ڈاکٹر سید ظفر محمود
4 مارچ، 2013
قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت 70 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مفہوم:انہوں نے بنیادی طور پر دنیا کے تمام انسانوں کو عزت و منزلت سے نوازا ہے۔ اے لوگو ہم نے تمہارے کنبے اور قبیلے بنادئے تا کہ تم ایک دسرے کو پہچانو۔ اس طرح ایک طرف پروردگار نے بنی نوع انسان کو باہمی انفرادی قدر دانی کاحکم دیا اور دوسری طرف انسانوں کے مختلف طبقوں کو ایک دوسرے کے تئیں موافقت و تعظیم کی ہدایت دی ۔ ساتھ ہی قرآن مجید کی 12 سورتوں میں متعدد آیا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ کامیاب انفرادی و سماجی زندگی کے لئے اللہ کاپیغام مصلحت، حکمت اور مناسبت کی اہمیت سے معمور ہے۔ ان تینوں مسئلوں کے سلسلہ میں اللہ نے اپنے احکامات کو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اس کی اہمیت کے احاطہ کو پوری انسانیت اور تمام طبقات پر پھیلا دیا ہے۔
1947 میں ہمارے ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک کی تاریخ نمایاں طور پر بتاتی ہے کہ باقی تمام مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلہ میں مسلمان سماجی، تعلیمی اور اقتصادی طور پر بہت پیچھے ہیں۔ سچر کمیٹی اور مشر اکمیشن کی دستاویزی رپورٹوں کے آنے کے بعد اب کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ اس پسماندگی کی وجوہ ہیں : (i) 1950 سے ہی انتظامیہ کی ایک سازش کے تحت مسلمانوں کو حکمرانی اور تعلیمی اداروں کے 15 فیصد حصہ سے خارج کردیا جانا، (ii) انتخابی حلقوں کو جہاں مسلمان بڑی تعداد میں موجود ہیں (حالانکہ وہاں شیڈ ولڈ کا سٹ نہ ہونے کے برابر ہیں) شیڈ ولڈ کاسٹ کےلیے ریزرو کردیاجانا (iii) مسلمانوں کےساتھ ہر میدان میں مستقل تعصب کیا جانا، اور (iv) گنتی کے چند مسلم اشخاص کو دکھاوے کے طو ر پر حکمرانی کے گلیاروں میں یا اس کے آس پاس آنے جانے کی اجازت دینے کو کافی سمجھنا۔
پچھلے 65 برسوں میں مسلمانوں کو ان کے وجود کے منفی پہلوؤں میں الجھا ئے رکھا گیا ہے۔ مسلمانوں کا ووٹ ان کے تحفظ کی ضمانت کی بنیاد پر مانگا جانا ہے۔ دوسری طرف غیر مسلموں سے یہ کہہ کرووٹ مانگا جاتا ہے کہ اگر ہمیں ووٹ نہیں دیا تو مسلمان تمہیں بھسم کردیں گے۔ مسلمان کو غیر ملکی یا دہشت گرد قرار دینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ مسلم نوجوانوں کو سالہا سال تک جیل میں رکھ کر پھر عدالت میں ان کے خلاف جرم ثابت نہ ہونے کی صورت میں جیل سے آزاد کر کے اس کے بارے میں بالکل بھول جانا قومی ثقافت کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ اسکولی کتابوں میں بالواسطہ مسلمانوں کو نیچا دکھانا قومی نصاب کا زیر آب دھارا بن گیا ہے۔ غیر مسلم اکثریت کی نسل در نسل اسی قومی مزاج کے سائے میں پل کر جوان ہوتی ہیں۔ ان منصوبہ بند مسلسل دھاووں کو شکل میں جب ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی سالمیت اور اس کے وقار ہی روز مرّہ جگہ جگہ سوالات کھڑےکئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ملت مستقل اپنے بچاؤ میں لگی ہے تو وہ یکسوئی سے اپنی افزودگی اور تزئین کاری کی طرف کیسے دھیان دے سکتی ہے۔ اس سازش کے تحت چند طاقتیں ہندوستانی کبڈّی کے میدان میں مسلمانوں کے پالے میں گھس کر ان کو دفاعی کھیل کھیلنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہیں۔
