ڈاکٹر طاہر بیگ
26 جون، 2013
ملک کے مسلم شہری جو، ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں، کے معاشی مسائل کے حوالے سے جس مسئلہ پر شدت سے توجہ مرکوز کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد ملک کے اقتصادی ترقیاتی عمل سے ، اور معیشت کے مرکزی دھارے سے یہ دوسری بڑی اکثریت لگاتا ر بے دخل ہوتی رہی ہے۔ یہی بے دخلی ، مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور معاشی پسماندگی کا بنیادی سبب بنی ہوئی ہے۔المیہ یہ ہے کہ جس طرح ایک جھولہ چھاپ ڈاکٹر، بخار کے اصل سبب کا سدباب کرنے کے بجائے ،بخار کو اتارنے کی دوا دیتا ہے ، اسی طرح ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے بیورو کریٹس ، اس دوسری اکثریت کی پسماندگی دور کرنے کے علاج تو تجویز کرتے ہیں، مگر اسے ملک کی ترقیاتی پیش رفتوں میں اس نوعیت کی حصہ داری دلانے کی طرف سے آنکھیں موند لیتے ہیں ، جو پہلی اکثریت کو مطلقاً حاصل ہیں۔ جو حقیقت سمجھنے اور زور دینے کی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کی معاشی با اختیاری کے مقصد سےمحض ‘‘ فلاحی اسکیمیں ’’ کافی نہیں ہیں ، بلکہ ‘‘ ترقیاتی منصوبوں اور پیکیجز ’’ نیز موزوں قسم کے ترقیاتی و مالیاتی اداروں کے قیام اور ان کے ذریعہ ، مسلمانوں کو ملک کے صنعتی و ٹیکنا لوجی ترقی کے دھارے میں شامل کرنا بہت ضروری ہے۔
ہمارے ملک کے باشندوں کو ترقیاتی تضاد کا سامنا ہے۔ اکیسویں صدی کی نمو د کے ساتھ ہمارا ملک افق عالم پر ایک پر وقار معاشی اور فوجی قوت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے ۔ تعلیم ، سائنس ، ٹیکنا لوجی کے میدانوں میں یوروپ کی ترقیاتی قوموں کے ساتھ کھڑا ہورہا ہے۔ خلاء اور چاند پر سیارے بھیجنے کی پوزیشن میں ہے۔ عالمی اقتصادی بحرانوں سے نجات کے لئے مغرب کی قومیں ، اب ہماری طرف بھی مدد کی امید لگاتی ہیں۔ دنیا کی اسٹیل انڈسٹری کا شہنشاہ متل ہمارے ملک کا باشندہ ہے۔ ہماراملک دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے، اور چند برسوں میں ہم دنیا کی تیسری بڑی معاشی قوت بننے والے ہیں۔ ان سب ترقیاتی کامیابیوں پر ہمیں ناز ہے۔ مگر اس خوشنما تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ یہ ہمارے ملک کی تصویر کا مایوس کن رخ ہے۔ یہ ہندوستان کے 25 کروڑ مسلم باشندوں کی تصویر ہے، جن میں پانچ کروڑ کے لگ بھگ اتر پردیش کے مسلمان بھی شامل ہیں۔ گوپال سنگھ پینل رپورٹ اور سچر کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹیں یہی تو ثابت کرتی ہیں کہ جب ہمارا ملک دنیا کی تیسری اقتصادی سپر پاور بننے جارہا ہے، تو مسلمانوں پر مشتمل ملک کی دوسری اکثریت پسماندگی کا شکار ہوگئی ہے۔
ملک کی ترقی کو پائیدار بنانے اور معیشت کو منصفانہ بنانے کی ہم سب کی ذمہ داری کے تحت اس ترقیاتی تضاد کو ختم کرنابہت ضروری ہے ۔ اور یہ تضاد محض ان فلاحی اسکیموں سے ممکن نہیں ہے، جنہیں سچر کمیٹی کی سفارشات کے حوالہ سے نافذ کیا جارہا ہے ۔ مسئلہ کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں ملک کی آزادی سے قبل، آزادی کےوقت، اور آزادی کے بعد کی قومی اقتصادی پیشر فتوں پر ضرور نظر ڈالنی چاہیئے ۔
جنگ عظیم اوّل کے نیتجہ میں ہندوستان کی معیشت میں برطانوی کمپنیوں کی اجارہ داری میں زوال آنا شروع ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی قومی معاشی با اختیاری کی ایک تحریک سی شروع ہوچکی تھی جس میں ٹاٹا،ڈالمیا، برلا، بانگور، جیپوریا ، گوئینکا ، وال چند ، کرم چند تھا پر ، مرارجی گوکل داس ، سورج مل نگر مل ، سری رام، جیسے درجنوں تجارتی گھرانے شامل تھے ۔1920 میں ہندوستانی کمپنیوں نے ملک کا پہلا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری قائم کرلیا ، اور سات سال بعد یعنی 1927 میں مہاتما گاندھی جی کی تاکید پر، جی ڈی برلا اورپروشوتم ٹھاکر جیسے چوٹی کے صنعت کاروں نے دیگر ہندوستانی تجارتی گھرانوں کو ساتھ لے کر فیڈ ریشن آف انڈین چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FICCI) قائم کردی تھی ۔ FICCI کے قیام کے محض 20 سال بعد ہی ہمارا ملک مکمل سیاسی با اختیاری اور آزادی سے ہمکنار ہوگیا ۔
ہندوستانی مسلمان ملک کی سیاسی آزادی کی تحریک میں پیش پیش تھے مگر ملک کی معاشی با اختیاری کی تحریک میں ان کی موجودگی نہیں کے برابر تھی ۔ قومی معیشت کے سب سے زیادہ اہم اور متحرک سیکٹروں میں ان کی نمائندگی انتہائی کم تھی ۔ ملک کے اہم بینکروں ، تاجروں اور صنعت کاروں میں مسلمان چند ایک ہی تھے ۔مغربی ہندوستان میں کاٹن کی پیداوار اور جہاز رانی کی صنعت جو تیزی سے پھیلتی صنعتیں تھیں، ان میں مسلمان ندارد تھے ۔ مشرقی ہندوستان میں، جہاں چائے باغات ، اور چائے کی پروسینگ دولت بنانے کی بڑی صنعتیں تھیں، مسلمان برائے نام ہی تھے ۔آزادی کے وقت ہندوستان میں ایک سو گیارہ جوٹ ملیں تھیں ، صرف ایک جوٹ مل، مسلمان کی تھی۔ اس وقت کی 80 سب سے بڑی کمپنیوں میں صرف ایک کمپنی ہی مسلمان کی تھی ۔821 شیڈ ولڈ بینکوں میں صرف ایک بینک مسلمانوں کا تھا، اور 621 نان شیڈ ولڈ بینکوں میں ایک بھی مسلم بینک نہیں تھا، 244 انشیو رینس کمپنیوں میں صرف تین ہی مسلمانوں کی تھیں۔
برٹش سامراجی حکومت نے ہندوستانی معیشت میں سرمایہ دارانہ طرز پر تجارتی گھرانوں کو فروغ دینے کے عمل سے مسلمانوں کو دشمنانہ حکمت عملی کے تحت دور رکھا ۔ مسلمانوں کے لئے ان کے پاس جو کچھ تھا وہ مسلمانوں کومعاشرہ میں پست ، ذلیل اور ناکارہ بنانے کا ایک طویل المیعاد منصوبہ تھا ۔ لارڈ ایلن بارڈ نے جنوری 1843 میں لارڈ ویلنگٹن کو اپنے خط میں تحریر کیا، اس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے : اس نے لکھا ‘‘ میں اس حقیقت سے آنکھیں بند نہیں کرسکتا کہ یہ قوم ( مسلمان) بنیادی طور پرہماری دشمن ہے۔ اس لئے ہماری صحیح پالیسی یہ ہے کہ ہندوؤں کو خوش کیا جائے’’ ( لالہ لاجپت رائے: ان ھیپی انڈیا صفحہ 400)
آزادی کےبعد ، ملک کی معاشی قوت، ملک کی پہلی اکثریت کی تجارتی برادریوں اور دیگر اونچی ذاتوں کے ہاتھوں میں ہی مرکوز رہی ۔ دستور ہند نے قومی قیادت اور اداروں پر ملک کو سماج وادی جمہوریہ بنانے کا فرض عائد کیا تھا۔ لہٰذا ملی جلی معیشت کا نظام تشکیل دینے کے لئے پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ بندی کے عمل کو اختیار کیا گیا۔ اس سے ایک مضبوط سرکاری اقتصادی سیکٹرتو وجود میں آیا، مگر معاشی قوت کا ارتکاز پہلی اکثریت کی او نچی ذاتوں میں نہ صرف قائم رہا ، بلکہ ملک کی اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا ۔ نجی سیکٹر میں بے لگام سرمایہ دارانہ نظام کی اجازت ، اور اکثریتی طبقہ میں ذاتوں کی پیشہ وارانہ نظام کی اجازت ، اور اکثریتی طبقہ میں ذاتوں کی پیشہ وارانہ تقسیم پر مبنی سماجی نظام کی موجودگی ، یہ وہ دو بنیادی عوامل ہیں جن کے رہتے ، ملک کے ترقیاتی عمل میں سب کے منصفانہ و مساویانہ شمولیت ناممکن ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی یہ خاصیت ہے کہ وہ دولت اور معاشی قوت کے ارتکا ز کو مستقل بڑھا تا رہتا ہے۔یہ اس ترقی کو پیدا نہیں کرتا جس میں سب کی شمولیت اور شراکت ہو۔ وہ امیر کو زیادہ اور امیر، اور غریب کو زیادہ غریب بناتا ہے۔ ملک کا سرمایہ دارانہ طبقہ، جو ہندو سماج کی اونچی ذاتوں پر ہی مشتمل ہے، سرمایہ دارانہ نظام کی خاصیت کے ذریعہ ملک کی کل دولت اور معاشی قوت کو اپنے ہاتھوں میں ہی مرکوز کئے جارہا ہے۔ پہلی اکثریت کی پسماندہ قوموں اور ان کے دلتوں کی قومی ترقیاتی عمل سے اور معاشی قوت کے دھارے سے اخراج قائم رہا ۔ اس اخراج کو ختم کرنے کے لئے او رانہیں ملکی ترقی میں شامل کرنے کے لئے ، سرکاری سیکٹر میں انہیں ریزرویشن دے دیا گیا ۔ اس کے ذریعہ وہ نجی سیکٹر کے صنعتی و تجارتی زمرہ میں اپنا کوئی قابل ذکر مقام تو نہ بنا سکے، مگر سرکاری سیکٹر میں حصہ داری کے ذریعہ ملک کے ترقیاتی عمل سے منسلک ہوگئے ۔ رفتہ رفتہ ملک کی تجارتی ، صنعتی و ٹیکنا لوجی ترقی میں اب دلت بھی شامل ہورہے ہیں۔
26 جون، 2013 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/backwardness-main-problem-muslims-/d/12388