New Age Islam
Sun Feb 09 2025, 11:20 AM

Urdu Section ( 7 Nov 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Eleven Days in the Spiritual City of Istanbul-Part 2 روحانیوں کے عالمی پایہء تخت استنبول میں گیارہ دن۔ قسط دوئم

 

ڈاکٹر راشد ساز

اکتوبر، 2013

ثانیا وہ اسلام شعائر کو زندہ کرے گا جس سے اسلام میں پھر سے زندگی کے آثار پیدا ہوجائیں گے۔ ثالثاً وہ تمام مومنین کو اور خاص طور پر علماء  و صلحاء و سادات کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرے گا جس  کے نیتجے میں ایک بار پھر دنیا پر اسلامی شریعت  کا پھریرا لہرائے گا۔ آج مادی افکار ، خاص طور پر ڈارون ازم ، فرائیڈازم او رکیپٹل ازم کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ کافرانہ  hat اور بے حجابی کی جگہ داڑھیوں اور اسکارف کا چلن عام ہوتا رجارہا ہے ۔ اسلامی  بینکنگ ، حتی  کہ اسلامی طریقۂ ادویات اور علاج کو بھی غیر معمولی مقبولیت مل رہی ہے۔ شریعت کے نفاذ اور خلافت کے قیام کی باتیں بھی ذوق و شوق  سے کی جارہی  ہیں ۔ اب ایک ذرا سی کسر رہ گئی ہے جس نے ظہور مہدی کو روک رکھا ہے اور وہ ہے عامۃ المسلمین ، علما ء و صلحا ء اور خاص طور پر سادات کا ایک مرکز کے گرد اتحاد ۔ پھر ا سکے بعد مہدی کے ظہور کو کوئی چیز نہیں روک سکتی وہ یقیناً آکر رہیں گے بلکہ اہل کشف تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ آچکے ہیں  ، ہمارے درمیان موجود ہیں  ، ہماری سڑکوں اور بازاروں میں بہ نفس نفس  رونق افروز ہیں ۔ بس بات کے منتظر کہ آخری کسر پوری ہو اور ہو ہمیں مزید زحمت انتظار سے نجات دلائیں۔

عزیز نوجوانوں ! پتہ نہیں مجھے وہ دن دیکھنا نصیب ہو یا نہ ہو لیکن تم جب مہدی کا زمانہ پاؤ تو ان کے ہاتھوں پر بیعت میں تاخیر نہ کرنا، انہیں اپنا ہر ممکن تعاون دینا، ان پر اپنی جان و مال نچھاور کردینا۔ اللھم عجل لولیک الفرج اللھم انی اسئلک یا اللہ یا اللہ یا اللہ یا من علی فقھر .... یہ کہتے ہوئے شیخ عائض کی آواز رندھ گئی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔

شیخ عائض کی دلگرفتہ تقریر اور ان کی آہ بکا نے مجلس پر یک گونہ سکوت طاری کردیا۔  بات کہا ں سے کہاں جا پہنچی  ۔ ایک طرف شیخ کے حفظ و مراتب اور ان کی کبر سِنی کا خیال اور دوسری طرف مہدی موہوم کی جستجو ، بظاہر ایسا لگا جیسے کسی سنجیدہ ، بے لاگ علمی گفتگو کے لیے اس مجلس میں اب کوئی موقع باقی نہیں رہ گیا ۔ لیکن بسمہ بھی کب ہار ماننے والی تھی اس نے اپنا مائکر وفون آن کیا مجلس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی او رکچھ اس طرح گویا ہوئی:

دوستو! آج کی یہ غیر رسمی مجلس جس شخص کے اعزاز میں منعقد کی گئی ہے ا س کا اصل کار نامہ  یہ ہے کہ ا س نے ہمیں اساطیر اور تاریخ کو ایک  دوسرے سےممتاز کرنے اور انہیں اس کی اصل حیثیت سے برتنے کا فن سکھایا ہے۔میری مراد ڈاکٹر شاز کی ذاتِ گرامی سے ہے جن کی تحریروں نے مجھے بعض اہم سوالات کے جوابات ہی فراہم کیے بلکہ نئے سوالات قائم کرنے کا فن سکھایا ۔جہاں تک مجھے یاد آتا ہے آپ کی جو سب سے پہلی تحریر میرے ہاتھ  لگی او رمجلّہ فیو چیر اسلام کا ایک اداریہ یورپی مسلم شناخت  کے مسئلہ سے متعلق تھا۔ پھر تو میں نے تلاش تلاش کر آپ کی چیزیں پڑھ ڈالیں۔میں نے اگر ان تحریروں سے کوئی ایک بات سیکھی ہے تو وہ یہ کہ مسلمات قرار دیے جانے کے سبب بغیر تحقیق و تفتیش کے قبول نہیں  کرلیناچاہئے تحلیل و تجزیہ کی میزان پر عقل اور وحی کی روشنی میں ہر مسلمہ ، ہر لمحہ قابل جرح ہے۔ اس منہج پر ہمارا علمی اور فکری سفر ہمیں ان بہت سے التباسات اور اساطیر سے نجات دلا سکتا ہے جو گزرتے وقتوں کے ساتھ عقائد اور مسلمات کی حیثیت  اختیار کر لیتے ہیں۔

شیخ عائض کی میں دل سے قدر کرتی ہوں۔ انہوں نے اپنے احساسات کو بلا  کم و کاست اور بلاخوف لومۃ لائم ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ وہ صدق دلی سے یہ سمجھتے ہیں ، جیسا کہ ان کی ذاتی زندگی  اور زہد وتقویٰ ا س پر دال ہے کہ ان کے پاس ایک پیغام ہے، مہدی منتظر کی آمد کا پیغام ، جسے آپ نے نئی نسل کو منتقل کردیا ہے۔آپ کی صاف گوئی کے لیے بہت بہت شکریہ ۔ البتہ ہم ، جنہیں  شیخ کے بقول مستقبل  کے مہدی کا دست و بازو بننا ہے ، جو صدیوں سے آکر نہیں دیتا اور اگر آتا بھی ہے تو اس کے جانے کے بعد پتہ یہ چلتا ہے کہ وہ دراصل مہدی مطلوب نہیں تھا تو کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم اس مسلمہ کو عقل اور قرآن کی روشنی میں از سرِ نو تحقیق  و تجزیہ کا مو ضوع بنائیں۔

آپ کی دلچسپی کے لیے ایک واقعہ عرض کر وں ۔ 2004 میں جب میں آئر لینڈ میں اپنی Ph.D.  کے مقالہ پر کام  کررہی تھی ، بغداد پر امریکی اور مغربی اتحادی فوجوں کی یلغار جاری تھی ۔صدام حسین اقتدار سے بے دخل کئے جاچکے تھے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب کویت کی جانب سے امریکی ٹینک عراق  میں داخل ہورہے تھے اور اتحادی طیارو ں  نے اندھا دھند بمباری کا سلسلہ  جاری کر رکھا تھا اسی دوران  اخبارات  میں ایک صحرائی  آندھی کا بڑا ذکر کر پایا جاتا تھا ۔ خوش گمان عوام اس خیال  کے اسیر  ہوگئے تھے کہ یہ صحرا ئی آندھی  صدام کی تائید غیبی  کا مظہر ہے لیکن جلد ہی یہ خوش فہمیاں  کا فور ہوگئیں۔

ہاں تو میں  کہہ رہی تھی  کہ سن 2004 میں اتحاد ی فوجیوں کا مہدی آرمی ( جیش المہدی)  سے راست ٹکراؤ ہوا۔ اندیشہ تھا کہ مقتدیٰ الصدر گرفتار ہو جائیں ۔ اس دوران آئر لینڈ  کے ایک شیعہ اسلامی مرکز میں میرا کثر ت  سے آنا جانا تھا ۔ بہت سے عراقی احباب تھے جو فون پر مسلسل اپنے عزیز  واقارب کی خبریں  معلوم کرتے  رہتے تھے ۔ اس دوران جب ایک دن میں مرکز  میں گئی تو مجھے یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی کہ بعض  نوجوان لڑکے لڑکیاں  مہدی منتظر کی خدمت  میں یہ عریضہ  لکھ رہے ہیں  کہ یا صاحب  ز ماں ! اتحادی ٹوٹ پڑے ہیں ۔خدارا ! اب اپنے ظہور  سے ہم کمزور وں کو طاقت بخشیے :

 یا علی یا محمد اکفیانی فانکما کا فیان و انصرانی فا نکما نا صران یا مولانا یا صاحب الزمان الغوث الغوث الغوث ادرکنی ادرکنی ادرکنی الساعۃ الساعۃ الساعۃ۔

 میں نے پوچھا یہ کیا قصہ  ہے؟ معلوم ہوا کہ یہ وہ عریضہ  ہے جو مہدی  منتظر  کو ارسال  کیا جائے گا۔ پتہ چلا کہ یہاں آئر لینڈ  کےاسلامی  مرکز میں ہی نہیں بلکہ  بصرہ  اور کربلا  میں جہاں  مومنین  پر حالات  سخت  ہیں اور دنیا کے دوسرے علاقوں  میں بھی  جہاں اہل ایمان حالات  کی اس سنگینی  کومحسوس  کررہے ہیں ، مہدی  کے نام عریضہ  ارسال کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ زعفران  سے عریضہ  لکھئے ، خوشبو  میں اسے بسائیے اور پھر آٹے یا پاک مٹی  میں لپیٹ کر دریا  یا گہرے کنویں میں اسے صبح دم ڈال آئیے ۔ ڈالتے ہوئے کہیے  : یا حسین بن رَوُح! آپ پر سلامتی  ہو آپ خدا  کی بارگاہ  میں زندہ ہیں ۔ آپ  ہمارا یہ رقعہ صاحب  امر کی خدمت  یا حسین بن روح ! آپ پر سلامتی ہو آپ خدا  کی بارگاہ میں زندہ  ہیں۔ آپ ہمارا  یہ رقعہ  صاحبِ امر کی خدمت میں پہنچا دیجئے۔

عزیز دوستو! آپ نے نقش و تعویذ کی کتابوں  میں اس سبز  پرندے کی بابت  پڑھا ہوگا جس کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ چالیس دنو ں تک مسلسل روحانی عمل  کے بعد صبح صادق  سے پہلے دریا کے کنارے ظاہر ہوتا ہے۔ سیانوں نے سپیدی سحر کا یہ وقت اس لیے متعین  کیا ہے تاکہ طالبِ مضطرب کو ہر پرندے کے رنگ  پر سبز رنگ  کا دھوکہ ہو۔ نہ اصلی سبز پرندہ آج تک وقت مقررہ  پر دریا کے کنارے آیا ہے او رنہ ہی امام زماں  نے ان عریضوں  کو آج  تک قبولیت  بخشی ہے ۔ ہم جو حاملین  وحی ہیں اور جس  کے  پاس وحی  کی تجلّی اور ا س کی ہدات  اور روشنی  پائی جاتی ہے ، کیا ہمارے  لیے یہ مناسب  نہیں کہ ان اساطیر اور ابا طیل  کا بے لاگ محاکمہ کریں اور یہ دیکھیں کہ اس کی اصل واقعی کیا ہے،  یہ سب کچھ کب سے چلا آتا ہے ، اس کا موجد اور صانع کون ہے؟ میں  زیادہ وقت  نہیں  لوں گی  بلکہ چاہوں  گی کہ اس موضوع پر اگر ممکن  ہوسکے تو آج کی  مجلس  کے معزز مہمان  اپنے خیالات  سے عالیہ سے مستفیض  فرمائیں۔

بسمہ  کی افتتاحی  تقریر نےمجلس سے آہ و بکا  کا رنگ کس قدر زائل  تو کردیا  البتہ  مصیبت یہ ہوئی کہ اس دوران شیخ عائض  اپنے مریدوں  کے جلو میں  کب رخصت  ہوگئے اس کا کسی کو اندازہ  نہ ہوسکا ۔ شیخ دیدار مہدی کی طلب  میں  جس طرح برسوں  سے جیتے آئے تھے اور جس ذہنی  کیفیت  کا شکار تھے اس میں کسی گفتگو ، افہام و تفہیم  یا Re – thinking  کی کوئی گنجائش موجود نہ تھی ۔ اگر کوئی امکان  تھا تو ہلوسہ کا اور وہ شب و روز اپنے چشمِ تصور سے استنبول  کی گلیوں میں ایک ایسے مہدی  کو چلتے پھرتے دیکھ رہے تھے جو تاریخ  کے آخری دور میں اذنِ ظہور کا منتظر ہو۔

میں نے سو چا کہ مہدی تو ہماری اساطیری طرز فکر کی محض ایک علامت ہے۔ اگر گفتگو صرف اسی موضوع تک محدود رہی تو نوجوان اہل علم کی اس مجلس سے کما حقہ استفاد ے کا امکان جاتا رہے گا۔ لیکن شیخ عائض کی دلگرفتہ گفتگو اور اس پر بسمہ  کی بر جستہ تنقید نے کچھ ایسی  پیش بندی کردی تھی کہ اس موضوع  سے دامن بچا نا بھی مشکل  تھا ۔ سوچا تقریر کا موقع نہیں اور نہ  میں تقریر  کا آدمی ہوں کیوں نہ اپنی توجہ چند اہم سوالات  کی ترتیب و تشکیل  تک محدود  رکھی جائے سو پہلے تو میں نے اس بات کی وضاحت  کی کہ خدا کے آخری پیغام کے حاملین  کی حیثیت  سے ہم تمام مسلمان  خواہ مرد ہو یا عورت ، ہماری حیثیت  اپنی ذات میں ایک امکانی  مہدی کی ہے۔ رسول اللہ کے غیاب  میں اب آخری لمحہ  تک اقوام  عالم کی رشد و ہدایت  کا فریضہ  ہم کمزور نفسوں کو انجام دینا ہے۔ ہمیں اس خام خیالی  سے نکلنا ہوگا کہ اب اصلاح احوال  کے لیے آسمان سے کوئی مسیح  نازل ہوگا یا کسی دامنِ کوہ سے کوئی مہدی ظہور  کرے گا۔ اصلاح احوال کے لیے ظہور  مہدی  کی تمناّ اور آہ وزا ریاں  یا وفق  و نقوش کی تیاریاں یا صبح  دم سبز  پرندے  کی آمد ایسا  کوئی بھی عمل  کار گرنہ  ہوگا۔ اب  یہ کام ہم متبعین  محمد گو انجام دینا ہے۔

عزیز نوجوانو! جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مہدی آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہوگا جس کے گرد سادات اور صلحائے امت جمع ہوجائیں گے وہ اس نکتہ  کو کیونکر فراموش کیے دیتے ہیں کہ آج اس سرزمین  پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کوئی آل موجود نہیں ہے۔ قرآن مجید ماکان محمد ابا احمد من دجالکم  کا فلک شگاف اعلان کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس سے بڑی دھاندلی شاید اور کوئی نہ کوئی ہو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منقطع نسلی سلسلے کو جس پر قرآن مجید کی صریح شہادت  موجو د ہو ، نرنپہ اولاد کی عدم موجودگی  کے باوجود بیٹی کی اولاد سے یہ سلسلہ جاری سمجھا گیا ہو،  اور پھر عجیب بات یہ ہے فاطمہ رضی اللہ عنہ کے بعد پھر یہ سارے نسلی سلسلے حسن اور حسین اور ان کی اولاد ذکور سے سے جاری سمجھے جاتے ہیں۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جلالت شخصی اپنی جگہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہ کے سعادت مند بیٹوں حسن و حسین کے مراتب و مناقب سے بھی انکار نہیں لیکن ان دونوں  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اولاد قرار دینا عقل اور وحی دونو ں کا انکار ہے۔ سید بمعنی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں موجود ہی نہیں تو پھر ان کے خانوادے سے مہدی کا ظہور یا سادات کی قیادت میں اہل ایمان  کی آخری معر کہ آرائی کی باتیں محض ایک بے بنیاد  فسانہ ہے۔ مہدی کا اسطورہ ہو یا آل محمد  کی تفضیل کا قصہ ، جس نے امت کو صدیوں سے ایک لایعنی انتظار میں مبتلا کر رکھا ہے ، دراصل تیسری چوتھی صدی ہجری  کے سیاسی بحران کا پیدا کردہ ہے۔ طویل گفتگو کا موقع نہیں ، آپ سب لوگ اہلِ علم و تحقیق ہیں ۔اگر اس عہد میں عباسی اور فاطمی خلافتوں کی باہمی رقابت اور اس کے نتیجہ  میں پیدا ہونے والے ادب پر آپ کی نگاہ ہوتو آپ اس نکتہ کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ مسائل دین اور اعتقاد  سے کہیں زیادہ سیاسی پروپیگنڈے کی رہین منت ہیں۔ مصیبت یہ ہوئی کہ تیسری اور چوتھی صدی میں مناقب اور پروپیگنڈے کی روایتیں آل بویہ ، فاطمی خلافت اور عباسی علماء کی کتابوں  میں مدون ہوگئیں۔ متبادل خلافتیں تو ختم ہوگئیں  لیکن بد قسمتی  سے ان کی تیار کردہ مخالفانہ اور معاندانہ لڑیچر اور روایتو  کے مجموعے باقی رہ گئے ۔

آنے والوں نے صرف یہ دیکھا کہ کلینی نے یوں لکھا ہے اور شیخ  مفید نے یوں تذکرہ کیا ہے ، صحاح ستہ کے مصنفین  کاموقف  یہ ہے یا طوسی اور ابن بابو یہ اس خیال کے حامل ہیں ۔ گزرتے وقتوں  کے ساتھ تاریخ  و آثار  کے ان متجارب اور بسا اوقات گمراہ  بیانات کو تقدیسی  حیثیت حاصل ہوتی گئی ۔ پھر اگلوں کے لیے یہ ممکن  نہ رہا کہ وہ اس معاندانہ سیاسی پروپیگنڈے سے ماوراء اسلام کے اس پیغام کو متشکل کر پاتے جو اہل ایمان کو کسی لایعنی انتظار میں وقت ضائع کرنے کے بجائے جہد و عمل پر آمادہ کرتا ہے۔آج جب کوئی ہزار سال گزرنے کے بعد اساطیر کی دھند خاصی و بیز ہوگئی ہے  ، عام انسانوں  کے لیے ان التباسات کو عبور کرنا کچھ آسان نہیں  ۔ لیکن  میں نا امید نہیں ہوں۔ وحی ربّانی کا غیر محرف و ثیقہ اپنی تمام تر آب وتاب کے ساتھ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ بس ضرورت اسے از سرِ نو کھولنے کی ہے۔

ذرا غور کیجئے  جس مہدی کی قیادت میں آخری معر کہ کی صف بندی ہونی ہے اور جس مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی ہمارے ملی تجدید و احیاء کا سبب بننے والی ہے اس کے ذکر سے ، اتنی بڑی اور اہم خبر  کے تذکرے سے، قرآن کے صفحات کیوں خالی ہیں؟ اس بات پر مت جائیے کہ فلاں  صاحب کشف نے یہ کہا ہے یا فلاں راوی نے یوں نقل کیا ہے بلکہ یہ دیکھئے کہ خدا کی کتاب آپ سے کیا کہتی ہے؟

میری گفتگو گوکہ مختصر تھی لیکن اس مختصر سے وقفہ  میں بھی پچھلی صف میں بیٹھے ہوئے بعض  نوجوانوں کے ہاتھ  مسلسل اٹھتے رہے۔ شاید وہ  کچھ کہنا چاہتے ہوں یا ان میں اپنے موقف کے خلاف کچھ سننے کی تاب نہ تھی۔  یہ پانچ چھ نوجوان تھے جنہوں نے اپنی گردنوں میں فلسطینی طرز کا سیاہ و سفید رومال لپیٹ رکھا تھا اور غالباً یہ شیخ عائض کے قافلے کے ساتھ موصل سے آئے تھے ۔ ایک دبلا پتلا نوجوان جس کی زلفیں شانوں تک آرہی تھیں، نے سوال کی اجازت چاہی ۔ کہنے لگا کہ علامہ سعید نورسی نے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جواز پر ایک حدیث بیان کی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے علی! ہر نبی کی اپنی اولاد تھی اولاد تم میں سے ہوگی۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

نوجوان قدرے مشتعل اور جذباتی ساہو رہا تھا ۔ میں نے کہا میرے بھائی شیخ نورسی کا احترام اپنی جگہ لیکن میں اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ یہ روایت عقل اور وحی دونوں  کے خلاف ہے۔ اس قسم کی روایتیں  یا اشعار مثلاً اسمٰعیلیوں  کا یہ نغمہ:

لی خمسۃ اطفی بھا حر الوباء الحاطمۃ

المصطفیٰ و المرتضیٰ و ابنا ھما والفاطمۃ

جو حسن و حسین  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مشتر کہ اولاد بتاتے ہیں ، دراصل عقیدت اور غلو کے پردے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس  پر افترا ء اور بہتان باندھتے ہیں۔

آج بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تصویر اس امت میں شدید اختلاف چلا آتا ہے ۔ بعض لوگ پنجتن تک آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محدود رکھتے ہیں  ، بعض ائمہ اثنا عشر، ائمہ سبعہ یا اسمٰعیلیوں کی طرح امام حاضر کو اس سلسلہ میں شامل سمجھتے ہیں ۔ بعض  کے نزدیک حسنی حسینی سادات  کے تمام سلسلے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم  میں شامل ہمارے صلوٰۃ و سلام کی برکتوں  سے مستفیض  ہورہے ہیں اور بعضوں کے نزدیک حدیث کِساکے حوالے سے آل عباس بھی اس اعزاز  میں شریک ہیں جن  کے بارےمیں اگر روایتوں  پر یقین کیجئے تو رسول اللہ  نے خود یہ دعا فرمائی ہے کہ  اللھم اغفو للعباس وولدہ مغفرۃ ظاھرۃ و باطنۃ لا تغا در ذنبا اور  یہ کہ ان میں خلافت کو ہمیشہ باقی رکھ ( واجعل الخلافۃ فیھم ) ۔

اب تاریخ نے اس امر کو فیصل کردیا ہے کہ آل عباس میں خلافت کے بقا کی نبوی دعا ایک تراشیدہ اسطورہ تھی ۔ ورنہ ان کی خلافت اس روایت  کے مطابق ظہور مسیح علیہ السلام  تک باقی رہنی چاہیے تھی ۔ جس طرح آلِ عباس کے دعویٔ خلافت کی حقیقت ایک سیاسی پروپیگنڈے سے زیادہ نہ تھی اسی طرح فاطمی اور عباسی خلفاء  کا آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کا دعویٰ یا اعطا ء آل محمد حقھم یا الرضا من آل محمد  کے نعرے سیاسی پروپیگنڈے کی پیداوار تھے ۔ آل کا یہ سارا کاروبار جس نے آگے چل کر امت  کی حریتِ فکری سلب کرلی، دراصل تیسری چوتھی صدی کی سیاسی رقابت او ر معرکہ آرائیوں  کی پیداوار ہے۔ قرآن مجید کو کھلی آنکھوں سے پڑھیے یہا ں نہ صرف یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسلی سلسلہ کے انقطاع کا اعلان ہے بلکہ بار بار بہ اسالیب مختلف ، یہ بات  ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ قرآن جس معاشرے کے قیام کا داعی ہے وہاں انسانوں  کے تفوق و افتخار کی بنیاد صرف اور صرف تقویٰ ہے: ان اکر مکم عند اللہ اتقاکم۔ اہل ایمان سے مطالبہ ہے کہ وہ پوری مسلم حنیف بنیں ، ایسے ربّانی بنیں  جن کا وجہ امتیاز  صرف اور صرف صبغۃ اللہ ہو۔

فاضل مصنف گو کہ آپ کی بات دل کو لگتی ہے لیکن اتنی آسانی سے حلق سے اترنے والی نہیں  ۔ ایک ترک خاتون نے  جواب تک بڑے ضبط سے اس مناقشے کو سن رہی تھیں، نے قدرے  دانشور انہ لب و لہجہ  میں مداخلت کی ۔ کہنے لگیں اگر آپ کی یہ باتیں  مان لی جائیں تو اندیشہ ہے کہ مروجہ اسلام کی عمارت ہی زمین بوس ہوجائے ۔ میں تو جمعہ کی نماز میں جب بھی جاتی ہو ں خطبہ مسجد  کی زبانی اہل بیت اطہار کی تفصیل میں خطیب جمعہ  کو رطب اللسان پاتی ہوں ۔ ہمیں  تو بچپن سے یہ بتایا گیا ہےکہ خلفائے راشدین چار ہیں اور ان کے علاوہ مزید چھ لوگ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں ۔ حضرت حمزہ شہدائے جنت کے سردار ہیں ۔ حسن اور حسین کو نوجوانان جنت کی سرداری حاصل ہے اور حضرت فاطمہ کو جنت کی عورتوں کی سیادت عطا کی گئی ہے۔ اب اگر آپ آل کے تصور کو مسترد یا منہدم کردیں گے تو ہمارا سارا خطبہ بے معنیٰ ہو جائے گا۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آپ ایسا کر کے ایک بڑے فکری ، بحران کو دعوت دے رہے ہیں؟

ترک خاتون تو اپنا مختصر سوال کر کے بیٹھ گئیں لیکن ان کی گفتگو نے بڑے مسائل کھڑے کر دیے ۔ جمعہ کے حنفی  خطبے  ، خاص طور پر خطبۂ ثانیہ ، جو ایک اعتبار سے اہل سنت و الجماعت کے اعتقادات کامستند بیان سمجھا جاتا ہے ، کیا از سر نو اس کے محاکمہ کی ضرورت ہے؟ موضوع تفصیلی گفتگو کا طالب تھا جس کا یہاں موقع نہ تھا سو میں نے محض یہ کہنے پر اکتفاکیا کہ جمعہ  کے یہ مقفیٰ اور مسیحیٰ خطبے جسے ابن نباتہ جیسے اہل فن نے چوتھی صدی ہجری میں مرتب  کیا اور جس نے آگے چل کر غیر عرب ممالک میں مسیحیٰ اور مقفیٰ تحریری خطبوں کی روایت قائم کی، مختلف  ارتقائی ادوار سےگزر ے ہیں۔

حضرت معاویہ کے عہد تک بلکہ اموی سلطنت  کے کسی دور میں بھی چار خلفاء کا تذکرہ خطبوں  میں نہیں  ہوتا تھا ۔ مؤرخین  نے لکھا  ہے کہ عہد ِ معاویہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے تذکرے پر بات ختم ہوجاتی تھی۔ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی خلافت چونکہ پوری طرح قائم ہی  نہ ہو پائی تھی اور ان کے نام پر امت میں اتفاق  قائم نہ ہو ا تھا سو ان کا نام متفقہ خلفاء کی فہرست میں شامل  نہیں کیا جاسکتا ۔ متوکل کے عہد  میں پہلی بار ابن  حنبل کی ایما ء پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چوتھے خلیفہ ٔ راشد کی حیثیت سے خطبہ کا حصہ بنایا گیا ۔ رہا مناقب اہل بیت کی روایتوں  کا خطبہ میں شامل ہونے کا معاملہ تو یہ فاطمی اور عباسی رقابتوں کے نتیجہ  میں ممکن  ہوسکا۔ دونوں ہی بنیادی طور پر شیعہ تحریکیں تھیں جو قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے منصب خلافت کی طلبگار تھیں۔مناقب کی وہ روایتیں  جن کا ہم سنیّ خطبوں  میں کثرت سے تذکرہ سنتے ہیں اور جو کثرت سماعت  سے ہمارے لاشعور کا حصہ بن گئی ہیں، قرآن کے بنیادی پیغام سے متصادم ہے اور اسی لیے ان کی حیثیت  رسول اللہ کی حدیثوں  کی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر کذب و افترا کی ہے۔

ہماری گفتگو خاصی سنجیدہ رخ اختیار کر چلی تھی اور وہ بھی ان حساس امور پر جہا ں لوگ مدت سے بعض خیالات کو عقائد کی طرح سینے سے لگائے بیٹھے ہوں ان پر پے در پے سوالات قائم کرنا بعص لوگوں کے لیے نا قابل انگیز  ہوسکتا تھا ۔ بسمہ نے حاضرین کی توجہ اس امر پر دلائی  کہ آج کی یہ مجلس  مہدی کے مسئلہ کو فیصل کرنے کے لیے نہیں  بلائی گئی ہے ۔ اگر ہم ایک ہی مسئلہ  اور اس کی تفصیلات میں الجھتے گئے تو اندیشہ ہے کہ ہمہ جہتی  گفتگو کا امکان  جاتا رہے اور ہم فاضل مہمان  سے خاطر خواہ  استفادہ نہ کرسکیں۔لیکن ان تنبیہات  کا کچھ زیادہ اثر نہ ہوا ۔ ایک ترک نوجوان ، جس کی عمر یہی کوئی بیس بائیس سال ہوگی، کہنے لگا کہ معاف کیجئے گا میں پہلے ہی سے ایک ذہنی خلجان میں مبتلا تھا اب آپ کی گفتگو سن کر تو ایسالگتا ہے جیسے میرے قدموں  تلے سے زمین  ہی کھسک گئی ہو۔

یہاں استنبول میں ایک صاحب ہیں، جو خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیوں  میں خاصے مقبول  ہیں، ان کے مریدوں  کی ایک بڑی تعداد خاموش  طور پر یہ سمجھتی ہے کہ شاید وہی مستقبل کے مہدی ہوں۔ بعض نوجوان خصوصاً متمول  گھرانوں  کی لڑکیاں  جو ان کے حلقۂ مریداں  میں شامل  ہیں، اس احساس  تلے جیتی ہیں کہ ہم آخری ساعت میں جی رہے ہیں جہاں کسی بھی لمحہ مہدی  کا ظہور  ہو سکتا ہے  او رکیا عجب کہ ہمارے شیخ او ر ہمارے ماسٹر جنہیں خدا نے ظہور مہدی  کی بشارت  پر مامور کیا ہے اور جو نسلی طور پر سید بھی ہیں ، خود بہ نفس نفیس مستقبل  کے مہدی ہوں۔ انہوں نے خود اس  بات کا دعویٰ  تو نہیں کیا ہے، لیکن وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ سعید نورسی ، جنہیں ہمارے ہاں بڑے احترام سے دیکھا جاتا ہے ، وہ مہدی نہیں تھے کہ خود نورسی کے مطابق  وہ تین کام جو مہدی کو انجام دیتا ہیں وہ ان کے ہاتھوں  انجام نہیں پا سکے۔ نورسی کی پہلی شرط کہ مہدی مادیت  پر فتح حاصل  کرے گا، ان کے ہاتھوں  پوری  نہیں ہوئی  بلکہ ڈارون  ازم کے قلعہ  کو مسمار  کرنے کا کام تو دراصل  انہوں نے انجام دیا ہے۔

رہی عالم اسلام کی وحدت اور اس کے احیاء  کا کام یا بالآخر شریعت  کے نفاذ اور اس کے غلبہ و تفوق  کا معاملہ تو یہ کام بھی ٹرکش اسلامی یونین  کی دعوت  کے ذریعہ وہی انجام دے رہے ہیں۔میری مشکل یہ ہے کہ میں چند سال پہلے سلسلہ قادریہ میں بیعت  ہوا ہوں ، باپ دادا کی طرف سے مسلکاّ حنفی ہوں، اب تک تو اسی مسئلہ میں پھنسا ہوا تھا کہ عبدالقادر جیلانی کی بیعت  کے بعد جو مسلکاّ حنبلی تھے، میرے  لئے حنفی  مسلک  پر باقی رہنا جائز ہے یا نہیں ؟کیا میں اپنے روحانی شیخ کے علاوہ فقہی مسائل میں کسی دوسرے مسلک  کو اختیار  کرسکتاہوں ، خاص طور پر جب مہدی کی آمد  کا زمانہ قریب ہو؟ کیا شیخ عبد القادر جیلانی اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خیموں  سے بیک وقت وابستہ  رہنا شرعی  طور پر جائز  ہے اور پھر ان وابستگیوں  کی موجودگی  میں نئے مہدی سے بیعت  کی حیثیت کیا ہوگی؟کیا ان  کی آمد پر حنفی ، قادری یا ان جیسے دوسرے تقلید  ی مراکز اپنا جواز  کھودیں گے؟

اب چونکہ آپ نے سادات کے جواز پر ہی سوالیہ نشان  لگا دیا ہے تو غور  و فکر کا میرا پرانا ڈھانچہ  ہی زمین بوس  ہوگیا ۔ لیکن میں نہیں سمجھتا  کہ اتنے سارے لوگ جو نقشبندی  قادری سلسلہ  میں بیعت  ہیں یا جو ظہور  مہدی  کی روایتوں  پر ایمان رکھتے ہیں وہ سب بیک وقت غلط ہوسکتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ نوجوان اپنی نشست  پر جا بیٹھا ۔

ایک دوسرے طالب علم  نے اپنی معلومات  کی زنبیل  سے یہ حدیث  پیش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جس نے  خرو ج مہدی کا انکار کیا اس نے ان تمام چیزوں  کا انکار کیا جو مجھ پرنازل ہوئی ہیں۔غرض یہ کہ وہ کافر ہوگیا ۔ کیا کہتے ہیں آپ  اس حدیث کے بارے میں ؟ کیا انکار مہدی  کے بعد اب آپ  کا شمار  کافروں  میں نہ ہوگا؟ اس کا انداز قدرے جارحانہ تھا ۔ بعض منتظمین  کی جبینیں شکن  آلود ہوگئیں لیکن بسمہ  نے  حسب  معمول  اس سوال  کا بھی ایک دلآویز  مسکراہٹ  کے ساتھ قبول کیا ۔ کہنے  لگی سوالات  بہت ہیں اور وقت کم ۔ کیا  یہ بہتر  نہ ہوگا  کہ اس بارے میں  اگر کسی  او رکو بھی کچھ  کہنا ہو تو وہ کہہ گزرے تاکہ فاضل  مہمان  کم از کم اجمالاً ان تمام سوالوں  کا جواب دے سکیں۔

جی ہاں مجھے مہدی کی طویل  العمری  کے بارےمیں  پوچھنا ہے ۔کہا جاتا  ہے کہ وہ بارہ سوسال  سے کہیں  روپوش ہیں ۔ تو کیا وہ ہماری طرح کھاتے پیتے  اور زندہ آدمی  کی طرح رہتے ہیں یا ان پر اصحاب  کہف  کی طرح نیند طاری کردی گئی ہے۔ قرآن  و حدیث  کی روشنی میں بتائیں  کہ حقیقت  کیا ہے؟

یہ تو آپ ان سے پوچھئے  جنہوں  نے اپنے عقائد کے نہاں  خانوں  میں ایک خیالی مہدی  کو گذشتہ  بارہ سو سال  سے بسا رکھا ہے اور جس کے انتظار  میں ان  کے شب و گذرتے اور جن کے ظہور  کی دعا کو وہ دینی فریضہ سمجھتے  ہیں ۔ البتہ  ایک بات  میں ضرور  کہنا چاہوں گا کہ مہدی  کے مسئلہ  پر اسلامی  تاریخ  میں کبھی  بھی کوئی متفقہ  رائے نہیں  پائی گئی ہے۔علماء کے ایک قابل  ذکر حلقہ  نے ہمیشہ  ان روایتوں  کے بے اصل ہونے کا اعلان  کیا ہے۔ رہی یہ بات  کہ مہدی کی  روایتوں  کے انکار سے ایمان جاتا رہتا ہے تو ایسا  کہنا  ایک بہت بڑی جسارت ہے ۔ اگر  یہ اتنی  ہی اہم بات ہوتی تو قرآن  ہمیں مہدی کی بابت ضرور آگاہ کرتا۔

اب میں چند ایک جملے  اس نوجوان کی بابت بھی کہہ دوں جو عبدالقادر جیلانی الحسینی کے سلسلے سےبیعت  کے بعد حنفی مسلک پر قائم رہنے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لیجئے  کہ یہ بیعت  ویعت کا سلسلہ ، پیری مریدی  کی زنجیریں ، یہ وہ باتیں  ہیں جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔  یہ بعد  کے لوگوں کی ایجاد و اختراع ہیں۔

عزیز من! یہ آپ سے کس نے کا کہ آپ سلسلہ قادریہ  میں بیعت  ہوجائیں یا ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی اقتداء  کو لازمۂ ایمان  جانیں؟ اور اس بیعت سے حاصل کیا ہونے کو ہے؟ عبدالقادر اور ابو حنیفہ تو ہماری اور آپ کی طرح عام انسان تھے ۔ نہ ان حضرات کو نبوت ملی ، نہ ہی انہیں صحابہ کی صحبت نصیب ہوئی او رنہ ہی ان سے بیعت اور ان کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا ۔ اسلام تو ان جیسی  تمام بیعتوں کے خاتمے کے لیے آیا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ بندے کا تعلق براہِ راست خد ا سے جوڑ دے۔ آپ کو معلو م ہوناچاہئے کہ ہم تمام مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر رکھی ہے ، ہم میں سے ہر شخص آخری وحی  کی تحمیل  کا شرف رکھنا ہے ۔ اور جس کے ہاتھوں میں وحی کی تجلیاں تھمادی گئی ہوں اسے یہ کب زیب دیتا ہے کہ وہ قرآن مجید اور ذات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورکی طرف دیکھے ۔ ہمارے لیے تو خدا کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہی کافی ہے۔ اگر ہم نے اسے تھام لیا  تو ہمیں بہت سے فکری التباسات اور عملی خرافات  سے نجات  مل  جائے گی۔

