سید امجد حسین، نیو ایج اسلام
27 مارچ 2025
بہار کے ایک دور اندیش کاروباری نوری میاں نے شوگر مل اور نوری گنج بازار قائم کرکے، مقامی معیشت کو فروغ دیا۔ اور تعلیم اور انسان دوستی کے ذریعے سماجی بہبود کو فروغ دے کر مشرقی اتر پردیش میں انقلاب برپا کیا۔
اہم نکات:
1. نوری میاں نے بھٹنی میں شوگر ملیں قائم کیں، جس سے خطے کی معیشت میں اضافہ ہوا۔
2. انہوں نے تجارت اور معیشت کو فروغ دیتے ہوئے نوری گنج بازار کی بنیاد رکھی۔
3. ان کے منصوبوں نے کسانوں اور مزدوروں کے لیے بڑے پیمانے پر ملازمتیں پیدا کیں۔
4. ان کے خاندان نے ایک مسافر خانہ اور لڑکیوں کا اسکول بنایا۔
5. ان کے تعاون نے بہار اور مشرقی اتر پردیش کے سماجی و اقتصادی منظرنامے کی تشکیل کی۔
-
تعارف
ہندوستان کی صنعت کی تاریخ میں، نوری میاں ایک ایسا نام ہے، جنہیں دور اندیشی پر مبنی صنعت کار اور سماجی اصلاح کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جب کہ 20ویں صدی کے اوائل کے زیادہ تر کاروباری افراد منافع خوری میں مشغول تھے، نوری میاں کی کوششیں علاقائی ترقی، سماجی بہبود اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے وقف تھیں۔ پسماندہ مشرقی اتر پردیش اور بہار کو صنعتی مرکز بنانے میں ان کی کوششوں نے، نہ صرف مقامی معیشت کا نقشہ تبدیل کیا، بلکہ طویل مدتی سماجی و اقتصادی ترقی کی بنیاد بھی رکھی۔
ابتدائی زندگی اور کاروباری منصوبہ
نوری میاں، جن کا اصل نام نور محمد ہے، کا تعلق سیوان، بہار سے تھا، جو کہ ایک ایسا علاقہ ہے جو زیادہ تر اپنی زرعی معیشت کے لیے مشہور ہے۔ 1900 کی دہائی کے اوائل میں، مشرقی اتر پردیش اور بہار صنعت کاری کی عدم موجودگی کے سبب معاشی جمود سے دوچار تھا۔ علاقے کی اعلیٰ گنے کی پیداوار کی غیر استعمال شدہ صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے، نوری میاں نے ایک انقلابی منصوبہ پیش کیا، جس کے تحت مقامی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کیے گئے۔
شوگر مل کا انقلاب
20ویں صدی کے اوائل کے دوران، نوری میاں نے مشرقی اتر پردیش میں دیوریا ضلع کے بھٹنی پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ اس وقت یہ بنیادی طور پر ایک دیہی خطہ تھا، اور یہاں ضروری اقتصادی انفراسٹرکچر ندارد تھے۔ بڑی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، انہوں نے بھٹنی میں شوگر ملیں شروع کیں اور صنعتی کاری کی شروعات کی، جس سے نہ صرف گنے کی مقامی کاشت کا فائدہ ہوا بلکہ معاشی مواقع بھی پیدا ہوئے۔
ان کی شوگر ملیں خطے کی سب سے بڑی روزگار بن گئیں، جن سے ہزاروں کسانوں، مزدوروں اور تکنیکی ماہرین کو ملازمتیں فراہم ہوئیں۔ ملوں کے سبب ایک قابل عمل سپلائی چین بھی پیدا ہوا، جس سے مقامی کسانوں کو ان کی پیداوار کے لیے براہ راست مارکیٹ مہیا ہوئی اور کسانوں کو کافی فائدہ ہوا۔ اس منصوبے سے علاقے میں آمدنی کی سطح میں نمایاں اضافہ ہوا، جس سے علاقے میں مجموعی طور پر خوشحالی پیدا ہوئی۔
نوری گنج بازار کی بنیاد: اقتصادی ترقی کی علامت
مل ملازمین کے لیے خود کفیل ٹاؤن شپ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے، نوری میاں نے شوگر ملوں سے ملحق ایک رہائشی اور تجارتی کالونی تعمیر کی۔ یہ کالونی، جس کا نام ان کے نام پر نوری گنج بازار رکھا گیا، ایک ترقی پذیر تجارتی اور صنعتی مرکز بن گیا۔ اس کالونی میں ملازمین اور ان کے اہل خاندان، بازاروں اور ضروری سہولیات کو مد نظر رکھا گیا تھا۔
