ڈاکٹر راشد ساز، دہلی
وحی ربانی کے گرد فقہا ء کے قائم کردہ حصار سے امت کی راہ گم ہوگئی ۔ مسلمانوں کی ملی اور مذہبی زندگی اپنے ہی جیسے انسانوں کی متضاد او رمتحارب آراء کے گرد گردش کرنے لگی ۔اب کسی کو اس بات سے کوئی سروکار نہ رہا کہ کسی مسئلہ پر خدا کی کتاب کیا کہتی ہے ، بلکہ اہمیت اس بات کو حاصل ہوگئی کہ اس بارے میں ان کا مسلک کیا کہتاہے، جب ایک بار انسانوں کی گردنوں پر انسانوں کو اختیار حاصل ہوگیا تو نت نئے عناوین سے چھوٹے چھوٹے روحانی خداؤں اور احبار اسلام کا ظہور فطری تھا، کہ بعینہ یہی صورت حال پا پائیت نے بعثت نبوی سے پہلے قائم کر رکھی تھی ، بلکہ آگے چل کر تو چرچ کے نمائندے گناہ و ثواب کی بخشش اور جنت و جہنم کے پروانے بھی عطا کرنے لگے ۔جس کا جی چاہتا وہ حسب توفیق نذرانہ کے عوض اپنی نجات کا تسلی بخش انتظار کرلیتا ۔
حیرت ہوتی ہے کہ جس رسول کا اعزاز یہ ہو اور جس کا فریضۂ منصبی یہ بتایا جاتا ہو کہ اس نے بندوں کی گردنوں کو خود ساختہ پیشواؤں کی گرفت سے آزاد کر کے خدا سے راست مربوط کر دیا، اسی نبی کے دین میں چند ہی صدیاں گزرنے کے بعد روحانی خلافت اور پیری و مریدی کے حوالے سے ایک نئی پاپائیت کیسے متشکل ہوگئی ؟ ۔ تصوف کی ابتدا دراصل مذہب کے سیاسی استعمال بلکہ استحصال او ر بڑھتی ہوئی مادیت کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے کی تھی ۔ پھر اسے فاطمیین نے اپنے قالب میں ڈھالنے اور اپنی سیاسی دعوت کو مستحکم کرنے کے لئے تحریک کے طور پر استعمال کیا ۔ اہل اللہ کے لبادے میں ایک زیر زمین تحریک کو منظّم کرنے کے لیے اسماعیل داعی مختلف بلاد و امصار میں پھیل گئے ۔ اس خفیہ تحریک کی اثر انگیزی کا اندازہ کچھ اس بات سے کیجئے کہ عین فاطمی عہد میں ملتان جیسے دور درواز علاقے میں اسماعیل ولایت قائم ہوگئی ۔ محمود غزنوی کے حملہ سےپہلے تک ملتان بر صغیر کی صوفی تحریک کے لیے ہیڈ کواٹر کا کام انجام دیتا رہا ہے ۔ ا س بات کی تاریخی شواہد موجود ہیں کہ معین الدین چشتی، قطب الدین بختیار کاکی اور اس قبیل کے دوسرے بہت سے بزرگوں کا اس چھوٹی سی اسماعیل ولایت میں بار بار آنا جانا لگا رہا ۔ عثمان ہارونی، بہا الدین ذکریا، نظام الدین اولیاء علی ہجویری ، بابا فرید، شہباز قلند ر اور اس طرح کے جتنے بڑے نام ہیں یہ سب لوگ دراصل جلیل القدر اور پر عزم اسماعیل داعی تھے جو فاطمی سادات کی اسماعیل ریاست کو وسعت اور استحکام عطا کرنے کے خفیہ مشن پر مامور تھے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ باطنی خلافت کے قیام سے فاطمی داعیوں نےاپنی سیاسی زوال کی بڑی حد تک تلافی کرلی اور اس سے بھی انکار مشکل ہے کہ ان حضرات کی اولوالعزمی اور زیر زمین طریقۂ کار کے سبب اسلام کی دعوت ان علاقوں تک پہنچ گئی جہاں سیاسی حالات انتہائی نا مساعد بلکہ نا قابل نفوذ تھے ۔ البتہ اسلام کا جو تصوران صوفیا کے ذریعہ لوگوں تک پہنچا وہ دین کی غلو آمیز اسماعیل تعبیر تھی جس کی بنیاد تفصیل علی، پنجتن ، ہمہ اوست اور تصرفات نگہ پیر علوی پرر کھی گئی تھی ۔ عالم اسلام کے بیشتر صوفی مقابر اور خانقاہیں جو صدیوں سے مرجع خلائق بنے ہوئے ہیں ، فی الواقع اسماعیل دعوت کے زیر زمین مراکز رہے ہیں ، حتیٰ کہ تصوف کی بیشتر اصطلاحیں مثلاً پیر، مرید، شریعت ، طریقت ، باطن اور ظاہر وغیرہ ان ہی حضرات کی وضع کردہ ہیں ۔ عباسی خلفا ء بھی اہل اللہ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے ناواقف نہ تھے ۔ اغلب امکان ہے ، نقشبندی سلسلے کو ، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بجائے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اپنی نسبت جوڑتا ہے ، ان کی پشت پناہی حاصل رہی ہو۔
جنوری، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/spiritual-caliphate-just-discipleship-/d/76884