ڈاکٹر سید مبین زہرا
12 دسمبر، 2014
اب دنیا میں اور خاص طور پر ہندو پاک میں امن کی راہیں مضبوط ہوتی چلی جائیں گی ۔ اگر آپ کا یہ سوچنا ہے کیلاش ستیارتھی او رملالہ یوسُف زئی کو نوبل امن ایوارڈ ملنے کے بعد تو آپ کو ایک بار پھر سوچنا پڑے گا ۔ یاد رکھئے کہ یہ ایوارڈ براک اوبامہ کوبھی مل چکا ہے ۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کے صدر ہیں ۔ اگر وہ چاہتے تو امریکہ کی پوری طاقت کا استعمال کر کے دنیا میں امن قائم کردیتے ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امن کا قیام طاقت سےنہیں بلکہ اس کے لئے تو زمانے کی سوچ بدلنےکا کام کرنا پڑے گا۔ ساتھ ہی دنیا بھر کی حکومتوں کو اس کے لئے راضی کرنا پڑے گا کہ وہ بازار دوست نہیں بلکہ عوام دوست پالیسیا ں ترتیب دیں ۔ یہ بات جو میں نے شروع میں کہہ دی اسے آخر میں کہنا چاہئے تھا کہ لیکن کبھی کبھی انتہاسے ابتدا کرنی پڑتی ہے۔ دنیا میں امن کے قیام کے لئے انتہا کی ہی ضرورت ہے۔ حکومتوں کو اپنی کوششوں میں انتہالانی پڑے گی تبھی ہم دنیا کو امن کے قریب جاتا دیکھ پائیں گے ورنہ نوبل کا امن ایوارڈ تو مدتوں سے دیا جارہاہے۔ مگر کیا دنیا میں امن و امان قائم ہوپایا ۔ کیا کوئی ملالہ یوسُف زئی جیسی بچیوں کو دہشت گردوں کے نشانے سے بچاپایا ۔ کیا دنیا بھر میں مختلف ممالک میں جاری انتشار سے ہورہے جانی اور مالی نقصان کو کوئی روک پایا۔
اس انتہا سے الگ مگر نوبل امن ایوارڈ کی تقریب میں ملالہ کی تقریر اچھی لگی ۔ وہ ستر ہ برس کی بچی کی طرح نہیں بلکہ کسی ملک کے سر براہ کی طرح اپنی تقریر کررہی تھی ۔ ملالہ نے اپنی تقریر میں اقوام متحدہ کے مختلف حوالے تک دئے ۔ دنیا بھر پر ایک پختہ ماہر اور رہنما کی طرح نگاہ ڈالی ۔ جو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ ایک ایسے ماحول میں جہاں خواتین کو دبا دیا جاتا رہا ہو او رانہیں تعلیم سے دور رکھنے کی سازش کی جاتی رہی ہو وہاں اگر تعلیم کی روشنی پہنچ جائے تو کسی بھی شخصیت میں کسی قدر بڑا بدلاؤ آسکتا ہے ۔ لیکن کیا ان کے ملک کے لوگ اس بدلاؤ کے لئے تیار ہیں ۔ ان کے ملک میں جس انداز سے خواتین کو تعلیم سے روکنے کی کوشش دہشت گردوں کی جانب سے ہوتی رہی ہےوہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ اس ملک میں ابھی بہت کچھ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ ملالہ یوسف زئی نے اپنی نوبل ایوارڈ کی رقم کا استعمال اپنے علاقہ سوات میں تعلیم کو فروغ دینے اور سیکنڈری اسکول بنانے کے لئے دینے کا ارادہ کیا ہے۔ مگر سوال یہی ہے کہ کیا وہاں پر کوئی او رملالہ کبھی بزدلوں کی گولیوں کا شکار نہیں ہوگی۔
ملالہ نے اپنی تقریر میں یہی کہا تھا کہ میرے پاس دو راستے تھے کہ یا تو خاموش رہ کر اپنے مارے جانے کا انتظار کرو یا پھر دوسرا راستہ یہ کہ پہلے بولو اور اس کے بعد مارے جاؤ۔ ملالہ نے کہا کہ میں دوسرا راستہ چنا ۔ یہی راستہ بہت مشکل تھا جس کی وجہ سے انہیں 9 اکتوبر، 2012 ء کو طالبانیوں نے گولی کا نشانہ بنا دیا۔ پوری دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب خواتین اپنی بات رکھتی ہیں تو وہ سماج جہاں عورت کو بولنا نہیں بلکہ چپ رہنا اور چپ رہ کر سب کچھ سکھا یا جاتا ہے۔ وہ سماج برداشت نہیں کرپاتا ۔ وہ عورت کو چپ کرانے کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کرتاہے ۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ کے پاس طالبان کی طرح رائفلیں یا بندوق ہی ہوں کبھی کبھی آپ اپنی زبان سے بھی عورت کو اتنازخمی کر دیتے ہیں کہ اس کا پورا وجود ایک درد بن کر اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ جہاں جہاں بھی آپ عورت کو اس کے حق سے دور کرتے ہیں، وہ حق جو اسے اس کےمذہب نے او رملک کے آئین نے دیا تب تب آپ اسی طالبانی ذہنیت کا اظہار کرتے ہیں جس نے ملالہ کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ اس کی آواز دبائی جا سکے۔ مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائے او رملالہ یوسف زئی ایک بلند آواز بن کر دنیا بھر میں گونجنے لگی ۔
مشکل یہ ہے کہ ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ہے ۔ ہم نے تحقیق کرنی بند کردی ہے۔ ہم نے مذہب کوبھی اتنا نہیں پڑھتے جتنا پڑھنا چاہئے بلکہ ضرورت کے مطابق صرف ان نکات کو دیکھتے ہیں جن سے ہماری بات مضبوط ہوجائے مگر اس کے ساتھ جڑی دوسری چیزوں پر بالکل نگا ہ نہیں ڈالتے۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تب ہم اپنے مذہب سے بھی دور چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملا لہ کو قتل کرنے کی کیا کوئی مذہب اجازت دیتا ہے ۔ پھر کس نام پر اس کو اور اس ساتھیوں کو مارنے کی کوشش کی گئی۔ کیا عورتوں کو تعلیم دینا غلط ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک بار طالبان نے کہا تھا کہ ہماری عورتوں کو مرد ڈاکٹر نہیں دیکھیں گے مگر سوال یہ ہے کہ آپ نے خواتین کو ڈاکٹر بنانے کے لئے کتنے ادارے کھولے ہیں جن میں آپ کی بہن بیٹیاں تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بن سکیں تاکہ وہ خواتین کا علاج کر سکیں۔
ملالہ یوسف زئی نے اپنی تقریر میں والدین کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے اپنی والدہ سے پہلے اپنے والد کا شکر یہ ادا کیا۔ ملالہ نے کہا کہ میں نے والد کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے پر نہیں کُترے او رمجھے پرواز کرنے دی۔ پاکستان جیسی اس سماج میں جہاں جہاں طالبانی قہر بن کر کتابوں کا بستہ لے جارہی بچیوں پر گولیوں کی بوچھار کردیتے ہوں واقعی ملالہ یوسف زئی کے والد کا یہ عمل قابل دادکہا جائے گا۔ ملالہ نے اپنی والدہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مجھے صبر کرنا اور ہمیشہ سچ بولنا سکھایا جو میں سمجھتی ہوں کہ اسلام کا حقیقی پیغام ہے۔
اس موقع پر ملالہ کا تعلیم سے محروم ان بچوں کو یاد کرنا بڑی بات تھی جو خوف میں مبتلا ہیں اور جن کی آواز کہیں تک پہنچ نہیں پارہی ہے۔ ملالہ نے تعلیم پر ہی زوردیا کیونکہ تعلیم سے ہی بہتر زندگی کی بنیاد پڑتی ہے ۔ غور و فکر کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔ کلاس رو م میں ہی مستقبل سنور تا ہے ۔ ملالہ نے یاد کیا کہ کیسے ان کی خوبصورت وادی سوات اچانک دہشت گردوں کے نشانے پر آگئی اور چار سو سے زیادہ اسکولوں کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکا جانے لگا ۔ بے گناہوں کو مارا گیا اور ان کے خواب ریزہ ریزہ ہوگئے ۔ ملالہ نے کم عمری میں بچیوں کی شادی کو بھی اپنی تقریر میں شامل کیا جہاں ایک مثال دے کر سمجھایا کہ اس کی ایک دوست ڈاکٹر بن سکتی تھی مگر اس کی کم عمری میں شادی ہوجانے کے سبب اس کا وہ خواب بارہ برس کی عمر میں ہی چور چور ہوگیا ۔
ملالہ یوسف زئی کے علاوہ بھارت کے کیلاش ستیارتھی کو بھی اس نوبل امن ایوارڈ کا دیا جانا دونوں ملکوں کے لوگوں کے رہنماؤں اور عوام کے لئے ایک پیغام کی طرح ہے کہ کم سے کم دونوں ملکوں کے بچوں کے مدعوں کو لے کر تو ساتھ میں چلنا چاہئے ۔ کیلاش ستیارتھی نے بچپن بچاؤ آندولن کے ذریعے 80 ہزار سے زیادہ بچو ں کی زندگی سدھارنے کا کام کیا ہے۔ انہوں نے ملالہ کو اپنی بیٹی کہا اور پوری دنیا سےاپیل کی کہ وہ بچوں کے بچپن کو مزدوری کرتے ہوئے یا پھر اِدھر اُدھر برباد ہونے سے بچالیں ۔ ہر مذہب بچوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے پھر بچپن اتنا بے بس کیوں ہے۔ بچوں کے خوابوں کو ٹوٹنے سے بچانا ہے۔
امن کے اس ایوارڈ میں دو ایسے ملک کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لانے کا کام کیا نوبل ایوارڈ کمیٹی نے کہ جو دو قدم آگے چلتے ہیں ایک دوسرے کے قریب آنے کے لئے تو دس قدم پیچھے ہوجاتےہیں ۔ یہ نوبل ایوارڈ کی تقریب دونوں ملکوں کے لئے ایک موقع تھی جہاں دونوں ملکوں کے سر براہان موجود ہوتے اور ایک نیا پیغام دنیا کو دے سکتے تھے ۔ مگر دونوں طرف ایک دوسرے کو لے کر اس حد تک بیانات جاری کردیے جاتے ہیں کہ ایک دم سے قریب آنابھی مشکل ہوجاتا ہے۔ یوں تو نوبل امن ایوارڈ کے پیچھے ہمیشہ سیاست کا دخل زیادہ دکھائی دیتا رہا ہے ۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر ہند و پاک امن کی سمت میں ہلکی سی بھی پیش رفت کرلیتے تو یہ ایوارڈ دونوں ملکوں کے سر براہان کو دے دیا جاتا کیونکہ اس وقت افغانستان میں دونوں ملکوں کی ضرورت ہے۔ مگر اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ نوبل امن ایوارڈ اس بار ہند و پاک کی دو ایسی شخصیتوں کو دیا گیا ہے جو یقینی طور پر بچوں کے استحصال کو روکنے کو لے کر کام کررہی ہیں جن میں سے بھارت کے کیلاش ستیارتھی نے تو ہزاروں بچپن برباد ہونے سےبچائے ہیں ۔ ملالہ یوسف زئی بھی اس وقت دنیا بھر میں اور خاص طور سے اُن علاقوں میں جہاں لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھنےکی کوشش کی جاتی ہے ۔
ایک مثال بن کر ابھر ی ہیں ۔ یہ ایوارڈ دونو ں ممالک کے بچوں کی زندگی میں کیا تبدیلی لا پائے گا اسے لے کر کچھ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے مگر یہ بات تو طے ہےکہ کہیں نہ کہیں یہ ہماری سوچ پر تو اثر انداز ہوگا ہی ۔ امید یہ کی جائے کہ اثر مثبت ہو۔
12 دسمبر، 2014 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/nobel-peace-prize-malala-speech/d/100438