New Age Islam
Mon Nov 10 2025, 07:50 PM

Urdu Section ( 8 Oct 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Dream of Peace Will Remain Unfulfilled امن کا خواب ادھورا رہے گا

شاہ عالم اصلاحی

7 اکتوبر،2025

غزہ اور اہل فلسطین کے لیے ڈونالڈٹرمپ کے 20نکاتی ’امن منصوبہ‘ سے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی بحث چھڑگئی ہے۔منصوبے کو اسرائیل اور چندعرب ممالک کی حمایت حاصل ہے، لیکن خود فلسطینی عوام کی حق خودار ادیت کو سرے سے ٹھکرا دیا گیاہے۔امریکی صدر نے سی این این کے اینکر جیک ٹیپر سے گفتگو میں 20نکاتی جنگ بندی منصوبے پربات کرتے ہوئے کہا کہ اگر حماس اقتدار پرقائم رہنے کی کوشش کرے گی تو اسے مکمل طور پر نیست نابود کردیا جائے گا تو اس طرح کے کھلے عام دھمکی کے بعد اس منصوبے کوامن کی جانب مثبت قدم کیسے کہاجارہاہے۔جس کے سبب اندرونی ڈھانچے اور سیاسی محرکات کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہونا بدیہی ہے کہ کیا واقعی امن کی طرف پیش رفت ہے یا مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کومضبوط کرنے کی دیدہ ودانستہ کوشش ہے؟ اس منصوبے کے بنیادی نکات، ممکنہ اثرات، او ران پر کی جانے والی تنقید کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو منصوبے کا پس منظر 7اکتوبر 2023 ء سے ملتاہے جس دن حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد، اسرائیل نے غزہ پروسیع پیمانے پرفوجی کارروائی کا آغاز کیا۔دوسال کے اندر غزہ کو شدید تباہی کا سامنا کرنا پڑا، لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے، او ربنیادی ڈھانچہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ اسرائیل کامقصد حماس کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کرنا تھا، مگر تمام ترکارروائیوں کے باوجود حماس کو مکمل طور پر ختم نہیں کرسکا او رنہتے فلسطینی بچوں اور عورتوں کو ملبے کے ڈھیر میں دفنا کراپنی بالادستی کاچاروں طرف اعلان کررہاہے۔ایسے میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جوبظاہر جنگ بندی او رامن کی بحالی کی بات کرتاہے، لیکن کیا اس کی ساخت اور تفصیلات اسرائیلی مفادات کو تحفظ دیتی ہیں یا فلسطینی خود مختاری کو کمزور کرتی ہیں۔

منصوبے کی کلیدی شقوں کے مطابق حماس کی جانب سے تمام یرغمال کی رہائی کے بدلے اسرائیل فوری جنگ بندی کرے گا اور فلسطینی کو غزہ سے جبراً بے دخل نہیں کیاجائے گا۔ غزہ کو ایک بین الاقوامی ادارے کے تحت چلایا جائے گا، جس کی نگرانی ’بورڈ آف پیس‘ کرے گا جس کی صدارت خود ڈونالڈ ٹرمپ کریں گے۔غزہ میں سیکورٹی کے لیے ایک بین الاقوامی فوجی دستہ تعینات کیا جائے گا، جب کہ اسرائیلی افواج کو غزہ کے ارد گرد ’سیکورٹی پریمپٹر‘ قائم رکھنے کی اجازت ہوگی۔ حماس کواپنے مسلح ڈھانچے کو ختم کرناہوگا۔اس کے پاس سیاسی کردار کا کوئی واضح راستہ باقی نہیں رہتا۔ فلسطینی اتھارٹی میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنی ہوں گی۔ اصلاحات مکمل ہونے تک فلسطینی نمائندوں کو اعلیٰ سطحی فیصلہ سازی سے باہر رکھا جائے گا۔ اسرائیل او ربیشتر عرب ممالک نے اس منصوبے کو خوش آمدید کہاہے، خاص طور پراس لیے کہ یہ منصوبہ اس کی سیکورٹی کے مفادات سے ہم آہنگ ہے۔وزیر اعظم نتن یاہو کاکہناہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ اسرائیل کے جنگی اہداف سے مکمل مطابقت رکھتاہے۔کچھ خلیجی او رعرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اوربحرین نے اسے ’پیش رفت‘ قرار دیاہے۔ غالباً اس امید پر کہ اس سے علاقائی استحکام ممکن ہوگا۔ تاہم بڑے مسلم ممالک جیسے ایران اور ترکی کی جانب سے سخت تنقید سامنے آئی ہے،ان کاکہنا ہے کہ یہ منصوبہ فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرتاہے۔ فلسطینی موقف کی غیر موجودگی منصوبے کا سب سے متنازعہ پہلو یہ ہے کہ اس میں فلسطینی عوام یا ان کے کسی بھی نمائندے کی کوئی شمولیت نہیں۔یہ ایک بنیادی سفارتی اصول کی خلاف ورزی ہے کہ کسی بھی تنازعہ کے حل کے لئے تمام فریقوں کی شرکت ضروری ہوتی ہے۔ یہ منصوبہ فلسطینیوں پر زور زبردستی مسلط کیا جارہاہے، گویا انہیں محض امن کے ’اصول کنندہ‘ کے طور پر دیکھا جارہاہے،نہ کہ شراکت دار کے طور پر۔نئے طرز کی انتظامیہ منصوبے کے تحت غزہ کو ایک بین الاقوامی بورڈ کے تحت لانے اور وہاں غیر ملکی تعینات کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسرائیل اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھے گا، جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر او ربین الاقوامی قوانین کے تحت ایک متنازع اور تضاد پرمبنی عمل ہے۔ اس قسم کی انتظامیہ جدید دور کی ’نوآبادیاتی حکومت‘ کی یاد دلاتی ہے، جہاں ایک مقامی آبادی کو خود اپنی زمین پرفیصلو ں کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔

ٹرمپ کے منصوبے میں اہم مسئلہ دوریاستی حل یا فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی واضح ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ منصوبہ بنیادی مسئلیکو حل کرنے کی بجائے وقتی بندوبست پرتوجہ دی گئی ہے۔جب تک فلسطینیوں کو اپنی ریاست، سرحدوں اورخود مختاری کاحق نہیں دیاجاتا، تشدد،  zمزاحمت اورعدم استحکام کاسلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا چاہے حماس نہ بھی رہے۔ عملدار آمد کی غیر یقینی صورتحال کے منصوبہ میں نہ تو اصلاحات کیلئے کوئی ٹائم لائن دی گئی ہے، نہ ISF میں شامل ہونے والے ممالک کاذکر ہے اورنہ ہی کسی خود مختارنگراں ادارے کا تعین کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے عملی نفاذ پرشکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں۔

بالفرض اگرفلسطینی اتھارٹی اصلاحات میں ناکام رہتی ہے تو کیافلسطینی نمائندگی ہمیشہ کے لیے معطل رہے گی؟ اگر کوئی ملک آئی ایس ایف میں شامل ہونے سے انکار کرتاہے، توکیا فوجی توازن صرف اسرائیل کے حق رہے گا؟ سیاسی فوائد بمقابلہ انسانی مسائل ٹرمپ کایہ منصوبہ بظاہر امن کی کوشش ہے لیکن سیاسی تجزیہ نگار اسے 2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

دراصل ڈونالڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں امن کوششوں کے ذریعے اپنی خارجہ پالیسی کو کامیاب تربتانا چاہتے ہیں تاکہ اس سے اندرون ملک رائے دہندگان کو متاثر کیا جاسکے۔ دوسری جانب غزہ میں انسانی المیہ شدید تر ہوتا جارہاہے۔خوراک، پانی، ادویات اور بنیادی سہولیات کی شدید قلت ہے۔ اس منصوبے میں ان انسانی پہلوؤں کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔کیا یہ کہناغلط ہوگا کہ یہ امن کا یک طرفہ تصور ہی ہے جس میں اسرائیل کو سیکورٹی، سیاسی اور فوجی ضروریات کومرکزی حیثیت دی گئی ہے، جب کہ فلسطینیوں کی آزادی، زمین اور عزت نفس کاذکر محض الفاظ کی حد تک ہے جس سے حماس کی تحلیل او ر فلسطینی اتھارٹی کی ناکامی کے درمیان ایک خلا پیدا ہوگا، جس میں نیا سیاسی خلا یا انتہا پسند گروہ پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر فلسطینیوں کو سیاسی راستہ نہیں دیا جاتا تو مزاحمت کسی اور شکل میں جاری رہے گی۔ یہی 7اکتوبر 2023 ء کااہم مقصد ہے۔بین الاقوامی برادری اس منصوبے پرمنقسم ہے۔یورپی یونین، چین، اور روس نے ابھی تک اس کی کھل کر حمایت نہیں کیا۔ اقوام متحدہ میں اس پربحث ہورہی ہے، مگر اتفاق رائے کا فقدان ہے۔

مجموعی طور پر ٹرمپ کا 20نکاتی امن منصوبہ جنگ بندی، یرغمالوں کی رہائی اورفلسطینیوں کی بے دخلی کے بعد تحفظ جیسے اقدامات محض وقتی ریلیف پرمبنی ہے۔تاہم اس کی بنیادی ساخت او رطویل مدنی وژن فلسطینی عوام کی خود مختاری،عزت اور سیاسی نمائندگی کااطمینان بخش ذکر نہیں ہے۔ ایسے کسی بھی پر امن منصوبہ میں جب تک فلسطینیوں کو مساوی فریق کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا او رانہیں اپنے مستقبل کے فیصلوں میں شرکت کاحق نہیں دیا جاتا، امن کاخواب ادھورا رہے گا۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/dream-peace-remain-unfulfilled/d/137153

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..