نوری گنج بازار دھیرے دھیرے ایک اقتصادی مرکز میں تبدیل ہو گیا، جس کی طرف گرد و نواح کے تاجران کشاں کشاں چلے آئے۔ اس کالونی کی ترقی سے نہ صرف مقامی کاروبار کو فروغ ملا، بلکہ خطے کے بنیادی ڈھانچے میں بھی بہتری پیدا ہوئی، جس سے صنعت پر مبنی شہر کاری کا ایک پائیدار ماڈل تشکیل پایا۔
انسان دوستی اور سماجی بہبود
نوری میاں کی میراث صنعت کاری سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ ان کے خاندان نے سماجی ذمہ داری کی اپنی روایت کو جاری رکھتے ہوئے کئی فلاحی منصوبے شروع کیے۔ ان میں سب سے بڑا کام دیوریا ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک مسافر خانہ کا قیام ہے، جس میں مسافروں کو مفت رہائش اور بنیادی سہولیات فراہم کی گئیں تھیں۔ سخاوت کے اس عمل سے، سماج کی خدمت اور مہمان نوازی کے لیے ان کے عزم کی عکاسی ہوتی ہے۔
تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، بالخصوص خواتین کے لیے، نوری میاں کے خاندان نے لڑکیوں کا ایک اسکول بھی قائم کیا تھا۔ اس دور میں جب خواتین کی تعلیم کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا تھا، یہ اقدام انقلابی تھا۔ اسکول نے خواتین کی نسلوں کو بااختیار بنایا، انہیں علم اور ہنر سے لیس کیا جس کے سبب انہیں ایک سماجی پہچان ملی۔
ان کی وراثت اور یادیں
نوری میاں کا انتقال 29 دسمبر 1921 کو ہوا، اور انہیں نوری گنج قبرستان میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی موت سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا، لیکن وہ اور ان کے خاندان نے جو میراث چھوڑی ہے وہ انمٹ ہے۔ شوگر ملوں، نوری گنج بازار، اور ان کے اور ان کے خاندان کے قائم کردہ فلاحی ادارے ترقی کرتے رہے، جن سے خطے کے معاشی اور سماجی منظر نامے کی عکاسی ہوتی ہے۔
آج بھی بھٹنی، دیوریا اور سیوان میں نوری میاں کا نام احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ ان کی دور اندیش کاروباری ذہانت اور سماجی بہبود کے لیے ان کی لگن نے، ایک پسماندہ علاقے کو صنعتی اور اقتصادی مرکز میں تبدیل کر دیا۔
خلاصہ: پائیدار ترقی کے علمبردار
نوری میاں کی زندگی ایک دور اندیش قیادت کی انقلابی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کے صنعتی منصوبوں نے نہ صرف مقامی معیشت کو ترقی دی، بلکہ پائیدار سماجی ترقی کو بھی فروغ ملا۔ شوگر ملوں کے قیام، نوری گنج بازار کے اہتمام، اور فلاحی سرگرمیوں کی سرپرستی کے ذریعے، انہوں نے خود کفیلی اور ایک خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھی۔
ایک ایسے دور میں جب صنعت کاری میں اکثر، لوگوں کی فلاح پر منافع کو ترجیح دیا جاتا تھا، نوری میاں کی میراث ہمدردی اور سماجی ذمہ داری پر مبنی صنعت کاری کے دیرپا اثرات کا ثبوت ہے۔
------------------
English Article: Noori Mian: The Visionary Entrepreneur Who Industrialised Eastern Uttar Pradesh and Bihar
URL: https://newageislam.com/urdu-section/entrepreneur-industrialised-uttar-pradesh-bihar/d/135006
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism