ڈاکٹر رشید احمد خاں
3 جون، 2014
برطانوی سراغ رساں ادارے سکاٹ لینڈ یارڈ نے ایم کیو ایم کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے مبینہ قاتلوں کے نام اور خاکے جارے کئے ہیں اور ساتھ ہی دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان کی اطلاع کے مطابق یہ دونوں ملزم پاکستان میں ہیں ۔ ان تک رسائی حاصل کرنے کےلئے برطانوی حکام پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔ قتل یا دہشت گردی جیسے جرائم کے مرتکب افراد کے پاکستان میں پائے جانے کے بارے میں یہ واحد یا پہلا الزام نہیں ہے اس کے علاوہ بھی اس ضمن میں کئی افراد کے نام لیے جاتے رہے ہیں ۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ تشدد اور دہشت گردی نہ تو ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور نہ ہی ہمارا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے ۔ ہماری دھرتی تورحمان بابا، میاں محمد بخش ، شاہ حسین ، سلطان باہو، بلھے شاہ، شہباز قلندر اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کے صلح کن اور محبت بھرے کلام سے گونجتی ہے ۔ پھر پاکستان پر دہشت گردوں اور قاتلوں کی پناہ گاہ ہونے کا الزام کیوں عائد کیا جاتا ہے۔ کیا یہ محبت بھرے کلام سے گونجتی ہے ۔ پھر پاکستان پر دہشت گردوں اور قاتلو ں کی پناہ گاہ ہونے کا الزام کیوں عائدکیا جاتا ہے۔ کیا یہ پاکستان دشمن حلقوں کی سوچی سمجھی سازش ہے جس کا مقصد ایک کو بدنام کرناہے یا واقعی ہم اپنے گردو پیش سے اتنےبے خبر ہیں یا بعض وجوہ کی بنا پر بے بس ہیں کہ یہاں جو بھی آئے اور جہاں سے بھی آئے ، بلا خوف و خطر اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے اور اپنی مذموم سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں آزاد ہے۔ نہ تو ان کیلئے سرحدوں پر روک تھام کاکوئی انتظام ہے اور نہ ہی ملک میں ان کی سرگرمیو ں پر نظر رکھی جاتی ہے ۔ نتیجہ کے طور پر قوم کو مختلف الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دنیا میں پاکستان کی پہچان بطور دہشت گردی کے مرکز (Epi-Centre of Terrorism) قائم کی جارہی ہے ۔ مثلاً ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کو یقین ہے کہ 1990 کی دہائی میں ممبئی میں بم دھماکوں میں ملوث داؤد ابراہیم نے پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔
مئی 2011 سے قبل غیر ملکی میڈیا میں چھپنے والی اطلاعات میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ دنیا کا سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد اسامہ بن لادن پاکستان میں چھپا ہوا ہے تو سرکاری حلقوں کی طرف سے پرُ زور تردید کی جاتی تھی ۔ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کا تو یہ دعویٰ تھا کہ اسامہ بن لادن گردوں کے مرض میں مبتلا ہوکر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوچکا ہے اور اس سلسلے میں کہا کرتے تھے کہ اسامہ کی طبعی موت کا انہیں سو فیصد نہیں بلکہ چار سو فیصد یقین ہے ۔ پھر اچانک ابیٹ آباد میں امریکہ کمانڈو آپریشن کی خبر آتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اسامہ تقریباً 9 سال سے پاکستان میں مقیم تھا، پھر بھی ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں سویلین او رملٹری قیادت اس سےآگاہ نہ تھی ۔ افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے بارے میں افغان اور امریکی حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان میں موجود ہے۔لیکن ہمارا دوٹوک جواب ہے کہ ملا عمر پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان کے اندر کسی مقام سے افغان طالبان کی کمان کررہے ہیں ۔
سب سے تشویش ناک وہ اطلاعات ہیں جو پاکستان کے قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی وزیر ستان میں غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں موصول ہورہی ہیں ، لیکن جب پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور اہم ٹھکانوں پر پاکستانی طالبان کے حملوں میں غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی بھی پائی گئی تو حکام نے پہلی مرتبہ معاملے کی نزاکت کو محسوس کیا ۔ غیر ملکی جنگجوؤں میں سب سے زیادہ ذکر ازبک جنگجوؤں کا کیا جاتا تھا جن کےبارے میں ابتدائی طور پر صرف یہ معلوم تھا کہ وہ القاعدہ کے حلیف ہیں اور افغان طالبان کے ساتھ مل کر امریکی اور نیٹو افواج پر حملے کرتے ہیں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اُز بک جنگجو از بکستان کی اسلامی تحریک کے اراکین ہیں جو ازبکستان میں حکومت مخالف کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں ۔ اسی طرح قبائلی علاقوں میں موجود غیر ملکی جنگجوؤں میں چیچنیا سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی موجود ہیں۔ چیچنیا مسلم اکثریت کا حامل، روس کا ایک حصہ ہے جہاں گزشتہ ایک دہائی سے روس سے علیحدگی کی تحریک جاری ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کے خلاف سر گرم عمل جنگجوؤں کی موجودگی کو پاکستان کی سرزمین پر نہ صرف برداشت کیا جاتاہے بلکہ انہیں کارروائیاں جاری رکھنے کی تمام سہولتیں حاصل ہیں۔
دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود اگر پاکستان اور وسط ایشیائی ملکوں کے درمیانی قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہوسکے تو اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی سرزمین پر ان جنگجوؤں کی موجودگی اور انہیں اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کی کھلی چھٹی ہے۔
اس ضمن میں چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ چین کے مغربی صوبہ سنگیانگ میں گزشتہ کئی برس سے علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں جاری ہیں ۔ چینی حکام کا الزام ہے کہ یہ علیحدگی پسند پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرکے گلگت بلتستان کے ساتھ ملنے والی چینی سرحد کو عبور کر کے سنگیانگ میں داخل ہوتے ہیں ۔ ایک سال قبل جب چینی وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلے پر خصوصی بات چیت ہوئی تھی ۔ چین کی طرف سے پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ دہشت گردی کے ان تربیتی اڈوں کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ پاک چین سر حد پر بھی کنٹرول سخت کرے۔ چنانچہ دونوں ملکوں میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت شمال میں پاک چین بارڈر پرکنٹرول منیجمنٹ کا ایک نظام قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا ۔ دونوں ملکوں نے سرحد کے آر پار آمد رفت پر کڑی نگاہ رکھنے کیلئے سرحدی چوکیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں سے مشترکہ طور پر سرحدی آمد رفت پر نگاہ رکھی جائے گی ۔ لیکن سنگیانگ میں تشدد آمیز کارروائیاں شدت اختیار کرتی جارہی ہیں ۔ چند دن پیشتر صوبائی دارلحکومت ارمچی میں پانچ خود کش حملوں کے نیتجے میں 31 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے ۔ چینی حکام نے کارروائی کرتےہوئے دہشت گردوں کے دو درجن گروپوں کے ارکان کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ جن سے اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں ۔ ان معلومات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سنگیانگ میں دہشت گردی میں ملوث ‘‘ایسٹ ترکمان اسلامک موومنٹ ( ETIM) ’’ نے پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیر ستان میں اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں سے وہ تربیت حاصل کر کے سنگیانگ میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں ۔
کچھ ذرائع کے مطابق 21 مئی کو شمالی وزیر ستان میں جنگجوؤں کے جن ٹھکانوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنا کر تباہ کر دیا تھا ان میں ETIM اور ازبکستان کے جنگجوؤں کی پناہ گاہیں بھی شامل تھیں ۔ ان فضائی حملوں میں پاکستان میں مقیم غیر ملکی جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو یقیناً نقصان پہنچا ہوگا لیکن مسئلے کے دیر پا اور مستقل حل کیلئے ہمیں ان کے بارے میں واضح اور دو ٹوک پالیسی اختیار کرنی چاہیئے ۔
3 جون 2014 بشکریہ : روز نامہ دنیا، پاکستان
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-terrorism-/d/87398