ڈاکٹر راشد شاز
ستمبر، 2013
استنبول بھی عجب شہر ہے۔ میں جتنی بار یہا ں آیا ہر مرتبہ پہلے سے کہیں زیادہ اس کی پر اسراریت کا احساس ہوا۔ نہ جانے کب کس موڑ پر کون سا اسطورہ او رکون سی تاریخ آپ کا راستہ روک کر کھڑی ہوجائے ۔ یہا ں ٹوٹی فصیلو ں کے سایوں اور خوابیدہ تربت کے الواح نے مل کر اسطورے اور تاریخ کا ایسا تانا بانا تشکیل دیا ہے کہ بسا اوقات ایک دوسرے سے الگ کرنا سخت مشکل ہوجاتا ہے۔ جس پتھر کو اٹھائیے اس کے نیچے ایک تاریخ خوابیدہ ہے۔ یہ باز نطین کا شہر ہے ، ابو ایوب کی آرام گاہ ہے اور محمد الفاتح کی اولوالعزمی کا علامیہ ہے۔تاریخ اگر چشم عبرت سے پڑھی جائے تو اس کی بے سمتی کے ازالے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور اگر اس پر اسطورہ کی گرد جم جائے تو قافلے کی بے سمتی کا احساس جاتارہتا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم ان پتھروں کے نیچے سے اسطورہ بر آمد کرتے ہیں یا تاریخ۔
ترکوں نے اپنے زوال کو روکنے کے لیے ابتدا ً اسطورہ کو کام میں لگایا ۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی زوال پذیر عثمانی سلطنت میں طلسماتی داؤ پیچ کی کتابیں بڑی مقبول ہوئیں۔ مزعومہ قرآنی و فق و نفوش کے ماہرین نے صورت حال پر بند باندھنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی ۔ خلفاء اور امراء کو اثرات بد سے محفوظ رکھنے اور دشمنوں کے ضرر سے بچانے کے لیے ایسے ملبوسات تیار کیے گئے جن پر اوّل تا آخر پورا قرآن مرقوم ہوتا ۔ قرآن مجید کے تعویذی نسخے بھی خوب مقبول ہوئے لیکن واقع بلیات کی یہ تمام کوششیں زوال کی اس رفتار میں اضافہ ہی کرتی رہیں ۔ کہتے ہیں کہ عباسی خلفاء بھی اس التباس فکری کے شکار تھے ورنہ بغداد کا عالمی دارالحکومت اتنی آسانی سے تباہ نہ ہوتا۔ ان کے یہاں یہ خیال عام چلا آتا تھا کہ رسول اللہ کی ایک چادر جو کبھی اموی خلفا ء کے قبضہ میں تھی او رجو اب آل عباس کی تحویل میں چلی آتی تھی، اسے اگر کوئی شخص اوڑھ لے تو محاذ جنگ پر یا خطرے کی گھڑی میں اس کا بال بیکانہ ہوگا۔
کہتے ہیں کہ آخری عباسی خلیفہ جب قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں کی سموں سے کچلا گیا اس وقت اس نے یہی چادر اوڑھ رکھی تھی ۔ اکیسویں صدی کے استنبول کی شاہراہوں پر چلتے پھرتے قہوہ خانوں میں گفتگو کرتے او رپبلک مقامات پر لوگوں سے ملاقات کے دوران اس بات کا شد ت سے احساس ہوتا ہے کہ آج بھی اہل ترک کسی ایسی قبا کی تلاش میں ہیں جو انہیں دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھ سکے۔ معاملہ اب صرف محفوظ رکھنے کا نہیں بلکہ اس صورت حال سے نجات دلانے کا بھی ہے جس نے ترک قوم کو اس کے تاریخی جاہ و حشم اور عظیم قائدانہ رول سے محروم کر رکھا ہے ۔ شاید اسی لیے ایک مردِ ازغیب کے ظہور کا انتظار شدید سے شدید تر ہوتا جاتا ہے۔
میں نے مصطفیٰ اوغلو سے پوچھا تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے ۔ کیا واقعی وہ عنقریب ظاہر ہونگے؟
جی ہاں سننے میں تو یہی آرہا ہے۔ بلکہ چند برسوں پہلے تو نوجوان لڑکے لڑکیوں میں ان کی متوقع آمد کا بڑا غلغلہ تھا۔ ہر لمحہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ پتہ نہیں کب کس ویران گلی یا خوابیدہ مدفن سے کوئی سفید ریش بزرگ ہاتھوں میں تسبیح ہزار دانہ لیے بر آمد ہو اور وہ اپنے مہدی ہونے کا اعلان نہ کردے، لیکن ادھر چند سالوں سے وہ غلغلہ انگیز کیفیت باقی نہیں رہی۔
تو کیا آپ کسی مہدی کے منتظر نہیں؟
میرے اس استفسار پر مصطفیٰ اوغلو مسکرائے ، باسفورس کی آہستہ خرام لہروں پر ایک نظر ڈالی، کہنے لگے ہم میں سے ہر شخص مہدی ہے۔ آپ بھی مہدی اور میں بھی مہدی۔ اب تاریخ کی درستگی کا کام ہم سبھوں کو مشترکہ طور پر انجام دینا ہے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کسی اور کا انتظار کارِ لایعنی ہے۔
لیکن یہاں استنبول میں تو ان کے آنے کی خبر خاصی گرم ہے۔
جی ہاں آپ کا اندازہ صحیح ہے۔ یہ دراصل لوگوں کا اضطراب ہے ، وہ بہر صورت حالات کو بدلنا چاہتے ہیں ۔ اور جب ان کا بس نہیں چلتا تو وہ ایک مردِ از غیب کے سہارے اپنی محرومیوں کی تلافی کی کوشش کرتے ہیں۔ افسوس کہ دینی اور سیکولر دونوں حلقے اسی اساطیر ی طر ز فکر کے شکار ہیں ۔ وہ جلدی میں ہیں اور کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں ۔
تو کیا آپ کے خیال میں مذہبی علماء کی طرف اتا ترک بھی اساطیری طرز فکر کے شکار تھے ؟
جی ہاں ! بالکل ۔ اسطورہ غیر عقلی رجحان اور اوہام کے بطن سے جنم لیتا ہے ۔ اس کا شکار ہونے کےلئے مذہبی یا سیکولر ہونے کی شرط نہیں ۔ بلکہ بعض اوقات تو سیکولر لوگوں کے ہاتھوں کہیں زیادہ خطرناک او رمہلک اسطورہ جنم لیتا ہے ۔
اتاترک نے نئی قومی شناخت کے قیام کے لیے ترک قوم کو ایک اساطیری تاریخ کا حامل بتایا جو اس کے تراشیدہ اسطورہ کے مطابق 10000 سال قبل مسیح سے کسی خیالی بر اعظموں پر آباد چلی آتی تھی۔ کہا گیا کہ ماحولیات کی تبدیلی کے سبب یہ براعظم غائب ہو گیا ۔ لوگ مختلف علاقوں میں منتشر ہوگئے۔ انا طولیہ کے Hittites ترک قوم کا تسلسل ہیں جنہوں نے ایک زمانے میں عظیم سلطنت قائم رکھی تھی۔ آج بھی انقرہ میں Hittites تہذیب کا شمسی دائرہ ترکوں کی تراشیدہ عظمت کی علامت کے طور پر آویزاں ہے۔ کچھ اس قسم کے تو ہمات نے ہٹلر کے دل و دماغ میں جرمن قوم کے فطری تفوق کا خیال راسخ کیا ۔ وہ اس خیال کا اسیر ہوگیا کہ خیال سیارہ اٹلانٹس کے مکین سفید فارم جرمن قوم کو تمام اقوام عالم پر حکمرانی کے لیے بنایا گیا ہے ۔ ہٹلر کی طرح اتاترک نے بھی تمام سابقہ اساطیر اور تاریخ کو یکسر مسترد کردیا۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کر گئے کہ ہمیشہ سے انسانی تہذیب کی گاڑی مختلف اقوام و ملل کے مشترکہ و سائل اور ایندھن سے چلتی رہی ہے۔ اس کی حیثیت انسانیت کے اجتماعی سرمائے کی ہے۔
اس اجتماعی اِنرشیا کے بغیر ایک نئی ابتدا ء اہمیشہ Non-starter رہے گی۔ اتاترک کا تراشیدہ اسطورہ پچھلوں کے اِنرشیا سے محروم تھا سو ا س گاڑی کو جتنا بھی دھکا دیا گیا وہ اسی رفتار کے ساتھ پیچھے کی طرف لوٹ آئی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس عمل میں ترک قوم کی کوئی پون صدی ِضائع ہوگئی ۔
