New Age Islam
Thu May 15 2025, 05:32 PM

Urdu Section ( 8 March 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Enforcing a De-Facto Blasphemy Code in Britain برطانیہ میں اہانت مذہب کوڈ کا نفاذ

 ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 2 مارچ 2023

 قرآن کی مبینہ بے حرمتی مسلمانوں کی استثنیٰ کا ایک اور بہانہ بن گئی۔

 اہم نکات:

 1.  ویسٹ یارکشائر کے ایک اسکول سے قرآن کی بے حرمتی کا مبینہ واقعہ رپورٹ کیا گیا ہے۔

 2.  تنازع کا مرکز طالب علم آٹسٹک تھا لیکن مقامی مسلمانوں نے اس نوجوان کی ماں کو معافی مانگنے پر مجبور کیا۔

 3. اسی طرح کے واقعات کہیں اور بھی ہوئے ہیں اور ایسے تمام معاملات میں مسلمانوں کا ردعمل یہ رہا ہے کہ جب بات ان کے مذہب کی ہو تو خصوصی تحفظ کا دعویٰ کیا جائے۔

 4. برطانیہ قوم مسلم کمیونٹی کے اندر ترقی پسند اور لبرل افراد کی آوازوں کو دبانے کے لیے اسلام پسندوں کی آوازوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے بالکل تیار ہے۔

 -------

Muslims protest outside Regent's Park Mosque against newspaper cartoons depicting the prophet Muhammad that first appeared in a Danish newspaper. Photograph: Bruno Vincent/Getty Images

----------

 گزشتہ ہفتے ویسٹ یارکشائر کے ایک اسکول میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ رپورٹوں کے مطابق آن لائن گیم ہارنے کے بعد ایک طالب علم کو اس کے ساتھی طلبہ نے اسکول میں قرآن مجید کا نسخہ لانے کو کہا۔ مسلمانوں کا الزام ہے کہ اسکول کے احاطے میں ہی مقدس کتاب کو ان طلباء نے لات مارتے ہوئے پھاڑ دیا تھا۔ اسکول کے حکام نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ "مقدس کتاب صحیح و سالم ہے اور ہماری ابتدائی پوچھ گچھ سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں ملوث افراد کا بدنیتی پر مبنی کوئی ارادہ نہیں تھا"۔ تاہم، جیسا کہ کچھ دوسروں کا کہنا ہے، ایسا لگتا ہے کہ مقدس کتاب کے کچھ صفحات کی بے حرمتی کی گئی تھی اور سرورق کو کچھ نقصان بھی پہنچا تھا۔ اس کے بعد اسکول نے اس معاملے میں ملوث چار طالب علموں کو معطل کردیا۔

 یہ معاملہ معاملہ وہیں ختم ہونا چاہیے تھا۔ لیکن مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ واقعے کا مرکزی ملزم جس نے اسکول میں قرآن پاک لایا تھا، ذہنی طور پر بیمار ہے۔ اس معذوری کے پیش نظر اسے معاف کر دینا عقل مندی کی بات ہوتی لیکن مقامی مسلم کمیونٹی نے اسے اس ضلع کو اسلام کی طاقت کی یاد دلانے کا ایک اچھا موقع سمجھا۔ اسکول کی جانب سے معاملے کی انکوائری کے باوجود انہوں نے معاملہ پولیس اور مقامی حکام تک پہنچا دیا۔ انہوں نے ایک میٹنگ بھی کی، جس میں ملزم بچے کی ماں بھی موجود تھی، جہاں اس نے معافی بھی مانگی۔ اس واقعے نے نہ صرف مقامی کمیونٹی می دراد پیدا کیا ہے بلکہ اب پورے برطانیہ میں یہ معاملہ موضوع بحث بن گیا ہے۔ مسلم مخالف متعصب لوگ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ مذہب اور اس کے ماننے والے برطانیہ جیسی جمہوریت کے لیے تھیک نہیں ہیں۔ جو معاملہ مقامی سطح پر مسلمانوں کے ذریعے سنبھالا جا سکتا تھا اسے ہاتھ سے نکل جانے دیا گیا۔ غالباً خود مسلمان بھی ایسا چاہتے تھے تاکہ پورے معاشرے پر توہین مذہب کے ضابطوں کو نافذ کرنے کی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔

 یہ آزادی اظہار کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں وہ ایک ذہنی طور پر بیمار نوجوان کو معاف کرنے میں قوم مسلم کی نااہلی کو اور ایک ماں کو اس کی کوئی غلطی نہ ہونے پر بھی شرمندہ کیے جانے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آخر کیا مسلمان یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور معافی ان کے مذہب کی طرف سے سکھائی گئی اعلیٰ ترین خوبیوں میں سے ایک ہے؟ تو پھر ایک نوجوان کی زندگی کو داغدار کرنے کی یہ کوشش کیوں؟ یا یہ کہ یہ اس ملک میں توہین مذہب کے مذہبی قانون کو نافذ کرنے کی ایک اور کوشش ہے؟ میں یہ اس لیے کہتا ہوں کہ مسلمانوں کا احتجاج ایک نمونہ معلوم ہوتا ہے۔ 2021 میں بیٹلی گرامر اسکول میں واقعہ پیش آیا تھا جس میں توہین رسالت کے بارے میں بحث کے دوران پیغمبر کی تصویر دکھانے پر کچھ اساتذہ کو معطل کردیا گیا تھا۔ اسی طرح کا غصہ سنی مسلمانوں نے 2022 میں ظاہر کیا تھا، جس کے نتیجے میں بالآخر دی لیڈی آف ہیون کو منسوخ کر دیا گیا، جو کہ پیغمبر اسلام کی بیٹی کے بارے میں ایک فلم ہے جس میں ان کے کچھ ساتھیوں کے غیر اخلاقی رویہ کو دکھایا گیا تھا۔ مسلمانوں نے اس وقت بھی ناراضگی کا اظہار کیا جب ماجد نواز نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد کی ایک ساتھ تصویر ٹویٹ کی تاکہ لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کہ مسلم تاریخ میں پیغمبر کی تصویر کشی ہمیشہ سے ممنوع نہیں تھی۔

 اس طرح کے تمام مسائل میں مسلمانوں نے جس طرح سے رد عمل کا اظہار کیا ہے وہ ایک ڈی فیکٹو بلاسفیمی کوڈ کو نافذ کرنے کے مترادف ہے۔ یہاں تک کہ پریونٹ، برطانیہ کا انسداد دہشت گردی ونگ، جس پر اکثر اسلام پسندوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، اس نے اعتراف کیا ہے کہ انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے "توہین مذہب اور ارتداد کے الزامات سے متعلق تشدد خاص اہمیت کا حامل ہے"۔

 اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ مقامی حکومتیں ایسے تمام معاملات میں ان مسلمانوں کے مطالبات کو کیسے تسلیم کرتی ہیں جو اس طرح کے واقعات کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بیٹلی گرامر اسکول میں انکوائری کمیٹی نے واضح طور پر کہا کہ "اساتذہ کے اقدامات انتہائی نامناسب تھے"۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ "عملے کے لیے ضروری نہیں تھا کہ وہ توہین رسالت کے موضوع پر نتیجہ خیز سیکھنے معلومات حاصل کرنے کے لیے زیر بحث مواد [تصاویر] کا استعمال کریں"۔ اس بیان کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ اساتذہ اب یہ فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں ہیں کہ کیا اور کیسے پڑھایا جائے کیونکہ کلاس میں مسلم طلباء بھی پڑھنے آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اسلام سے متعلق کسی بھی مضمون کے معاملے میں اساتذہ کو اچھی طرح سے یہ مشورہ دیا جائے گا کہ وہ انتہائی احتیاط سے کام لیں تاکہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچ جائے۔ اس طرح کی کلاسوں میں اوسطاً مسلم طالب علم کو کتنا نقصان ہوگا، کیونکہ وہ اس مسئلے کو کسی اور نقطہ نظر سے سمجھنے سے مکمل طور پر محروم رہیں گے۔

 اس طرح کے ردعمل سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہر مسلم معاشرہ ایک ہی جیسا ہے۔ یہ حقیقت سے بعید ہے۔ اس لیے کہ تمام معاشروں کی طرح مسلم معاشرے میں بھی ایسے مسائل پر مختلف رائیں رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ تمام مسلمان یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ ویسٹ یارکشائر میں بچے کو سزا دی جائے یا اس کی ماں معافی مانگے۔ اس لیے مقامی حکام کا یہ ردعمل صرف اسلام پسندوں کو ہی تمام مسلمانوں کا نمائندہ سمجھ کر ان کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ توسیع کے ذریعہ، یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ریاستی حکام اسلام پسندوں کے دھمکی آمیز مطالبات کو تسلیم کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ قوم مسلم کے اندر ترقی پسند اور لبرل لوگوں کو نقصان پہنچے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ لبرل اصولوں کو برقرار رکھنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔

 سب سے اہم سوال توہین مذہب کے معاملے پر مسلمانوں کا موقف ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کو بطور ایک جماعت کے اپنے مذہبی حقوق پر زور نہیں دینا چاہیے۔ یقینا، انہیں ایسا کرنا چاہئے۔ لیکن وہ حقوق وہ ہونے چاہئیں جو دوسروں کے حقوق پر ضرب نہ لگائیں۔ مذہبی مطلق العنانیت کے خلاف صدیوں کی جدوجہد کے ذریعے، انگریزوں نے ایک ایسا نظام قائم کیا ہے جہاں مذہب کے بارے میں تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اسے اس معاشرے کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ عیسائیت نے مغربی معاشرے کے اس سیکولر قدر کے ساتھ مصالحت کر لی ہے۔ لیکن اپنے مذہب کے احکام کو نافذ کرنے کے حوالے سے مسلم نرگسیت ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں اس سے ان معاشروں کی بنیادوں کو تباہ ہونے کا خطرہ ہے جہاں وہ ہجرت کر چکے ہیں اور جس میں وہ ضم ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن انضمام ہمیشہ باہمی مصالحت سے ہی ممکن رہا ہے۔ مسلمانوں کی اپنے میزبان معاشرے کی کسی بھی چیز کو اپنانے میں ہچکچاہٹ کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ وہ کثیر ثقافتی اقدار اور تکثیریت کو اپنانے کے لیے اب بھی تیار نہیں ہیں۔

English Article: Enforcing a De-Facto Blasphemy Code in Britain

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/enforcing-de-facto-blasphemy-britain/d/129273

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..