ڈاکٹر ریحا ن اختر قاسمی
27 نومبر، 2015
بد نظمی اور انتشار کی ممانعت:
اہل عرب کی یہ عادت تھی کہ جب دشمنوں کے مقابلے پر نکلتے تھے تو راستے میں جو بھی ملتا تھا عام راہگیر وں کو تنگ کیا کرتے تھے اور جہاں بھی خیمہ زن ہوتے وہاں پر بالکل پھیل جاتے تھے، یہاں تک کہ راستوں پر چلنا مشکل ہوجاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی حرکت و عمل سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ کوئی اگر اس طرح کا عمل کرے گا تو اس کا جہاد، جہاد نہیں ہوگا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فلاں فلاں غزوات میں حصہ لیا ۔ ایک منزل پر لوگوں نے جگہ تنگ کردی اور راستہ بند کردیا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں منادی کرادی جو فرودگاہ کو تنگ کردے اور راستہ روکے تو اس کو جہاد کا ثواب نہ ملے گا۔
ایک دوسرے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے طریق کار کو شیطان کاعمل قرار دیا ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اس پر سند ہیں :
تمہارا اس طرح وادیوں اورگھاٹیوں میں بکھر جانا یہ شیطان کی طرف سے ہے۔
آگ میں جلانے کی ممانعت:
اقوام عالم کی جانب سے بالعموم اور اہل عرب سے بالخصوص اس قدر وحشیانہ حرکتیں سر زر ہوتی تھیں کہ انسانیت شرم سار ہوجائے۔ وہ جوش انتقام میں اپنے دشمنوں کو زندہ جلادیا کرتے تھے ۔ لیکن اسلام نے اس طریق کار پر پابندی عائد کردی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے افعال سے منع فرما دیا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو لڑائی پرجانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ فلاں فلاں آدمی تم کو ملیں تو ان کو جلادینا مگر جب ہم روانہ ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں اشخاص ملیں تو جلادینا مگر آگ کا عذاب سوائے خدا کے کوئی نہیں دے سکتا اس لئے اگر تم انہیں پاؤ تو بس قتل کردینا۔
غیر محارب سے عدم تعارض:
اسلام نے جو قوانین جنگ وضع کئے ہیں ان میں اتنی جامعیت ہے کہ دور جدید کا مہذب انسان بھی ان کو قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔اسلام کے جنگی قوانین کےمطابق دشمن ہوں یا دوست اور عقائد و نظریات کے اعتبار سے خواہ وہ کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا، بشرطیکہ نہ تو وہ ظالموں میں ہوں اورنہ ہی دین حق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ہوں ۔ قرآن مجید کی یہ بین تعلیم ہے:
مفہوم : اللہ تم لوگوں کو ان کے ساتھ نیکی کا برتاؤ اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں نہ لڑے اورنہ ہی تم کو انہوں نے تمہارے گھروں سے نکالا ۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
معاہدہ ختم ہونے سے قبل جنگ کی ممانعت:
اسلام نے ہر سطح پر بدعہدی اور وعدہ شکنی کو منع کیا ہے او راسے اہل ایمان کے لیے قابل مذمت فعل قرار دیا ہے۔ اسلام میں میعاد معاہدہ ختم ہونے تک جنگ کرنے کی ممانعت ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ ہوگیا ہے اس کو پورا کرنا ہوگا بشرطیکہ فریق مخالف کی طرف نقض عہد کے تلخ تجربات سامنے نہ آتے ہوں یا ان کی طرف سے دشمنوں کی مدد نہ کی گئی ہو۔ معاہدہ پورا نہ ہونے کی صورت میں فریق مخالف کے خلاف کسی طرح کی جنگی کارروائی نہیں کی جاسکتی ۔ اگر معاہدہ کے خلاف مسلمان مدد طلب کرے تب بھی معاہدہ کا لحاظ رکھا جائے گا اور اس کو توڑا نہیں جائے گا۔ عام احوال و کوائف میں معاہدے کے تقدس کا خیال رکھا جائے گا۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
مفہوم : اگر وہ دین کے معاملات میں تم سے مدد چاہیں تو ان کی مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلہ میں مدد نہ کرنا کہ تمہارے اور ان کے درمیان صلح و امن کا معاہدہ ہوا ہے ۔ (الانفال :72)
عام حالات میں معاہدہ کا احترام و تقدس ملحوظ رکھا جانا چاہئے ۔ اس سلسلے میں ایک اور ربانی ارشاد ملاحظہ ہو:
مفہوم : سوائے ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلہ پر کسی کی مدد کی سو تم ان کے عہد کو ان کی مقررہ مدت تک ان کے ساتھ پورا کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کو پسند کرتا ہے۔ (التوبہ:4)