باتوں باتوں میں یہ پتہ ہی نہ چلا کے ہم سلطان محمد فاتح پل کب کا عبور کر چکے ۔ اور اب جو سامنے نظر پڑی تو دفعتاً احساس ہوا کہ ہماری کار ایک ایسی عمارت کے سامنے کھڑی ہے جو او، آئی ، سی او رمختلف مسلم ممالک کے جھنڈوں سے آراستہ ہے۔ مسلم تاریخ و تہذیب اور فنون کے مطالعے کا یہ مرکز گذشتہ تین دہائیوں میں بڑے نادر وثائق اور اہم دستاویزات شائع کر چکا ہے۔ان میں قرآن مجید کے وہ نسخے بھی ہیں جنہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا جاتا ہے اور جس کی زیارت کا شوق استنبول کے پہلے سفر میں مجھے توپ کاپی سرائے تک لے گیا تھا ۔ اب عام شائقین کو اس نسخہ کی زیارت کے لیے توپ کا پی سرائے جانے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ مرکز مطالعہ تاریخ نے اس نسخہ کا عکس بڑے تزک و احتشام سے شائع کردیا ہے۔ مصر میں سید نا حسین کی مسجد میں بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منسوب قرآن مجید کا ایک نسخہ مشہور چلا آتا ہے۔ اس کی اشاعت کے لیے بھی محققین کمر کس رہے ہیں ۔ دنیابھر میں کم از کم سات ایسے قرآنی نسخے پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بوقت شہادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالعہ میں تھے اور جن پر ان کے خون کے دھبّے موجود ہیں ۔ جن میں سب سے مشہور تا شقند کا نسخہ ہے۔ اب ان نسخوں کی اشاعت سے کم از کم اتنا تو ہوگا کہ تاریخ پر اسطورہ کی جو گرد جم گئی ہے اسے دور کرنے میں مدد ملے گی۔
توپ کاپی سرائے کے پہلے سفر میں ہی مجھے اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ حضرت یوسف علیہ اسلام کی پگڑی ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین مبارک، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذو الفقار ہو یا دوسرے مقدس آثار، ان کا تقدس اسطورہ کے دم سے قائم ہے۔ تاریخ کے معیار پر ان کی حیثیت منسوب الیہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ مصحف عثمان رضی اللہ عنہ کے مختلف نسخوں کی اشاعت سے عام لوگوں کے لیے اس بات کا اندازہ لگانا آسان ہوجائے گا کہ دنیا بھر میں موئے مبارک، نشانِ قدم اور دوسرے آثار و نواد رات کی واقعی حقیقت کیا ہوسکتی ہے، خاص طور پر ایک ایسے دین میں جو اشیاء میں تقدیس کا حوالہ مٹانے آیا ہو۔
مر کز مطالعہ تاریخ کا سارا زور تاریخ و تراث کی حفاظت پر ہے۔ اسے جدید دنیا سے کچھ بھی علاقہ نہیں ۔ بیسوی صدی میں عالم اسلام کے مختلف حصّوں میں جو جابر بادشاہتیں یا آمر یتیں قائم ہوئیں انہیں یہ گورانہ تھا کہ اسلام کو ایک زندہ اور معاصر دین کے طور پر دیکھا جائے سو انہوں نے اپنے آپ کو اسلامی تاریخ و آثار کے محافظ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔اسلام بھی دوسرے قیمتی نواد رات کی طرح میوزیم کی چیز بن گیا ۔ خلیجی ممالک ہو ں یا شمالی افریقہ کی مسلم ریاستیں یا خود جدید تر کی ، دینی جذبے کی تسکین کے لیے تاریخ و تراث کی حفاظت اور کسی حد تک اس کی آبیاری کو کافی سمجھا گیا ۔ تب شاید حکمرانوں کو اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ تاریخ خواہ کتنی ہی خوابیدہ نظر آئے ماحول ساز گار ہوتو بول اٹھتی ہے۔ پھر تاریخ کے نقار خانے میں حکمرانوں کی آوازیں ، خواہ اس کے پیچھے ریاست کی کتنی ہی بڑی قوت کیوں نہ ہو، کان پڑے سنائی نہیں دیتی ۔
