقدم کیا۔ اوباما کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک
جاتا تھا۔اوبامہ کی سبکی کی شدت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا۔ یہ واقعہ واشنگٹن
میں اسرائیل کے غیر معمولی اثر ورسوخ کی غمازی کرتاہے۔ میں نے وزیر اعظم، اسحق
رابن، شمعون پیریز اور نتن یاہو کے انٹرویو کئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نتن
یاہو اپنے امریکہ کو باقی تمام وزراء اعظم سے بہتر جانتے ہیں۔اس کی سادہ سی وجوہات
ہیں۔ بارورڈ اور ایم آئی ٹی میں ان کی تعلیم نے انہیں ایک وسیع، باثرنیٹ ورک فراہم
کیا جسے انہوں نے بڑی محنت سے تیار کیا ہے۔1984 سے 1988 تک اقوام متحدہ میں
اسرائیل کے سفیر کے طور پر ان کے دورنے نیویارک اور کیلفورنیا میں یہودیوں کے ساتھ
اپنے روابط کو بڑھانے او رمضبوط کرنے میں ان کی مدد کی۔ تل ابیٹ کے بعد نیویارک
میں یہودیوں کی سب سے زیا دہ آبادی ہے او ریہی دنیا کے سب سے زیادہ بااثر لوگ ہیں۔
تجزیہ کار غیر معمولی طور
پر امریکہ میں اسرائیلی لابی کو ایک ایسا ادارہ قرار دیتے ہیں جو امریکی خارجہ
پالیسی کو اسرائیلی مفادات سے ہم آہنگ رکھتا ہے۔درحقیقت اسرائیل لابی اور یو ایس
خارجہ پالیسی کے موضوع پر شکاگویونیورسٹی کے پروفیسر جان میر شیمر او رہارورڈ کے
پروفیسر اسٹیفن والٹ کا بنیادی مطالعہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی
اسٹیبلشمنٹ کی تمام شاخوں میں لابی کے خیمے کتنے گہرے ہیں۔ شرمناک لفظ امریکی عوام
کے نمائندوں کی ’جمپنگ جیک‘ مشقوں کو بیان کرنے کے لئے ایک ہلکا لفظ ہے، جس میں فوجی
تعاون اور غیر معمولی تعصب کامرکب ہے۔ کیا اسرائیل کے معاملے میں امریکی جمہوریت
میں عوام کی کوئی حیثیت نہیں؟ کیا یہ صرف سرمائے، عطیہ دہندگان اور لابیوں کا سرکس
ہے؟ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن بندوق کلچر میں کسی بھی طرح کی اصلاحات کا کامیابی کے
ساتھ ناکام بنادے گی اگرچہ اس آزاد سرزمین پر بندوق کے تشدد سے روزانہ 12/ اسکولی
بچے مارے جاتے ہیں۔
1948 کا نکبہ یا بڑی تباہی جب اسرائیلی دیہاتوں کو فلسطینیوں سے
خالی کردیا گیا بہت خوفناک تھا۔ اس کے بعد بھی اسی طرح کی ہولناکیاں جاری رہی
ہیں۔لیکن موجودہ مظالم لامتناہی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ فلسطینیوں کے بہتر مستقبل
کی نوید ہے۔ پچھلے تمام نکبات اسرائیلی خود اعتمادی کا نتیجہ تھے۔ اسرائیل جانتا
تھا کہ اس کی تمام شرانگیزیوں کو نظر انداز کیا جائے گا، اکثر اوقات تو واحد
سپرپاور (امریکہ) کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔وزیر دفاع کیسپر وینبر
گرنے کہا تھاکہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا کبھی نہ ڈوبنے والاطیارہ بردار
بحری جہاز ہے۔ اسرائیل کی یہ تعریف بس اسی وقت تک مناسب تھی جب تک امریکہ بلا
مقابلہ سپر پاور تھا۔2008 میں لیہمن برادرز کے ٹائٹینک کی طرح ڈوب جانے کے
بعد،امریکی سیاست کے زوال کو بھی روکا نہیں جاسکا۔ بہت سے امریکی ادارے اپنے چمک
کھوچکے ہیں۔ مثال کے طور پر ’دی ملٹری انڈسٹریل کمپلیس‘ یعنی ایم آئی سی۔وغیرہ۔
امریکہ کو اسی برتری کے
احساس نے ویتنام اور عراق میں جیتنے نہیں دیا۔ او رہمیں یاد ہے کہ 20سال کے قبضے
کے بعد اگست 2021 میں امریکہ کو افغانستان سے بڑا بے آبرو ہوکر نکلنا پڑا۔ ایم آئی
سی ممالک کو تباہ کرنے میں مدد کرسکتا ہے، جنگیں نہیں جیت سکتا۔پوتن کو یوکرینی
تھیٹر میں دھکیل کر لانے کا ایک مقصد امریکہ کا کھویا ہوا اوقار بحال کرنا تھا۔
لیکن ہوا اس کے برعکس۔جوبائیڈن کونامعقول اسباب کے تحت جھکنا پڑا۔پوتن، جن پنگ کے
قابل اعتماد ہاتھوں کو تھامے ہوئے ایک عالمی سیاست دان کے طور پر قابل فہم نظر
آرہے ہیں، یہ دونوں ’برکس او رجی سات‘ سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اس تناظر میں 2024
کو نکبہ مختلف ہے۔ پچھلے تمام مواقع پر
اسرائیل واحد سپر پاور سے مکمل حمایت حاصل کرتا رہا۔ سامراج کو اپنے کندھوں
پر اٹھانے والا تسلط آج زوال کی طرف تیزی کے ساتھ گامزن ہے۔ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ
بدلے ہوئے حالات آگاہ ہے۔
دریں اثنانتن یاہو نے خود
کو ایک کونے میں رکھ دیا ہے۔ وہ دراصل ایسے شیر پر سوار ہیں کہ جس سے اب اتر نہیں
سکتے۔ کیونکہ اگر وہ اترنے کی کوشش بھی کریں گے تو شیر انہیں کھا جائے گا۔ لہٰذا
انہیں فلسطینیوں پر بمباری جاری رکھنی ہے۔ نتن یاہو نے حماس پر مکمل فتح کا وعدہ
کیا تھا،جو یقینا تمام حساب وکتاب کی روشنی میں ایک ناممکن بات ہے۔ مکمل فتح سے کم پرجنگ بندی یا ہوکی
شکست کے مترادف ہوگی اور لانسٹ کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ 60 ہزار اموات کے
باوجود) فلسطینی جشن کے سمندر میں ڈوب جائیں گے۔ اس کے باوجود یوکرین میں بھی شکست
سے دوچار امریکہ اسرائیلی طیارہ بردار جہاز کو ڈوبنے نہیں دے سکتا۔ یہ مغرب کے
اجتماعی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔
لوگ بھول جاتے ہیں کہ
سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات 1948 میں اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے کے ہیں۔
یہ قابل ذکر ہے کہ 1945 میں امریکی صدر روز ویلٹ اور سعودی بادشاہت کے بانی شاہ
سعود نے نہر سویز میں یو ایس ایس کو کوئنسی پر ملاقات کی تھی تاکہ ان معاہدوں کی
توثیق کی جاسکے کہ سرد جنگ کے تناظر میں سعودی عرب کی سلامتی کی ضمانت کے بدلے میں
عرب تیل کو مغرب کے ذریعہ کس طرح تقسیم کیا جائے گا۔ جب 1990-91 میں سرد جنگ کا
خاتمہ ہوا تو، ایرانی انقلاب، شیعہ محور او راسلامی دہشت گرد ی جیسی نام نہاد اصطلاحات
کوعربوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے پیش کیا گیا۔تاکہ ’سیکورٹی کے بدلے تیل‘ کی پالیسی
کو برقرار رکھا جاسکے۔ لیکن اب وہ دور ختم ہوا۔لہٰذا، سعودی عرب نے چین کی ایماء
پر تہران سے ہاتھ ملا لیا۔ اب وہ مؤثر طریقے سے عالمی جنوب میں شامل ہوگیا ہے۔ یہ
اسرائیل نہیں کرسکتا۔چین کے کہنے پر ایک بار پھر، تمام فلسطینی گروپوں، حماس اور
الفتح نے جنگ ختم ہونے کے بعد غزہ کے مشترک انتظام کے لئے ہاتھ ملانے پر اتفاق
کیاہے۔ ذرا ٹھہرئے: ایک روز یوکرین کے وزیر خارجہ کو بیجنگ میں دیکھا گیا تھا
بیجنگ یوتن کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتاہے۔ آخر یہ زمین پر کیا ہورہا ہے؟
5اگست،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism