New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 10:38 PM

Urdu Section ( 8 Jan 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Eleven Days in the Spiritual City of Istanbul-Part- 17 (روحانیوں کے عالمی پایۂ تخت استنبول میں گیارہ دن ( حصہ ۔ 17

 

ڈاکٹر راشد شاز ۔ دہلی

رات سونے میں کچھ ایسی تاخیر نہ ہوئی تھی لیکن نہ جانے کیوں آج تھکن کا احساس کچھ زیادہ تھا ۔ ویسے تو آج کوئی خاص مصروفیت نہ تھی ۔ سو یہ سوچ کر اطمینان ہواکہ آج زیادہ تر وقت ہوٹل میں ہی آرام کروں گا۔ آج ستمبر کی 13 تاریخ  تھی ۔ اب اولوداغ کی چوٹیو ں پر روحانیوں  کے اجتماع میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا ۔ مصطفیٰ اوغلو نے کہہ رکھا تھا کہ آج کسی وقت بھی کوئی خبر آسکتی ہے۔ اولوداغ کی روحانی اسمبلی میں جہاں ہفت اقالیم کے قطب اپنے چالیس ابدال  اور درجنوں اوتادو اخبار کے ساتھ جمع ہوتے ہیں کسی ایسی مجلس میں شرکت کے خیال سے ہی دل بلیوں اچھلنے لگتا اور کبھی اندیشوں اور خطرات کے پیش نظر ایک طرح کی ہیبت طاری ہوجاتی ہے ۔ شاید یہ اس پر اسرار سفر کا اثر تھا کہ نفسیاتی دباؤ کے سبب سفر سے پہلے ہی قویٰ جواب دینے لگے تھے ۔ ابھی میں  چشم تصور میں اس سفر کی منصوبہ بندی کررہا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ دوسری طرف ہاشم اور ان کے احباب تھے جو الوداعی ملاقات کے لیے آنا چاہتے تھے ۔ پرسوں میری روانگی کا دن تھا ۔ کل کا دن اولوداغ کے لیے مخصوص تھا اور آج د ن کا بڑا حصہ مجھے انتظار میں گزارنا تھا۔

 لیکن ابھی تو تکان کا غلبہ ہے۔ میں نے ہاشم سے کہا کہ اگر چاہو تو دو پہر کے بعد آجاؤ۔

فون رکھنے کے بعد اچانک خیال آیاکہ کیوں نہ روحانیوں کے پچھلے سالانہ جلسے کی رپورٹ پر ایک نظر ڈال لی جائے جو مجھے ہو جا عثمان نے چند دن پہلے بھجوائی  تھی ۔ کاغذات کے انبار سے وہ رپورٹ نکالی اور چائے کے گھونٹ کے ساتھ اس کے صفحات الٹنے لگا ۔ ایسا لگتا تھا کہ اس رپورٹ کے مختلف حصے مختلف لوگوں نے مل کر تیار کیے تھے ،  کہیں ہاتھ کی لکھی عربی  تحریر تھی تو کہیں ترکی زبان  میں جگہوں  اور آدمیوں کے نام لکھ کر مختلف قسم کے نقشے اور زائچے بنا دیے گئے تھے ۔ او رکہیں مختلف ناموں کے گرد مختلف ہندسوں   کو ایک خاص ترتیب سے سجایا گیا تھا ۔ جاء بجاء انگریزی ٹائپ میں مقامات اور بڑے شہر وں کے نام لکھے تھے اور ان کے گرد خط کشیدہ دائرے بنا کر انسانی نام لکھ دیے گئے تھے ۔

اس مسود ے کو کئی بار الٹ پلٹ کر دیکھنے سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اولوداغ کی پچھلی کانفرنس میں ہفت اقالیم کے اقطاب کے علاوہ چالیس ابدال، بارہ اہل ارشاد اولیاء اور بارہ اہل تکوین اولیاء نے شرکت کی تھی ۔ ابدال کی ایک بڑی تعداد بلاد شام  سے آئی تھی جنہوں نے اپنے طور پر سات سو اخیار کی سالانہ کار گزاریوں کی رپورٹ پیش کی ۔ یہ بھی  پتہ چلا کہ سات اقالیم کے قطب کے علاوہ جن کا اپنے اقالیم میں قیام ہوتا ہے، پانچ مزید قطب بھی ہوتے ہیں ، جنہیں قطب ولایت کی حیثیت حاصل ہے اور ان کا مستقل قیام بلاد شام میں رہتا ہے ۔ رہے ہفت اقالیم کے ہفت اقطاب تو ان کی حیثیت دراصل یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک فی زمانہ کسی نہ کسی  نبی کا قائم مقام ہے اور وہ سات انبیاء جن کی قائم مقامی ہفت اقالیم کے قطب کرتے ہیں ان کے نام اس طرح ہوں ۔ابراہیم، موسیٰ ، ہارون، ادریس، عیسیٰ ، آدم اور یوسف ۔ اس کے علاوہ چار اوتار دنیا کے چاروں کناروں پر ہمہ وقت متعین رہتے ہیں۔ چار عماد مختلف جگہوں سےامور دنیا  پرنظر رکھتےہیں ۔ ان چاروں کے نام محمد ہیں ۔ غوث یا قطب الاقطاب ایک ہی شخصیت کےدو پہلو ہیں۔ البتہ یہی قطب الاقطاب جب قطب وحدت بن جاتاہے تو اسے کائنات پر مکمل تصرف  حاصل ہو جاتا ہے ۔   اس کے علاوہ کوئی ستر نجباء حسن کے نام سے مصر کے صحرا میں رہتے ہیں۔ نقباء کی صحیح تعداد تو معلوم نہ ہوسکی البتہ یہ ضرور پتہ لگا کہ ان کے نام علی  ہوتے ہیں اور ان کی سکونت عموماً مغارب میں ہوتی ہے۔ گذشتہ سال کی کاروائی کو ایک نقش کے ذریعہ بیک نظر دکھایا گیا تھا لیکن  اس کا سمجھنا کچھ آسان نہ تھا ۔ مختلف قسم کے وفق ونقوش کے درمیان ایک گول دائرے میں شکستہ خط میں لفظ اللہ لکھا تھا اور  اس کے اوپر غالباً اس مجلس کو نظر بد سےبچانے کےلیے ایک ایک چشمی علامت بنادی گئی تھی۔ رپورٹ بند کرکے واپس  بیگ میں رکھ دی۔ کبھی اس خیال سےمسرت ہوتی کہ روحانیوں کی اس مجلس میں بہ نفس نفیس شرکت کاموقع ملے گا۔ او رکبھی خطرات و اندیشوں کے سبب دل ہولنے لگتا ہے۔

ظہر کے بعد ہاشم ، ولید اور ساجد تشریف لے آئے۔ ہاشم حسب معمول متفکر اور سنجیدہ لگ رہے تھے ۔ ساجد کے چہرے پر ایک طرح کا کھلنڈراپن تھا اور ولید  نے اپنے ہاتھوں میں منقش بسم اللہ والی پورسلین کی پلیٹ تھام رکھی تھی جسے وہ بطور تحفہ مجھے دینا چاہتے تھے ۔ ہاشم کو میری واپسی کا دکھ تھا ۔ کہنے لگے سلوک کے اس راستے پر جب اندیشوں ، و ساوس اور شبہات نے آگھیرا ہے،آپ عین دوراہے پر ہمیں چھوڑے جارہے ہیں ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ کچھ دن مزید آپ کا قیام ہوتا اور راہ سلوک کی گتھیوں کو سلجھا نے میں آپ  سے مدد ملتی ۔

ساجد نے حسب معمول چہکتے ہوئے مداخلت کی ۔ کہنے لگا کہ کل شب دیر تک ہم لوگ آپس میں گفتگو کرتے رہے ۔ استنبول تو ہم لوگ ایک شیخ کی تلاش  میں آئے تھے، ایک ایسے شیخ کامل کی تلاش میں جو ہمیں اپنی صحبتوں سے صیقل کردے،جس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ہم اپنی نجات کے سلسلے میں مطمئن ہو جائیں ۔ لیکن یہاں آکر خود ادارہ مشایمخت کے بارےمیں ہم شبہات کاشکار ہوگئے ۔ ہماری بد دلی شیخ ہشام اور عبدالکریم کے باہمی جھگڑوں  کے سبب شروع ہوئی تھی ۔ پھر ہم شیخ محمود آفندی کے تقدیسی ہالے میں گرفتار ہوئے ۔ لیکن جب ہم لوگ محمود آفندی سے ملاقات  کے لیے گئے تو ان کے شخصیت کے دو رنگ دیکھے ۔ ایک طرف تو وہ عوام کے لیے مستجاب الدعوات ہیں، ان کی دست بوسی اور ان کی ایک جھلک دیکھ لینا ہی مرید  کے لیے وجہ نجات ہے اور دوسری طرف جب وہ خواص میں  ہوتے ہیں یا اپنے برابر کے لوگوں میں بیٹھے ہوئے  ہوتے ہیں تو وہ بھی عام انسانوں کی طرح دوسروں کی دعاؤں  کے محتاج ہوتے ہیں ۔ پچھلے  ہفتہ ہم ان کے ملاقات کے لیے گئے تھے ۔ اس موقع پر دو مختلف مجلسوں میں ان کے یہ دو مختلف روپ نظر آئے ۔

پاکستانی نقشبندیوں کے وفد میں ، جسے بمشکل ہی اذن  باریابی مل سکا تھا  ، میں بھی شامل ہوگیا تھا ۔ شیخ ایک کرسی پر براجمان تھے، حاضرین مصافحہ کے بعد دعاؤں کی درخواست کے ساتھ ان کے قدموں میں بیٹھ گئے ۔ لوگ دعاؤں کی درخواست کرتے رہے۔ شیخ نے گاہے بہ گاہے آمین اور انشاء اللہ کے علاوہ کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالا۔ یہ تھی عوامی ملاقات کی ایک جھلک جس کے لیے لوگ دور دراز سے شیخ محمود کی بارگاہ میں آتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ ہی دیر بعد افغانستان  سے کبار صوفیا کا ایک گروہ آیا۔ میں بھی کسی طرح اس ملاقات میں جا گھسا ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ خواص کی اس مجلس میں نشستوں  کا انتظام بدلا ہوا ہے۔ شیخ محمود تو اپنی کرسی پر ہی براجمان رہے البتہ ان کے ارد گرد چار پانچ کرسیاں لگادی گئی تھیں  جن پر اس وفد کے اکابرین بیٹھے تھے ۔ طلباء اور خورد سالوں کو فرش پرجگہ ملی تھی ۔ جس بات پر مجھے سخت حیرت ہوئی وہ یہ تھی کہ اس وفد کے سربراہ نے اپنا ہاتھ شیخ کے شانے پر رکھا اور ان کی بحالی صحت کے لیے بآواز بلند دعا کرنے لگا۔ یہ صوفی شیخ کوئی پندرہ بیس منٹ  تک مختلف آیا ت قرآنی پڑھ کر شیخ محمود پر دم کرتے رہے ۔ میری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ جس شیخ کو مکاشفہ کی دولت حاصل ہو، جو کبار ارواح نقشبند ، غوث اعظم حتیٰ کہ رسول اللہ سے بھی بہ نفس نفیس  دعاؤں کی درخواست کرنے پر قادر ہو، اسے کسی ہم عصر صوفی شیخ کی جھاڑ پھونک کی کیا ضرورت پیش آگئی ؟ ہم تو یہ سمجھ کر آئے تھے کہ شیخ کا اللہ سے راست رابطہ ہے۔ رسول اللہ کی مجلسوں میں ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ لیکن اب جو انہیں  دوسروں کی دعاؤں اور جھاڑ پھونک کا محتاج دیکھا تو ان قصے کہانیوں سے اعتبار اٹھ گیا کہ فی الواقع یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مجلس نشین ہیں ۔

کیا عمر ہوگی شیخ آفندی کی؟ میں نے ساجد کے تاثرات کو پڑھنے کی کوشش کی۔

میرا خیال ہے اسّی پچاس سال سے زیادہ ہی کے ہوں گے۔

اسّی سال  ؟ یہ تو وہ عمر ہے جب، بقول شیخ ناظم حقانی ، فرشتے قلم اٹھا لیتے ہیں۔

تو کیا صوفیاء سے شطحیات عمر کے اسی مرحلے میں صادر ہوتی ہیں؟ ہاشم نے مداخلت کی۔

شطحیات  کےلیے عمر کی شرط نہیں بلکہ دماغ میں سیر و ٹو نین کی سطح کی بلندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ولید نے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ طرح لگائی۔

اب دیکھو جو باتیں ناظم حقانی اسّی سال کی عمر میں کہہ رہے ہیں اسی قسم کی باتیں مولانااشرف علی تھانوی نے قلم اٹھانے سے پہلے والی عمر میں کہہ دی تھیں ۔ ولید نے مزید وضاحت کی۔

توکیا ان کے لئے قلم پہلے ہی اٹھا لیا گیا تھا؟ ساجد نے شرارت آمیز لہجے میں پوچھا ۔

لگتا تو ایسا ہی ہے ۔ اب دیکھو ناظم حقانی کہتےہیں کہ ملک الموت ان کے مریدوں کی روح قبض کرنے نہیں  آئیں گے۔روح کا نکلنا چونکہ ایک تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے اس لیے ناظم حقانی کاکہنا ہے کہ وہ خود اپنے مریدوں کی روح نکال کرملک الموت کے حوالے کردیتے ہیں ۔ کچھ اسی قسم کی بات مولانا اشرف علی تھانوی کے بارے میں کہی جاتی ہے ، جیسا کہ اشرف السوانح میں لکھا ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک مریدنی نے عالم سکرات میں میرا نام لے کہا کہ وہ اونٹنی  لے کر آئے ہیں او رکہتےہیں کہ اس پر بیٹھ کر چل پھر اس کے بعد اس کا انتقال ہوگیا ۔ واقعی؟ ساجد نے حیرت کااظہار کیا۔

ہاشم جواب تک خاموش ، سنجیدہ کہیں کھوئے ہوئے تھے، سنبھل کر بیٹھ گئے ۔ کہنےلگے اس قسم کے دعووں نے بڑے مسائل پیدا کردیے ہیں ان کو مانیں تو دین کا ناس ہوتا ہے اور نہ ماننے کا سوال نہیں کہ یہ سب باتیں بڑی مقدس ہستیوں کی زبان سے نکلی ہیں۔ انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ آپ کا کیا خیال ہے اس بارےمیں؟

میرا موقف تو آپ کو معلوم ہے: اللہ تعالیٰ نے ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔ ہمیں ہرمسئلہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا حساب ہماری فہم و بصیرت کے مطابق لے گا۔