عالم عرب میں تاریخ و تراث کی خاموش کلامی بالآخر ایک عوامی ، انقلاب پر منتج ہوئی ۔نئی نسل کو جب ایک بار یہ پتہ چل گیا کہ اس کا تعلق ان تہذیبی نوادارت سے ہے جسے ماضی کے پس منظر میں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اس کے آباء و اجداد اس تاریخی رزمیہ کے کلیدی کردار رہے ہیں جس سے عالمی تہذیب کی جلوہ سامانیاں عبارت ہیں تو اس کے لیے ممکن نہ رہا کہ وہ بے چار گی کی اس مصنوعی صورت حال پر قانع رہ سکے ۔استنبول میں بھی چلتے پھرتے ہر لمحہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تاریخ آپ کو کچھ کر گزرنے پر اکسارہی ہو، نئی نسل جو قدیم رسم الحظ سے ناواقف ہے اس کے اضطراب میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب وہ یہ دیکھتی ہے کہ قبروں پر لگے کتبے اور عمارتوں پر لگے الواح اس کے لیے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں ۔استنبول کی تمام تاریخی عمارتیں ، مساجد اور اس سے ملحقہ قبرستان خوبصورت خطاطی سے معمور ہیں جو مضطرب نوجوانوں کو مسلسل یہ دعوت دیتے رہتے ہیں کہ آؤ مجھے دریافت کرو، مجھے عبور کیے بغیر خود اپنے شہر میں آخر کب تک اجنبی رہو گے؟
یا صاحب الز ماں ! ادرکنی ، ادرکنی ، الساعہ
مرکز مطالعہ تاریخ کی لائبریری اپنے حسنِ انتظام ، آرائش و زیبائش او رکتابوں کے حسن انتخاب کے سبب اپنے اندر دلچسپی کا و افر سامان رکھتی ہے۔ اسلامی تاریخ و تراث کی حفاظت کا اس قدر اہتمام شاید ہی کہیں اور ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا بھر سے شائقین و محققین کی آمد کا یہاں تانتا بندھا رہتا ہے ۔ ابھی قرآن مجید کے ایک قدیم نسخہ کی ورق گردانی میں مصروف تھا کہ لکڑی کے زینہ پر قدموں کی دھمک اور نسوانی آوازوں کا ارتعاش سنائی دیا ۔ وہ چند لڑکیاں تھیں جو غالباً کسی کی تلاش میں تھیں ۔ اب جو قریب آئیں اور علیک سلیک ہوئی تو ایسا لگا کہ آواز کچھ مانوس سی ہو ۔ شکل صورت بھی دیکھی بھالی ہو۔اچھا تو یہ بسمہ الخطیب ہیں ۔ ابھی چند مہینے پہلے ان کے استنبول ہی میں ملاقات ہوئی تھی تب وہ اسلام ، شہریت اور شناخت کے موضوع پر منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شریک تھیں۔ کہنے لگی مجھے آپ کی آمد کا کل ہی علم ہوگیا تھا ، یہ ہیں ہماری سہیلی نحلہ ، ان کا تعلق بھی موصل سے ہے، آپ تصوف کے ارتقاء پر آئر لینڈ میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں، اس نے ایک روشن کتابی چہرے والی خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ اور یہ ہیں صنم ، خاص استنبول کی رہنے والی ہیں جو آج کل خطاطی سیکھ رہی ہیں اور قدیم ترکی رسم الحظ میں فن خطاطی کی اہمیت پر تحقیق کا ارادہ رکھتی ہیں اور یہ ہیں ایلا ہ جو استنبول یونیورسٹی میں ایم ، اے ، سیاسیات کی طالبہ ہیں ۔ اور ہاں مجھے سب سے پہلے تو آپ سے معذرت کرنی ہے کہ میں بغیر کسی اجازت او رطے شدہ پروگرام کے آپ کے مطالعہ میں مخل ہوئی ۔ ہم لوگ تو صرف یہ کہنے آئے تھے کہ آج ظہر انے کے دوران یا اس کے فوری بعد اگر ممکن ہوتو آپ ہمیں کچھ وقت دیں ۔ ہمارے پاس بہت سے سوالات ہیں، ایسے سوالات جو اگر جستجو کی شاہراہ پر چل نکلیں تو ایک نئی دنیا تعمیر ہوجائے ۔
بسمہ کی گفتگو نئی دنیا، فکر جدید ، نئے فکری شا کلے اورنئے پیر ا ڈائم جیسی اصطلاحات سے مملور ہتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی ایسی دنیا کی باسی ہو جس کا وجود میں آنا ابھی باقی ہو۔ وہ حال سے کہیں زیادہ مستقبل میں جیتی ہے۔ گذشتہ دنوں جب وہ مسلم شہریت اور شناخت کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کررہی تھی تو اس کے ہر جملہ سے اس احساس میں اضافہ ہوتا جاتا تھا کہ بسمہ جیسی مسلمانوں کی نئی نسل سیاسی حد بندیوں میں اپنی شہریت اور شناخت کے سلسلے میں شدید ابہام اور اضطراب کا شکار ہے ۔ ماضی اس کی دسترس سے باہر ، حال ساقطہ الاعتبار اور مستقبل اندیشوں او رامکانات کے پردوں میں مستور ۔
استنبول کی مذکورہ کانفرنس کے انعقاد کامقصد تو یہ تھا کہ مغرب میں مسلمانوں کی یورپی شناخت اور شہریت کے قضیہ کا حل کیا جائے۔یوروپی ممالک کے شہری کی حیثیت سے ملّی اور اسلامی شناخت کے مقابلے میں ملکی شناخت کی اہمیت کیا ہے اور یہ کہ مسلمانوں پر ان ملکوں کی شہریت کے سبب کیا کچھ فرائض واجب الاداہیں؟ لیکن جب بات سے بات نکلی تو مغربی ملکوں کی شہریت کے مسئلہ کو کیا پوچھئے خود مسلم قومی ریاستوں کی شہریت مشکوک اور ساقطہ الاعتبار ہوگئی ۔ جب سے عالم اسلام میں اہل فکر نوجوانوں کی ایک نسل پیدا ہوئی ہے اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوگیا ہے عالم اسلام کی مرکزی سرزمین میں عراق، کویت، سعو دی، اماراتی ، مصری، تیونسی جیسی مختلف اور متحارب شہریتیں ہمارے ملی وجود پرکیوں تھوپ دی گئی ہیں۔ اور یہ کہ ان تراشیدہ شناختوں کی واقعی حقیقت کیا ہے ۔ کویت کا قومی، مفاد عراق کے قومی مفاد سے متصادم ، کروستان کا وجود شام اور ترکی کے لیے نا قابل انگیز ، سوڈانی ،مصری اور مراکشیلسییا کے فطری و سائل سے محروم اور جزیرۃ العرب میں سعودی ، کویتی ، اماراتی ، یمنی ، عمانی جیسی مصنوعی شناختوں کی تشکیل کے ذریعہ امت واحدہ پر اس کے فطری وسائل کا دروازہ بند کردینا ، یہ سب کچھ آخر اسلام کی کس تعبیر کے سبب ہے۔ حالانکہ جب مسلمان ایک امت تھے ، ان کی شہریت اور شناخت صرف اور صرف اسلام تھی تو ملائیشیا سے لے کر مراکش بلکہ مسلم اسپین تک عالم اسلام کے وسیع و عریض خطے میں مسلمان ہی بلکہ غیر مسلم اقوام بھی خداکے عطا کردہ فطری و سائل سے یکساں مستفید ہوئیں۔ خوشحال زندگی کے نئے امکانات کے سبب ایک خطہ سے دوسرے خطہ میں نقل مکانی معمول کی بات سمجھی جاتی۔ بلخی ، سمر قندی ، ہندی ، خراسانی ، اور اسفہانی لاحقوں کے ساتھ نزیل مکہ یا نزیل استنبول لکھا معمول کی بات تھی ۔ تب مسلمانوں کی شہریت مصنوعی قومی سرحدوں سے ماوراء تھی ۔ اسلام ان کا دین بھی تھا اور شہریت بھی ۔
بسمہ ویسے تو قرآنیات کی طالبہ تھی لیکن اس کے سوالات کے تیر مختلف سمتوں میں چلا کرتے تھے ۔ کبھی تاریخ ، کبھی سیاست، کبھی تصوف او رکبھی روایت ۔ وہ ایک مضطرب روح تھی جو اپنے سوالات کی تیز دھارے دوسروں کو مجروح کرنے کا ہنر جانتی تھی ۔ اس کا ہر سوال ایک نئے سوال کو جنم دیتا بلکہ یہ کہیے کہ وہ ہر سوال کا جواب ایک نئے سوال سے دیتی ۔
اس کے ہاتھ میں کسی تازہ کتاب کے چند نسخے تھے ۔ کہنے لگی ابھی ابھی شائع ہوئی ہے یہ کہہ کر اس نے کتاب کھولی ، مصنفہ کی حیثیت سے اپنے ستخط ثبت کیے او ر میرے ہاتھوں میں تھما کر یہ کہتی چلی گئی کہ انشا ء اللہ اب ظہرانے پر ملاقات ہوگی ۔ الخلاصۃ المقال فی مسیح الدّجال ، میں نے ایک نظر کتاب پر ڈالی اور دوسری نظر مصنفہ پر، زیر لب مسکرایا اور وہ یہ جاوہ جا اپنی سہیلیوں کے ساتھ رخصت ہوگئی ۔
ظہرانے میں ہمہ ہمی اور چہل پہل کا سماں تھا ۔ خاص موصل یونیورسٹی سے طلبا ء و طالبات کی دو بسیں آئی تھیں۔ جغرافیائی قربت کے سبب ترکی میں اہل موصل کی آمد بنی رہتی ہے اور غالباً اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عراقی کردوں کی رشتہ داریاں ترکی میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ ابھی میں ڈائننگ ہال میں داخل ہی ہواتھا کہ ایک ترک لڑکی ہمارے میز بان مصطفیٰ اوغلو کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی آئی اور ترک زبان میں ان سے کچھ کہنے لگی۔ میری سمجھ میں بس اتنا آیا کہ شیخ عائض کےمتعلق کچھ کہہ رہی ہے۔ پتہ چلا میرے لیے شیخ عائض اور دوسرے مہمانان خصوصی کے ساتھ یکجا نشست کا اہتمام کیا گیا ہے۔ شیخ عائض پہلے ہی سے تشریف فرما تھے ۔ یہی کوئی ساٹھ پنسٹھ کی عمر ہوگی ۔ چہر ےپر گوکہ ریش مبارک نہ تھی لیکن ہاتھ میں خوبصورت تسبیح اور اس سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت بلکہ پر جلال عصا تھا مے ہوئے تھے ۔ لباس گو کہ مغربی طرز کے سوٹ مشتمل تھا لیکن کلاء لالہ رنگ پر سفید گول پٹی نے مشرقی جاہ وجلال کا منظر قائم کر رکھا تھا ۔ گفتگو میں افہام و تفہیم کے بجائے فرمان کا سا انداز نمایاں تھا ۔ تسبیح کو انگشت شہادت پر گردش دیتے ہوئے بڑی قطعیت کے ساتھ اپنے فرمودات کچھ اس طرح عطا کردیتے گویا یہ نکتہ ابھی ابھی کسی ناموس نے ان کے کان میں پھونکا ہو۔ ابھی علیک سلیک اور تعارف کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ انہو ں نے اپنی تسبیح کو انگشتِ شہادت سے حرکت دی، ہوا میں کچھ دیر اسے دائر ے میں گردش دیتے رہے او رپھر کسی قدر بلند آہنگی سے فرمانے لگے:
عجل یا امام زماں! عجل یا مہدی آخر الزماں!
حاضرین کی طرف ایک نگاہ ،ڈالی اور فرمایا : بس اب وہ آنے والے ہیں۔ کسی وقت او رکسی لمحہ بھی اچانک تم ان کے ظہور کی خبر سنو گے۔ کہتے ہیں کہ بعض اہل کشف نے انہیں دیکھا بھی ہے اور وہ ان سے ملاقات بھی کر چکے ہیں ۔ خیال اغلب ہے کہ واستنبول ہی میں ہیں، مناسب وقت کےانتظار میں ، یہاں تک کہ تمام نشانیاں ظاہر ہوجائیں۔
ہم جیسے نو وارد مہمانوں کو شیخ کی بات کچھ سمجھ میں آئی او رکچھ نہ آئی۔ البتہ ان کے حلقہ مریداں کی زبانوں پر زیر لب مختلف اور ادووضائف کا سلسلہ جاری ہوگیا ۔ گاہے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ سب اپنے اذکار و مراقبہ کے زور پر مستقبل کے مہدی کو ڈھونڈ ہی نکالیں گے ۔ چند ثانیے بعد زیر لب پر اسرار و ظائف کا زور تھما ۔ اور اہل محفل عام شب و روز کی کیفیت میں واپس آگئے ۔
شیح عائض کو تصور مہدی میں اس قدر غرق دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ ان سے مہدی مستور کا اتا پتا معلوم کیا جائے ۔ کیا پتہ وہ ان گلیوں اور بازاروں سے واقف ہوں جہاں مستقبل کے مہدی نے مناسب وقت کے انتظار میں اپنے ظہور کو روکے رکھا ہے۔ کھانے کی میز پر ڈِشیں بدلتی رہیں ، کارندے بڑی مستعدی کے ساتھ ایک ڈش کے اختتام پر دوسری ڈش سجاتے رہے لیکن میرا ذہن اسی کرید میں لگا رہا کہ شیخ عائض جو مہدی منتظر کے خیال میں اس قدر مستغرق بلکہ لت پت زندگی جیتے ہیں آخر اس کا سبب کیا ہے ؟ صبح و شام بلکہ ہر گھڑی او رہر لمحہ ظہور مہدی کے امکانات و اندیشے کے ساتھ جینا کیا ان کے ہاں کسی ہلو سے کے سبب ہے یا سب کچھ ان غیبی اشارات کا حصہ ہے جن پر اہل تصوف اور اہل تشیع بلکہ خوش عقیدہ مسلمانوں کا ایک قابل ذکر طبقہ بے سوچے سمجھے ایمان لے آیا ہے۔
کھانے کے بعد جب طلبا ء کے ساتھ انٹر یکشن کی مجلس قائم ہوئی تو میں نے بسمہ سے خاص طور پر درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو شیخ عائض کو بھی اس مجلس میں شرکت کی دعوت دیں۔ وہ ایک زندہ Legend ہیں ۔ ا ن کی موجودگی ہمارے لیے کشف و اکتشاف کا باعث ہوگی او رکیا عجب کہ ان کے توسط سے ہمیں عہد ی منتظر کا پتہ ہاتھ آجائے ۔ خدا کا کرنا شیخ نے اپنی رضا مندی ظاہر کردی۔
ڈائننگ ہال سے متصل کانفرنس روم کا کمرہ قدرے کشادہ او رمرصع جگہ تھی جہاں وسیع و عریض گول میز پر کوئی تیس پینتیس مائکروفون لگے تھے ۔ کمرے کے چاروں طرف دیواروں کے سہارے مزید آرام و تشستیں لگی تھیں۔ دیوار پر ایک طرف اسکرین آویزاں تھی جس پر پروجیکٹر جیسے آلات کی مدد سے نئی ٹیکنو لوجی کے شائق مقررین شغل کیا کرتے ہوں گے۔ ان گولمیزوں کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ یہاں خطیب اور سامع تقریباً ایک ہی سطح پر ہم کلام ہوسکتے ہیں۔ ورنہ مشرق کی مشائخانہ روایت میں جہاں و اعظ بلند مقامی سے خطاب کرتا ہے سامعین کے لیے آمناً و صدقناً کہنے کے علاوہ او ر کوئی چارا نہیں رہ جاتا ۔ خاص طور پر ترکی کی جامع مسجدوں میں واعظ کی بلند بامی کا احساس کچھ زیادہ شدت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ شیخ عائض کے لیے بھی غالباً یہ قدرے غیر مانوس تجربہ تھا۔ انہوں نے ابتداہی میں یہ بات صاف کردی کہ کہ آج وہ کوئی خطبہ دینے کے بجائے اپنے دل کا درد بیان کرنا چاہیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ اس درد کو نئی نسل کو منتقل کرسکیں گے کہ یہ وہ سرمایہ ہے جو انہوں نے زندگی بھر سنبھال سنبھال کر رکھا ہے، اس کی آبیاری کی ہے اور اب اس کی منتقلی کا وقت آپہنچا ہے۔ فرمایا :
عزیزانِ من! آپ پر خدا کی سلامتی ہو۔
میں آپ کے درمیان جبل سِنجر سے ایک پیغام لے کر آیا ہوں بلکہ اسے ایک بشارت کہہ لیجئے ۔ اس سے پہلے کہ میری آنکھ بند ہوجائے میں چاہتاہوں کہ یہ پیغام آپ تک پہنچادوں ۔ دنیا قرن با قرن کے سفر کے بعد اب آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔کوئی لمحہ اس کے اختتام کا اعلان ہونے والا ہے لیکن اس سے پہلے کہ ایسا ہو خدا کی اسکیم ہے کہ اس کے نام لیوا سر بلند ہوں ، دنیا امن و انصاف سے بھر جائے ۔
نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں! ہم امام مہدی کے ظہور کی آخری ساعت میں ہیں۔ نہ جانے کب، کس طرف سے ان کے ظہور کی خبر آجائے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے مسلسل کوئی میرے دل کے نہاں خانے میں مجھ سے سر گوشی کرتا ہو کہ وہ لمحہ ، مبارک اور متبرک لمحہ اب قریب ، بہت قریب آپہنچا ہے۔
عزیز طلباء و طالبات !
میرا تعلق جبل سنجر کے اس خانوادے سے ہے جس پر شیطان کی عبادت کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور شاید یہ کچھ غلط بھی نہیں ۔ میں یزیدی خاندان میں پیدا ہوا جو اپنے آپ کو اہل حق اور دو انسی کہتے ہیں ۔ بنیادی طور پر ہم کردوں کی نسل سے ہیں لیکن مذہبی اعتبار سے ہماری شناخت ایک الگ مذہبی طائفے کی رہی ۔ موصل سے کوئی ساٹھ کلو میٹر شمال مشرق میں شیخ عدی بن مسافر کی قبر کو ہماری زیارت گاہ کی حیثیت حاصل ہے جو غالباً بارہویں صدی میں کوئی اسماعیل مبلغ ہوا کرتے تھے ۔ ہمیں یہ بتا یا گیا تھا کہ خدا نے دنیا بنائی اور اس کے انتظام و انصرام کو فرشتوں کے حوالے کردیا ۔ ملک طاؤس جو ان فرشتوں میں سب سے بڑا ہے وہی شیطان کا روپ بھی ہے سو اس کی ناراضگی مول لینا بھی مناسب نہیں ۔ ہم بیک وقت شیطان اور رحمٰن کی عبادت کرتے تھے اور ان دونوں کی رضا و خوشنودی کو اپنا مقصود جانتے تھے کہ با با شیخ نے ہمیں یہی بتایا تھا یہاں تک کہ شیخ نورسی کی تحریروں سے میری واقفیت ہوئی ۔ شیخ نورسی کا رسالۂ نور میرے ہاتھ کیا لگا اس نے میرے دل کی دنیا بدل ڈالی ۔ شیخ سعید نورسی کی تحریریں معرفت کا بیش بہار خزانہ ہیں۔
میں جس قدر اس میں ڈوبتا گیا میری روح ابھرتی گئی ، مصفیٰ اور مجلیٰ ہوتی گئی ۔ آج عمر کے ترسٹھویں سال میں ہوں جو سنت کے مطابق طبعی عمر کی تکمیل کا سال ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے لیے اس دنیا سے کوچ کا وقت آپہنچا ہے ۔ لیکن ایک کام ابھی باقی ہے اور شاید اسی لیے خدانے میری مہلت دراز کر رکھی ہے۔ میں گذشتہ چالیس سال سے اس عظیم عالی مرتبت ہستی کے انتظار میں سوتا جاگتا رہا ہوں ۔ ہر لمحہ اس کے ظہور کی طلب سے میری دعائیں اور آہ وزاریاں معمور رہی ہیں۔ شیخ نورسی نے لکھا ہے او ربڑی وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ آخری زمانے میں جب حق مغلوب ہوجائے گا ، حق تعالیٰ اس کی سر بلندی کے لیے عبدالقادر جیلانی اور شاہ نقشبندی کے سلسلے سے وقت کے مہدی کو ظاہر کرے گا۔ تمام سادات اور اہل بیت مہدی کے گرد جمع ہوجائیں گے ۔ نورسی نے آیت کریمہ قل لا اسئلکم علیہ اجر ا الا المودۃ فی القدبی کی تعبیر میں صاف لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خواہش کہ امت ان کے اہل خانہ ہو اس سبب ہے کہ مستقبل میں امت کی رشد و ہدایت کا کام ائمہ اہل بیت اور سادات سے لیا جانا ہے۔
عزیزا نِ من ! امت میں تجد ید وا حیاء کی جتنی بڑی تحریکیں اٹھیں ان سبھوں کی قیادت سادات نے کی ۔ ان میں سے بعض نے مہدیت کا دعویٰ کیا اور بعض کو خلائق نے اس منصب کا مستحق سمجھا ۔ سید احمد سنوسی ( متوفیٰ 1902ء) یا سید ادریس (متوفیٰ 1950ء) ہوں یا سید یحییٰ ( متوفیٰ 1948ء)یہ سب سادات کے خانوادے سے اٹھے تھے اور یہی حال سید عبدالقادر جیلانی (متوفی 1168ء) سید ابو الحسن الشاذلی ( متوفی 1258ء) اور سید احمد البدوی (متوفی 1276ء) کا ہے جو سادات کے خانوادے سے اصلاح احوال کے لیے اٹھے اور جن کی خدمات کی ایک دنیا قائل ہے ۔ بدیع الزماں سعید نورسی نے ہمیں یہ بھی خبر دی ہے کہ مہدی بنیادی طور پر تین امور کو انجام دے گا ۔ اولاً وہ مادیت کے سیلاب پر بند باندھے گا جس کے نتیجہ میں کی فصل لہلہا اٹھے گی ۔ ( جاری ہے)
ستمبر ، 2013 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-1/d/14317