ودود ساجد
10 مارچ،2024
گزشہ 8 مارچ کو بعد نماز
جمعہ جس وقت انقلاب کے ’داخلی گروپ‘ پر ہمارے نمائندوں نے یہ اطلاع بہم پہنچائی کہ
دہلی کے ’اندرلوک‘ علاقہ میں ایک پولیس اہلکار نے جمعہ کی نماز سڑک پرادا
کرنے والے افراد کو حالت نماز یں لاتوں
گھونسوں سے مارا ہے تو میں اس وقت دفتر جاتے ہوئے اپنی گاڑی میں سپریم کورٹ کے ایک
فیصلہ کا مطالعہ کررہا تھا۔ اتفاق سے اس جمعہ کو میں نے خود ایک میٹنگ سے فارغ
ہوکر پرانی دہلی کی ایک بڑی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی تھی۔ پرانی دہلی کے ایک
علاقہ سے نئی دہلی کے علاقہ میں داخل ہوتے وقت کئی مقامات پر پولیس کی کچھ غیر
معمولی روک ٹوک کا مشاہدہ ہوا۔ ایسی بسوں اور گاڑیوں کو روک کر پولیس اہلکار تصویر
کھینچ رہے تھے جن میں مسلمانوں جیسی شکل وشباہت کے مسافر سوار تھے۔
سپریم کورٹ کا جو فیصلہ
زیر مطالعہ تھا اس میں فاضل جج صاحبان نے کہا تھا کہ پولیس کو اس امر کے تئیں حساس
بنانے کی ضرورت ہے کہ آئین کی دفعہ A(1)19 کے تحت ہندوستان کے
ہر شہری کو آزادی کے ساتھ رائے اختیار کرنے اور آزادی کے ساتھ اس رائے کا ظاہر
کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن جیسے ہی یہ ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں سجدہ کی
حالت میں اللہ کے حضور پڑے ہوئے نمازیوں کی پشت پر اندرلوک تھانہ کا انچارج
انسپکٹر، اپنے جوتوں سے ٹھوکریں ماررہا تھا تو یوں لگا جیسے میں غزہ میں ہوں اور
سجدے میں پڑا شخص میں ہی ہوں۔ پچھلی تین دہائیوں سے میں اسی دہلی میں ہوں۔ اس
دوران ملک بھر میں فرقہ وارانہ کشمکش کے کتنے ہی واقعات رونما ہوئے دہلی میں بھی
ان کا اثر دہلی پولس کے اہلکاروں کو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہوئے بھی
دیکھا اور سنالیکن ایسی نفرت بھری زندگی اور اس شدت کی وحشت ناکی پہلے کبھی نہیں
دیکھی۔
دہلی میں متعدد ریاستوں
کے لوگ آکر آباد ہوتے رہتے ہیں۔ ہزاروں لو گ اپنے کام سے آتے ہیں او رواپس چلے
جاتے ہیں۔ دہلی کی اکثر مسجدیں آباد رہتی ہیں۔جمعہ کے روز مسجد یں بھر ی رہتی ہیں۔
جمعہ کے روز کثیر المنازل مسجدیں بھی نیچے سے اوپر تک بھری رہتی ہیں۔ شاہراہوں کے
پاس قائم مسجدوں میں مقامی آبادی کے علاوہ مسافر بھی نماز ادا کرتے ہیں۔ مسجدیں
بھر جانے کے سبب اضافی نمازیوں کو مسجدوں کے باہر نماز ادا کرنی پڑتی ہے۔یہ عمل
کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ عمل دہائیوں سے جاری ہے۔محض چند منٹ کے لئے لوگ سڑکوں پر
نماز ادا کرتے ہیں۔ بڑی عمر کے لوگوں کاکہنا ہے کہ اس عمل میں برادران وطن اور
دہلی پولیس کے اہلکار بھی تعاون کرتے رہے ہیں۔ لیکن 8 مارچ کو جو کچھ ہوا اس نے
بہت کچھ بدل کر رکھ دیا۔ جن لوگوں نے اسے روکنے کی کوشش کی ان کے ساتھ اس کارویہ
بتاتاہے کہ خو د اسے تو مسلمانوں سے زہریلی نفرت ہی ہے اسے یہ بھی یقین ہے کہ اس
کے اس غیر قانونی او رغیر انسانی عمل بد کو ارباب اختیار بنظر تحسین دیکھیں گے۔
اندر لوک میں مسلمانوں کی
اچھی خاصی آبادی ہے۔ جس مسجد کے پاس یہ
واقعہ ہوا اس کا نام مکی مسجد ہے۔ ویڈیو میں آسانی سے معلوم ہوجاتاہے کہ مسجد کے
دروازے کے باہر صفوں او رنمازیوں کی تعدادکوئی بہت زیادہ نہیں تھی۔ ٹریفک بھی آسانی
سے گزرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ سٹی سروس کی بسیں بھی آجارہی ہیں۔ لیکن اچانک اندر لوک
علاقہ کا انسپکٹر منوج کمار تومر وہا ں پہنچ کر صف بستہ نمازیوں کو پوری قوت کے
ساتھ دھکے دینے لگتا ہے۔ اس کی زد میں ایسے نمازی بھی آگئے جن کی عمریں 15 سے20
برس کے درمیان ہوں گی۔ یہ نمازی ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگے ایک صف تو پوری طرح
بکھر گئی۔ نمازیوں کی سمجھ میں شاید کچھ نہیں آرہا تھاکہ یہ کیاہورہاہے۔ویڈیوں میں
جو کچھ نظرآسکا اس کی رو سے لات گھونسے کھانے کے باوجود ایک ہی ذی شعور نمازی نے
نیت نہیں توڑی۔ قیام کی حالت میں پولیس اہلکار کے دھکے کھانے کے باوجود لوگ رکوع میں
بھی چلے گئے۔ ایک دولوگوں کو ضرور گھبراہٹ میں نماز سے باہر ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔
اس دوران بھی اس شرپسند پولیس اہلکار کا جنون جوش مارتا رہا۔ وہ بدستور نمازیوں کے
منہ اور سر پر اپنے ہاتھ کا ہتھوڑا برساتارہا۔
دوسری رکعت کے پہلے سجد ہ
میں اللہ کے حضور پڑے ہوئے نمازیوں کی دیکھ کر اس شرپسند پولیس اہلکار کاجنون اور
بگڑگیا اور اس نے اپنے جوتوں کی زد سے پوری قوت کے ساتھ ایک نمازی کی پشت پر ٹھوکر
ماری۔ یہ منظر اتناکر یہہ اتنا خوفناک اور شرمناک تھا کہ اس کا تصور کرکے ہی روح
لرزجاتی ہے خیال آتا ہے کہ اس بے چارے نمازی کا کیا حال ہوگا۔ سوچ کر دیکھئے بلکہ
ویڈیو کو دیکھ کر سوچئے کہ اس شرپسند جنوبی پولیس اہلکار کے نوکیلے جوتے کی ضرب
نمازی کے کسی مقام پر پڑی ہوگی۔ یہ تصور انتہائی شرمناک او رناقابل بیان ہے۔لیکن
اس کا بار بار بیان کرنا ضروری ہوگیاہے۔ یہ ہم کہاں آگے ہیں۔ ایک معمولی پولیس
اہلکار میں اتنی نفرت بھری ہمت کہاں سے آگئی ہے۔کہا جارہاہے کہ اس واقعہ نے دہلی
پولیس کو شرمسار کردیا ہے۔ لیکن دہلی پولیس نے اپنی شرمسادی کو مٹانے کے لئے اس
شرپسند کو محض معطل کیا ہے اور اس تین مہینوں کی معطلی کے حکم نامہ میں کوئی سبب
تحریر نہیں کیا گیا۔ اسے تنحواہ بھی بدستور ملتی رہے گی۔
ویڈ یو کو بغور دیکھ کر
یہ بات بھی بہ آسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اگر پولیس انسپکٹر ٹریفک کی بدنظمی یا
لااینڈ آرڈر کے سبب سڑک پر نماز پڑھنے والوں کو ہٹاناچاہتا تھا تب بھی اس چہرہ پر
نظر آنے والی کراہت، اس کی آنکھوں کی وحشت او راس کے نفرت بھرے لہجہ کی شدت کچھ اس
سے بہت سے آگے کی بات بیان کرتی ہے۔ متعدد وکلاء کاکہنا ہے کہ پولیس اہلکار کو اس
طرح یا کسی بھی طرح زدوکوب کرنے کا کوئی قانون اختیار نہیں تھا وہ اگر قانونی
کارروائی کرنابھی چاہتا تھا تو اسے زیادہ سے زیادہ دفعہ 188 کے تحت مقدمہ قائم
کرنے کا اختیار تھا۔ نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کو اٹھانے یا ہٹانے کا اسے کوئی حق
حاصل نہیں تھا۔ بہت سے ماہرین قانون او رسماجی رضا کار یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ اگر
محض پانچ منٹ کے لئے سڑک پرنماز ادا کرنے سے کوئی بہت برا مسئلہ کھڑا ہوگیا تھا تو
ہرروز دوسرے لوگ بڑے بڑے جلوس نکالتے ہیں او ر گھنٹوں سڑکوں پر اور مسجدوں کے
سامنے جمے رہتے ہیں،شرانگیز نعرے لگاکر مسلمانوں کو برافروختہ کرنے کی کوشش کرتے
ہیں، آخر ان سے کوئی مسئلہ کیوں کھڑا نہیں ہوتا او رکیوں ان کے خلاف کوئی کارروائی
نہیں ہوتی۔
جمعیت علماء کے صدر
مولانا ارشد مدنی اورمولانا محمود مدنی کے بیانات درست معلوم ہوتے ہیں۔ اول الذ
کرنے کہا ہے کہ یہ گزشتہ دس سالو ں میں بوئی گئی نفرت کی زندہ تصویر ہے۔ موخرالذ
کرنے کہا ہے کہ ’نمازیوں پر تشدد اسلاموفوبیا کا مظہر ہے۔اگر مولانا محمود مدنی کو
اسلامو فوبیا کا ادراک اوراحساس ہواہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ حالات بہت سنگین
ہیں۔گذشتہ 7 مارچ کو سپریم کورٹ نے ہر چندکہ ایک مختلف نوعیت کے مقدمہ میں ایک
تاریخی فیصلہ سنایا ہے تاہم اس کے نکات سے بھی بالواسطہ طورپر مولانا محمود مدنی
کے بیان کی توثیق ہوتی ہے۔ پروفیسر جاوید احمد حجام نے ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع
کرکے اپنے خلاف درج ایف آئی آر کو کالعدم کرنے کی درخواست کی تھی۔ ان پر الزام
تھاکہ انہوں نے دفعہ 370 کو ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے
وہاٹس ایپ اسٹیٹس پر اسے جمو ں و کشمیر کی
تاریخ میں ’بلیک ڈے‘ سے تعبیر کی تھا۔ پروفیسر جاوید کے خلاف 153A کے تحت مختلف طبقات
کے درمیان فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ممبئی ہائی کورٹ
نے پروفیسر جاوید کی درخواست مسترد کردی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ کی دورکنی بینچ کے
جج، جسٹس ابھے اوکا اور جسٹس اجل بھوئیاں نے پروفیسر جاوید کے خلاف درج آیف آئی آر
کو نہ صرف کالعدم کردیا بلکہ دور رس نتائج کے حامل تبصرے بھی کئے۔ سپریم کورٹ نے
اظہاررائے کی آزادی کو آئین کے تحت دئے گئے بنیادی شہری حقوق کااہم حصہ قرار دیا۔
عدالت نے کہا کہ اگر اسی طرح لوگوں کے خلاف مقدمات قائم کئے جاتے رہے توجمہوریت کو
زبردست زگ پہنچے گی۔ عدالت نے پولیس کو بھی شہریوں کے بنیادی حقوق کے تئیں حساس
بنانے کی ضرورت پرزور دیا۔ یہ فیصلہ تفصیل سے لکھے جانے کا متقاضی ہے۔ حیرت ہے کہ
پولیس کو ان واقعات میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا کوئی عنصر نظر نہیں آتا جن
میں شرپسند عناصر مسجدوں کے میناروں پر چڑھ کر جھنڈے لہرادیتے ہیں۔پولیس کو یتی
نرسمہا نند جیسے زہریلے عناصر کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے واقعات
بھی نظر نہیں آتے۔
ملک بھر میں ایک عجیب ہوا
چلی ہے۔ اب مسجدوں کی تعمیر کے لئے اجازت ملنے میں دشواری کا بھی سامنا ہے یوپی
میں کئی مقامات پر لاؤڈاسپیکر پر اذان کی بجائے سائرن بجایا جارہاہے،حماس کے خلاف
اسرائیل نے جب وحشیانہ جنگ شروع کی تو مسجد وں میں مظلوموں کے لئے دعاؤں کا سلسلہ
بھی شروع ہوا۔ لیکن پرانی دہلی کے ہی ایک علاقہ میں ایک مسجد کے امام کو پریشان
کیا گیا۔ سینئر افسران کے ذریعہ کہا گیا
کہ جنگ وہاں ہورہی ہے تو حالات یہاں کیوں خراب کررہے ہو؟حیرت ہے کہ اب امن وامان
او رمظلوموں کی مدد کیلئے دعاء مانگنے سے بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرہ لاحق
ہے۔ مشکل یہ ہے کہ چند مذہبی قائدین ہی اس طرح کے حالات پر کچھ آواز اٹھاتے ہیں۔
متعدد قائدین تو ’اندر‘جاکر وہی کہتے ہیں جو باہر آکر شرپسند کہتے ہیں۔ اب کوئی
وزیراعظم یا وزیر داخلہ سے مل کر گفتگو کرنا نہیں چاہتا۔اگر ’اپنوں‘ کی محفل میں کسی
زبان سے کوئی سخت جملہ نکل بھی جاتاہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اخبارات میں
شائع نہ ہو۔ کچھ ایسا شائع ہوجاتاہے تو وہ مختلف انداز سے اس کی تردید پر پوری قوت
صرف کردیتاہے۔
حالات ایسے ہیں کہ ا ب
مساجد کے ذمہ داروں او رنمازیوں کو بھی اپنا طرز عمل بدلنا ہوگا۔ میں نے نوئیڈا
میں ایسی کثیر المنازل مساجد بھی دیکھی ہیں جہاں دس منٹ کے وقفہ سے جمعہ کے روز دو
جماعتیں ہوتی ہیں۔ اس سے نمازیوں کو سہولت بھی ہوجاتی ہے اور سڑکوں پرنماز ادا
کرنے کی مجبوری سے بھی نجات مل جاتی ہے۔رمضان سر پرہے۔ نمازیوں کی تعداد میں مزید
اضافہ ہوگا۔ ایسے میں مساجد کے ذمہ داریوں کو اس ’فارمولہ‘ پر عمل آوری کے لئے
سنجیدگی سے سوچناہوگا۔ اندرلوک کی مکی مسجد جیسی مسجدوں کے باہر مستقل طور پر یہ
اطلاع لکھ کر ٹنگانی ہوگی کہ یہاں جمعہ کی دوجماعتیں ہوتی ہیں لہٰذا سڑک پر نماز
ادا مت کیجئے۔ لوگوں کاراستہ روکنے کی مستقل وعیدیں بھی وار د ہوئی ہیں۔ مسلمانوں
نے اس پر توجہ نہ دی تو ہر مسجد کے باہر ’سجدوں کے دشمنوں‘ کی پیداوار کو نہیں
روکا جاسکے گا۔
10 مارچ، 2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism