New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 09:01 PM

Urdu Section ( 5 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Embracing Complexity and Diversity: A Moral Vision for the 21st Century پیچیدگی اور تنوعات کو اپنانا: اکیسویں صدی کے لیے ایک اخلاقی نصاب

 ادیس دودیریجا، نیو ایج اسلام

 25 جولائی 2024

عملی طور پر، فکری محبت اور مفروضہ رواداری کی اس اخلاقیات کا مظاہرہ، متعدد طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ عظیم تر بین المذاہب مکالمے اور تعاون کا سبب بن سکتا ہے، جہاں مختلف مذہب و ملت کے پیروکار، اپنی مشترکہ اقدار  اور نکات تعلق پر غور و فکر کرنے کے لیے اکٹھے ہوں۔

 -------

 "ہمیں ایسی اخلاقیات کی ضرورت ہے، جو وجود کی پیچیدگی کی فکری محبت پر مبنی ہو اور مختلف عقائد کی مفروضہ رواداری سے شرابور ہو" ڈبلیو.ای. کونولی:

 بڑھتی ہوئی تقسیم اور تفرقہ کے اس دور میں، فلسفی ولیم ای کونولی کے یہ الفاظ پہلے سے کہیں زیادہ سچے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا "ایک ایسی اخلاقیات کا مطالبہ، جو وجود کی پیچیدگی کی فکری محبت پر مبنی ہو اور مختلف عقائد کی مفروضہ رواداری سے شرابور ہو"، اخلاقیات اور معنویت کے مزید ہمدردانہ، محتاط، اور تکثیری نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 کونولی کے نظریہ کی بنیاد، بنیادی پیچیدگی اور تکثیریت کی قدردانی پر ہے، جو انسانی حالت کا تعین کرتی ہے۔ آسان جوابات یا واحد اخلاقی فریم ورک تلاش کرنے کے بجائے، وہ ہمیں "وجود کی پیچیدگی" میں موجود فراوانی اور تنوع کو قبول کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کا مطلب، ایک کو دوسرے پر مراعات دینے کے بجائے، تنوعات، اعتقادی نظام، ثقافتی روایات، اور جیتے جاگتے تجربات کو تسلیم کرنا ہے، جن سے ہماری دنیا کی تشکیل ہوتی ہے۔

Representative Photo from File

-----

اکثر، اخلاقیات پر کٹر عقائد اور خارجی سوچ کا غلبہ پایا جاتا رہا ہے۔ مختلف اخلاقی فلسفوں یا مذہبی روایات کے حامیوں نے، صرف اپنے ہی عقائد کو حقیقت کا واحد علم بردار مانا ہے، اور متبادل نقطہ نظر کو یا تو مسترد کیا ہے، یا اسے بدنام کیا ہے۔ اس (زیرو سم zero-sum) ذہنیت (یعنی ایک کا فائدہ دوسرے فریق کا نقصان ہے) نے، مذہب کی خونی جنگوں سے لے کر جدید دور کی ثقافتی جنگوں تک، لامتناہی تنازعات کو ہوا دی ہے۔

 اس کے برعکس، کونولی کی اخلاقیات، "دانشورانہ محبت" پر مبنی ہے – یعنی ایک متجسس، کھلے ذہن، اور بھر پور انسانی تجربے کے ساتھ، ہمدردانہ مشغولیت۔ قوانین یا احکام کے پہلے سے طے شدہ نظام کو مسلط کرنے کے بجائے، یہ نقطہ نظر ہمیں مسلسل چھان بین کرنے، سوال کرنے اور اپنے اخلاقی افق کو وسیع کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ "وجود کی پیچیدگی" کوئی مسئلہ نہیں کہ جسے حل کیا جائے، بلکہ بصیرت اور روشن خیالی کا ایک سرچشمہ ہے۔

 ساتھ ہی ساتھ، کونولی کا نقطہ نظر، اخلاقی اضافیت یا بے توجہی یا بے اعتنائی کی دعوت نہیں دیتا۔ وہ تنازعات کی وکالت نہیں کرتے، جہاں "کچھ بھی چلتا ہے۔" اس کے بجائے، وہ ایک "قیاس پر مبنی رواداری" کا مطالبہ کرتے ہیں- جو مختلف مذاہب اور نظریات کے تئیں، احترام اور کھلے پن کے ایک طے شدہ اندازے، سے عبارت ہے۔ اس کا مطلب ہے، ان نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے اور ان کے ساتھ مشغول ہونے کی کوشش کرنا، جو ہمارے اپنے نقطہ ہائے نظر سے یکسر مختلف ہو سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ ان کو مسترد کر دیا جائے، یا بدنام کیا جائے۔

 اہم بات یہ ہے کہ اس مفروضہ رواداری کا مطلب، آنکھ بند کر کے قبول کر لینا، یا بغیر سوچے سمجھے مان لینا نہیں ہے۔ یہ اخلاقیات کا انکار یا اخلاقیات سے دستبرداری، کا لائسنس نہیں ہے۔ بلکہ، یہ عاجزی کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا ہے، کہ مطلق اخلاقی تیقن کا کوئی وجود نہیں ہے، اور یہ کہ سچائی کی تلاش ایک مسلسل جاری رہنے والا باہمی تعاون کا عمل ہے۔ یہ اس بات کو تسلیم کرنا ہے، کہ انتہائی گہرے عقائد کو بھی، بات چیت اور تبادلۂ خیال کے ذریعے پھیلایا اور بڑھایا جا سکتا ہے۔

 عملی طور پر، فکری محبت اور مفروضہ رواداری کی اس اخلاقیات کا اظہار، متعدد طریقوں سے ہو سکتا ہے۔ یہ عظیم تر بین المذاہب مکالمے اور تعاون کا سبب بن سکتا ہے، جہاں مختلف مذہب و ملت کے پیروکار، صرف اپنے اختلافات پر توجہ دینے کے بجائے، اپنی مشترکہ قدرو اور نکتۂ تعلق پر غور و فکر کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس سے مزید محتاط اور ہمدردانہ سیاسی بیانیے کو فروغ مل سکتا ہے، جہاں نظریاتی مخالفین محض متعصبانہ جنگ میں شامل ہونے کے بجائے، ایک دوسرے کے بنیادی محرکات اور خدشات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس سے تعلیم کے حوالے سے، ایک وسیع اور جامع نقطہ نظر کو بھی فروغ مل سکتا ہے، جہاں طلباء کو طرح طرح کے فلسفیانہ، ثقافتی، اور مذہبی روایات سے روشناس کرایا جا سکے، اور ہر ایک میں موجود پیچیدگیوں اور ابہام سے نمٹنے کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ محض مخصوص علوم فراہم کرنے کے بجائے، یہ نقطہ نظر تنقیدی سوچ، فکری عاجزی، اور زندگی بھر علم حاصل کرنے کی پیاس کو فروغ دے گا۔

 بالآخر، کونولی کا نظریہ، قبائلیت، عدم برداشت، اور اخلاقی مطلق العنانیت کی بڑھتی ہوئی قوتوں کے لیے ایک طاقتور تریاق ہے، جو ہماری دنیا کو تباہ کر سکتی ہے۔ "وجود کی پیچیدگی" اور "متعدد مذاہب کی مفروضہ رواداری" کو اپنانا کر، ہم عقیدہ کے ہلکے تیقن سے آگے بڑھ سکتے ہیں، اور بھرپور اور کبھی نہ ختم ہونے والے انسانی تجربے کو گلے لگا سکتے ہیں۔

 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسی اخلاقیات کو نافذ کرنا آسان ہوگا، یا یہ ہمارے تمام اخلاقی اور معاشرتی تنازعات کو فوری طور پر حل کردے گا۔ گہرے پختہ عقائد، طاقت کا نظام اور ثقافتی تقسیم آسانی سے ختم نہیں ہوں گے۔ اور بلاشبہ ایسی مثالیں موجود ہوں گی، جہاں مفروضہ رواداری کے اصول، دیگر اہم قدروں کے خلاف متوازن ہونگے، جیسے کہ کمزوروں کی حفاظت کی ضرورت، یا بنیادی انسانی حقوق کا دفاع۔

 آخر میں، فکری محبت اور مفروضہ رواداری کے اس اخلاق کو اپنانے کی قیمت زیادہ نہیں ہو سکتی۔ تقسیم و تفرقہ، زینو فوبیا، اور مرتی ہوئی جمہوریت کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی اس دنیا میں، ہماری مشترکہ تہذیب کا مستقبل، اس بات پر منحصر ہو سکتا ہے، کہ ہم اپنے ذاتی نقطہ نظر کی حدود سے اوپر اٹھیں، اور کھل کر انسانی تنوعات اور پیچیدگیوں کو اپنائیں۔

English Article: Embracing Complexity and Diversity: A Moral Vision for the 21st Century

URL: https://newageislam.com/urdu-section/embracing-complexity-diversity-moral-vision-21st-century/d/132866

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..