New Age Islam
Thu May 15 2025, 12:34 PM

Urdu Section ( 2 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

2024 Elections: National, State, and Communal Context انتخابات 2024۔قومی، ریاستی و ملی تناظر

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

29 نومبر،2024

مئی 2024 کے عام انتخابات کے تنائج نے سیاسی تجزیوں کو کچھ نئی زمین فراہم کی تھی۔ ان میں کچھ نئے مشاہدات نے جنم لیا تھا۔جنہوں نے  سیکولر سیاست کے احیاء اورنظریہ ہندتو اور ہندو راشٹر واد پر مبنی یہ سیاست کی جڑ اور زمین کونہ صرف ہلایا بلکہ چار سو سیٹوں کا ہدف رکھنے والی جماعت کو محض 240 سیٹوں پر ہی اکتفاکرنا پڑا۔ سابقہ دو انتخابات جن میں بی جے پی تن تنہا بھاری اکثریت سے برسراقتدار آئی تھی اس کو اقتدار کے عمل کوجاری رکھنے کے لئے وہ ریاستی سیاسی اکائیو ں اور بیساکھیوں کا سہار لینا پڑا۔ اس ضمن میں جو تجزیات اور اعداد وشمار سامنے آئے وہ چونکادینے والے تھے ہی مگر اس سے کہیں زیادہ سنگھ/ بی جے پی کے مستقبل کے سیاسی عزائم کو کئی اعتبار سے جھٹکے دینے کے ساتھ ساتھ اس کی عوامی مقبولیت اور معقولیت پر بھی سوال کھڑے کرتے ہیں۔

دوسرا پہلو، پولرائزیشن جن سیٹوں پراپنی انتہا تک گیا وہاں کامیابی ہاتھ نہ لگنے سے دونوں سیاسی حکمت عملی پر غور وفکر کرنے کے لئے از سر نو سوچنا پڑا۔اس سب کے باوجود بہر حال ایک بار پھر نریندرمودی کی قیادت میں مرکز میں سرکار تشکیل پا گئی اور تیسری مرتبہ بی جے پی اقتدار میں آگئی۔

نتیش اب سیاسی اور نجی طور پر جتنے کمزور اور بے بس ہوچکے ہیں ان کے لئے صرف بھاجپا ہی تنہا بیساکھی او ر سہارا بچی ہے۔ ادھر چندربابو نائیڈو جو بڑی مشکل سے دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں انہیں اپنی ریاست اور نئی راجدھانی کی دلکش تعمیرنو کے لئے جس قدر مرکزی مالی امداد درکار ہے اس نے ان کے ہاتھ پاؤں اتنے باندھ دیئے ہیں کہ مودی سرکار کو اپنے سیاسی و انتخابی اہداف حاصل کرنے، کسی بنیادی تبدیلی کی طرف نہ بڑھنے، چلے آرہے سیاسی عروج و اسلوب کے بدلنے یا اپنے طرز حکمرانی میں کسی تبدیلی کے لئے مجبور ہونے کی کوئی زمین ہی نہیں بچی۔ وہ آج بھی سیاسی طور پر اتنے ہی مضبوط اور مستحکم ہیں جتنے عام انتخابات سے پہلے تھے۔

رہا سوال کانگریس اور سیکولر سیاست کے احیاء کا تو اب اس میں ریاستی سطح پر مرکز میں اقتدار اور وزارت عظمیٰ کے اتنے دعویدار کھڑے ہوگئے ہیں کہ ہر کوشش اوپر سے تو مستحکم دکھائی دیتی ہے پر اندر سے کھوکھلی اور خالی خول کی طرح ہی اپنا وجود رکھتی ہے۔ کانگریس کی کامیابیاں اپنی کم اور حواریوں کے ووٹ کی منتقلی کا زیادہ نتیجہ ہیں۔ ان کی سیاسی مقبولیت وزمین میں بہتری آئی ہے۔ اس سے انکار نہیں! یہ ذہن میں رکھیں کہ آج بھی 21.40 فیصد ووٹ کے ساتھ کانگریس اپوزیشن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جس کی اصل قیادت راہل گاندھی ہیں۔ وہ جب تک وزیراعظم کی امیدواری کے اپوزیشن کی طرف سے متفقہ امیدوار نہیں بنائے جاتے سیکولر سیاست کا احیاء اب آسان نہیں! غیر مشروط ایک قومی قائد پر اتفاق رائے کے بغیر سیکولر سیاست اسی طرح ہچکولے کھاتی رہے گی۔

دوسرے ریاستی سیاست اور انتخابات کی زمین قومی سیاست اور عام انتخابات سے بڑی حد تک مختلف ومنفرد ہوتی ہے۔ فی الوقت دو ریاستوں مہاراشٹر جس کی قومی سیاست میں مالی اور تجارتی اعتبار سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہے وہاں اور جھارکھنڈ جو آدیواسی سیاست میں مرکزی کردار کی حامل ریاست ہے۔ ان کے ساتھ نو اسمبلی سیٹوں پر اتر پردیش میں ضمنی انتخابات بھی ہوئے۔ سب کے اپنے اپنے معنی اور پیغام ہیں۔ مہاراشٹر کے انتخاب میں اپوزیشن جس حد تک منتشر اور آپسی رسہ کشی کا اپنے کو شکار کرسکتی تھی اس میں اس نے کوئیکسر نہیں چھوڑی۔ نہ کوئی بلند قدریاستی لیڈر، نہ کوئی مشترکہ حکمت عملی اور نہ ہی مسلم سیاست کو سرگرم رکھنے کی جدوجہد۔ ان حد ود دقیود کے ساتھ میدان میں اتر نا، پھر مثبت توقعات کا بھی باندھنا، انجام تو یہی ہونا تھا؟ سنجیدہ تجزیہ باور کراتا ہے کہ اگر ادھوٹھاکرے کو وزیراعلیٰ کا امیدوار بناکر سب ایمانداری سے ان کے پیچھے کھڑے ہوتے تو نتائج انتے برے اور حوصلہ شگن نہ ہوتے۔ اتر پردیش ضمنی انتخابات کے نتائج وزیراعلیٰ یوگی کے لئے زبردست کامیابی اور سیکولر سیاست کے لئے آخری تنبیہ و اشاریہ یہاں مسلم اکثریتی اسمبلی حلقے کندر کی میں مسلمانوں نے بی جے پی امیدوار کی یکطرفہ حمایت کرکے اس کو ایک لاکھ 40 ہزار دونوں سے جتا کر بھی ایک پیغام دیاہے۔

جہاں تک مہاراشٹر میں بی جے پی اور اتحادیوں کی حکمت عملی کا تعلق ہے اس میں کوئی ابہام نہ تھا۔ سابق وزیراعلیٰ مہاراشٹر فڑنویس کو جو تحفہ عظیم ایک محترم عالم دین سے حاصل ہو ا، اس کو ایک عام انتخابی جلسے میں نشر کرکے ریاست کے بڑے ہندو طبقے کو جوپیغام دیا گیا اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ مت بھولیں ہندوستانی سیاست میں ہندو کے نام پر ماضی میں جب ووٹ مانگے جاتے تھے تو ہندو ہی اس کو نامنظور کردیتا تھا، مگر ہماری غلط سیاسی حکمت عملی، بے جان اپیلوں کی بھرمار، بے جابیان بازیاں،ملی اتحاد کی چیخ وپکار او ربی جے پی کو سیدھا مخالف اور دشمن قرار دینے کے کردار سے جو مقبولیت اسے حاصل ہوئی اس کے سبق کب پڑھے جائیں گئے؟ سیاست میں مخالفت ہو مخاصمت نہیں۔ ان انتخابات میں اس ملی شعور سے جو عام انتخابات میں بی جے پی کو نقصان پہنچا تھا اس کی بھرپائی کا فریضہ ہمدردان ملت نے اپنے جنون و جذباتی بیانوں سے پورا کردیا۔ جھارکھنڈ کے نتائج مستقبل میں سیکولر سیاست کے لئے ایک مثبت اشاریہ ہیں۔

تیسرا پہلو ملی تناظر سے تعلق رکھتا ہے تھوڑا سا پہلے پیچھے لے جاؤنگا تاکہ آج اور کل کو سمجھنا آسان ہوسکے۔ 2014 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کے قومی ترجمان اونیش اپادھیائے کے مطابق بی جے پی نے 32 لوک سبھا سیٹیں مسلم سپورٹ سے جیتی تھیں۔ سی ایس ڈی ایس سروے کے مطابق 1998/1999 /2004/2009 میں مسلمانوں نے تقریباً 7فیصد ووٹ بی جے پی اتحادیوں کو دیا،2014 میں 9/ فیصد اور 2024 میں یہ 10 فیصد۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم سماج کا اچھا خاصہ ووٹ بی جے پی کوجاتاہے۔ انتخابات کے نتائج تو دو اورتین فیصد تک سب الٹ پلٹ کردیتے ہیں۔ یہ بیانیہ کہ مسلمان بھاجپا کو ووٹ نہیں دیتا ایک دانستہ گڑھا ہوا بیانیہ ہے، اس سے شکست کھا جاتا ہے کہ بی جے پی بغیر مسلم حمایت کے اقتدار میں آرہی ہے۔ حالیہ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں مہایوتی اتحاد جس میں بی جے پی سب سے بڑی اتحادی جماعت تھی، اس کو 22 فیصد مسلم ووٹ ملا جب کہ عام انتخابات میں یہ 10فیصد ہی تھا۔ اب اپیلیں کتنی با اثر ہوتی ہیں، اس پربھی سوال کھڑا ہوتاہے۔ البتہ مخالف صفوں کو مضبوط کرنے پر ان اپیلوں کا کردار واضح ہے۔ مسلم اپیلیں عام مسلم نفسیات سے جڑی ہوتی ہیں۔ اس کا کریڈٹ لینے والے بہت ہیں۔ نیا تجربہ حقیقت کھول دیتا ہے۔ یہ درست مفروضہ ہے کہ واضح مسلم اکثریت بی جے پی کی مخالفت نفرت کی حد تک کرتی ہے۔ اس کے خلاف ووٹ کو دین کا ووٹ تک قرار دے دیتی ہے، اس کے نمائندوں کو ہرانا اپنا بنیادی ہدف رکھتی ہے۔عموماً مسلم اکثریت قومی وریاستی سیکولر سیاسی جماعتوں کو ہی ووٹ دیتی آئی ہے۔ خالص بی جے پی مخالف اورمسلم نواز سیاسی زاویے اب تک ملت کے لئے خود کش ہی ثابت ہوئے ہیں۔ گزارشات: بی جے پی کو ہراتے ہراتے آپ حاشئے پر آگئے۔

ادھر سیکولر سیاست بھی آپ سے پلہ جھاڑ رہی ہے۔ کیا اس پر تجزیے اور مکالمے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ دوسرے بی جے پی کی کامیابی او رمقبولیت میں آپ کی بیان بازیوں، شعلہ بیانیوں،دھمکیوں اور سیدھے ٹکراؤ کاکوئی کردار ہے، اگر ہے تو اس حوالے سے کیا کوئی نئی فکر درکار ہے؟ تیسر ی بحیثیت ایک ایسی اقلیت کہ جس کے ارد گرد دونوں نظریات کی سیاست گشت کرتی اور متعلقہ نتائج نکالتی ہے، اس میں من حیث و حدت آپ کہاں کھڑے ہیں؟ تنہا رہ گئے ہیں یا کوئی آپ کے گردونواح میں اعتبار او راعتماد کے قابل بچاہے۔ ایک بات جو بڑی ذمہ داری سے کہنا چاہتاہوں وہ نظریہ ہندوتو اور ہندو راشٹر واد جس کی گرفت میں آج اکثریتی نفسیات جکڑی جاچکی ہے وہ سات دہائیوں کی محنت کا ثمرہ ہے۔ اتنی جلد اگلی تبدیلی نہیں آیا کرتی، وقت لگتا ہے کبھی دہائیاں او رکبھی اس سے بھی زیادہ!

آخر میں مؤدبانہ عرض ہے کہ بے جا جذباتیت پرمبنی یکطرفہ سیاست اور رائے زنی نے مسلمانان ہند کو کس دلدل میں پھنسا دیاہے اور وہ پھنستے ہی چلے جارہے ہیں قابل غور ہے۔ انتخابات گزرچکے۔ یہ بات میں اب کررہا ہوں سنجیدہ غور وفکر کاوقت یہی ہوتاہے۔ تھوڑی بات فقہی و دینی بھی کرلی جائے ہماری روایت منافقین سے معاملہ فہمی کی کب رہی؟ کفارومشرکین وسیدھے دشمنوں سے ہمیشہ معاملات رہے۔ منافق کہتا کچھ ہے، کرتا کچھ ہے، بتاتا کچھ ہے، اس کا نکلتا کچھ ہے،نظر کچھ آتاہے او روہ دکھاتا کچھ اور ہی ہے۔ جس نہج پر حالات کی ابتری آپ کولے آئی ہے بنا بنیادی ذہنی ورزش وفکری گردش و گردان کے راہ کا تعین اب آسان نہیں۔

29 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/elections-national-state-communal-context/d/133884

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..