اسلام نے مسائل جنگ میں معاہدین کے چند اصولی حقوق متعین کردیئے ہیں ، جن کی روشنی میں اسلام کانظریۂ جنگ و امن متعین ہوتاہے اور دوسری طرف بشر دوستی اور انسانیت نوازی سے متعلق اسلام کی بعض درخشاں تعلیمات بھی سامنے آتی ہیں۔
لوٹ کھسوٹ کی ممانعت:
اسلام سے قبل محض مال غنیمت کے حصول کےلئے بھی جنگوں کاسلسلہ جاری رہتا تھا ۔ تجارتی قافلوں اور راہگیروں کو لوٹنا پیشہ بن چکا تھا ۔ لیکن اسلام نے شنیع و دنی عمل کی پر زور مذمت کی اور اس طرز عمل پر قدغن لگادی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹے ہوئے مال کو حرام قرار دے دیا۔
اسلام میں تباہی و بربادی کی ممانعت:
اسلا م نہ تو خون ناحق کو بہانے کی اجازت دیتاہے اور نہ ہی دشمنوں کے املاک و جائداد کو تباہ و برباد کرنے کی اجازت دیتا ہے او رنہ ہی یہ اعمال اسلام کے مقاصد جلیلہ کے شایان شان ہیں۔ اسلام فتنہ و فساد کو نا پسند کرتاہے اس لیے کہ حقیقی معنوں میں یہ امن و آشتی کا علمبردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالت جنگ میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نہ کھیتیاں تباہ و برباد کی جائیں ، نہ ہی پھل دار درختوں کو کاٹا جائے او رنہ ہی املاک کو نذر آتش کیا جائے۔ یہاں تک کہ کفر و شرک کا علمبردار محارب فریق میدان جنگ میں بھی اہل ایمان محارب فریق سے امن و عافیت کا خواہاں ہے تو ہاتھ روکنے کا حکم ہے۔ اسلام کو اگر وہ سمجھناچاہتا ہے تو اس کو موقع دیا جائے گا اور پھر اگر وہ اسلام سے بیزاری کا ہی اظہار کرے تو حکم ہے کہ اسے اس کے محفوظ مقام تک پہنچا دیا جائے۔
اس کے علی الرّغم عصر حاضر کے انسانوں کے خود ساختہ قانون امن و جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ اپنے حریف کو مغلوب کرنے کےلئے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا جاسکتا ہے چاہے، املاک کی تباہی کی شکل میں ہو یا جانوں کے تلف کی صورت میں ہو۔ ماضی قریب میں قومی سطح پر گجرات کی مثال اور حال میں واقع ہونے والے آسام کے فسادات اور بین الاقوامی سطح پر افغانستان ، عراق اور میانمار کے دل دوز واقعات انسانوں کے خود ساختہ قوانین جنگ و امن اور ان کے بھیانک اور انسانیت کش نتائج کی زندہ مثالیں ہیں ۔ ایسے ہی شرانگیز وں اور فساد کاروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مفہوم : اور جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو برباد کردے۔ مگر اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ ( البقرہ :205)
شب خون مارنے کی ممانعت:
اسلام نے ہر سطح پر منافعت ، ریاکاری اور دھوکہ و فریب کاری پر ضرب لگائی ہے۔ اس کے جنگی قوانین میں بھی دھوکہ و فریب کی کی کنجائش نہیں ہے، اسلامی قوانین جنگ میں ایک بات یہ بھی بہت اہم ہے کہ دشمن پر رات کے وقت حملہ نہ کیا جائے او رصبح ہونے کا انتظار کیا جائے۔ یہی بہادری و شجاعت کا تقاضا بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار یہ تھا کہ جب کسی قوم پر رات کو پہنچتے تو صبح ہونے تک حملہ نہ کرتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت خیبر کے مقام پر پہنچے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کسی جگہ رات کو پہنچتے تو صبح ہونے تک ان لوگو ں پر حملہ نہیں کیا کرتے تھے ۔
عصمت دری کی ممانعت:
اسلام کے جنگی قوانین کےمطابق نہ تو بلاوجہ کسی عورت کو قتل کیا جائے گا اور نہ ا س کی عفت و عصمت کو مخدوش و داغدار کیا جائے گا۔ اسلام اپنے پیروکاروں کی ذہنی پاکیزگی کاپورااہتمام کرتاہے اور انہیں ہر طرح کی جنسی آلودگی سے پاک رکھتا ہے۔ اسلام نے عورت کو تحفظ فراہم کیا اور معاشرہ میں عزت و احترام کامقام دیا ۔ جنگ میں دشمن کی بیٹی پر ہاتھ اٹھانے اور اس کی عصمت دری کرنے کی سختی سے ممانعت کردی گئی۔ یہ امتیاز صرف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ اس نے مفتوح قوم کی عورتوں کی عصمت کی پاسبانی کا حکم دیا۔
اسلام ایک حقیقت پسندانہ دین ہے جو ضروریات انسانی سے کبھی بھی اغماض و انحراف نہیں کرتا بلکہ احکامات کو جاری کرتے وقت انسانی نفسیات کا پورا پورا خیال رکھتا ہے ۔ مجاہدین کےلئے حکم دیا کہ مجاہدرشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے ہیں اور وہ ازدواجی حقوق کو ادا کرنے کے بعد جہاد میں شریک ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
کسی نبی نے جہاد کا ارادہ کیا تو اپنی قوم سے فرمایا میرے ساتھ جہاد پر وہ شخص نہ جائے جس نے ابھی شادی کی ہو اور عورت سے ہم بستر نہ ہوا اور وہ مجامعت کرناچاہتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہر فوجی کو چار ماہ بعد اپنے اہل خانہ کے پاس واپس جانے کو لازمی قرار دیا تھا کہ مجاہدین اسلام کے ذہن و دل میں فحاشی و بدکاری کے رجحان نشو و نمانہ پائیں ۔ انسان کے جنسی جذبات و میلانات پر قابو رکھنے کےلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانوں کو روزہ رکھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جو جوان حق مہر دے سکتا ہو تو وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نیچی نگاہ کرتا ہے اور زنا سے بچاتا ہے اور جو اس پر قادر نہ ہوتو وہ روزہ رکھے کیونکہ اس لئے ڈھال ہے۔
انتقامی کارروائی کی ممانعت:
اسلام عفودر گزر سے کام لیتا ہے ۔ اسلام ریاست و مملکت میں انتقامی سیاست کاکوئی تصور موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی جواز فراہم کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ جنگوں میں بھی انتقامی کارروائی کی ممانعت کردی گئی ہے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ فاتح اقوام جو ش انتقام میں فتح و کامرانی کے بعد قتل و غارتگری کا ایسا بازار گرم کر دیتی ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ۔ نت نئے اسلحہ جات کے ذریعہ انسانی لاشوں کے چیتھڑے اڑادئیے جاتے ہیں گویا کہ مفتوح قوموں کی تباہی و بربادی مقدر بن جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کی تصویر کشی یوں کی گئی ہے:
اس نے کہا ( کہ لڑائی بذات خو د کوئی اچھی چیز نہیں ہے) جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کردیتے ہیں اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے۔ (النمل: 34۔27)
اذیتیں دے کر ہلاک کرنے کی ممانعت:
دیگر اقوام و ملل میں دشمن کےساتھ ناروا سے نار وا اور غیر انسانی سلوک کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا لیکن اسلام نے اس کو انتہائی معیوب و مذموم قرار دیا ہے۔ اور اسلام نے اپنے جنگی قوانین میں انسانی ہمدردی اور نیک سلوک و برتاؤ کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ آج کی مہذب دنیامیں قید یوں کے ساتھ غیر انسانی معاملات کرناباعث شرم و عار نہیں سمجھا جاتا بلکہ ہر طرح سے زد و کوب کیے جانے اور جانوروں سےبھی بدتر سلوک کیے جانے کو فتح و کامرانی کےنشے میں روا سمجھا جاتا ہے، ماضی قریب میں عالم انسانیت نے یہ دل دوز مناظر دیکھے ہیں کہ افغانستان و عراق سے جو لوگ پکڑا کر امریکہ کی جیلوں میں بند کئے گئے ، ان کےساتھ کتنا اذیت ناک سلوک کیا گیا۔ ان اذیت کدوں سے متعلق دلخراش و المناک داستانیں امن عالم کے ٹھیکیداروں کے دعوؤں کو کھوکھلا ثابت کردیتی ہیں۔ اسلام ان تمام معاند انسانیت رویوں کو بنظر استحقار دیکھتا ہے اور دشمن پر قابو پالینے اور قیدیوں کو اذیتیں دے دے کر ہلاک کرنے سے اپنے پیروکاروں کو سختی سے منع کرتا ہے۔ یہ روایت ملاحظہ کی جائے۔
پردہ داری کی تاکید:
مجاہدین اسلام کو بلا اجازت گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ۔ حالت جنگ میں بھی اسلام نے پردہ داری پر زور دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ملاحظہ فرمایا جائے جس میں عورتوں اور بچوں کو نہ مارنے اور دکان سے بلا قیمت کوئی مال کھانے کی سختی سے ممانعت کےساتھ ساتھ جانب واعداء کے گھروں میں بلا اجازت داخلے کو حرام قرار دیا گیا ہے:
اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جائز نہیں رکھا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہوجاؤ مگر اجازت سےنیز ان کی عورتوں کو پیٹنا اور پھلوں کو کھانا بھی حلال نہیں ۔
27 نومبر، 2015 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL for Part-1:
URL: https://newageislam.com/urdu-section/meaning-islamic-laws-battle-contemporary/d/105432