ابھے کمار
28 مئی، 2024
6 /مئی 1945 ء کو بمبئی میں واقع کل ہند درج ذیل فہرست ذات فیڈریشن
کی سالانہ تقریب میں بولتے ہوئے کمزور وں او رمحروم طبقات کے مسیحا بابا صاحب بھیم
راؤ امبیڈکر نے متنبہ کیا تھا کہ کسی بھی صورت میں ایک طبقے کو یہ اجازت نہیں ہونی
چاہئے کہ وہ کسی دوسرے طبقے پر اپنا تسلط تھوپے۔ انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے
ہوئے کہا کہ تعداد کی بنیاد پر اکثریتی طبقے کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اقلیتی طبقے پر اپنی رائے تھوپے،
انہوں نے مزیدکہا کہ اکثریت پر مبنی حکومت اصولاً درست نہیں ہے اور ایسی حکومت
عملاً بھی صحیح نہیں ہے، مگر اکثریت پر مبنی حکومت اس معنیٰ میں قابل قبول ہوسکتی
ہے،جب وہ نسبتی (Relative) ہو۔ ایسی حکومت جو مطلق (Absolute) بن جائے، وہ قابل
قبول ہر گز نہیں ہے۔ امبیڈکر کے مذکورہ بالا جملے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ
جمہوری نظام میں اکثریتی ووٹ حکومت سازی میں کلیدی رول ادا کرتاہے اور صرف اقلیتی
ووٹ بنیاد پر کبھی بھی حکومت نہیں بن سکتی۔ مگر اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ
اکثریتی طبقہ اپنے ووٹ او راپنی تعداد کی بنیاد پر ایک مطلق العنان حکومت قائم کرے
اور اقلیتی طبقات کی حصہ داری او ران کی واجب نمائندگی کو نظر انداز کردے۔ تبھی تو
امبیڈکر نے صاف لفظوں میں کہا کہ یہ کبھی نہیں سوچنا چاہئے کہ اکثریت پر مبنی
حکومت مقدس (Sacrosanct) ہے اور اس پر کوئی سوا ل نہیں اٹھا سکتا۔ آزادی کے وقت ہند و
مسلم مسائل کو وہ اسی سیاق میں دیکھتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ ملک کی تقسیم روکی
جاسکتی ہے اگر ایک ایسی حکومت تشکیل دی جائے، جہاں اقلیتی طبقات کے مفادات کو پس
پشت نہ ڈالا جائے۔
اقلیتوں کی گھٹتی ہوئی
نمائندگی کو سمجھنے او را س کا حل تلاش کرنے میں امبیڈکر کا مذکوہ سیاسی فلسفہ
کافی اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ آزادی کے 75 سال گزرجانے کے بعد بھی
حالات بدلتے نظر نہیں آرہے ہیں اور اقلیتوں کو پالیسی سازی سے مزید بے دخل کیا
جارہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جب بی جے پی کی بالا دستی ہندوستانی سیاست میں بڑھ گئی ہے،
تب سے مسلم اقلیت کا نام لینا بھی گناہ ہوگیا ہے۔ نریندر مودی کے اقتدار کی کرسی
پر بیٹھنے سے پہلے بھی، سابقہ حکومتوں نے مسلمانوں کی حق تلفی کی تھی، مگر کم از
کم وہ علامتی طور پر انہیں یاد کرتے تھے۔ آج یہ سلسلہ بھی وزیراعظم مودی کے آنے کے بعد ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہندوتو کے
سیاسی عروج کا اثر یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی نرم ہندوتو کی راہ پر چل رہی ہیں۔
وہ بھی اپنے انتخابی منشور سے مسلمانوں کا نام کاٹ کر باہر کررہی ہیں۔ سیاسی
ریلیوں سے سیکولر لیڈر بھی خود کو سب سے بڑا ہندو ثابت کرنے کی ہر کوشش کررہے ہیں۔
ملک کی سب سے پرانی اورگاندھی او رنہرو کی قیادت والی کانگریس نے بھی مسلمانوں کا
نام اپنے انتخابی منشور میں ایک دفعہ بھی نہیں لیا ہے۔
انگریزی کے مشہور اخبار
’انڈین اکسپریس‘ میں 19 مئی کے روز ایک اہم خبریں شائع ہوئی تھی جس میں گزشتہ تین
عام انتخابات کا تجزیہ کیا گیا تھا۔رپورٹ میں الیکشن کمیشن سے لیے گئے اعداد وشمار
کی بنیاد پر کہا گیا کہ مسلمانوں کو ٹکٹ نہ دینے میں تمام بڑی قومی پارٹیاں شامل
ہیں۔رپورٹ سے اس تصور کو مزید تقویت ملی کہ بی جے پی مسلمانوں کو سیاسی طور پر الگ
تھلگ کرنے میں سب سے آگے ہے۔ اس بار وہ 440 نشستوں پر انتخابات لڑرہی ہے،مگر اس نے
صرف ایک ہی ٹکٹ مسلمانوں کو دیا ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد ہے، اس طرح ان کو
کم از کم 61سیٹیں ملنی چاہئے تھیں۔ مگر بی جے پی نے ان کو صرف ایک ہی سیٹ دی ہے او
روہ بھی کیرلا سے، جہاں بی جے پی بہت ہی کمزور ہے۔ یادر ہے کہ کیرلا کے ملا پورم
میں مسلم آبادی 70/ فیصد کے آس پاس ہے۔ بی جے پی نے وہاں سے ایم عبدالسلام کو اپنا
امیدوار بنایاہے۔ مگر ان کو بھی بی جے پی میں امتیازات جھیلنے پڑے ہیں۔ مثال کے
طور پر،19/مارچ کو نریندر مودی جب کیرلا کے پالکڑ میں روڈ شو کررہے تھے، تو اس روڈ
شو میں عبدالسلام کو شامل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حزب اختلاف کا یہ الزام ہے
کہ عبدالسلام کو پہلے ریلی میں جانے کی اجازت تھی، مگر آخری وقت پر ان کو روک دیا
گیا کیونکہ وہ مسلمان ہیں او ربھگوا جماعت کو اس بات کا خدشہ تھا کہ ان کی ریلی
میں شمولیت ان کے شدت پسند حامیوں کو ناگوار گزرسکتی تھی۔
بی جے پی مسلمانوں کو ٹکٹ
نہیں دینے کے علاوہ بھی بہت کچھ کررہی ہے۔ بھگوا جماعت کی پوری انتخابی تشہیر
مسلمانوں کو نشانہ بنا کر کی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں بی جے پی نے خود کو پسماندہ
مسلمانوں کا سب سے بڑا حامی ہونے کے دعویٰ کیا تھا۔ مگر اس نے پسماندہ مسلمانوں کو
بھی نمائندگی نہیں دی۔ بی جے پی کی طرف سے یہ بھی پروپیگنڈا ہوتا رہا ہے کہ وہ
مسلم خواتین کی سب سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس نے بڑی تعداد میں مسلم
خواتین کو ٹکٹ کیوں نہیں دیا؟ بی جے پی کی کھوکھلی سیاست کا عالم یہ ہے کہ وہ چار
سو سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کررہی ہے، وہیں وہ 17 / کروڑ سے بڑی مسلم آبادی
کو صرف ایک ہی ٹکٹ دے رہی ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کو 14/فیصد حصہ داری
ملنی چاہئے، مگر بی جے پی نے ان کو ایک فیصد کے چوتھائی حصہ سے بھی کم نمائندگی دی
ہے۔ حالانکہ 2019 ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے 3/مسلم امیدواروں کو
الیکشن میں اتارا تھا، جو 2014ء میں اس کے 7/ مسلم امیدوار وں سے 4/کم تھا۔ تضاد
دیکھئے کہ جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کے بارے میں دن رات قصیدہ خوانی
ہوتی ہے او ران کے کچھ بھگت ان کو مہاتماگاندھی کے برابر لاکربیٹھا دیتے ہیں، وہی
لیڈر اپنی قیادت میں لڑے گئے دوعام انتخابات کے دوران واحد مسلم امیدوار کو لوک
سبھا بھیجنے میں ناکام ثابت ہوجاتا ہے۔
سیکولر جماعتیں بھی مسلم
نمائندگی کے سوال پر کچھ نہیں بول رہی ہیں۔ حالانکہ سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو
کچھ ٹکٹ دیئے ہیں، مگر وہ کہیں سے بھی ان کی آبادی سے مناسب نہیں ہے۔ تشویش کی بات
یہ ہے کہ سیکولر پارٹیوں نے بھی سابقہ الیکشن کے مقابلے اس بار کم تعداد میں
مسلمانوں کو میدان میں اتارا ہے۔ جہاں سال 2019 ء میں کانگریس، سماجوادی پارٹی، ٹی
ایم سی، آر جے ڈی، این سی پی او رسی پی ایم نے کل 115/ سیٹیں مسلمانوں کو دی تھیں،
جو اس با رکم ہوکر 78/ پر آگئی ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں اس بار
مسلمانوں کو سیٹیں 32/ فیصد کم ملی ہیں۔ کانگریس نے 2014 ء میں 44/ مسلمانوں کو
ٹکٹ دیا تھا، اس بار اس نے صرف 19 /مسلم امیدواروں کو میدان میں اتاراہے۔ گزشتہ
پارلیمانی انتخابات میں سماجوادی پارٹی نے 8، آر جے ڈی نے 15 اور بی ایس پی نے 39
مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا، مگر اس بار انہوں نے بھی مسلمانوں کی سیٹ کاٹی ہے۔ اس
بار سماجوادی پارٹی نے صرف 4، آرجے ڈی نے 2 اور بی ایس پی نے 35/مسلمانوں کو ہی
ٹکٹ دیا ہے۔ سی پی آئی او رڈی ایم کے نے تو ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا، جب کہ
ان کے لیڈرسیکولر زم پر تقریر کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس طرح کی حرکتیں بتاتی ہیں کہ ہمارے انتخابی
نظام میں اقلیتوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے اور تعداد،پیسہ اور طاقت کے زور پر
نتائج پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ انہی باتوں کو لے کر بابا صاحب امبیڈکر نے ہمیں بہت
پہلے خبر دار کیا تھا او رکہا تھا کہ جمہوریت ہجوم پر مبنی نظام نہیں ہے۔
اقلیتوں،کمزوروں، محروم طبقات،دبے کچلے غریبوں، خواتین اور مزدوروں کو متناسب او
رموثر نمائندگی فراہم کیے بغیر،جمہوریت مضبوط نہیں ہوسکتی۔
28 مئی،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism