ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
30 مارچ 2025
تہوار ہر سماج کی خوشی کا آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ تہواروں کی روایت دنیا کے تمام معاشروں میں ملتی ہے ۔ عہد قدیم سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سال بھر میں ایک یا ایک سے زیادہ دن ایسے ہونے چاہئیں جن میں لوگ روز مرہ کاروبارِ حیات کومعطل کرکے عمدہ لباس پہن کر کسی مرکزی جگہ اکٹھے ہوں اور مختلف تقریبات منعقد کرکے اپنی حیثیت و شوکت کی نمائش کریں۔ تہواروں کو معاشروں میں مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے اور تاریخ و دن کاتعین قوموں نے اپنی تاریخ کے اہم واقعات کی یادتازہ رکھنے کے لیےبھی کیا ہے۔
آج بھی دنیا کے تمام طبقات سال میں ایک مرتبہ ضرور کسی نہ کسی موقع پر خوشی مناتے ہیں ۔
اسلام دین فطرت ہے لہٰذا اس نے بھی اپنے نام لیواؤں کے فطری تقاضوں کوپورا کرنے کے لیے خوشی و مسرت کے دو تہوار عنایت کیے ہیں جن کو عربی میں عید کے لفظ سے تعبیر کیا جاتاہے اور وہ ہیں عید الفطر اور عید الاضحی۔ ان اسلامی تہواروں کی اپنی جداگانہ اور امتیازی شان ہے۔
جہاں تک عید الفطر کا تعلق ہے تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ تہوار مسلمانوں کو عزم و استقلال اور اعتدال و توازن ، صبر و تحمل جیسی تعلیمات سے ہم کنار کراتا ہے ۔ وہیں اس بات کا بھی احساس دلاتا ہے کہ ایک مہینہ روزے رکھے ،اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ، اس دوران بھوک ،پیاس کا جو احساس ہوا وہ اس بات کی علامت ہے کہ رمضان کا مبارک مہینہ میں سماج کے ناداروں کا احساس دل میں جاگزیں ہو جائے ۔ جب ہم افطار کرنے دسترخوان پر بیٹھیں تو جائزہ لیں کہ ہمارے پڑوس میں کوئی ایسا گھر تو نہیں جو معاشی مشکلات سے دوچار ہو۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے اہل و عیال کو پیٹ بھر کھانا نہ کھلا سکے ۔
روزہ دار کو اگر اس بات کا احساس نہیں ہورہا ہے کہ پڑوسی بھوکا ہے ، تو پھر اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کے روزے میں اسلامی قدروں کا خیال نہیں رکھا گیا ہے ۔ اخلاقی و روحانی قدروں کے فروغ کے ساتھ ساتھ سماجی تقاضوں کی تکمیل کا نام روزہ اور عید ہے ۔
سچ بات یہ ہے کہ قومی و عالمی تہواروں کے تکثیری سماج پر بڑے دور رس اور دیر پا اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن میں اخلاقی اور روحانی قدروں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انسانیت کی ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ اسلام نے تہواروں کو محض عیش و طرب کا نمونہ نہیں رکھا جو کہ اخلاقی قدروں کو بہا لے جائے اور انسان کے روحانی تقاضوں سے متصادم ہو،بلکہ ان میں عبادت کے ایسے پرجوش مظاہر رکھے ہیں ، جو روحانیت وللہیت اور صدق وخلوص کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اسلامی حدود و قیود کے ساتھ منائی جانے والی عیدیں غلیظ طبیعتوں میں خدا پرستی کے جذبات پیدا کرتی ہیں اور انسان کے جذبۂ عمل صالح کو مہمیز بخشتی ہیں۔ باطنی صفائی کے ساتھ تہواروں میں ظاہری طہارت کا بھی منظر نظر آتا ہے ۔ اتحاد ویگانگت اسلامی تہواروں میں اجتماع کے مظاہر وجوبی حیثیت رکھتے ہیں، نماز عید کو ’’بڑے مجمع‘‘کے ساتھ ادا کرنا واجب رکھا گیا ہے، ایک طرف یہ اجتماعی عبادت رحمتِ الٰہی کی توجہ کا باعث بنتی ہے تو دوسری طرف اسلامی معاشرے کے تمام طبقات کو اکٹھا ہونے اور اتحاد ویگانگت کے مظاہرہ کا سنہری موقع بھی بہم پہنچاتی ہے۔ عید الفطر اسلامی معاشرہ میں دنیابھر کے انسانوں کے ساتھ بھائی چارے ، یکجہتی اور محبت و مودّت کا شعور اُجاگر کرتی ہے۔ اسلامی تہوار محض انفرادی خوشی منانے کا نام نہیں ،بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی انجام دہی میں ایسی عبادتیں رکھ دی ہیں،جو ایثار وقربانی کا درس دیتی ہیں اور اسلامی معاشرہ میں اجتماعی خوشی منانے کے جذبہ کو مہمیز بخشتی ہیں، مثلاً عیدالفطر کی نماز سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان چھوٹے بڑے پر صدقہ فطر واجب قرار دیا ہے ،جو اسلامی معاشرہ کے ان غریب طبقات پر خرچ کیا جائے گا جن کے پاس ایسے مواقع پر خوشی کے اسباب اختیار کرنے کی وسعت وگنجائش یا تو ہوتی نہیں یا بہت محدود ہوتی ہے،تاکہ یہ طبقات احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں اور ان مقدس ایام میں اپنے اور اپنے بچوں کے واسطے کھانے پینے اور لباس کا مناسب بندوبست کر سکیں۔
گویا اسلامی تہوار عبادت ہی کی تکمیل کا انعام ہیں اور خود ان تہوارں میں بھی جانی ومالی عبادات کے مختلف مظاہر رکھے گئے ہیں، جو لوگ عام حالات کے اندر ذوقِ عبادت میں کوتاہ سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی ایسے اجتماعی مواقع پر ’’عبادت‘‘میں جوش وخروش دکھاتے ہیں اور اس کا کافی اہتمام کرتے ہیں۔ ان مواقع میں عبادات کا جوش واہتمام معاشرے میں دُعا و عبادت کا ذوق پیدا کرتا ہے۔ یہ اسلامی تہواروں کا ہی امتیاز ہے کہ خوشی و تفریح کے یہ مواقع دینی بیداری اور مذہبی میلان کا باعث بنتے ہیں اورمعاشرے میں مذہبی و دینی رجحانات کو جلا بخشتے ہیں۔ جو ملک و قوم اور سماج میں امن و امان کے قیام میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ خوشی کی آڑ میں اسراف و تبذیر اور تعیش کی ہر گز اجازت نہیں، کیونکہ ان چیزوں کا التزام خوشی کووبال میں بدل دیتا ہے اور معاشرے کے لا چار اور غریب طبقات میں احساسِ کمتری کا باعث بنتا ہے۔ اسلام نے خوشی کے ان مواقع میں سادگی و زہد و قناعت کا بنیادی اُصول بر قرار رکھا ہے، نئے لباس یا عمدہ و مہنگے کھانوں کا کوئی التزام نہیں،بس صاف ستھرا لباس پہننا مسنون ہے، اگرچہ پرانا ہو۔ اسلام کی تعلیم ہے کہ کھانے پینے میں بھی اپنی وسعت و گنجائش کو مدِ نظر رکھا جائے اور ان مادی اشیاء سے نفس کو طراوت بخشنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے استحضار اور ذکر وعبادت سے جی خوش کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال اور اظہار کوئی امرِ ممنوع نہیں ،مقصود یہ ہے کہ سادگی و قناعت کاجوہر ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے، ضروری راحت و آرام اور تسکین و تفریح کے سامان سے شرعی حدود میں رہ کر مستفید ہوا جائے ۔اسلامی تہوار معاشرے میں نجی اور انفرادی خوشی کے مواقع پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں اور یہ شعور اُجاگر کرتے ہیں کہ خوشی منانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی نعمتوں کو بے دریغ لٹایا اور ضائع کیا جائے، بلکہ ان کا شکر ہی خوشی کی اصل روح ہے۔
ہم بھارت میں رہتے ہیں گویا ایسے معاشرے میں جو رنگا رنگی ، تعدد اور تنوع میں ایمان و یقین رکھتا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہی وہ سر زمین ہے جس میں مختلف ادیان و مذاہب اور متعدد افکار و نظریات پائے جاتے ہیں ، اسی وجہ سے ہندوستانی سماج اپنے رسوم و روایات اور مذہب و دین کے اعتبار سے خوشیاں مناتے ہیں ، کبھی یہ شادمانی مذہب و دین کے حکم کی بنیاد پر ہوتی ہے تو کبھی یہ فرحت ، رسوم و رواج کی وجہ سے ادا کی جاتی ہے ۔ ہندوستان کے اس تہذیبی ، دینی اور روایتی کلچر میں ایک چیز مشترک ہے وہ ہے بلا تفریق مذہب و دین ، محبت بانٹا ۔ ہر کوئی اپنی خوشی اور تہوار کے موقع پر سعی کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ محبت کو عام کیا جائے۔ سماجی سطح پر ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ برعکس اس کے نفرت ، عداوت یا باہمی پرخاش کو معدوم کیا جائے تاکہ معاشرہ پر امن طریقے سے گزر بسر کرسکے ۔ یہ تمام باتیں اور سماج میں پائے جانے والے وہ عوامل جو باہمی رکھ رکھاؤ اور فکری توازن و یکجہتی کی تحریک پیدا کرتے ہیں ان سے ہندوستان جیسے ملک میں سیکولرزم مستحکم ہوتا ہے۔ جمہوریت کو تحفظ ملتا ہے۔ ہندوستان میں منائے جانے والے تہوار خواہ ان کا تعلق کسی بھی کمیونٹی ، قوم ، برادری اور مذہب و ملت سے ہو سب کا پس پردہ یہ پیغام ہے کہ زیادہ تر انسان دوستی اور سیکولر اقدار کا فروغ کیا جائے ۔
ارباب بصیرت اور اصحاب فکر اس بات سے بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ اس وقت ہندوستان جیسے تکثیری سماج کی خوبیوں ، اچھائیوں اور امتیازات کو مخصوص فکر کا حامل طبقہ تباہ و بر باد کردینا چاہتا ہے ۔ اس کے لیے وہ ہر روز نت نئے ہتھگنڈے اختیار کررہاہے ۔ منظم کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ فکری و نظریاتی طور پر اقلیتوں خصوصا مسلم اقلیت پر تشدد و زیادتی کرکے مفلوج کر نے کی پر زور سعی ہورہی ہے ۔ کھلم کھلا نفرت و عداوت کا درس بڑے بڑے اجتماعوں ، سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں دیا جارہاہے ،یہی نہیں بلکہ یہ طبقہ اپنے اس متشدد نظریہ پر فخر محسوس کر رہا ہے۔ ان کے اس عمل کو سد باب کرنے کے لیے ہم عید الفطر کے موقع پر محبت و دوستی کا اظہار کریں اور نفرت کے سوداگروں کو بتائیں کہ معاشرے کی ہمہ جہت تعمیر و ترقی اور عروج و اقبال کے لیے نفرت کی نہیں بلکہ محبت کی ضرورت ہے ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں وہی قومیں فلاح و بہبود پاتی ہیں جو اپنے وجود ، اپنی روایات ، اپنے کردارو عمل کو دوسروں کے لیے مثبت و متوازن بناکر پیش کرتی ہیں ۔ نفرت یا اس سے وابستہ کوئی کردار کتنا ہی خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کیا جائے اس کے اثرات مایوس کن اور متنفرانہ ہی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح عید الفطر کا ایک سماجی پہلو یہ بھی ہے کہ اس موقع پر ضرورت مندوں اور محتاجوں کا خیال رکھا جائے۔ ان کی مدد کی جائے ۔ آج دنیا بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ۔ ایجادات و اختراعات اور انکشافات نے جس درجہ ترقی کی ہے وہ اپنی جگہ مسلم ہے ۔ ان ایجادات نے جہاں سماجی اور معاشرتی سطح پر بہت ساری کامرانیاں حاصل کی ہیں اس کے باوجود سماج میں جو خلیج اور انسانی ہمدردی کا جذبہ سرد ہوا وہ نہایت قابل غور ہے ۔ علاوہ ازیں اسلام نے معاشرے کو جو تعلیمات وہدایات دی ہیں ان میں آج بھی سماجی اتحاد اور قومی ہم آہنگی کے عناصر پوری طرح پائے جاتے ہیں ۔ اسلام کا کوئی تہوار ہو یا پھر اسلامی تعلیمات کا کوئی جزو ان تمام کا لب لباب اور خلاصہ یہی ہے کہ سماج سے نفرت کو مٹادیا جائے ۔ اتحاد و یگانگت کو فروغ دیا جائے ۔
عید الفطر کے اس مبارک موقع پر اگر ہم اس کے تمام تقاضوں کو پورا کریں تویہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ معاشرہ پوری طرح امن کا گہوارہ بن جائے گا ۔
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/eid-al-fitr-pluralistic-society/d/135014
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism