New Age Islam
Sun Jul 20 2025, 03:39 PM

Urdu Section ( 14 March 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Role of Emotional Analysis of Events in the Promotion of Extremism انتھاء پسندی کے فروغ میں جذباتی تجزیوں کا کردار

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

14 مارچ 2025

فطرت سے ہم آہنگی اور سماجی تقاضوں و ضرورتوں کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے ۔

عہد حاضر کے تجزیہ نگاروں اور اصحاب فکر و دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل و مباحث پر واضح طور پر گفتگو کریں جو بدلتے حالات میں معاشرے کی ضرورت ہیں ۔ بہتر تجزیہ نگار اور اچھا مفکر و دانشور وہی ہوتا ہے جو قوم کے سامنے مثبت باتیں پیش کریں ، منفی نظریات رکھ کر قوم و ملت میں مایوسی پیدا نہیں کرنی چاہیے ۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ زیادہ تر تجزیہ اشتعال انگیزی اور منفی رجحان پرمبنی ہیں ۔ اس کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر ہم نے کسی کے بارے میں  پہلے سے کوئی مثبت یامنفی رائے قائم کرلی تو جب ہم اس پر تجزیہ کریں گے تو اسی قائم کردہ رائے کے مطابق کریں گے ۔ ایسے موقع پر حقائق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ یہ حال صرف سماجی مسائل میں نہیں ہے بلکہ سیاسی احوال بھی اسی زد میں ہیں ۔

دینی مسائل میں بھی عالمی سطح پر ہماری روش بالکل جانبدارانہ ہے ۔ ہم دینی احکام میں بھی اس تشریح و تعبیر کو پسند کرتے ہیں جو ہمارے اپنے قائم کردہ نظریات یا اصولوں کے مطابق ہو۔ جن سے ہمارے اپنے وضع کردہ مسلکی نقطہ نظر کی تائید و حمایت ہوتی ہے وہ اصول بڑے اچھے لگتے ہیں اور جو باتیں ہمارے مسلک پر چوٹ کرتی ہیں، انہیں ہم بڑی خوبصورتی سے نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ ہماری اس مسلکی تعبیر و تشریح نے دین اسلام کی حقیقی تصویر کو یقینی طور پر بہت متاثر کیا ہے ۔ اسی وجہ سے سماج میں آئے دن دین کے نام پر جدید فتنے رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ عہد حاضر میں مسلم کمیونٹی میں مسلک و مشرب کے نام پر انتشار و افتراق نے بھی اپنی جڑیں مضبوط و مستحکم کرلی ہیں  جب کہ اسلام ایک آفاقی اور مرکزی مذہب ہے۔ اس نے ہر دور میں اجتماعیت اور ہم آہنگی پر زور دیا ہے ۔ نیز اسلام کی تعلیمات عالمی ہیں۔ اس کے قواعد و ضوابط بہت واضح اور شفاف ہیں ۔ اس کے باجود ہماری تعبیرو و توضیح نے  مذہب کو کہیں نہ کہیں بدنام کرنے کا سامان کیا ہے ۔

یہاں یہ بات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ آج مسلم کمیونٹی میں رواں حکومت کے خلاف ایک منفی فضا اور نظریہ بنا ہوا ہے اور بیشتر تجزیہ نگار جن کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے، جب وہ رواں سیاسی حالات پر کوئی بات کرتے ہیں یا تجزیہ کرتے ہیں توان کی آراء کو پڑھ کر مزید مسلمانوں میں مایوسی بھی پیدا ہوتی ہے اور رواں حکومت کے خلاف  نفرت بڑھتی ہے ۔ تجزیہ نگار کی بات درست ہوسکتی ہے، لیکن زیادہ تر تجزیے جو کیے جارہے ہیں وہ پہلے سے دانستہ سوچ کے تحت کیے جارہے ہیں ۔ اسی پر بس نہیں بعض تحریریں تو اس قدر جانبداری پر مبنی ہیں کہ رواں حکومت کی کوئی خوبی ہے تو اس کو اس انداز اور اسلوب میں پیش کیا جارہا ہے کہ وہ برائی میں تبدیل ہو جائے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف مسلم  سماج میں ایک سوچ بنی ہوئی ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف ہے ۔ حالانکہ تجزیہ نگار کا یہ وطیرہ ہرگز مناسب نہیں ہے ۔ سماج میں اس طرح کے رویوں کا پایا جانا مہلک ہے ۔

جہاں تک سیاسی مسائل یا رواں حکومت کا تعلق ہے یقیناً اس کا سلوک و رویہ مسلمانوں کے خلاف ہو گااورہے بھی۔  لیکن یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ ہم سکہ کا صرف ایک ہی رخ دیکھیں ۔ دانشمندی اور ایمانداری پر مبنی تجزیہ تو اس وقت ہوگا کہ جب سکے کے دونوں پہلوؤں کو دیکھا جائے، منفی اور مثبت دونوں احوال کو سامنے رکھ کر نتیجہ نکالا جائے تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں میں موجودہ سیاسی احوال و واقعات کو لے کر جس طرح کی بے چینی اور جذباتی کیفیت ہے اس کو حقیقت میں تبدیل کرنا بہت آسان ہے ۔

اس لیے یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ سماج و معاشرے میں مثبت افکار و نظریات اور متوازن سوچ کی اہمیّت و معنویت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔  یاد رکھیے!مثبت سوچ اور تعمیری خیالات کے پروان چڑھانے سے بہت سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں ۔ نفرتیں اور دوریاں معدوم ہوجاتی ہیں ۔ قوموں اور معاشروں کے مابین روشن و صالح خطوط پر تعلقات استوار ہوتے ہیں ۔

علم و تحقیق اور ترقی و خوشحالی کی راہ ہموار ہوتی ہے ، گویا مثبت سوچ کے ان گنت فوائد ہیں جن کا مشاہدہ ہم اپنے سماج میں آئے دن کرتے رہتے ہیں ۔ برعکس اس کے منفی نظریہ ، منفی خیالات معاشرے میں بد امنی اور تخریب کاری کا سبب بنتے ہیں، جو سماج کے لیے ایک طرح سے غیر مفید ہوتے ہیں ۔ منفی سوچ کے ساتھ کوئی کام بھی تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوتا ہے۔

فکر و نظر میں جذباتیت ناسور ہے اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو لگاتار قوموں اور معاشروں کو فکری و نظریاتی طور پر مفلوج کرتا ہے ۔

سیاسی احوال خصوصاً رواں حالات کا مناسب تجزیہ کیا جاتا اور اس کی درست تصویر معاشرے کے سامنے پیش کی جاتی تو یقیناً ابھی تک اس حدتک فاصلے نہیں ہوتے ۔ منفی تجزیوں کی ہی دین ہے کہ ہم نے رواں حکومت سے مکالمات کا سلسلہ بھی شروع نہیں کیا ، جس کی وجہ سے مسلم کمیونٹی بہت سارے مسائل سے دوچار ہے ۔

اگر ہم مکالمات پر زور دیتے اور ان تمام تجزیوں کو پر کان نہیں دھرتے جو جانبداری پرمبنی ہیں تو کوئی بہتر سبیل نلکل سکتی تھی ۔ حد یہ ہے کہ اب ایک ہوڑ بنی ہوئی ہے جذباتی اور عدم حقائق پر مشتمل تجزیہ کرنے کی ۔ اس صورت حال کو ختم کرنا بہت ضروری ہے ۔

مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تیسری مرتبہ کام کر رہی ہے۔ پیہم منفی تجزیہ نگاروں نے مسلمانوں میں یہ پیغام پہنچایا کہ خبر دار! حکومت سے کوئی رسم و راہ کی یا تعلقات کو روشن خطوط پر استوار کیا۔  ذرا سنجیدگی سے سوچیے! کہ ہمارا یہ رویہ کس حد تک مناسب ہے ؟

یہاں یہ بھی عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے  کہ کوئی شخص ایسا تجزیہ کرتا ہے جو متوازن ہو ، سماجی ضرورتوں اور تقاضوں یا حالات کی عکاسی ہو تو ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کو برداشت کرنے کی قطعی عادت نہیں ہے۔ اگر کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ رواں حکومت سے مسلمانوں کو بہتر تعلقات بنانے کی ضرورت ہے اور نفرتوں کو ختم کیا جائے ، مسائل کے حل کے لیے براہ راست حکومت سے مکالمات ہوں تو اس پر جذباتیت سے متاثر افراد طرح طرح کی لعن طعن شروع کردیں گے ،حتی کہ اس پر پتہ نہیں کیسے کیسے فتویٰ بھی چسپاں کرنے کی کوشش ہونے لگے ۔

آج جس طرح تجزیہ نگاری حقائق پرمبنی نہیں ہورہی ہے، وہیں صحافت بھی اب جذباتیت کا شکار ہے کیوںکہ وہ جانتے ہیں کہ اگرخبروں کو نمک مرچ لگا کر پیش نہیں کیا گیا تو ان کی دکان بند ہو جائے گی اور جو دولت و ثروت یہ لوگ جذباتی صحافت کے توسل سے حاصل کررہے ہیں وہ حقائق پرمبنی صحافت کے ذریعے نہیں بٹور سکتے ۔ ان سب حالات کے تناظر میں یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ  سب سے زیادہ متاثر جذباتی  تحریروں اور صحافت یا تقریروں کا  نقصان عوام کو ہورہا ہے ۔ کیونکہ وہ ان باتوں کو سن کر یہ فیصلہ نہیں کر پاتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور ہمارا نصب العین کیا ہے ۔ ہمیں کن خطوط کو اختیار کرنا چاہیے ۔ کشمکش کی کیفیت میں مبتلا ہوکر ایسے اعمال کر بیٹھتے ہیں جو یقیناً غیر مناسب ہوتے ہیں اور پھر اس کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بناء بریں تحریر و تقریر، تجزیہ نگاری ، مضمون نویسی اور خبر لکھتے وقت حقائق و شواہد پر مشتمل باتوں کو بروئے کار لایا جائے ۔ جذبات و احساسات سے کھلواڑ کرنا اور اور عوام کو بر انگیختہ کرنے سے مسائل کا حصول ممکن نہیں ہے ۔ بہتر تجزیہ نگاری اور متوازن صحافت کا تقاضا یہ ہے کہ پڑھنے کے بعد قاری تدبر و تفکر کرے ۔ قاری کو فکری و نظریاتی طور پر کوئی پیغام ملے۔ اگر تجزیہ قاری کو تدبر و تفکر پر آمادہ نہیں کرتا ہے تو ایسا تجزیہ عبث ہے ۔

آخر میں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تجزیہ نگاری واقعی سماج میں یکجہتی ، رواداری ، امن و امان اور تدبر و تفکر کی راہ پیدا کرنے کے لیے ایک اچھا اور بہتر عمل ہے ۔ اس کی خوبی اسی وقت برقرار اور قائم و دائم رہ سکتی ہے جب تجزیہ تمام اصولوں اور ضابطوں کو مد نظر رکھ کر کیا جائے ۔ اس میں مثبت کردار کو پیش کیا جائے ۔ تجزیہ علم و تحقیق سے وابستہ ہو، سماج و معاشرے کا  کوئی مسئلہ ہو ، سیاسی احوال سے متعلق ہو یا پھر دینی مسائل پر مبنی کوئی تجزیہ کیا جارہاہو۔ اچھی رائے اور مثبت خیالات پر تجزیہ کی واقعی وقعت ہے اور سماج میں بھی اس کے غیر معمولی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ہمیں کوشش یہی کرنی چاہیے کہ ہم اپنے تجزیوں کے ذریعے معاشرے کو کچھ دے سکیں ، نہ یہ کہ ہمارے سیاسی ، سماجی اور دینی تجزیہ معاشرے میں منفی سوچ کو پروان چڑھائیں ۔

--------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/emotional-analysis-extremism-analysis/d/134869

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..