آپ کی بات بالکل درست ہے لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ معتبر اور مقدس ہستیوں کی زبانی اللہ کے دیدار کا دعویٰ ، رسول اللہ کی زیارت کے واقعات  بلکہ عین عالم بیداری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےملنے کی باتیں، جو اس تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہیں اسے عقل اور وحی کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔ امام نسفی سے تو آپ واقف ہوں گے، ان کی شرح عقائد اہل سنت میں متداول ہے۔ان کاموقف ہے کہ یہ کہنا جائز ہے کہ خانہ کعبہ بعض اولیاء اللہ کی زیارت کو چلاجاتاہے۔ اسی طرح غزالی جو جمہور مسلمانو کے لیے حجۃ الاسلام کی حیثیت رکھتے ہیں، انہوں نے المنقذ من الضلال میں لکھا ہے کہ صوفیائے کرام فرشتوں اور انبیاء کی ارواح کو عین عالم بیداری میں دیکھتے ہیں ، ان کا کلام سنتے اور ان سےفوائد حاصل کرتے ہیں ۔ اب سنیے شیخ عبدالقادر جیلانی کی کرامت ، یہ کہتے ہوئے ہاشم نے اپنی دستی بیگ سے فوٹو کاپی اوراق کی ایک فائل نکالی۔ مطلوبہ صفحہ کھولا پھر میری توجہ خاص طور پر مبذول کرتے ہوئے کہنےلگے ۔ دیکھئے   روح المعانی تو اہل سنت کی معتبر تفسیر ہے نا؟اس میں آیت 22:35  کے ذیل میں لکھا ہے : شیخ عبدالقادر  جیلانی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن ظہر سےپہلے دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیٹا تم بولتےکیوں نہیں ،تبلیغ کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا ابّا جان میں عجمی آدمی ہوں۔ فصحا ئے بغداد کے سامنے اپنی زبان کیسے کھولوں ، تو مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اپنا منہ کھولو، میں نے منہ کھولا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات مرتبہ اپنا لعاب دہن میرے منہ میں ڈالا۔ پھر فرمایا کہ اب لوگوں سے کلام کرو اور انہیں اپنے رب کی طرف حکمت اور موعظۃ حسنہ سے بلاؤ۔ آگے لکھا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی ظہر کے بعد تبلیغ کی غرض سے مسجد میں بیٹھ گئے لیکن ان پر ہیبت طاری ہوگئی۔ تب دیکھا کہ علی علیہ السلام ان کے سامنے کھڑے ہیں، کہہ رہے ہیں بیٹا تقریر کر۔ لکھا ہے: میں نے پھر عرض کیا کہ مجھ پر رعب طاری ہوگیا ہے۔ فرمایا منہ کھولو ! میں نے منہ کھولا ، آپ رضی اللہ عنہ نےچھ مرتبہ اپنا لعاب دہن میرے منہ میں ڈالا اور پھر غائب ہوگئے ۔ علامہ آلوسی  کی اسی روح المعانی میں شیخ ابو العباس  مرسی کےبارےمیں لکھا ہے کہ ایک شخص نے ان سے اس خیال سےمصافحہ کرنا چاہا کہ انہوں نے بڑے بڑے اہل اللہ سے ملاقات کیا ہے، اس پر شیخ نےفرمایا کہ میں نے اس ہاتھ سے کبھی کسی سے مصافحہ نہیں کیا جس ہاتھ سےمیں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےمصافحہ کیا ہے۔ شیخ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لمحہ کے لیے بھی میرے سامنے سےاوجھل ہوجائیں تو میں اپنے آپ کو مسلمان شمار نہ کروں۔

ان واقعات کے بیان سے علامہ آلوسی یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں جسم اور روح کے ساتھ زندہ ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے حجابات اٹھا  لینے کا ارادہ کرتاہے تو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوجاتی ہے۔ اب ذرا علمائے ہند وپاک کے بعض حوالے بھی سنتے جائیے جسے میں نے اپنی ڈائری میں نقل کر رکھا ہے۔ تذکرۃ الرشید کے مصنف نےرشید احمد گنگو ہی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ بسا اوقات صبح کی نماز حرم شریف میں پڑھتے دیکھے گئے جب کہ عملاً وہ گنگوہ ہی میں ہوتے تھے۔ نقشِ حیات میں حسین  احمد مدنی نےایک نقشبندی  بزرگ کی بابت لکھا ہے کہ وہ حضرت نانوتوی کےمزار پر حاضر ہوکر دیر تک مراقب ہوئے،بعد میں  یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے مراقبہ میں حضرت نانوتوی سے تحریکِ خلافت کے کارکنان پر حکومتی عتاب کا تذکرہ کیا تو انہوں نے مولانامحمود  الحسن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ مولوی محمود الحسن عرش الہٰی  کو پکڑ کر اصرار کررہے ہیں کہ انگریز کو جلد  ہندوستان سے نکال دیا جائے۔اب ایک واقعہ حضرت مجد د صاحب کے مکتوبات سے بھی سن لیجئے۔ ان کاکہنا ہے کہ اولیاء اللہ کی صور المثالیہ متعدد مقامات میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ حالانکہ صاحب صور کو قطعاً اس کا علم نہیں ہوتا جیسا کہ حضرت مخدومی قبلہ گاہی نے فرمایا کہ کوئی انہیں مکہ میں دیکھتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ ہم نے انہیں بغداد میں دیکھا حالانکہ وہ اس دوران اپنے  گھر سےنکلے ہی نہیں  ہوتے۔

یہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ ایسے دعووں کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ بات وہیں آکر رک جاتی ہے کہ انہیں قبول کروں تو ایمان جاتا ہے اور اگر ان کا انکار کردوں تو بزرگوں کا اعتبار اٹھ جاتاہے ۔ ہم لوگ اس صورت حال سے بہت پریشان ہیں، سوچا کہ آپ کے سامنے مستند حوالوں کے ساتھ اپنی بات رکھیں گے، شاید آپ کچھ رہنمائی کر سکیں۔ ہاشم نےڈائری بند کی۔ ایک لمحہ کےلئے مجلس پر خاموش چھائی رہی۔

اور وہ فتح الربانی والی بات بھی تو بتاؤ، ولید نے جیسے ہاشم کو کوئی بھولا ہوا نکتہ یاد دلادیاہو، اس نے ڈائری کھولی۔ متعلقہ صفحات الٹے، کہنےلگے، اب دو ایک جملے شیخ عبدالقادر جیلانی کی فتح الربانی  سے بھی سنتے جائیے۔ کہتےہیں کہ لوگو! میر ی بات سنو ،میرا کہنا مانو، میری حیثیت تمہارے کسوٹی کی ہے۔ میں تمہارے کھوٹے کھرے کو خوب پہچانتاہوں۔ پھر آگے فرماتےہیں کہ اے فقیہو اے زاہدو! اے عابدو! میرے پاس تمہاری موت اور تمہاری حیات کی خبریں ہیں ۔ جب تمہارے امور کی ابتداء  مجھ پر مشتبہ ہوجاتی ہے تو انجام کار تمہاری موت کے وقت کا انکشاف ہوجاتاہے ۔ ہاشم نے پھر ڈائری بند کرلی اور میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔

میں نے کہا کہ مشاہدۂ حق، زیارت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم یا قبور وا رواح کامکاشفہ ، روحانیوں کے نزدیک یہ سب تجربے کی باتیں ہیں۔ و ہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ سمجھ کر کرنے کا کام نہیں بلکہ کرکے سمجھنے کی چیز ہے۔تم لوگوں نے مراقبہ اور چلّہ کشی میں خاصا وقت لگایا ہے۔ اگر کبھی شیخ کا دامن چھوڑا ہے تو بہت دنوں تک اسے تھامے بھی رہے ہو۔ ان مجاہدوں سے تمہیں کیا لگتا ہے؟ کیا کبھی تصور شیخ بمثل حقیقت بن سکا؟ تم جن سالکین کے ساتھ اسمٰعیل آغا میں روحانی ورزشیں کرتے رہے انہیں بھی کبھی ٹٹولنے کی کوشش کی؟ کیا ان میں سےکوئی رسول اللہ کی زیارت سےمشرف ہوپایا ہے؟

جس سے بھی بات کی کوئی کھلتا نہیں ۔ اکثر لوگوں کو مایوس پایامگر وہ اپنی روحانیت کابھرم بر قرار رکھنا چاہتے ہیں ۔

ہاں جب میں نے ایک بار اللہ یا رخاں کو یہ کہہ دیا کہ میں نے کل آپ  کو سلطان احمد میں مغرب کی نماز پڑھتے دیکھا تھا ۔ وہ اس بات کی تردید کے بجائے مسکرا کر خاموش ہوگئے۔ ساجد نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔

جی ہاں! میرا بھی یہ احساس ہے کہ وہ سالکین جنہوں نے ابھی کچھ حاصل نہیں کیا ہے ، اپنے بارے میں خرق عادت باتوں کو بڑھا وا دیتے ہیں۔ بعض لوگ خوابوں کےبیان سےبزرگی کا تاثر دیتے ہیں ۔ ہاشم نے ساجد کی تائید کی۔

مگر خواب تو آپ بھی دیکھتے ہوں گے ، بزرگی والے خواب نہ سہی۔ میں نے ہاشم کو چھیڑ نے کی کوشش کی۔

خواب نہیں ، وہ سب Nightmare ہوتے ہیں ۔ میں ہر وقت ا س احساس میں گھلتا رہتاہوں کہ شاید میرے اندر روحانیت کو اخذ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ۔ چھ سات سالوں سےاس راستے میں لگا ہوں۔ مشہور شیوخ  کی جوتیاں سیدھی کی ہیں لیکن اب بھی عالم یہ ہے کہ مراقبے کاہر جال خالی جاتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت تو دور کی بات زندہ شیخ کی تصویر بھی پاسپورٹ سائز سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ شیوخ سےجب بھی شکایت کی وہ کہتےہیں کہ تصور شیخ کی دولت لاکھوں میں ایک ملتی ہے۔ جب تصور شیخ اتنی عنقا ء چیز  ہے تو پھر ارواح نقشبندیہ سے تو صل اور رابطہ کتنوں کی قسمت میں آتا ہوگا اور اسی پر زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔

ہاشم شاید ابھی کچھ او ربولتے لیکن ولید نے سوال کو ایک دوسرے پہلو سےمرصع کیا ۔کہنے لگے : یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب یہاں نہ کوئی  مکاشفہ ہوتا ہے ،نہ امورِ دنیا تصرفیات کا نسخہ ہاتھ لگتا ہے ، زندگیاں شیخ کی خدمت میں گزرجاتی ہیں یہاں تک کہ سالک اپنی کبرسنی یا فطانت کے سبب خود شیخ بن جاتا ہے، تو پھر یہ سلسلہ چل کیسے رہا ہے؟ اتنے بڑے پیمانے پر بیعت و ارشاد کے پیچھے آخر راز کیا ہے؟

میں نے کہا کہ تم لوگوں کے سوال میں ہی دراصل تمہارے اضطراب کا جواب پوشیدہ ہے ،بس اسے بر آمد کرنے کی ضرورت ہے۔ واقعی ؟ ساجد اور ولید نے  بیک زبان حیرت کا اظہار کیا ۔

میں نے کہا ! ہاں با لکل۔ سوالات کو مسلسل مرصع کرتے رہنے اور اسے مختلف پہلو سے الٹ پلٹ کر دیکھتے رہنے سے خود ان سوالات کے اندر سے جواب  بر آمد ہوجاتا ہے۔ اب سنو! یہ سب کچھ ہوتا کیسے ہے۔ ایک آدمی شیخ کیسے بنتا ہے۔ مکاشفے کی دولت کب اور کیسے ہاتھ آتی ہے۔ اہل دل اس نکتہ سے خوب واقف ہیں کہ پیراں نمی پرند مریداں می پرانند یعنی پیر نہیں اُڑتا ہے بلکہ مرید اسے اُڑاتے ہیں ۔ مریدوں کا پروپیگنڈہ جتنا زبردست ہوتا ہے پیر کا قد بھی اسی مناسبت سےبڑھتا چلا جاتا ہے ۔ اب رہا بے چارہ مرید،تو اس کی اہل نظر نے تعریف ہی یہ  کی ہے کہ المرید لا یرید ۔ یہ بڑی مسکین مخلوق ہے جو شیخ کے قدموں میں اپنی جان و مال، عزتِ نفس ، دین ایمان سب کچھ نچھاور کرنے کے بعد بھی اسی غلط فہمی کا شکار رہتی ہے کہ وہ جو کچھ بھی ہے شیخ کے لطف و کرم کے سبب ہے۔ اب تم پوچھو گے کہ یہ  مسکین مخلوق تیار کیسے ہوتی ہے۔ اچھا بھلا آدمی اچانک اپنا سب کچھ ، حتیٰ کہ اپنی نجات کا نازک اور حساس مسئلہ بھی اپنے  ہی جیسے کسی انسان کے ہاتھ میں دے کر کیسے مطمئن ہوجاتاہے؟ یہ راز تمہیں  اگر معلوم ہوگیا تو شاید تم مرید بننے کے بجائے مرید بنانے میں دلچسپی لینے لگو۔ بات یہ ہے کہ انسان کے اندر غور و فکر، تحلیل و تجزیہ اور خیر و شر میں تمیز کی ایک  فطری صلاحیت رکھی گئی ہے۔وحی سے یہ صلاحیت مزید جِلاء پاتی اور صیقل ہوتی ہے، جب  کہ تو ہمات کے زیر اثر یہ صلاحیتیں کند ہوجاتی  ہیں۔ پیر کچھ اور نہیں کرتا، وہ مختلف حیلے بہانوں سے، مجاہد ہ اور تربیت کے  حوالے سے ،آپ کی شخصیت کاعقلی سوئچ آف کردیتا ہے۔ بعض مریدوں کا یہ سوئچ جلدی آف ہوجاتا ہے اور بعض کو عزت نفس کاسودا کرنے اور عقلی رویّے کو تجنے میں خاصا دقت لگ جاتاہے۔اس لیے تم دیکھتے ہو کہ شیخ کے بعض منظورِ نظر منظر مرید سلوک کی بہت سی منزلیں ایک ہی جست میں طے کرلیتے ہیں ۔ دراصل یہ وہ لوگ ہوتےہیں جن کا سوئچ آف کرنا قدرے آسان ہوتاہے یا پھر وہ جو اس راستے میں  اپناکیرئیر دیکھتےہیں، جو اس نکتے کو سمجھتے ہیں کہ شیخ کی ایک نگاہ کرم انہیں خلعت اور اجازت سے سرفراز کر سکتی ہے۔اچھے بھلے انسان اسلام کے دھوکے میں جب روحانیوں کے جال میں پھنستے ہیں تو انہیں ابتداً اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ شیخ کی تمام ترتوجہ اس کی شخصیت کا سوئچ آف کرنے پر ہے۔ اس مقصد کے لیے مختلف نفسیاتی حربے اپنائے جاتے ہیں ۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ سالک کی انابہت بڑھی ہوئی ہے اسے قابو میں کرنے کی ضرورت ہے،کبھی کہا جاتاہے کہ وہ علم کے پندار میں مبتلا ہے،اسے یہ زعم ہےکہ وہ دین کا فہم رکھتا ہے ، علم کا یہ حجاب منزل سلوک میں اس کی راہ کا روڑا بن گیا ہے۔ گویا شیخ ہر اعتبار سے اس بات کا اطمینان کر لیتا ہے کہ سالک نے اپنے آپ کو پوری  طرح میرے قدموں میں ڈال دیا ہے ۔ اب اس کے نزدیک خیر و شر کا پیمانہ شیخ کی ذات ہے۔ بسا اوقات شیخ اس بات کے اطمینان کے لئے مر ید کی زبان سے خلاف ایمان کلمات کہلانا چاہتا ہے اور جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ مرید کو اتباع ِ شیخ میں خلاف دین کلمات کہنے میں بھی کچھ تامل نہیں تو یہ سمجھ لیتاہے کہ اب اس کا سوئچ پوری طرح آف ہوچکا ہے ۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ معین الدین چشتی از راہ امتحان اپنے مرید سے لا الہٰ الا اللہ چشتی رسول اللہ کہلانا چاہتے ہیں تو اس کے پیچھے دراصل  یہی راز ہے۔ اور اگر کوئی مرید اپنے شیخ اشرف علی تھانوی کو یہ عریضہ لکھ بھیجتا ہے کہ جب وہ لا الہٰ الا اللہ محمدرسول اللہ کہناچاہتا ہے تو اس کی زبان سے غیر ارادی طور پر اشرف علی تھانوی رسول اللہ نکل جاتا ہے تو یہ سمجھ لیجئے کہ وہ چالاک مرید تملق اور چاپلوسی کے ذریعہ شیخ کی قربت اور اس سے خلافت کے حصول کے لیے سرگرداں ہے۔ بسا اوقات شیخ اپنے مرید کےبجھے ہوئے سوئچ کےاطمینان کےلیے اس کی طرف اپنا  جھوٹا نوالہ یا بچا کچھا کھانابطور تبرک بڑھا دیتاہے اور یہ دیکھنا  چاہتا ہے کہ مرید کے اندر کراہیت کاکوئی عنصر تو نہیں پایا جاتا  اور بعضے مرید جن کا سوئچ آف ہوچکا ہوتا ہے وہ اس تاک میں بھی لگے رہتے ہیں کہ  کب شیخ کی کوئی متروکہ چیز بطور تبرک ان کے ہاتھ آجائے۔ بعض لوگوں نے تو خدمت شیخ میں ایسے واقعات بھی لکھے ہیں کہ وہ کس طرح حصول برکت کے خیال سے شیخ کی نظر بچا کر ان کا اگا لدان پی گئے۔ صالح طبیعتیں جن باتوں سے اِبا کرتی ہیں اسے تصوف  کی دنیا میں سالک کا امتحان سمجھا جاتا ہے۔

عام طور پر شیخ سے اس درجہ کی عقیدت کے جواز کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جواز بنایا جاتا ہے۔ صوفیاء کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی نہیں گرنےدیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کالعاب اپنے جسموں پر مل لیتے ،اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔ ولید نے دوران گفتگو مداخلت کی۔

دیکھئے اوّل تو یہ خیال ہی لغو ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سےان صوفیاء کاکوئی مقابلہ ہوسکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ جو خلق میں مشہور ہےکہ صحابہ رضی اللہ عنہ وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے دیتے یا اس انتظار میں رہتے کہ کب انہیں لعاب دہن ملے اور وہ اسے چہرے یا  جسم پر مل لیں او رکب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  با ل ترشوائیں اور موئے مبارک ان کے حصے میں آئے، تو یہ تمام روایتیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفیس طبیعت  اور اسلام کے آفاقی  پیغام سےمغائر ہیں۔ یہ روایتیں  دراصل اسی لیے تراشی گئی ہیں کہ بعد کےمشائخ عام انسانوں کی گردنوں  پر خود کو مسلط کرنے کے لیے ان تراشیدہ روایتوں میں اپنے عمل  کا جواز ڈھونڈیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  موئے مبارک بانٹنے کے لیے نہیں آئے تھے لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ بعض لوگوں نے شعرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شعارئر اللہ میں شامل کیا اور باقاعدہ شعائر اللہ کی اس تعبیر پر کتابیں تصنیف کیں۔

تو میں عرض کررہا تھا کہ شیخ اپنے مرید کی بد دماغ کاامتحان لینے کےلئے اسے مختلف مراحل سے گزارتاہے۔ کبھی اسے شیوخ کی قبروں پر چلّہ کشی کا حکم ہوتا ہے اور وہ بے چارہ عالم مراقبہ میں ہلوسے  کا شکار ہوجاتاہے، کہتا ہے صاحب قبر سے اسے فیض پہنچ رہا ہے ۔ حالانکہ قرآن اس بات کی شدت سے نکیر کرتا ہے کہ مردے سنتے ہیں لیکن ان روحانیوں کا اصرار ہے کہ کبار صوفیاء اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ۔ قرآن کا موقف اس مسئلہ پرجو کچھ بھی ہو ان کے بزرگوں کی ارواح اپنی قبروں میں اہل حاجت کی مدد کے لیے تیار بیٹھی ہیں ۔ مرید کو جب ان خرافات پر کامل یقین ہوجاتاہے تو سمجھئے کہ وہ شیخ کے کام کا آدمی بن گیا ہے۔ اب اسے خلعت فاخرہ سے نواز کر کسی اہم مشن پر مامور کیا جاسکتا ہے۔

معاف کیجئے گا! ہاشم نے اعتراض وارد کیا ، قرآن کی یہ آیت اپنی جگہ کہ فانک لا تسمع الموتی لیکن صحیحین کی اس روایت کیا کیجئے گا جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مقتولین بدر کی طرف اشارہ کرتےہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام لے لے کر کہا کہ اوفلاں او فلاں کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاکہا مان لیتے ۔ ہم نے اپنے رب کا وعدہ سچا پایا۔ تمہارے خداؤں نے جو تم سے وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا ؟ راویوں  نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو اس موقع پرموجود تھے بولے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان مردہ لاشوں سے کیا کہہ رہے ہیں ، کیایہ سننے پر قدرت رکھتے ہیں کہ قرآن میں تو یہ آیا کہ کہ  فانک لاتسمع الموتی ، راوی کہتاہے کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے میری یہ باتیں تم ان ( لاشوں) سےبہتر نہیں سنتے۔

اس بارے میں میرا موقف صاف اور سیدھا ہے۔ میں نے ہاشم کو سمجھا نے کی کوشش کی۔ وہ تمام روایتیں جو قرآن کی صریح آیات سے ٹکراتی ہیں ، خواہ کتنی ہی اونچی کتابوں میں کیوں نہ پائی جاتی ہوں، قرآن کے مقابلے میں ان کا اعتبار اتنابھی نہیں ہوسکتا کہ ان کی ثقاہت کے لیے روایوں کے کردار کی جانچ کی جائے۔ جس بات کے خلاف قرآن کی شہادت موجود ہو بھلا ا س کے بعد کسی جرح و تعدیل کی گنجائش ہی کب باقی رہ جاتی ہے۔ دیکھئے اس قسم کی تمام روایتیں جو قرآن کے عقلی رویّے کے مغائر ہیں  ان کی تشکیل سے صرف اسلام کی تصویر ہی دھندلی نہیں ہوئی بلکہ مشائخیت کے جواز کے لیے بڑا وسیع میدان ہاتھ آگیا۔ کرامتوں کے مدعی اس بات سے خوب واقف تھے کہ جب تک اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محیرالعقول کرامتوں پر شہادت  قائم نہ ہو ، پیروں فقیروں کے خرق عادت واقعات کے لیے کوئی دلیل ہاتھ نہ آئے گی۔جس طرح قرآن کے علی الرغم سماع موتی کے جوازکے لیے روایت تراشی گئی اسی طرح  صوفیاء کی کرامتوں پر جواز لانے کے لیے بھی یہ بتایا گیا، جیسا کہ بخاری میں منقول ہے ، کہ اُسید بن حُفیر اور عباد بن بشیر کے ہاتھوں میں لاٹھی تھی، گھپ اندھیری رات میں ان کی لاٹھی روشن ہوگئی اور وہ اس روشنی میں گھر پہنچ گئے ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کرامت کے باب میں لکھا ہے کہ ایک بار ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے مہمانوں نے کھانا کھایا ۔ جس قدر کھانا کھایا گیا اس سے کہیں زیادہ نیچے سے ابھر آیا۔ کہتے ہیں کہ کھانا کھانے کے بعد وہ  پہلے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوگیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہ سےمنسوب ان خرق عادت واقعات سے بزرگوں کی کرامتوں کو نظری جواز ملا۔

ان حضرات نے اپنی مطلب براری کےلیے صرف قصے ہی نہیں بنائے  بلکہ ان قصّوں کو آیات کے شانِ نزول کے طور پر منڈھ دیا۔ مثال کے طور پر آیت اسریٰ یا آیت ہجرت کو  اسریٰ  و المعراج بنادیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں میں اُڑایا تاکہ صوفیاء کی اڑان او ران کے طے الارض پر جواز قائم ہو۔ کیا بتاؤں اصطلاحوں کے معانی اور مفاہیم تک بدل ڈالے۔ ہاؤ ہُو کانام ذکر قرار پایا ۔ عمل کی ساری تلقین عامل کےحصے میں گئی اور عامل وہ ٹھہرا جو شیاطین جنوں کا قابو میں کرنے کےلیے سفلی نسخوں سے واقف ہو۔ مراقبہ، گوشہ نشینی اور اس قسم کے فرار کو عمل صالح کا نام دیا گیا۔ ولی کےنام سے پیر ، فقیر ، مجذوب او رملنگ کا تصور نگاہوں میں ابھرنے لگا۔ اولیاء کی مسند پر وہ لوگ قابض ہوگئے جنہوں نے آخری دین کی معطّلی کا سارا انتظام کر رکھا تھا ، جو شریعت محمدی کے علی الرغم اپنی تراشیدہ طریقت  پرنازاں تھے اور اسے حقیقت تک رسائی  کامستند طریقہ بتاتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جن کی دریدہ ذہنی کا یہ عالم تھا کہ وہ ببانگ دہل اس بات کا اعلان کرتے تھے کہ اولو العزم نبی کی شریعت  کا زمانہ ہزار سال کا ہوتا ہے ، جیسا کہ داؤد قیصری شارح فصوص الحکم  نے لکھا ہے، اور ہزار سال کے بعد شیخ نقشبندی مجدد الف ثانی کی خدائی اسکیم کے تحت آمد پر دلیل قائم کی ہے۔

ساجد  محوِ حیرت  تھے ۔ ان کے لیے میری بہت سی باتیں شاید انکشاف کا درجہ رکھتی تھیں ۔ ولید تائیدی انداز سے کبھی سر ہلاتے اور کبھی اپنے احباب کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کرتے۔ ہاشم اس دوران اپنی ڈائری اور قلم سے اشتغال کرتے رہے۔ جی تو چاہتا تھا کہ شوریدہ سر نوجوانوں سے گفتگو کا یہ سلسلہ جاری رہے لیکن اولوداغ کے سفر پرُ شوق کی تیاری کے خیال سے میں نے ان نوجوانوں سے اجازت لی۔ رخصت کرتے ہوئے اقبال  کا یہ شعر پڑھا :

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

نومبر، 2014  بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-17/d/100920

 

Loading..

Loading..