میری گفتگو تو ختم ہوگئی لیکن حاضرین کے چہروں  پر اضطراب  و جستجو کی رمق اسی طرح باقی تھی ۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ سلسلہ  جاری دراز ہو۔ میری  سہلیوں  کے تو سارے سوالات دھرے کےدھرے رہ گئے لیکن  اس بات  سے خوشی ہوئی کہ اس فیض میں سب لوگ شریک ہوئے اور ہاں آخری انتباہ  کے طور پر ایک بات کہتی چلوں کہ غور و فکر کے اس منہج کو جاری رکھئے گا ۔سوالات قائم کیجئے اور اس کا جواب تلاش کیجئے اور اس تلاش و جستجو میں ہر صاحب علم سے  مدد  لیجئے ۔ اگر ہم نے اس طریقے کو جاری رکھا تو یقین  جانئیے ہم  صحیح سمتوں میں آگے بڑھیں گے ۔ یہ تمام غیر قرآنی حوالے  جو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے تراشے  ہیں اپنا اعتبار کھو دیں گے ۔ صرف خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا اسوہ باقی رہ جائے گا۔

میں خود ایک سنی حنفی گھرانے میں پیدا ہوئی ۔ قرآنیات  میری تحقیق کا موضوع تھا لیکن ایسا لگتا تھا جیسے میں اس لازوال کتاب کو کھولتے ہوئے ڈرتی تھی کہ کہیں میرا دل و دماغ قرآن مجید  میں  وہ معافی و مفہوم  نہ دیکھے جو اسلاف کے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ نہ ہوں۔ سو میں کتاب کھولتی  کم اور بند زیادہ کرتی رہی ۔ پھر ایک دن جب میں قرآن  مجید  کی تلاوت  کررہی تھی مجھے ایسا  لگا جیسے  خدا براہ راست مجھ سے مخاطب ہو ۔انما اشکوا بثی و حزنی الی اللہ پر جب میں پہنچی تو رو  پڑی ، پھر ایسا  لگا جیسے حضرت یعقوب کی طرح خدا  نے میرے دل  پر بھی سکنیت نازل کردی ہو۔میں ان دنوں بعض ذاتی نوعیت  کے مسائل سے پریشان تھی ۔ اب جو میں نے قرآن مجید  کو اپنی داخلی کیفیت اور سر بستگی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا تو ایک نئے تجربے سے دو چار ہوئی ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، میں معرفت یا سلوک کے کسی منصب پر فائز نہ  ہوئی او رنہ ہی مجھے شیخہ ہونے کا  دعویٰ ہے لیکن ہاں  پھر اس کے بعد مجھے کسی شیخ کا دامن تھامنے  کی ضرورت نہ رہی ۔

میں خود اپنی شیخہ ہوں اور خود ہی اپنی مولوی ۔ بلکہ مجھے اب اس بات کے اظہار  میں کسی کوئی تامل نہیں کہ جب میں نے نادانوں  کی طرح میں بھی مبتلا ہوں ۔ میں  اکثر سوچتی  خدانے مجھے قرآن کا علم دیا، اعلیٰ تعلیم کی توفیق  دی پھر مجھے یہ کب زیب دیتا  ہے کہ قرآن  کی موجودگی میں ہدایت کے لیے اپنے ہی جیسے کسی انسان کی طرف دیکھوں ۔ میں نے نہاں  خانہ دل میں فرقہ پرستی کے اس بت کو توڑ ڈالا ۔

میں ایک سنی گھرانے میں پیدا ہوئی لیکن جب یہ پتہ چلا کہ رسول اللہ کی ذات شیعہ سنّی  حوالے سے ماوراء تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ شیعہ تھے نہ سنّی ، یہ جھگڑے بعد کی پیدا وار ہیں تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ باہمی نزاع کے جس عہد میں موجود ہی نہ تھی اور جس جھگڑے سے خدانے مجھے بچائے رکھا اس میں اپنے آپ کو شامل کرنا یا کسی  ایک فریق  سے اپنی وابستگی  بتانا  کچھ مفید  عمل نہیں  ہوسکتا ۔ جب خدا کو ہمارا شیعہ  یا سنّی ہونا مطلوب نہیں بلکہ وہ ہمیں ربّانی بنانا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہم صبغۃ اللہ  میں رنگ جائیں، ہماری شناخت صرف اور صرف مسلمان کی ہو ( ھو سما کم المسلمین ) تو میں نے اپنی سنیت کو بھی خیر باد کہہ ڈالا ۔ گو کہ یہ علمی اور فکری سفر میرے لیے کچھ آسان نہ تھا لیکن  آج  میں یہ سمجھتی  ہوں کہ اس سفر کے بغیر ہم نہ ہی بنیان  مرصوص میں تبدیل  ہوسکتے ہیں اور نہ ہی وحی کی لازوال تجلی ہماری مشائیت کر سکتی ہے ۔ خدا  ہمارے مہمان پر اپنی رحمتیں دراز کرے کہ انہوں نے ہم جیسے بہت سے لوگوں کے اندر طالب  علمانہ  اعتماد  کی آبیاری کی ہے جس کا ایک نقصان یہ تو ہے کہ آدمی  کبھی علامہ یا شیخ نہیں  بنتا  ہمیشہ طالب علم بنا رہتا ہے ۔ لیکن جو لوگ طلب علم  کی لذت سے آشنا  ہیں وہ یقیناً شیخ الا اسلام  بننے کے بجائے طالب علم  بنے رہنے کو ترجیح  دیں گے ۔ آج کی مجلس  گو کہ اختتام کو آ پہنچی  ہے لیکن سوالات  کے سلسلے  کو جاری  رہنا چاہئے ۔( لستم پوخ جاری ہے)

اکتوبر، 2013  بشکریہ : صوت الحق ، کراچی

URL for Part 1:

https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-1/d/14317

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul/d/14328

 

Loading..

Loading..