اکیسویں صدی کے اوائل کے ہم مسلمانان ہند کی بڑی ذمہ داری ہے ۔ ہمیں اس مسلم مخالف قومی دھارا کے منفی رویوں کو مثبت بنانے کے لیے سوچ سمجھ کر اور موثر اقدام کرنے ہوں گے۔ اس کے لئے ہمیں تدبیر سے کام لینا ہوگا۔ 1950 کا صدارتی حکم نامہ جاری ہونے کے پیچھے سرکاری فائلوں میں کیے گئے طریقہ کارروائی کی تفصیل حکومت 2013 میں بھی حق اطلاعات قانون کے تحت مسلمانوں کو دینے کو تیار نہیں ہے۔ بڑی تعداد والے انتخابی حلقوں کو شیڈ ولڈ کاسٹ کے چنگل سے چھوڑ نے کے لیے بھی حکومت راضی نہیں ہے ۔ آئی پی ایس کے 1400 اضافی افسروں کے تعین کے لیے مسلمانوں کے لیے نقصان دہ محدود امتحان سے بھی دستکش ہونے کے لیے حکومت تیار نہیں ہے۔
ہم مسلمانان ہند کو ملک کی انتخابی سیاست میں پیادے کی چال چلتے ہوئے 65 برس ہوگئے ۔ اس چال میں ہمیں سنچری مارنے کا شوق ذہن میں بھی نہیں آنے دینا چاہئے ۔ ہم بری طرح فیل ہیں، ذلیل و خوار ہوچکے ہیں ۔ اپنی اگلی نسلوں کی سماجی زندگی سے ہمیں کھلواڑ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وقت آگیا ہے ملی حکمت عملی کا گیئر بدلنے کا ۔ ہمیں پیادے سےفرزیں بننا ہوگا۔
1950 میں ہمارے آئین نے ملک کی آبادی میں اہل وطن تک محدود 20 فیصد دلتوں کو اور بعد میں 42 فیصد دیگر پسماندہ طبقوں کو ریزرویشن ضرور دیا ۔ اس سے سماج کی عمیق گہرائی میں پڑی ملک کی اس قیمتی آبادی کی تعلیمی اور اقتصادی سطح ضرور اوپر آئی ہے، لیکن اس کی سماجی سطح میں ذرّہ برابر بھی بہتری نہیں ہوئی ہے۔ سماج میں اس کا مقام وہیں کا وہیں ہے۔ لہٰذا اندرونی طور پر وہ آزادی کے 65 برس بعد بھی زبردست کوفت، کرب، محرومی، بر طرفی و زوال کے پیچیدہ ذہنی الجھاؤ ( Complex) میں مبتلا ہے۔ غیر درج فہرست ذاتوں اور غیر پسماندہ طبقوں کے تصور و شعور یا تخمینی گوشوارہ میں شیڈ ولڈ کاسٹ اور پسماندہ لوگوں کے تئیں کوئی افزونی نہیں ہوئی ہے کیونکہ اس کے لیے کروڑوں لوگوں کو ہزارو ں برس پرانی ‘تہذیب’ کو بدلنا ہوگا۔ اس کے لیے اہل وطن کے ذہنوں میں ضروری تبدیلی لانے کے لیے 1950 کا پورا آئینی ڈھانچہ اور اس میں بعد کی تر میمات بھی کچھ نہیں کرسکیں ۔ اس کے لیے ہمارا آئین اور تفصیلی قانونی قاعدہ کیلا ئڈ و اسکوپ (Kaleidoscope ) نہ بن سکا یعنی کہ وہ کھلونا جس کو دائرہ میں گھما کر اس میں دیکھنے سے مختلف رنگوں کے مختلف خاکے نظر آنے لگتے ہیں۔
شیڈ ولڈ کاسٹ او رپسماندہ افراد کے سماجی ذہن میں اس تکلیف دہ خلا کو پر کرنے کے لیے ، اس پر مرہم لگانے کے لئے اور ان کے مجروح نفس کو راحت و تسکین فراہم کرنے کے لیے اُس انسانیت کے لیے رحمت لقب پانے والے صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تقریباً 1400 برس قبل غار حرا سے اتر کر ہم تک ایک نسخہ کیمیا پہنچا دیا ہے۔ غلامی کے خاتمہ کااعلان ہوگیا۔ مساوات کو سماجی تانے بانے کے محور کا درجہ مل گیا۔ تو کیا کیونکہ اکیسویں صدی میں ہم اپنے ملک کے باشندوں میں ذہنی انقلاب لے آئیں ۔ اس کام کے لیے کیو ں نہ ہم اپنے نسخہ کیمیا کا استعمال کریں اس طرح کیوں نہ ہم علامہ اقبال کی پیش گوئی کو سچ کر دکھائیں:
نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو پلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
ہمیں بنیادی اسلامی فرمان کو سمجھنا ہوگا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔ میں نے اس اہم مسئلہ پر شیڈ ولڈ کاسٹ لیڈ رادت راج صاحب سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ جسٹس مشرا کمیشن کی رپورٹ سے بالکل متفق ہیں کہ 1950 کے صدارتی حکم نامہ میں سے پیرا 3 کو نکال دیا جائے اور اس طرح شیڈ ولڈ کاسٹ کی تعریف میں سے مذہب کی قید ختم کردی جائے۔ انہو ںنے اپنا یہ عہد تحریری طور پر بھی پیش کردیا ہے۔ تو کیو ں نہ اپنے نسخہ کیمیا کا استعمال کر کے ہم اپنے ملک عزیز میں 65 برس پرانے مسلم مخالف چوپایے کو اس کی سینگوں سے ہی پکڑ کے اسے قابو میں کرلیں ۔ اس تعلق سے عیسائی رہنماؤں سے بھی گفتگو ہوئی ۔ وہ بھی 65 سال سےچلی آرہی اس محرومی سے بے حد نالاں ہیں اور اس مہم میں ہر طرح سے ساتھ دینے کو تیار ہیں ۔ اگر 1950 کے صدارتی حکم نامہ میں سے پیرا 3 نکال دیا جاتا ہے تو مسلمان نائی، مسلمان لوہار، مسلمان موچی وغیرہ کو وہی مراعات حاصل ہوجائیں گی جو غیر مسلم نائی ، غیر مسلم لوہار، غیر مسلم موچی وغیرہ کو پچھلے 65 برس سے حاصل ہیں یعنی کہ پارلیمنٹ ،اسمبلیوں ، ضلع پریشدوں ، پنچایت سمیتیوں اور گرام پنچایتوں میں وہ ریزر روڈ سیٹوں پرالیکشن لڑنے کے حقدار ہوں گے، ہر سال یوپی ایس سی کے سول سروس امتحان کے ذریعہ افسر شاہی میں شمولیت کے لیے ریزروڈ اسامیوں کے حقدار ہوں گے، تعلیمی اداروں میں داخلوں میں ریزروڈ سیٹوں کے وہ حقدار ہوں گے اور سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ تعمیر شدہ مکانوں کے الاٹمنٹ کیلئے بھی مسلمان حقدار ہوں گے۔
اس کے لیے ہم مسلمانان ہند کو بہتر مسلمان بننا ہوگا۔ ہمیں اپنی بینائی میں نگاہ شوق شریک کرنی ہوگی۔علامہ اقبال نے نگاہ شوق کہا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سےملاقات کے شوق کو ۔ غور کریں کہ اگر ہمیں روز قیامت اور اللہ سے ملاقات کا شوق ہوجائے یعنی کہ ہم اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شمولیت کا شوق اپنے اندر پیدا کرلیں تو ہم دنیا میں انسانیت کے حق میں کیا کیا کرسکتے ہیں۔ فی الحال ہمیں صرف اتنا کرنا ہے کہ ہم مسلمان آپس میں بھی اسلام کے پیغام مساوات پر عمل پیرا ہوجائیں اور ساتھ ہی ہم وطنوں میں پسماندہ طبقات کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھائیں، ان کے مجروح ذہنوں کو اپنی طرف سے جذبہ مساوات سے سرشار کریں۔اس طرح وہ ہمارے ساتھ شانہ بہ شانہ چل سکتے ہیں ۔ پھر ہم دونوں کی مشترکہ سیاسی طاقت (مردم شماری کے اعداد وشمار پر اکتفا کرتے ہوئے بھی ) 35.9 فیصد تک جاسکتی ہے۔ اس لیے ہمیں ان کی وہ قدردانی اور تعظیم کرنی ہے اور ان کے ساتھ مل کر اس مصلحت سےکام لینا ہے جس کی طرف اللہ نے قرآن کریم میں اشارہ کیا ہے۔
4 مارچ، 2013 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/muslims-play-positive-role-21st/d/11029