سردار ناصر عزیز خان
17فروری،2025
انسان اپنی کم علمی، جہالت اور کمزوریوں کو چھپانے کے لیے اکثر ایسی باتوں کا سہارا لینے کی کوشش کرتا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آج صبح سویرے آنکھ کھلی تو سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ پر نظر پڑی، تو سوچا کہ اس پر کچھ تحریر کیا جائے۔ یاد رہے کہ گزشتہ شب یعنی 15 فروری کو اسلام آباد، اس کے ملحقہ علاقوں اور آزاد کشمیر میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ ایک شخص نے لکھا تھا: ”سوچو سوچو زلزلے کیوں آتے ہیں؟“ اور نیچے درج تھا: ”لوگوں کے برے اعمال کے سبب۔“ خیر، دیکھتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ اتنی سائنسی ترقی، تحقیق اور حقائق کی موجودگی میں بھی ضعیف الاعتقاد تحریریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ تو حقیقت ہے کہ جہالت ہر زمانے میں رہی ہے، لیکن سائنس کی تحقیق، تجربات اور انسان کی برسوں کی محنت نے ہمیشہ انسانی عقل و شعور کی آبیاری کی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ کیونکہ تبدیلی اور ارتقا کا رکنا ناممکن ہے۔ مطالعہ، علم اور تحقیق آپ کو اصل حقائق تک پہنچاتے ہیں اور دقیانوسی تصورات سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
جن ممالک نے جدید سائنسی علوم کی ترویج کی، علم و ادب اور تحقیق کو مقدم رکھا۔ انہوں نے ترقی کی معراج کو چھو لیا۔ جہاں علم، تحقیق اور جستجو پر توجہ نہیں دی گئی، وہاں یوں تو لوگ جدید آلات استعمال کرتے ہیں۔ جدید اسمارٹ فونز ہاتھوں میں لیے گھومتے ہیں، آرام دہ اور جدید آٹومیٹک لگژری گاڑیاں ان کے زیرِ استعمال ہیں، ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں، لیکن سوچ کا معیار آج بھی پتھر کے زمانے جیسا ہے۔ اس میں ان کا قصور شاید بہت کم ہے۔ سرمایہ دار کو اپنے مال کی کھپت کے لیے صارفین تو چاہئیں، لیکن ان کا باشعور ہونا لازم نہیں۔ اسی لیے عالمی سامراجی طاقتیں اور ان کے گماشتے اس بات سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ کہیں لوگ باشعور نہ ہو جائیں۔ اس کی ایک بہترین مثال ہمارے معاشرے کی ہے۔ آزاد کشمیر میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا نصاب تعلیم اور ذاتی پسند و ناپسند پر مبنی نظام مسلط کیا گیا ہے جو ڈگری ہولڈرز تو پیدا کر رہا ہے، لیکن ان میں پیشہ ورانہ تربیت اور صلاحیتیں نہیں ہیں۔
آزاد کشمیر میں صنعتوں کا نہ ہونا، روزگار کے مواقعوں کی کمی لوگوں کو ہجرت پر مجبور کرتی ہے۔ دیارِ غیر میں محنت مزدوری کر کے لوگوں نے پختہ مکانات بنا لیے ہیں، اپنی بساط سے زیادہ مہنگی اور جدید اشیا خرید لی ہیں اور اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی فیض یاب کیا ہے۔ لیکن چونکہ ہمارا نظام تعلیم عصرِ حاضر کے مطابق نہیں ہے، اسی لیے لوگوں میں شعور کی کمی، فلسفہ اور سائنسی علوم سے شناسائی نہیں ہے۔ جس ملک کا نظامِ تعلیم عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو، جہاں کتاب خریدنے کو فضول خرچی سمجھا جاتا ہو، وہاں کیسے ممکن ہے کہ لوگ فلسفہ اور جدید سائنسی علوم سے آگاہ ہوں؟ ایک طرف دنیا ہائپرسونک ٹیکنالوجی، اسٹیلتھ میزائلوں، پانچویں نسل کے ڈرونز اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہی ہے۔ اور دوسری جانب ہمارے ہاں ملک کے کرتا دھرتا چند نقاب پوش مسلح جتھوں کو گھوڑوں پر شہروں کا مارچ کروا کر نوجوانوں کو دنیا فتح کرنے کے خواب دکھاتے ہیں۔ اور کچھ سادہ لوح لوگ اسی خام خیالی کو سچ بھی مانتے ہیں۔
جو الیگزینڈر دی گریٹ (سکندر اعظم) کو اپنا ہم عقیدہ مانتے ہوں اور کہتے ہوں کہ ہمارے سکندر اعظم نے آدھی سے زیادہ دنیا فتح کر لی تھی۔ جس معاشرے میں کسی کو یہ کہنے پر کہ آپ بہت اچھے انسان ہیں کوئی خوشی نہ ملے، کسی کو بہت نیک، میٹھا پیارا انسان کہنے پر بھی بھڑک جائے۔ لیکن آپ شیر ہیں یا چیتے ہیں کہنے پر چہرے پر لالی اور تمتماہٹ چھا جائے، اور مارے خوشی کے اپنا سینہ چوڑا کر لے، وہاں پسماندگی اور جہالت کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ جو معاشرہ اکیسویں صدی میں بھی عورت کو برابر کا انسان سمجھنے سے کتراتا ہو، وہاں شیروں اور چیتوں کے القابات پر خوش ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ عورتوں نے تعلیمی میدان میں ان خودساختہ بہادروں اور دقیانوسی سوچ والوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
کرۂ ارض پر آنے والے زلزلے فطرت کے سب سے طاقتور مظاہر میں سے ہیں، جو ہماری زمین کی تشکیل میں سرگرم عمل ارضیاتی قوتوں کا نتیجہ ہیں۔ جہاں سائنس انہیں ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت سے جوڑتی ہے، وہیں مختلف ثقافتوں نے تاریخی طور پر انہیں مافوق الفطرت کہانیوں اور عقائد سے منسلک کیا ہے۔ یہ مضمون زلزلوں کی سائنسی وجوہات، مختلف خطوں میں پائے جانے والے افسانوی تصورات، جنوبی ایشیا اور خاص کر جموں و کشمیر جیسے خطرے کے شکار علاقوں کی صورتحال پر روشنی ڈالنے کی ایک سعی ہے۔
زمین کی بیرونی پرت (لیتھوسفیئر) کئی ٹکڑوں میں بنی ہوئی ہے، جنہیں ”ٹیکٹونک پلیٹیں“ کہا جاتا ہے۔ یہ پلیٹیں زمین کے نیم مائع اندرونی طبقے (ایستھینوسفیئر) پر تیرتی ہیں اور اپنی حرکت کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی، الگ ہوتی یا پھسلتی ہیں۔ ان کی حرکت کے تین اہم طریقے ہیں۔ نمبر ایک واگرتی سرحدیں : جہاں پلیٹیں ایک دوسرے سے دور ہوتی ہیں (جیسے بحرِ اوقیانوس کا پہاڑی سلسلہ) ۔ نمبر دو۔ تقابلی سرحدیں۔ جہاں پلیٹیں ٹکرا کر ایک دوسرے کے نیچے دھنس جاتی ہیں یا پہاڑی سلسلے بناتی ہیں (جیسے ہمالیہ) ۔ نمبر تین تبدیلی سرحدیں۔ جہاں پلیٹیں افقی طور پر پھسلتی ہیں (جیسے سان اینڈریاس فالٹ) ۔
ان سرحدوں پر دباؤ اور رگڑ کے جمع ہونے سے توانائی خارج ہوتی ہے، جو زمینی سطح کو ہلا کر زلزلے کا باعث بنتی ہے۔ زلزلے کا مرکز (فوکس) اور اس کا سطحی نقطہ (ایپی سینٹر) اس کی شدت اور اثرات طے کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں 90 % سے زائد زلزلے رِنگ آف فائر (بحرالکاہل کا علاقہ) اور الپائن۔ ہمالیہ بیلٹ میں آتے ہیں، جس میں جنوبی ایشیا بھی شامل ہے۔
زلزلے بنیادی طور پر ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کا نتیجہ ہیں، لیکن آتش فشاں پھٹنے یا انسانی سرگرمیوں (جیسے فریکنگ) سے بھی چھوٹے جھٹکے محسوس ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ زلزلوں کی صحیح وقت پر پیش گوئی ناممکن ہے، لیکن سائنس دان خطرے والے علاقوں اور تاریخی ڈیٹا کی بنیاد پر ”سیسمک گیپ“ (دباؤ جمع ہونے والے مقامات) کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جموں و کشمیر جیسے خطے، جہاں ہندوستانی اور یوریشیائی پلیٹیں مسلسل ٹکرا رہی ہیں، میں بڑے زلزلے کا خطرہ موجود ہے۔
تاریخ میں زلزلوں کو مختلف مذاہب اور تہذیبوں نے مافوق الفطرت قوتوں سے جوڑا ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں کشمیر میں یہ مشہور تھا کہ ہماری زمین کو ایک بیل نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھا ہے۔ جب وہ تھک جاتا ہے تو پھر زمین کو اپنے دوسرے سینگ سے اٹھاتا ہے۔ ایک سینگ سے دوسرے سینگ پر منتقلی کے دوران زمین پر زوردار جھٹکا یا زلزلہ آتا ہے۔ اسی طرح جاپان میں کہا جاتا ہے زمین کو ایک بہت بڑی مچھلی نامازُو کے اوپر قائم بتایا گیا ہے۔ جب یہ مچھلی حرکت کرتی ہے یا اپنی دم ہلاتی ہے تو زمین لرزنے لگتی ہے۔ ایک دیوتا کاشیما اس مچھلی کو قابو میں رکھتا ہے، لیکن جب وہ چوک جاتا ہے تو نامازُو کی حرکت زلزلے کا باعث بنتی ہے۔ یونانی اساطیر میں زلزلوں کو سمندر کے دیوتا پوسیڈون سے منسوب کیا جاتا تھا، جسے ”ارتھ شیکر“ بھی کہا جاتا تھا۔ جب پوسیڈون اپنے کانٹے دار نیزے کو زمین پر مارتا یا سمندر میں غصے میں ہلچل مچاتا تو زلزلے آتے۔ قدیم ہندوستان میں مشہور تھا کہ زمین کو ایک بڑے ہاتھی کی پشت پر کھڑا بتایا گیا، جو ایک کچھوے کے اوپر کھڑا ہوتا ہے۔ جب ہاتھی اپنی سونڈ یا پیر ہلاتا ہے، تو زمین لرز اٹھتی ہے۔ اسی طرح عرب و جنوبی ایشیا کے کچھ ممالک اور بعض دیہی علاقوں میں زلزلوں کو عذاب یا بداعمالیوں کی سزا قرار دیا جاتا ہے۔ جیسا سوشل میڈیا پر ایک موصوف نے لکھا تھا۔ اگرچہ یہ کہانیاں افسانوی ہیں، لیکن جدید دور میں ان کا سائنسی سوچ اور شعور کو کمزور کرنے میں کردار رہا ہے۔
قارئین محترم۔ ہندوستانی اور یوریشیائی پلیٹوں کے تصادم کے باعث جموں و کشمیر دنیا کے سب سے زیادہ زلزلہ خیز خطوں میں شامل ہے۔ 2005 ء کے کشمیر زلزلے ( 7.6 ریکٹر اسکیل) میں 80,000 سے زائد اموات نے اس خطے کی ناقص تعمیرات، زلزلوں سے معلومات کی کمی اور کسی بھی قسم کے حفاظتی انتظامات کی عدم موجودگی کو بے نقاب کیا۔ عالمی برادری کی جانب سے 6.2 ارب ڈالرز کی خطیر رقم زلزلے کے متاثرین کے لیے دی گئی، لیکن دو دہائیاں گزرنے کے باوجود متاثرین کی اکثریت کو امداد نہیں ملی۔ اربوں ڈالرز زلزلے کی امداد کے لیے بنائے گئے اداروں کے اہلکاروں کی بھاری بھرکم تنخواہوں اور کرپشن کی نذر ہو گئے۔ اور بغیر کسی منصوبے کے اکثر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہی تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے اوپر نئی تعمیرات کر دیں، جو مستقبل میں ایک اور بڑے سانحے کا باعث بن سکتا ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کا خطہ ”سیسمک زون V“ میں آتا ہے، جہاں سائنس دان مستقبل میں 8.0 + ریکٹر کے زلزلے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ اس کے لیے جدید سائنسی اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ گو کہ انسان کو فی الحال زلزلوں کو روکنے پر دسترس نہیں، لیکن زلزلوں کی تباہی کو کم کرنے اور انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں، جس کی بہترین مثال جاپان ہے۔ جہاں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں زلزلے آتے ہیں، جن میں اکثر شدید نوعیت کے ہوتے ہیں، لیکن جاپان نے زلزلہ پروف عمارتیں، پل اور سڑکیں تعمیر کر رکھی ہیں جنہیں زلزلے سے بہت کم نقصان پہنچتا ہے اور انسان بھی محفوظ رہتے ہیں۔ ایک بات گوش گزار کرتا چلوں کہ جاپان ایمانداری، اپنی اعلیٰ اقدار اور معیاری مصنوعات کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اگر اعمال کی سزا زلزلے ہوتے تو پھر شاید جاپان میں زلزلے نہ آتے۔ اور خاص کر بحر الکاہل میں کبھی کوئی زلزلہ نہ آتا کیونکہ مچھلیاں تو کم از کم گناہ اور ثواب سے مستثنیٰ ہیں۔
اس سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ زلزلے، آندھی، طوفان، سیلاب اور آتش فشاں کا پھٹنا کسی ناراضگی یا روحانی قوتوں کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ یہ قدرتی ارضیاتی عمل ہیں، جن کا مذہب یا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تصور کہ زلزلے اور دیگر قدرتی آفات صرف خاص موسم میں آتی ہیں، محض ایک وہم ہے۔ یہ آفات سال کے کسی بھی وقت وقوع پذیر ہو سکتی ہیں۔
یہ طے ہے کہ غیر سائنسی افسانوں کو مسترد کیے بغیر معاشروں کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔ جنوبی ایشیا جیسے خطے میں زلزلہ مزاحم عمارتوں کی تعمیر، عوامی بیداری مہمات، اور فوری ردعمل کے نظام کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ خاص طور پر جموں و کشمیر جیسے حساس علاقوں میں تمام رہائشی عمارتوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور پلوں کو جدید سائنسی معیارات کے مطابق اپ گریڈ کرنا ناگزیر ہے تاکہ مستقبل میں ممکنہ زلزلوں کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکے۔
زلزلے فطرت کا ایک اٹل حصہ ہیں، جنہیں سمجھنا اور ان سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار رہنا ہی دانشمندی ہے۔ جموں و کشمیر جیسے ثقافتی ورثے کے حامل خطے، اپنی روایات کو محفوظ رکھتے ہوئے، سائنسی شعور کے ذریعے موثر اقدامات کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیے : زلزلے زمین یا قدرت کی زبان ہیں، جو ہمیں اس کی متحرک ساخت کی مسلسل یاد دہانی کراتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس زبان کو سمجھیں اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سائنسی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کریں۔
ہمارے نصابِ تعلیم میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کی ضرورت ہے، جس میں جدید سائنسی تعلیم، فلسفہ، کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ارضیات، کاسمولوجی، گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے اہم مضامین شامل کیے جائیں۔ دقیانوسی تصورات اور افسانوی کہانیاں نہ صرف جہالت کو فروغ دیتی ہیں بلکہ مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کو بھی ہوا دیتی ہیں۔ ان رجحانات کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اور دوررس اقدامات ناگزیر ہیں کیونکہ معاشرے کی حقیقی اصلاح اور ترقی صرف جدید سائنسی علوم کے فروغ سے ہی ممکن ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم عقل و شعور کی شمع جلائیں، سائنسی تحقیق اور تعلیم کو فروغ دیں اور ایک روشن، محفوظ اور مستحکم مستقبل کی بنیاد رکھیں۔
17فروری،2025، بشکریہ: ہم سب ، پاکستان
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/earthquakes-scientific-myths/d/134659
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism