By Dr. Shabbir Ahmed
(Translated from English by Md Zafar Iqbal, NewAgeIslam.com)
Pakistan is the country with the harshest laws on blasphemy. Any reported incidence of blasphemy against the Prophet or the Qur’an is punishable by death. A confirmed blasphemer has to be irrevocably sentenced to death. Unfortunately, the majority of Pakistanis, even the educated ones, are under the influence of despicable Mullahs.
GENERAL AMNESTY MATCHLESS IN THE ANNALS OF HISTORY, THE CONQUEST OF MAKKAH JAN 630 CE, RAMADHAN AH 8:
During the previous 2 years of relative peace, Quraysh, the pagans of Makkah, were closely watching the long strides Islam was making. Willfully and repeatedly they violated the Treaty of Hudaibiyyah, attacked small bands of peaceful Muslims and ultimately revoked it in writing. As Head of the State of Madinah, the Prophet had no choice, but to attack Makkah. With 10,000 soldiers, he marched to Makkah in 630 CE. Please note that in that blessed era, every able-bodied Muslim man and woman used to serve as a soldier in the defense of the Islamic State. There was no standing army as such. The Makkans were taken aback! The city was captured without any bloodshed. The exalted Prophet rode on his camel through the gate of the city while his opponents trembled in fear. Instead of showing royal pride, he was very humble and kept his head bowed in humility. Then he immediately declared amnesty for all, "This day there is no blame on you. All of you are completely free." Upon hearing this, everyone was stunned in amazement! Almost instantly, all of Makkah embraced Islam.
Among those Makkans, there were people who had driven Muhammad (S) and his family and companions out of their homes. There were those who had looted their property and killed many Muslims. They had severely persecuted the Prophet and Muslim men and women. They had tried their utmost to destroy Islam and Muslims. Yet the merciful Prophet tells them, "This day there is no blame on you. You are free to go about." All of human history will fail to cite one example of clemency like this.
For further details, you may watch Dr. Shabbir Ahmed’s Urdu/English U-Tube videos.
ENGLISH:
http://www.youtube.com/watch?v=RC0CY03wOe01– 1
http://www.youtube.com/watch?v=geqR2ga_rlM - 2
http://www.youtube.com/watch?v=Fr87YvQHB7k - 3
URDU:
http://www.youtube.com/watch?v=1i7jhP9mUN0 - 1
http://www.youtube.com/watch?v=Va2Q1mJk9Z4 - 2
URL: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/pakistan’s-barbaric-law-of-blasphemy-/d/3995
URL: https://newageislam.com/urdu-section/pakistan’s-barbaric-law-blasphemy-/d/4818
URL for English Article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/pakistan’s-barbaric-law-of-blasphemy-/d/3995
پاکستان میں توہین رسول کا
وحشیانہ قانون
ڈاکٹر شبیر احمد
سادہ لفظوں میں کسی ایسے شخص
یا چیز کی توہین کرنا جسے کوئی قوم یا فرد مقدس و محترم سمجھتی ہو ، اس کو Blasphemyکہتے
ہیں۔ ان دنوں پاکستان توہین کے ہسٹریا میں جکڑا ہوا ہے۔ خصوصاً حضرت محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی توہین کے مسئلہ میں۔ اس صورت حال نے پوری قوم
کو مختلف ٹکڑوں اور عقیدوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ ہر مکتب فکر کے لوگ اپنے علاوہ
سب کو غلط سمجھتے اور ان سے نفرت کرتے ہیں۔ ہر فرقہ اپنے کو حق پرست اور دوسرے فرقہ
کو باطل پرست سمجھتا ہے ۔لہٰذا ہر فرقہ دوسرے فرقہ سے عداوت ودشمنی میں اس قدر بڑھ
چکا ہے کہ وہ جاہلیت میں غوطہ زن ہے۔ مذہبی متعصبین اپنے مخالفین کی جان تک لینے سے
نہیں ہچکتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ پاکستان خانہ جنگی میں غرق ہوجائے۔ ان لوگوں نے
اپنے دین کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے، اور فرقوں میں بٹ چکے ہیں، ہر فرقہ اپنے عقائد
میں خوش ہے۔ (سورہ روم :30:32) ۔فرقہ واردیت کی بنیاد پر ہمیشہ اس بات پر ہوتی ہے کہ
انسانوں میں سے کسی کو مذہبی حاکم مان لیا جائے۔
پاکستان میں توہین رسول پر
بہت سخت قانون ہے۔ حضرت محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی توہین
کی سزا موت ہے۔ اگر کسی کے خلاف توہین رسول کا جرم ثابت ہوجائے تو اس کی مزاحمت موت
ہے۔ بدقسمتی سے پاکسانی قوم کی اکثریت ، حتی کہ تعلیم یافتہ لوگ بھی ان ناپسندیدہ ملاؤں
کے دام فریب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی اسکالرس اور وکلا نے توہین رسول
قانون کی پوری حمایت کی ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ توہین رسول کے مرتکبین کو سزا ئے
موت دینے کا قانون 54اسلامی ملکوں میں سے صرف پانچ ملکوں میں نافذ ہے۔ جس سے بھی اس
کے بارے میں پوچھا گیا ، ہر ایک نے یہی جواب دیا کہ قانون صرف دواسلامی ملک پاکستان
اور سعودی عربیہ میں ہے۔ یقینی طور پر ایسے
ملکوں کی صحیح تعداد کا پتہ لگانا مشکل ہے جہاں ایسا سخت آئین ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس قانون پر افغانستان ،سوڈان
، اور ایران بھی عمل کررہا ہے۔
توہین رسول : قرآن کریم توہین
رسول کی کوئی سزا نہیں بیان کرتا ہے۔ قرآن کریم کی آیت لا اکراہ فی الدین 2:256(دین
میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے) سے کون ناواقف ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ پیغام پوری
انسانیت کے لئے بھیجا ہے کہ دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے،صحیح اور غلط طریقہ بالکل
واضح ہے، جو طاغوت کا انکار کردے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے، پس اس نے مضبوط
رسی کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتی ،اللہ تعالیٰ سننے اور جاننے والا ہے۔ 2:256
مذہبی امور میں کوئی زور زبردستی
نہیں ہے۔ اس اصول میں کسی طرح کی کوئی رعایت بھی نہیں ہے ۔ حق باطل پر غالب آچکا ہے
۔
الطاغوت: ہر وہ شے جو اللہ
تعالیٰ کے خلاف بغاوت کردے اور خدائی طاقت کا دعویٰ کرے، اللہ کا نمائندہ (جیسے صوفیا
،فقرا، پجاری ،پادری اور ظالم وجابر لوگ) بن کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے۔ طغیٰ۔
بغاوت کرنا، پتھروں کے بت طاغوت کے زمرہ میں اس لئے نہیں آتے ہیں، کیونکہ وہ بغاوت
نہیں کرسکتے ہیں۔
پیغمبر محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم ملامت ، توہین اور بدنامی سے بالا تر ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین جیسے عظیم سرٹیفکیٹ سے نواز ا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ
وسلم تمام لوگوں ، اقوام بلکہ مخلوقات کیلئے رحمت ہیں۔ کیا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا
عطا کردہ سرٹیفکٹ پر تنقید کرسکتا ہے؟۔
سنت: کچھ ملاؤں کا ماننا
ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور ان کا کردار تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنے دشمنوں کو بھی معاف فرمادیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے جانے والے
حملہ کو ہم کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تو آپ صلی اللہ
علیہ و سلم کی سنت ہے۔
عظیم الشان اخلاق: قرآن میں
ہے۔ اے نبی، آپ اللہ کے فضل وکرم سے کوئی پاگل نہیں ہیں۔ 68:2۔ آپ کیلئے تو کبھی
نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ 68:3۔ آپ تو اخلاق عظیم کے مالک ہیں۔ 68:4۔دشمنان اسلام
نے بھی مذکورہ یا مندرجہ باتوں کا انکار نہیں
کیا ہے۔ قرآن میں ہے: کیا ان لوگوں نے کبھی نہیں
سوچا کہ ان کا ساتھی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی پاگل نہیں ہیں ،وہ تو
محض اللہ سے علی الا علان ڈرانے والے ہیں۔ 7:184۔اضمن میں یہاں ہم چند مثال پیش کرتے
ہیں۔
1۔ رسول اللہ کا جانی دشمن عقبہ بن امیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر
اونٹ کی اوجھڑی ڈال دیتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے بد ن مبارک سے اس گندگی کو صاف کیا کرتی تھیں۔ایک صحابی رسول
نےاس کو قتل کرنے کی اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لئے کبھی بھی
بدلہ نہیں لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردار کے خلاف تھا۔ لہٰذا آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اسکو معاف کردیتا ہوں۔
ہجرت: موجودہ سعودی عربیہ
کے مغربی ساحل پر مکہ واقع ہے، اس کے شمال میں تقریباً 210میل کی دوری پر مدینہ واقع
ہے۔پیغمبر اسلام نے مکہ کےمسلمانوں کو حبشہ پھر مدینہ ہجرت کرنے کا مشورہ دیا۔ حبشہ
کا عیسائی بادشاہ ایک رحم دل انسان تھا۔ اس نے مسلمانوں کو اپنے میں پناہ دی، ۔ یہی نہیں بلکہ جلد ہی اسلام بھی قبول کرلیا۔ بارہ سال
سے کچھ عرصہ زیادہ گذرنے کے بعد مدینہ کے کچھ لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ مدینہ
کے مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دے دی ۔622 عیسوی میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کے
ساتھ اونٹ پر بیٹھ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ تاریخ سب سے یادگار ہجرت تھی۔ یہ انسانیت
کے روشن مستقبل کا آغاز تھا۔ ان دنوں وہاں کی سواری اونٹ تھا۔اور اونٹ سے مدینہ جانے
میں تقریباً ایک ہفتہ لگ جاتاتھا ۔ مدینہ کےمسلمان خوشی سے جھوم رہے تھے۔ مدینہ کے
مرد،عورت اور بچے سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرجوش استقبال کیا۔ ہجرت کا پہلا
دن اسلامی تاریخ کی شروعات ہے۔ رسول اللہ نے مدینہ میں امن اور شانتی کو بحال کیا،
قبائلی جنگ وجدال کو ختم کیا۔ یہود ودیگر مقامی قبیلوں سے امن کا معاہدہ کیا۔ پہلے
اس بابرکت شہر کا نام یثرب تھا۔ اب اس کا نام
مدینۃ الرسول (رسول کا شہر ) ہوگیا۔
ایک عام مزدور: جب مدینہ میں
مسجد نبوی کی تعمیر ہورہی تھی ۔ صحابہ کرامؓ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کام
کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آرام فرمانے اور صرف کام کی نگرانی
کرنے کی درخواست کی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مزدور کی طرح کرتے رہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اینٹ ، پتھر اور لکڑیاں ڈھورہے تھے۔
صبر وتحمل: رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم مدینہ میں لوگوں کی ایک جماعت سے ملنے گئے اور ان کو اسلام کی دعوت
دی ۔مشہور منافق عبداللہ بن ابی نے سخت لہجہ میں کہا: ہمیں نصیحت کرنے کیلئے مت آیا
کرو۔ اس کی اس بات سے صحابہ کرام کو غصہ آگیا ۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان
کو خاموش کردیا اور کچھ کہنے سے منع کردیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے لوٹ
آئے۔
مثلہ کی ممانعت : سہیل بن
عمر ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑ کاؤ تقریریں کیا کرتا تھا۔ جنگ بدر
میں وہ گرفتار ہوکر آیا ۔ کچھ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے سامنے
کے دانت نکالنے کو کہا تاکہ وہ تقریر ہی نہ کرسکے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے سختی سے منع فرمادیا۔
غلامی کا خاتمہ: جنگ بدر میں
سترّ دشمنو کو گرفتار کیا گیا ۔ کسی کو بھی نہ قتل کیا گیا، نہ ہی غلام بنایا گیا۔
تعلیم یافتہ قیدی دس مسلمانوں کو پڑھنا سیکھاتے تھے ،یہی ان کا فدیہ تھا۔
قرآن میں ہے: جب تمہارا مڈبھیڑ
کفار سے ہو ،تو تم ان کی گردنیں اڑا دو ،حتیٰ کہ جب تم ان کی کمر توڑ دوتو ان پر اپنی
گرفت مضبوط کردو، پھر یا تو احسان کرو یا فد یہ لے کر چھوڑ دو، یہاں تک کہ جنگ ختم
ہوجائے۔اگر اللہ نے چاہا تو ان سے بدلہ لے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ تم کو ایک دوسرے سے
آزماتا ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید کردئے گئے ،اللہ تعالیٰ ان کے اعمال
کو ضائع نہیں کرے گا۔ 47:4
نیکی : ایک شخص کو اس حال
میں گرفتار کیا گیا جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تاک میں تھا۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ۔ کیو نکہ رسوال للہ صلی اللہ
علیہ وسلم اپنی ذات کے لئے بدلہ نہیں لیتے تھے، خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت
تکلیف ہی کیوں نہ پہنچی ہو۔
عورتوں کے ہمدردی: حضرت ابوسفیان
کی اہلیہ ہندہ بنت ولید اسلام اور مسلمانوں کی بہت بڑی دشمن تھی۔ جنگ احد میں حضرت
ابو وجنہؓ نے مسلح جنگجو ہندہ کو اپنی تلوار کے نشانہ میں لے لیا تھا، لیکن آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کرکے ان کو منع کردیا، حضرت ابودجنہؓ نے اپنی تلوار
ہٹالی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم عورتوں کو تکلیف نہیں دیتے ہیں۔
معافی : اسلام کی دعوت دینے
کےلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف گئے ۔وہاں کے سرداروں نے نوجوانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگادیا،
وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے اور آپ پر پتھر پھینکتے تھے۔ جب آپ صلی
اللہ علیہ وسلم تھک جاتے اور بیٹھنا چاہتے تو شہر کے اوباش آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کو کھڑہ ہونے پر مجبور کردیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ چلنے لگتے تھے۔ خون
سے رسول اللہ تر ہوگئے تھے۔ خون آپ صلی اللہ علیہ سلم کے جوتے میں آگیا تھا۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے زید بن حارث نے فرمایا اے اللہ کے نبی طائف والوں
کے لئے آپ بددعا ئیں کردیجئے ۔رسول اللہ نے انکار کردیا اور فرمایا: اگر یہ لوگ سچائی
پر یقین نہیں کرتے ہیں تو کیا ہوا، ہوسکتا ہے ان کی آنے والی نسل اس پر یقین کرے۔
حملہ آوروں کو دعائیں دینا:بدر
کی جنگ 2ہجری میں ہوئی ۔ ایک سال بعد 3ہجری میں مکہ والوں نے بدر کا انتقام لینا چاہا۔
جنگ احد میں دونوں جماعتوں کی زبردست جانی و مالی نقصانات ہورہے تھے۔ اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم یہ دعا کررہے تھے: اے میرے پروردگار ،ہمارے ان لوگوں کو معاف کردے، اس لئے
کہ وہ جانتے نہیں ہیں۔
زہر:خیبر کی ایک یہودی عورت
سلمان بن مشکام کی بیوی زینب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوپہر کے کھانے کی دعوت
دی اورکھانے میں زہر ملا دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے ایک لقمہ لیا او رکھانا
چھوڑ دیا۔ لہٰذا اس عورت کو پکڑ لیا گیا، اب اس کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ آپ
نے اس عورت سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس عورت نے جواب دیا: آپ کو قتل کرنے
کےلئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا ۔ اس لئے کہ آپ نے اپنی ذات
کے لئے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ ایک کریم النفس صحابی رسول بشار بن برار نے پورا کھانا
کھالیا تھا جس سے ان کی وفات ہوگئی ۔ لہٰذا اس عورت کو قانون قصاص کے مطابق پھانسی
دے دی گئی ۔
عدی بن حاتم طائی عیسائی رہنما
تھا۔ ایک وفد کے ساتھ وہ آپ کے پاس آیا ۔ گفتگو کے دوران ہی ایک غریب خاتون نے مداخلت
کی ، اور خلوت میں آپ سے کچھ کہنا چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاہل مجلس سے اجازت
لی او راٹھ کر اس عورت کی بات سنی۔ عدی بن حاتم طائی نے کہا: میں یہ دیکھنے آیا تھا
کہ محمد بادشاہ ہیں یا پیغمبر ۔آپ مجھے یقین ہوگیا کہ محمد اللہ کے سچے پیغمبر ہیں
، اس کے فوراً بعد عدی نے اسلام قبول کرلیا ۔
انسانوں میں اتحاد : شروع
میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ رنگ، نسل ، ذات پات اور علاقہ سے
صرف نظر سارے انسان برابر ہیں اور قابل احترام ہیں۔
قرآن میں ہے: ہم نے بنی آدمؑ
کو عزت وشرافت عطا کی ہے، اور سمندر اور خشکی میں ٹھہرایا ہے اور ان کو رزق حلال دیا
ہے، اور اپنے بہت سے مخلوق پر ان کو فضیلت دی ہے۔17:70
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ
وسلم ایک یہودی کا جنازہ گذرتے ہوئے دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ کچھ لوگوں نے آپ کو یاددلایا
کہ یہ تو غیر مسلم کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا : تو کیا ہوا؟ کیا یہ انسان نہیں تھا۔
ہمت وبہادری: ایک دن پیغمبر
ایک سنسان وادی میں آرام فرمارہے تھے۔ ایک دشمن آیا اور آپ پراپنی تلوار سونت کر
بولا : ائے محمد بتا اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا۔آپ نے جواب دیا، اللہ۔ یہ سن کر
وہ پسینہ پسینہ ہوگیا اور اس پر لرزہ طاری ہوگیا ،تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گئی۔آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار لی اور پوچھا : اب تم کومجھ سے کون بچائے گا۔ اس آدمی
نے جواب دیا:کوئی نہیں ۔ آپ نے کہا: تم وہی کیوں نہیں کہتے جو میں نے کہا۔ وہ آدمی
کچھ دیر تک خاموش رہا اور ایمان لے آیا (یعنی لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار
کرلیا)۔
حدیبیہ : مسلمان او رمکہ والوں
کے درمیان یہ بہت مشہور ومعروف صلح امن تھا۔ معاہدہ ہی کے زمانہ میں مکہ کے کچھ لوگوں
نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر حضرت خیراث بن امیہ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اوررسول
اللہ کی اونٹنی کو جان سے مار ڈالا جس پر آپ کے سفیر سوار تھے۔پھر قریش نے ایک مسلح
جماعت مسلمانوں سے لڑنے کےلئے بھیجا لیکن انہیں قیدی بنا لیا گیا۔ جب ان لوگوں کو آپ
کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے بغیر کسی شرط کے ان سب کو رہا کردیا ۔
خونی حملہ تک کی معافی : ذی
قروع نامی ایک سرسبز وشاداب زمین تھی جہاں آپ اور صٖحابہ کرام کے اونٹ چرتے تھے ۔غطفان
کے کچھ لوگوں نے اس چرا گاہ پر حملہ کردیا، حضرت ابوذر غفاری ؓ کے بیٹے جو اس چراگاہ
کی پہر داری کررہے تھے ،کو قتل کردیا اور ان کی اہلیہ اور دیگر بیس اونٹنیوں کو اپنے
ساتھ لے گئے۔ ماہر تیر انداز حضرت سلمان بن اکو نے ان سب کا پیچھا کیا اور ا نہیں گرفتار
کر کے لائے ،اور فوراً آپ کو اس بات کی خبر دی ۔آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ان بے رحم
حملہ آوروں نے کیا امید کی ہوگی؟ رسول اللہ نےحضرت سلمان بن اکو سے فرمایا : جب تم
دشمنوں پر قابو پالیا کرو تو اس کو معاف کردیا کرو۔
محمد، فاتح : کچھ لوگوں کا
ماننا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کردار صرف مکہ میں تھا نہ کہ مدینہ میں،
جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاکم تھے۔ لیکن حقیقت میں آپ کا یہ کردار ہمیشہ رہا
ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کے رسول اللہ نے عبداللہ بن ایب کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ یہ مدینہ
کے منافقوں کا سردار تھا۔ جنگ احد میں اپنے تین سوساتھیوں کے ساتھ مسلمان فوج کا ساتھ
چھوڑ دیا ۔ اور اپنے اعمال والفاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف پہنچایا۔
رسول اللہ اس کی موت کے وقت اس سے ملنے گئے ۔ وہ جانکنی کے عالم میں تھا۔ اس نے آپ
سے ایک کپڑا مانگا ،تاکہ اسی سے اس کو کفنایا جائے اور قبر بھی وہ اس کے ساتھ ہو۔ اس
نے کہا : ائے رسول خدا، مجھے امید ہے کہ آپ میرے لئے دعا کریں گے اور اللہ سے میری
معافی کی درخواست کریں گے ۔ اس کی موت کے بعد آپ نے ایسا ہی کیا۔ دلچسپ بات تو یہ
ہے کہ جب حضرت عمر ؓ بن خطاب نے ایسا کرنے کوکہا تو آپ نے جواب دیا عمر میرےپیچھے
رہو۔ مجھے اختیار ہے ،مجھ سے یہ کہا گیا ہے کہ آپ ان کےلئے معافی کا مطالبہ کریں یا
نہ کریں ،چاہے دن میں سترّ بار بھی ان کےلئے معافی کا مطالبہ کریں، پھر بھی اللہ تعالیٰ
انہیں معاف کرے گا۔ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ستر بار سے زیادہ ان کے لئے
معافی طلب کرنے سے انہیں معاف کردے گا تو میں اپنی دعاؤں کی تعداد بڑھا دو ں گا۔
معافی کی ایک دوسری عظیم مثال
: اس عہد کا ایک شاعر کعب بن زہیر نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غلط بیانی
کردی تھی۔ اس کے بھائی بجیر اسلام قبول کرچکے تھے۔انہوں نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے پاس جانے او رمعافی مانگنے کو کہا۔ انہوں نے کہا : جو توبہ کر کے رسول اللہ
کے پاس پہنچتا ہے ،رسول اللہ اس کو قتل نہیں کرتے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد وہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا : اے رسول خدا، اگر زہیر کا لڑکا کعب آپ کے پاس توبہ
کر کے آئے گا تو کیا آپ اس کومعاف کردیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ تو اس نے کہا: میں
ہی کعب ہوں ۔پھر اس نے آپ اورمہاجرین کی شان میں مدحیہ قصیدے پڑھا ۔ جس سے خوش ہوکر
رسول اللہ نے اپنے دھاری یمنی چادر اتار کر کعب بن زہیر کو دے دی جواب تک ترکی کے تو
پکاپی میوزیم میں ہے۔
جنوری 630 مطابق رمضان المبارک
8ہجری کو فتح مکہ کی تاریخی عام معافی: لگاتار گذشتہ دوسال کے دوران کفار مکہ کے قبیلۂ
قریش نے اسلام کی بڑھتی طاقت کوبہت قریب سے دیکھا تھا۔ مکہ والوں نے جان بوجھ کر صلح
حدیبیہ کو توڑ اتھا، اور امن پسند مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت پر دھاوا بولا تھا ۔آخر
کا ر یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔ ایک سردار کی حیثیت سے آپ کے لئے مدینہ پر حملہ کرنا ضروری
ہوگیا تھا۔ 630 عیسوی میں رسول اللہ نے دس
ہزار سپاہیوں کے ساتھ مکہ فتح کرلیا۔ اس دور میں ہر مرد وعورت اسلامی حکومت کی دفاع
کے لئے فوج کے حصہ تھے ۔ اس عہد میں کوئی مسلسل فوجی دستہ نہیں ہوتا تھا۔ مکہ والوں
کو شکست ہوئی اور بغیر خون خرابہ کے مکہ مسلمانوں کے ہاتھ میں آگیا۔آپ صلی اللہ علیہ
وسلم اپنی سواری پر سوار شہر کے دروازہ سے مکہ میں داخل ہوئے۔ دشمنان اسلام کے پیرو
ں تلے زمین کھسک رہی تھی وہ سب سمجھ رہے تھے کہ آج ان سے انتقام لیا جائے گا۔ لیکن
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا بلکہ عام معافی کا اعلان کر دیا اور فرمایا:آج
تم پرکوئی الزام نہیں ہے، تم سب کے سب آزاد ہو۔ یہ سن کر مکہ والے ہکا بکا رہ گئے
،او رمکہ کے زیادہ تر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ مکہ والوں میں وہ بھی تھے جنہوں
نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے اہل وعیال اور آپ کو وطن سے نکال دیا تھا ۔ان میں
وہ بھی تھے جنہو ں نے مسلمانوں کی جائداد یں لوٹیں تھی اور بہت سے مسلمانوں کو قتل
بھی کیا تھا ۔ انہوں نے رسو ل اللہ اور مسلمان مردو عورت کو سخت تکلیف سے دوچار کیا
تھا ۔ اسلام او رمسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی انتھک کوششیں کی تھیں ۔ اس سب کے
باوجود رحم و کرم کے سراپا پیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی بدلہ نہیں لیا۔ پوری انسانی
تاریخ میں رحم وکرم کی ایسی مثال ملنا مشکل ہے۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/pakistan’s-barbaric-law-blasphemy-/d/4818