ڈاکٹر راشد شاز۔ دہلی
مغرب کا وقت ہو چلا تھا اور اب تک کوئی خبر نہ آئی تھی ۔ اس دوران مصطفیٰ اوغلو کو کئی بار فون کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ مغرب کی نماز کے بعد مصلے پربیٹھا کل کے سفر کی بابت سوچ رہا تھا۔ بار بار صمیم قلب سے دعا نکلتی کہ یہ ناور موقع ہاتھ سے پھسل نہ جائے، چالیس سال بعد اولوداغ کی چوٹیوں کا عالمی اجتماع منعقد ہورہا تھا ۔ یہ محض اتفاق تھا کہ میں اس موقع پر استنبول میں موجود تھا اور قدرت نے درونِ خانہ روحانیوں سے کچھ ایسے رابطوں کا سامان پیدا کردیا تھا جس سے نہ صرف یہ کہ اس اجتماع کی خبر ملی بلکہ اس میں شرکت کاامکان بھی پیدا ہوگیا ۔آج دن بھر اسی بیم درجا کی کیفیت میں گزرا ۔ دن ختم ہونے کو آیا تھا ۔ ہر لمحہ یہ دھڑکالگا تھا مبادایہ سفر محض ایک خواب بن کر نہ رہ جائے ۔ دل ہی دل میں سفر کی تیاریوں کا جائزہ لیتا۔ہدایت تھی کہ ایک ہلکے پھلکے دستی بیگ کے علاوہ کوئی اور چیز ساتھ نہ لی جائے۔ کمر بند سے بندھے پرس میں سفر ی کا غذات ، کچھ مقامی اور غیر ملکی کرنسی اور کریڈٹ کارڈ جیسی چیزیں رکھ لیں۔ کچھ دیر بعد بالآخر مصطفیٰ اوغلو کا فون آہی گیا ۔ کہنے لگے کہ میں راستے میں ہوں۔ سفر کا انتظام ہوگیا ہے۔ اسمٰعیل آغا سے سفر کے لئے کچھ ضروری چیزیں خریدنی ہیں ۔ تھوڑی دیر میں انشاء اللہ ملاقات ہوگی۔کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے بعد مصطفیٰ اوغلو تھکے ہارے، ہانپتے کانپتے ہوٹل پہنچے ۔ آتے ہی کرسی پر نیم دراز ہوگئے ۔ ان کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا جسے میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے : لیجئے یہ رہا آپ کا سامانِ سفر ۔ پھر جیب سے سرخ رنگ کا ایک خوبصورت لفافہ نکالا، بولے: یہ رہا آپ کی شرکت کا اجازت نامہ، اسے حفاظت سے رکھئے اس کے بغیر داخلہ ممکن نہ ہوگا۔ کھول کر دیکھا کہ شاید میرے نام کا اجازت نامہ بنوالا ئے ہوں لیکن یہاں ایسی کوئی چیز نہ تھی، یہ تو پلاسٹک کا ایک طغریٰ تھا جو نظر بد سے بچنے کے لئے استنبول میں عام طور پر دکانوں میں فروخت ہوتا ہے۔ کہنے لگے اسے الٹ کر دیکھئے۔ اس کے پیچھے ایک چھوٹی سی چپ لگی ہے ۔ کانفرنس کے الیکٹرونک دروازے پر آپ کے داخلہ پر سبز بتی جل جائے گی۔ ورنہ تو سرخ روشنی جلتی رہے گی او رالارم بج اٹھے گا۔ میں نےاسے الٹ پلٹ کر دیکھا، احتیاط سے جیب میں رکھ لیا۔
اور یہ اس بیگ میں کیا ہے، میں نے مصطفیٰ اوغلو سے پوچھا ۔ بولے کھول کر دیکھئے اس میں درویشوں کا لباس ہے۔ بڑی مشکل سے یہ چیزیں جٹائی ہیں۔ اسمٰعیل آغا کے علاوہ یہ چیزیں کہیں اور نہیں ملتیں۔
اور اس عصاء کاکیا کام ہے؟ اب میں ان کی اسکیم سمجھا ۔اپنے آپ پر خوب ہنسی آئی ۔ تو کیاکل مجھے درویشوں کے لباس میں وہاں شرکت کرنی ہوگی؟
جی ہاں ا س کے بغیر داخلہ ممکن نہیں ۔
کل صبح سات بجے آنے کا وعدہ کر کے وہ رخصت ہوگئے۔
دوسرے دن کوئی گھنٹہ بھر پہلے ہی میں سفر کے لیے تیار ہوگیا۔ جبے کی لمبائی کچھ زیادہ تھی، فرش تک آتا تھا۔ اچانک یاد آیا کہ میرے بیگ میں کوئی دس پندرہ سال پرانا ایک سوڈانی جبہ موجود ہے جو ان دنوں کی یادگار ہے جب میں تیجانی صوفیاء کے ساتھ حلقۂ ذکر میں بیٹھا کرتا تھا ۔اسے زیب تن کیا، نقشبندی انداز کی قبر نما ٹوپی لگائی، سفید صافے کو نیم سوڈانی انداز سے لپیٹا، دو مختلف رنگوں کی تسبیح ہزار دانہ ڈالی۔ اس کے اوپر کانسے کے چھوٹے چھوٹے وفق و نقوش اور لکڑی کے دانوں والے ہار ڈالے ۔ پھر بڑی احتیاط کے ساتھ گلے میں نظر بد کی وہ علامت حمائل کی جسے میرے شناختی کارڈ کی حیثیت حاصل تھی ۔ ایک ہاتھ میں عصاء تھا ما اور دورے ہاتھ میں پلاسٹک کا سفری بیگ، تیار ہوکر آئینہ کے سامنے آیا۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر خود اپنی شخصیت سے عقیدت سی ہونے لگی۔ سخت حیرت ہوئی کہ کب سے میرے اندر ایک درویش چھپا بیٹھا تھا اسے بس باہر لانے کی ضرورت تھی ۔ اب جو اسے مناسب لباس کا قالب ملا تو وہ ظاہر ہوگیا۔ اسی دوران ہوجا عثمان کا ٹیلیفون بھی آگیا۔ انہوں نے بعض ضروری ہدایات دیں، احتیاط برتنے کی تاکید کی او ریہ بتایا کہ تم اجلاس میں ایک مقامی ترک درویش کی حیثیت سے شرکت کررہے ہو، میں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ میں ترکی زبان سے برائے نام واقف ہوں۔ صورت شکل میں بھی ترکوں سے الگ دکھتا ہوں ۔ کہنے لگے اس کی فکر نہ کرو، اس درجے کے مشارک وہاں اور بھی ہونگے جو مختلف علاقوں او رملکوں سے آئے ہوئے ہوں گے۔ وہاں گفتگو اور سوال و جواب کا کوئی موقع نہ ہوگا، اور ہاں کسی قسم کے الیکٹرونک گیجٹس حتی کہ کیمرہ او رموبائل بھی وہاں لے جانے کی اجازت نہ ہوگی ۔ ان باتوں کا خاص خیال رکھنا۔
مصطفیٰ اوغلو وقت مقررہ پر تشریف لے آئے۔ انہیں عام دنوں کے لباس میں دیکھ کر مجھے یک گونہ حیرت ہوئی ۔ میں نے پوچھا کیا درویشی کاپاس صرف مجھے ہی رکھنا ہوگا ۔کہنے لگے ہاں پاس بھی تو صرف آپ کے پاس ہے۔ کیا مطلب؟ میں نے پوچھا ۔ کہنے لگے ، ایک ہی پاس کا انتظام ہوسکا ہے او روہ بھی مشکل سے ۔ نہ جانے کس درویش نے اپنی باری آپ کو دی ہے۔ یہ ہوجا عثمان کی خاص نگاہ التفات کا کمال ہے۔
کہیں وہ درویش خود ہو جا عثمان تو نہیں ہیں ، میں نے پوچھا ۔
کچھ عجیب نہیں، مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے، مصطفیٰ اوغلو نے اپنا شبہ ظاہر کیا۔
مگر آپ کے بغیر تو سفر کا لطف ادھورا رہے گا۔
کہنے لگے فکر نہ کیجئے میں آپ کے ساتھ وہاں تک چلوں گا جہاں تک ممکن ہوسکے گا۔
کوئی آدھے گھنٹے کے بعد ہم لوگ Yenikapi Ferry Terminal پہنچ گئے ۔ یہاں سے برُسا کاسفر کوئی ایک گھنٹہ کاہے۔ اور برُسا سے اولوداغ کی مسافت یہی کوئی تیس پینتیس کلو میٹر ہوگی۔ خوش بختی سے سفینہ پر اچھی جگہ مل گئی ۔ موسم خوشگوار تھا ۔ سطح آب کو چھوتی ہوئی ہوا کی لہر جب قریب سے گزرتی تو تازگی اور فرحت کا احساس جگا دیتی ۔ ہمارا سفینہ برُ سا کی طرف رواں دواں تھا ۔ ہم لوگ جہاز کے اگلے حصّے میں کھلے عام مقام پر بیٹھے تھے ۔ سفینہ کے ساتھ ساتھ ایک پرندہ ہمارے سروں پر منڈلارہا تھا ۔ وہ مسلسل منڈلا تا ہی رہا یہاں تک کہ ہمارے ساتھ Guzelyali تک آیا۔ ایک درویش کے سفر میں پرندے کا ساتھ ایک طرح کی سرّیت کا حامل تھا ۔ میں نے مصطفیٰ اوغلو سے کہا یقیناً ا س پرندے میں کسی بزرگ کی روح ہے ورنہ وہ اس طرح اولوداغ کے سفر میں میری مشائیت نہ کرتا۔ مصطفیٰ اوغلو مسکرائے ، کہنے لگے سرّیت معتقدین کےدل ودماغ میں ہوتی ہے۔ اگر سے سفر میں کچھ مریدین آپ کے ساتھ ہوتے تو پرندے کی مشائیت اور اس کے مستقل منڈلاتے رہنے کو اشارہ غیبی پر محمول کرتے ۔ ویسے پرندے کا رنگ سبزی مائل ہے۔ کیا عجب کہ کسی ابدال کی روح ہو جو جبل قاسیون کے اجتماع کے بعد اب اولوداغ کی جانب محوِ سفر ہو۔ اس لیے کہ کہا تو یہی جاتاہے کہ 14 ستمبر کی صبح کو جبل قاسیون پر ابدالوں کا سالانہ اجتماع ہوتاہے اور اسی دن شام میں کسی دور دراز مقام پر قطب الاقطاب کی اسمبلی منعقد ہوتی ہے جس میں ابدال و اقطاب اور اخیار و اوتار سبھی شرکت کرتے ہیں ۔ جبل قاسیون سے اولوداغ کا سفر اس قدر سرعت کے ساتھ یا تو طے الارض کے ذریعہ ہوسکتا ہے یا طیرالارض کے ذریعہ۔
طیرالارض ؟ میں نے حیرت سے پوچھا ۔
ہاں میں نے ابھی اس پرندے کی مناسبت سے یہ مہمل سی اصطلاح و ضع کی ہے۔
تو کیا آج جبل قاسیون پر بڑی ہماہمی رہی ہوگی؟
جی ہاں بہت سے لوگ آج کے دن جبل قاسیون پر طوفان نوح کی سالگرہ مناتے ہیں۔ جو دی داغ اسی علاقے میں واقع ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتاہے کہ وہاں کشتی نوح سیلاب کے بعد آٹھہری تھی ۔ بعض لوگ جبل ارارات کو کشتی نوح کے ٹھہرنے کی جگہ بتاتے ہیں۔ ادھر گذشتہ چند سالوں میں ارارات کی سرّیت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ بعض نظری گروہوں نے ارارات کی چوٹی پرکشتی کی دریافت کا خاصا پروپیگنڈہ کیا ہے، فلمیں بنائی ہیں ، سیاحوں کو ایک نئی زیارت گاہ ہاتھ آگئی ہے۔
تو کیا جبل جودی اور جبل ارارات دو الگ الگ مقامات ہیں؟ میں نے مصطفیٰ اوغلو سے پوچھا۔
ہیں تو الگ الگ ، ان دونوں کے بیچ کوئی دو سو میل کی مسافت ہے لیکن چونکہ ایک ہی پہاڑی سلسلہ ہے اس لیے ان دونوں ناموں میں لوگ تطبیق دے لیتے ہیں ۔ ویسے کوہ قاسیون خود اپنی جگہ کم پر اسرار اہمیت کا حامل نہیں ۔ کہتے ہیں کہ قاسیون کی بلندی پر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ پرانے زمانے میں حکمران بارش کی دعاؤں کے لیے قاسیون پر جایا کرتے تھے۔
سنا ہے اصحاب کہف کا غار بھی وہیں کہیں واقع ہے؟
جی ہاں میں وہاں گیا ہوں ۔ اب تو اس علاقے میں بھیڑ بھاڑ اور تعمیرات کے سبب اس تاریخی سریت کا احساس نہیں ہوتا۔ البتہ چالیس محرابوں والی مسجد کے آثار دیکھ کر بہت سے مقامی قصے کہانیوں میں جان پڑتی ہے۔ وہیں قریب خونی عار ( مغارات الدم) بھی ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں انسانی تاریخ کا پہلا قتل ہوا اور شاید قابیل کے استغفار کے سبب ہی یہاں دعاؤں کے مستجاب ہونے کا جواز لایا جاتاہے۔
اچھا کبھی آپ نے اس بارے میں بھی غور کیا کہ روحانیوں کی بیشتر خانقاہیں اور مراکز پہاڑوں پر ہی کیوں قائم ہوتی ہیں؟
اس سوال پر مصطفیٰ اوغلو نے پہلو بدلا ، سنبھل کر بیٹھ گئے ، کہنے لگے پہاڑوں سے پیغمبر وں کو ایک خاص انس رہا ہے۔ جودی پر نوح علیہ السلام کی کشتی رُکی، اصحاب کہف نے پہاڑ کے غار میں پناہ لی، موسیٰ علیہ السلام جبل طور پر لقائے رب کے شوق میں گئے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں پہلی وحی آئی، جبل ثور مشکل گھڑی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامسکن بنا اور جبل احد کے بارے میں یہ قول مشہور ہے کہ اُحد جبل یحبّنا و نحبہ۔ پہاڑ کی اسی تاریخی سریت کے سبب ہمیشہ سے روحانیوں نے اسے اپنا مسکن بنایا ہے۔ اب اسی اولوداغ کو لیجئے۔ اس سے سرّیت کی ایک طویل تاریخ وابستہ ہے۔ اس کا پرانا نام Misios Olympos ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یونانی دیوی دیوتاؤں نے یہیں سے ٹروجن وار کا مشاہدہ کیا تھا ۔ خلافت عثمانی کے زمانے تک یہاں عیسائی راہبوں کی خانقاہیں قائم تھیں اور اسی مناسبت سے اس پہاڑ کا دوسرا نام کشش داغ، یعنی جبل الراہب بھی ہے۔ 1935 ء سے پہلے اولوداغ اپنے اسی پرانے نام سے معروف تھا ۔
گویا مصطفیٰ کمال کے سیکولر ائزیشن سے راہبوں کی پہاڑیاں بھی نہ بچ سکیں؟
جی ہاں ان پہاڑیوں کےبیشتر حصے اب ( winter resorts) کی حیثیت سےمشہور ہیں ۔ جاڑے کے موسم میں تین چار میٹر مولی برف جم جاتی ہے۔ دنیا بھر سے اسکیئگ کے شائقین کا گویا یہاں میلہ لگ جاتا ہے ۔
گوزی لیالی کی بندرگاہ اب قریب آچکی تھی ۔ ساحل کی ہریالی ، روشن دھوپ کی خوشگوار تمازت ، اٹکھیلیاں کرتے ہوئے ہواؤں کے تھپیڑے اور دور ڈھکی ہوئی پہاڑیوں کے مناظر دیکھ کر بشاشت اور تازگی کا احساس ہوتا تھا ۔ تھوڑی دیر میں ہم لوگ برُسا شہر کے عین قلب میں واقع اولو جامع پہنچ گئے۔ مسجد کے صدر دروازے پر ایک صوفی شیخ ہمارے منتظر تھے ۔ مسجد میں ان کے عمل دخل کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جسے وہ اس مسجد کے امام ہوں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ امام مسجد کے پیر بھائی ہیں ۔ از میر سے آئے ہیں اور یہاں برُ سا میں ان کا آنا جانا لگا رہتاہے۔ بڑی گرمجوشی سے ملے۔ کوئی دس بجے کا وقت ہوگا مسجد تقریباً خالی تھی ۔ عین مسجد کے اندر مرکزی ہال میں ایک فوارہ لگا ہوا تھا جس کے پانی گرنے کی آواز سے مسجد کے ساکت ماحول میں ایک فطری نغمگی کا احساس ہوتا تھا ۔ ہم لوگ وہیں فوارے کے قریب فرش پر دیوار کے سہارے بیٹھ گئے ۔ شیخ سعود کچھ دیر تک ہوجا عثمان کی خیریت پوچھتے رہے ہر تھوڑی دیر بعد میری آمد او رملاقات کے لئے ممنونیت کااظہار کرتے ۔ فرمایا کہ سترہ سال سے شیخ عبود کے مرید ہیں ، وہی شیخ عبود کوہ قاسیون والے ۔ کوئی سات سال ہوئے ہر روز بلاناغہ اکیس ہزار مرتبہ نفی اثبات کا اور سات ہزار مرتبہ اسم ذات کا ورد کرتا ہوں لیکن ایک کسک ہے جو آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔ ہو جا عثمان آپ کے روحانی اور علمی مراتب کے بڑے قائل ہیں۔
شیخ سعود کی یہ بات سن کر قدرے پریشان ہوا، مبادا یہ سب کچھ میری درویشی کا امتحان نہ ہو۔ میں نے کہا ضرور فرمائیے ۔ آپ جیسے اہل اللہ کا یہ اعتماد میرے لیے ایک اعزاز ہے ۔ وہ چند لمحے فوارے پر نگاہیں جمائے رہے پھر بولے ! دیدارِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کوئی مجرب و ظیفہ بتائیے۔ ویسے تو ہر شخص کا قلب ایک جداگانہ آلہ ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اس کے لئے وظائف تجویز کیے جاتےہیں لیکن آپ نے نسبتاً کم عمری میں سلوک کی اعلیٰ منزلیں طے کی ہیں اس لئے آپ سے بلا تکلف دل کا درد کہہ بیٹھا ۔
میرے لیے یہ ایک مخمصہ تھا ۔ ایک طرف درویشوں کےلباس میں اولوداغ کے عازم سفر کی حثییت سے شیخ سعود کی مدد میرا روحانی فریضہ بنتا تھا۔ دوسری طرف میں کسی مداہنت سے کام لینا بھی نہیں چاہتا تھا ۔ میں نے چند ثانیے خاموشی اختیار کی۔ پھر عرض کیا فکر نہ کیجئے میں آپ کو ایک وظیفہ بتاؤں گا، وظیفہ کیا دعا کہہ لیجئے۔ میرے پاس ایک دعائے کشف ہے ، ایک ایسی دعا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر بھی جاری رہتی تھی۔ آپ کثرت سے یہ دعا مانگا کریں انشاء اللہ حقیقت آپ پر منکشف ہوجائے گی۔ میں نے جیب سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس پر یہ دعا لکھ دی: اللّھم أرنی الأشیاء کماھی ۔
کتنی مرتبہ اس دعا کو روز پڑھنا ہوگا؟ شیخ نے پوچھا۔
تعداد کی شرط نہیں، صرف حضوری ٔقلب چاہئے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہر قلب اپنے حساب سے او رہر حضوری اپنی کیفیت کے تناسب میں نتیجہ خیز ہوتی ہے ۔ انشاء اللہ آپ نامراد نہیں ہوں گے۔
شیخ کے چہرے پر بشاشت کے آثار طلوع ہوئے۔ انہوں نے اپنے تھیلے سے سیاہ کپڑے میں لپٹا ہوا کانسے کا ایک چھوٹا سا وفق نکالا اور اسے بڑی احتیاط سےایک نیلی ڈوری کے سہارے میری گردن میں حمائل کردیا۔ پھر فرمایا : نظر بوجک۔
میں نے وفق کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کی کوشش کی۔ تلے اوپر دو چوکور خانے بنے تھے ۔ بیچ میں ذوالفقار کی تصویر تھی اور اس کے چاروں کونوں پر گول دائرہ میں تلے اوپر مختلف ہند سے لکھے تھے ۔ تلوار کے اوپر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم او رنیچے نصر من اللہ و فتح قریب کندہ تھا چوخانے کی اندرونی دیوار پر تادِ علی یا مظہر العجائب لکھی تھی اور بیرونی حصے پر سورہ فاتحہ مرقوم تھی ۔ جا بجا ہفت پہل اور ہشت پہل تارے بنے تھے او رایک جگہ آراھم لکھ کر آسمان کی جانب ایک سیڑھی بنادی گئی تھی ۔ وفق کی پیشانی پر لال رنگ سے 132 لکھا تھا ۔ پہلے پہل تو میں یہ سمجھا کہ شاید یہ شیخ کی ذاتی عنایت ہے پھر جلد ہی عقدہ کھلا کہ شیخ کی اس عنایت کے پیچھے دراصل ہوجا عثمان ایماء کار فرما ہے۔
باتوں باتوں میں گیارہ بج گئے ۔ وقت کی تنگی تھی ۔ ابھی ہمیں اولوداغ کے لیے ٹیلی فیرک ( cable car) لینا تھی لیکن شیخ سعود کا اصرار تھا کہ روانگی سے پہلے اسکندر کباب کالطف ضرور لیں ۔ اسکندر کباب برُسا کی خاص ڈش ہے جو ذائقے میں شاور ما کی طرح البتہ شکل میں مختلف ہوتی ہے۔ جیسے تیسے شیخ کی ضیافت سے فارغ ہوئے۔ ٹیلی فیرک اسٹیشن پہنچے ، جہاں مسافروں کا ہجوم تھا ۔ اگلی کیبل ٹرین کا ٹکٹ حاصل کیا اور دور دور تک پھیلے ہرے بھرے مناظر جائزہ لینے لگا ۔ وہیں Yeni Kaplica کااشتہار آویزاں تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ 1555ء میں بننے والا رومن طرز کا یہ ترکی حمام تب سے مسلسل اپنی خدمت میں مصروف ہے ۔ اشتہار میں یہ بتایا گیا تھا کہ برُسا کی زیارت Yeni Kaplica کے بغیر ادھوری رہے گی، آئیے تازہ دم ہوکر بلکہ زندگی کی نئی امنگوں او رنئے ارمان کے ساتھ واپس جائیے۔ میں نے مصطفیٰ اوغلو سے کہا سودا برا نہیں ہے اگر پندرہ یورو میں زندگی پھر سے جی اٹھے ۔ وہ میرےدرویشانہ لباس کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہنےلگے، آپ کو اس کی چنداں ضرور ت نہیں ۔ ‘ اب آپ ان لوگوں میں ہیں جو اپنی کرامتوں سے مردوں کو زندہ کرتے اور چشم زدن میں طے الارض کے ذریعہ ہزاروں میل کی مسافت طے کرتے ہیں’ ..... او ریہاں برُ سا میں کیبل کار کے انتظامیہ میں پھنسے ہیں، میں نے ان کے بیان پر یہ اضافہ کیا۔
ٹیلی فیرک کے ٹھہرے، مطمئن اسٹیشن میں اچانک ہلچل ہوئی ۔ ایسا لگا جیسے سارا اسٹیشن جاگ اٹھا ہو۔ ایک طرف کچھ لوگ آنے والی ٹیلی فیرک سےاتر رہے تھے او رکچھ لوگ جانے والی ٹیلی فیرک میں جگہ لے رہے تھے ۔ مصطفیٰ اوغلو نے اپنے تجربے کی بناء پر پچھلی نشستوں پر ہماری جگہ محفوظ کی تاکہ دوران سفر منا ظر فطرت کا پورا پورا لطف لیا جاسکے ۔ خدا کی پناہ برُ سا اور اس کے اطراف میں سبز حسن کی طناب دور دور تک کھینچی تھی ۔ جوں جوں اولوداغ کی طرف بڑھتے گئے خدا کی عظمت و جبروت اور اس کائنات میں اپنی حقیقت واقعی پر سے نقاب اٹھتا گیا ۔ کچھ دیر بعد کا دیا لہ نامی مقام پر ہماری کیبل کار جا ٹھہری ۔ اب اگلی منزل ساریا لان کی تھی جہاں سے ہمیں بذریعہ ٹیکسی کارواں سرائے اولوداغ سینٹر جانا تھا ۔ دو بجے تک ہم لوگ کارواں سراے پہنچ گئے ۔ ابھی ہمارے پاس دو تین گھنٹے تھے ۔ سوچا جب تک ہوٹل میں ہی آرام کیا جائے ۔
دسمبر، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-15/d/100313