ڈاکٹر
صابر چودھری ( انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
اسلام
امن ، رواداری اور بقائے باہم کا درس دیتا ہے لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے مذہب
کو پرتشدداور عدم رواداری والا سمجھا جاتا ہے۔خاص طور سے ہم مسلمان اس غلط تاثر کے
لئے ذمہ دار ہیں۔دوسرے مذاہب کے ماننے والے یہ نہیں پڑھتے ہیں کہ قرآن اور حدیث میں
کیا لکھا ہے وہ تو ہم مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کرتے ہیں اور کیسا عمل کرتے
ہیں اور اس طرح وہ اسلام کی منفی تصویر ذہن میں بنا لیتے ہیں۔
یہ بڑے
افسوس کی بات ہے کہ سماج کی تمام منفی باتیں، جھوٹ، فریب،دھوکہ،نقلی ادویات،منشیات،
تشدد، دہشت گردی، انتہاپسندی،اغوا، عصمت دری، جبراً شادی،فریبی شادی، غلط طرز عمل،
مختصراً تما م برائیاں راست یا بالواسطہ طور پر مسلمانوں سے جوڑی جاتی ہیں۔ میں یہ
قطعی نہیں کہنا چاہتا کہ صرف مسلمان ہی اس طرح کے جرم میں ملوث ہیں، تاہم، یہ برائیاں
زیادہ تر مسلم معاشروں میں پائی جاتی ہیں، اور کچھ یوروپی ممالک میں مسلمانوں اور خاص
طور سے جنوبی ایشیاء کے رہنے والے مسلمانوں کے درمیان شرح جرم میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ
عید سے چند دن پہلے میں ایک پنساری کی دکان پر گیا جس کا مالک ایک ہندو خاندان تھا
اور وہی اس کو چلاتا تھا۔ اس خاندان کا رویہ دوستانہ تھا، یہ اچھا برتاؤ کرنے والے
اور ہم لوگوں کا احترام کرنے والے تھے۔ جیسے ہی میں دکان میں داخل ہوا ایک نوجوان ملازم
نے مجھے عید کی مبارکباد دی ۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا۔
اسٹور کے مالک نے کہا ’بھائی صاحب آپ کو اور آپ کے خاندان کوعید مبارک ہو‘ اور مجھے
ایک برتن میں رکھ کر کچھ چاکلیٹ پیش کی اور وہ یہ اپنے سبھی گاہکوں اور بالخصوص مسلمان
گاہکوں کو پیش کر رہا تھا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور ایک چاکلیٹ اس میں سے اٹھا
لی۔
اس دکاندار
نے مجھے رمضان شروع ہونے پر بھی مبارکباد دی تھی اور اب رمضان کے بعد عید پر بھی پیش
کیا۔ہم مسلمانوں کی طرح ہندو بھی اپ نے مذہبی تہوار مناتے ہیں، لیکن کچھ مسلمان علماء
کی تعلیمات کے مطابق ہم مسلمانوں کو ہندوؤں کو دیوالی مبارک ہو، نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ
ان کے مطابق یہ ایک جرم ہے۔ان علماء کی تعلیمات مزید کہتی ہیں کہ ہم عیسائیوں کو بھی
’ہیپی کرسمس‘ نہیں کہہ سکتے ہیں اور دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ ان کے مذہبی تہوار کے
موقع پر ان کے ساتھ خوشیاں بانٹ نہیں سکتے ہیں۔
اس فلسفے
کی دلیل یہ ہے کہ اگر میں کسی ہندو کو ’دیوالی مبارک ہو‘ کہتا ہوں تو اس کا مطلب ہے
کہ میں نے اس مذہبی دن کی مذہبی اہمیت کو قبول کر لیا۔میں اس تشریح سے متفق نہیں ہوں۔
جب ایک ہندو مجھے یا کسی دوسرے مسلمان کو عید مبارک کہتا ہے تو وہ یہ نہیں قبول کرتا
ہے کہ اللہ ایک ہے اور پیغمبرمحمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔اسی طرح جب میں اپنے کسی
پڑوسی کو دیوالی مبارک ہو، بولتا ہوں تو میں ہندو مذہب قبول نہیں کرتا ہوں اور نہ ہی
دیوالی کی مذہبی اہمیت تسلیم کرتا ہوں، جو کہ ہندو مذہب کے مطابق خوشی کا جشن ہے۔
اسلام
کی اس مسخ شدہ تشریح اور اس کے اثر کے سبب میں جان بوجھ کر غیر مسلموں کو ان کے مذہبی
تہوار کے موقع پر مبارک باد پیش کرنے سے بچتا ہوں، اگرچہ مجھے شرم آتی ہے جب وہ پر
جوش انداز میں مجھے میرے مذہبی تہوار کے موقع پریا عید پر عید مبارک کہتے ہیں اورمٹھائیاں
پیش کرتے ہیں، تو مجھے شرم آتی ہے۔ میں اپنے ہندو اور سکھ پڑوسیوں سے ان کے تہوار کے
موقع پر ملنے سے بچتا ہوں کیونکہ میں انہیں مبارکباد ے کر مجرم نہیں بننا چاہتا۔تاہم
ان کے تہوار کے ایک دن بعد میں میں پوچھتا ہوں کہ انہوں نے اپنے تہوار کا لطف اٹھایا
کیونکہ میرے نزدیک یہ بالکل ویسا نہیں ہے کہ انہیں مبارکباد دی جائے اور وہ جرم نہ
ہو۔
مجھے
اپنے اندر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ برتاؤ اور یہ وعظ غلط ہے کیونہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ
مسلمان غیر سماجی اور غلط طرز عمل والے ہوتے ہیں۔مزید یہ کہ اس سے مسلمانوں کو ایک
ہی شہر میں رہنے والے باقی انسانوں کے ساتھ، جو کہ سماج کا حصہ ہیں سے الگ تھلگ رہنے
اور علیحدگی کے لئے حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔دوسری جانب اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے: تم
میں سے وہ بہترہے جو حسن سلوک کرتا ہو۔اور ہمیں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا احترام
کرنا اور امن و ہم آہنگی کو فروغ دینے کی تعلیم دی ہے۔
اگر
ایک غیر مسلم مجھے عید کی مبارکباد دیتا ہے تو اپنے بہترین سلوک کا اظہار کرتا ہے اور
میری خوشی میں شریک ہوتا ہے۔ایک مسلمان اور اچھا انسان ہونے کے ناطے مجھے بھی اس کے
ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے یا کم سے کم اس کے جیسی ہی تمیز کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔لیکن
انہیں مبارکباد نہ دے کر میں کیا ظاہر کرتا ہوں؟کیا میں یہ نہیں بتا رہا ہوں کہ مسلمان
غیر سماجی ہوتے ہیں اور نہ ہی سول سوسائٹی کے معیار کی تعریف کرتے ہیں؟کیا ہم یہ نہیں
کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمان علیحدگی میں یقین رکھتے ہیں اور ہم دوسرے عقیدے کے لوگوں
کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کے لئے ضروری صلاحیتوں سے محروم ہیں؟ کیا ہم
یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہمارا مذہب اور ہماری ثقافت متین ہے اور بہت آسانی سے دوسرے
مذاہب کے اثر میں آسکتا ہے اس لئے ہم علیحدگی کو فروغ دیتے ہیں تاکہ اپنے مذہب اور
نوجوانوں کو بچا سکیں۔
علیحدگی
کا یہ رجحان غلط فہمیاں اور نفرت بڑھاتا ہے اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اسلام
امن، رواداری اور بقائے باہم کو فروغ دیتا ہے اور سماج میں تقسیم اور انتشار کی سخت
مخالفت کرتا ہے۔یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ خاندان اور معاشرے میں تقسیم اور انتشار
پیدا کرنا شیطان کا عمل ہے۔
میں
تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے اس موضوع پر کوئی تحقیق نہیں کی ہے ۔ جیسا کہ میں کسی متنازع
موضوع پر لکھتے وقت عام طور پر کرتا ہوں، اس لئے اس موضوع پر میرا علم مکمل نہیں ہے،
اور میں اپنے خیالات میں مناسب تبدیلیاں کرنے اور سیکھنے کے لئے تیار ہوں،اگر کوئی
پڑھا لکھا شخص یا کوئی دوسرا مجھے کچھ علم دے سکے۔
مصنف
کشمیر نیشنل پارٹی کے لیڈر اورسیاسی مبصرہیں ا ور کئی کتابوں اور کتابچوں کو لکھا ہے،
اس کے علاوہ انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر افیئرس کے ڈائریکٹربھی ہیں۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/islam-is-a-religion-of-peace,-why-mullahs-teach-intolerance?/d/5979
URL: