ڈاکٹر راشد شاز۔ دہلی
سبز گنبد ، سبز پرندے اور مدنی منّے
عصر کی نماز اسمٰعیل آغاز میں پڑھی ۔ ابھی نماز سے فارغ ہی ہوا تھا دیکھا کہ ہاشم دو نقشبندی درویشوں کے جلو سیں میری طرف آرہے ہیں۔ ان دونوں حضرات نے سفید جبوں پر سبز پگڑیاں باندھ رکھی تھیں جس کے اندر سے نقشبندی انداز کی ٹوپیاں جھانک رہی تھیں ۔ اب جو ذرا غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ان میں ایک تو وہی کا آدم خیل کے اللہ یار صاحب ہیں جن سے ہفت مجالس کے دوران گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہی تھی، او رہماری اور ہاشم کی گفتگو میں وقتاً فوقتاً بیٹھ جایا کرتے تھے ۔ لیکن تب وہ ایک عام سالک کی حیثیت سےصرف ٹوپی اور جبہّ میں نظر آتے تھے ۔ آج جو انہوں نے نقشبندی صوفیاء کا باقاعدہ یونیفارم زیب تن کیا اور پھر سبزرنگ کی پگڑی خاص پاکستانی اہل سنت کے انداز سے باندھی تو انہیں بیک نظر پہنچا ننے میں دشواری ہوئی ۔ فرمایا شیخ حمود کے کمرے میں چائے کا اہتمام ہے۔
شیخ حمود تو کمرے میں موجود نہ تھے البتہ چائے کا دور چل رہا تھا ۔ ہم لوگوں نے ایک گوشہ میں اپنی نشستیں سنبھا لیں ۔ پھر چائے اور ڈونٹ نما روٹی پر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا ۔ اللہ یار خاں کو میں نے ابھی کچھ دیر تک ایک طالب علم اور سالک کی حیثیت سے دیکھا تھا ۔ اب جو پورے صوفیانہ جاہ و جلال کے ساتھ مکمل نقشبندی یونیفارم میں دیکھا تو ذہن کے گوشے میں پڑا ساجد کا وہ سوال پھر سے سراٹھا نے لگا کہ لوگ سلطان الاولیاء محبوب سبحانی اور ذبۃ السالکین کس طرح بنتے ہیں؟ خیال آیا شاید اسی طرح جس طرح اللہ یار خاں نے اپنے آپ کو اہل صفاء کے روایتی لباس میں پوری شان اور آن بان کے ساتھ جلوہ گر کیا ہے۔
آج سے ربع صدی پہلے کراچی کے ایک سفر کے دوران ایک ایسے مذہبی گروہ کی بابت سننے میں آیا تھا جو سبز پگڑی کے ذریعہ سنت کے احیاء کا داعی تھا ۔ اللہ یار خاں اسی تحریک کے پرور دہ ایک نوجوان ہیں ۔ کہنے لگے کہ دیوبندی علماء کے مقابلے کے لیے ہمارے اکابرین نے سبز پگڑی کا احیاء کیا ۔ اہل سنت و الجماعت دیوبندیوں کے نرغے میں تھے اب اللہ کا شکر ہے کہ ہماری اپنی ایک الگ شناخت ہے۔ سبز پگڑیوں والے پاکستان میں دو ر سے ہی پہچانے جاتےہیں ۔ ہمارا ایک ٹی وی چینل ہے جو دعوت و ارشاد کے علاوہ مدنی منّوں کے لیے بھی باقاعدگی سے پروگرام پیش کرتا ہے۔
مدنی منّے ؟ جی کیا فرمایا آپ نے؟
میرے اظہار حیرت پر انہوں نے بتایا کہ دراصل یہ اہل سنت کے بچوں کے لیے بولی جانے والی اصطلاح ہے جو خاص مدنی چینل نے وضع کی ہے ۔ ہم اہل سنت اپنے بچوں کو مدنی منّا کہتے ہیں ، انہوں نے مزید وضاحت کی ۔
لیکن دیوبندی بھی تو اپنے آپ کو اہل سنت کہتےہیں ۔ میں نے انہیں کریدنے کی کوشش کی، جس پر وہ قدرے جذبات میں آگئے ۔
فرمایا : دیوبندی؟ارے وہ اہل سنت کیسےہوسکتے ہیں، وہ سب کے سب منافق ہیں ۔ اہل حدیثوں سے اہل حدیث بن جاتے ہیں اور عام مسلمانو ں میں اہل سنت بنے رہتے ہیں ۔ آپ کو کیا بتائیں ، ان دیوبندی منافقوں کے دو چہرے ہیں ایک عوام کے لیے اور ایک خواص کے لیے ۔عوام کے نزدیک یہ عرس کے مخالف ہیں، چادر چڑھانے یا رسول اللہ کہنےمیں بھی انہیں شرم آتی ہے لیکن اپنے خواص کی مجلسوں میں یہ بزرگوں کی کرامات اور ان کی روحوں سے استعانت کے قائل ہیں ۔ یہ بھی ہماری طرح نقش بندی یا قادری ہیں لیکن اسے قاسمیت کے پردے میں چھپائے رکھتے ہیں ۔اب انہوں نے ایک نیا فرنٹ قائم کیا، تبلیغی جماعت بنائی تو بیعت کی شرط اٹھالی ۔ اب عام لوگوں کو کیا معلوم کہ نقشبندی صوفیاء اس تحریک کے پیچھے ہیں ۔ لوگ لاکھوں کی تعداد میں اس جماعت میں شامل ہوگئے ۔ تو کیا آپ کی نظر میں تبلیغی جماعت دراصل نقشبندی سلسلہ کا دوسرا نام ہے؟ میں نے وضاحت چاہی۔
جی ہاں ! بالکل ۔
پھر اگر نقشبندی سلسلہ کا کام آگے بڑھتا ہے تو آپ قادری سلسلہ کے لوگوں کو تو اس پر اعتراض نہ ہوناچاہئے؟
بالکل نہ ہوتا ۔ ہم لوگوں کو نقشبندی اور قادری دونوں سلسلہ سے نسبت ہے۔ ہم یہی تو کہتے ہیں کہ ہم اصلاً ایک ہیں ۔ہمارا سلسلہ ایک ، ہماری فقہ ایک ۔ لیکن جھگڑا تو ان کی منافقت کے سبب ہے ۔ جب یہ اعلیٰ حضرت کی شان میں گستاخی کرتےہیں، ہمیں قبوری ہونے کی گالی دیتےہیں ۔ حالانکہ ہمارے اور ان کے عقیدے میں اتنا بھی فرق نہیں ۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نےاپنی دو انگلیوں سے اس فرق کو سمجھانے کی کوشش کی۔
پھر آپ دیوبندی خطرے کا مقابلہ کس طرح کرتے ہیں؟ میں نے پوچھا ۔
کررہے ہیں جی؟ کررارا جواب دیا ہے ہم نے۔ ہم نےبھی دعوتِ اسلامی بنائی ۔ ہری پگڑی کو رواج دیا۔ اب عام لوگوں کی نظر میں اہل سنت کے حقیقی نمائندہ ہم لوگ ہیں ۔ دیوبندی تو اہل حدیثوں کے چمچے سمجھے جاتے ہیں ۔ ہماری سبز پگڑی کو دیکھ کر دور ہی سے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی غلام ، اس کا کوئی دیوانہ جارہا ہے ۔ تو کیا پگڑی کا سبز رنگ کسی خاص سبب سے ہے؟ میں نے جاننے کی کوشش کی۔
فرمایا : جی ہاں! جس طرح نور سے رابطہ ہوتاہے، ایک طرح کے لوگ ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں اسی طرح سبزرنگ اہل اسلام کا رنگ ہے۔
مگر کنبدِ خضریٰ کے مکین کو تو آپ لوگ کالی کملی والا کہتے ہیں؟ میرے اس اعتراض پر وہ کچھ جزبز ہوئے ۔ کہنے لگے سبزرنگ سے ہم اہل ایمان کو خاص تعلق ہے۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ مومنین ، صالحین کی روحیں مرنے کے بعد سبز پرندے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں ۔ انبیاء اور اولیاء اللہ تو اپنی قبروں میں زندہ رہتے ہیں البتہ صالحین کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں مومنین کی دستگیری کے لیے اطراف عالم میں منڈلاتی رہتی ہیں ۔
اللہ خان یار کی یہ بات سن کر اچانک مجھے ایسا لگا جیسے کڑی سے کڑی مل رہی ہو ۔ میں نے پوچھا: دریا کے کنارے صبح صادق سےپہلے عامل حضرات جو سبز پرندے کی تلاش میں جاتے ہیں تو کیا وہ یہی صالحین کی روحیں ہوتی ہیں؟
فرمایا : یہ تو مجھے نہیں معلوم ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کا یہ اندازہ صحیح ہو ۔ اس لیے کہ رنگ کا رنگ سےرابطہ ہوتاہے ۔ یقیناً صالحین کی روحیں ہم سبز پگڑی والوں سےایک خاص تعلق خاطر رکھتی ہیں ۔ اسی پر سبز گنبد کے مکین کو بھی قیاس کر لیجئے اور سبز تو اسلامی رنگ بھی ہے۔ اللہ یار خاں نے اپنے موقف کو مزید مدلل کیا ۔
لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک زمانے میں قبۂ رسول کا رنگ سفید تھا ۔ اور اس سے بھی پہلے لکڑی کا قبّہ کسی رنگ سے خالی تھا ۔ اچھا ! تو یہ شروع سے ایسا نہیں ہے؟ اللہ یار خاں نے کچھ سنبھالا لینے کی کوشش کی ۔
جی نہیں! کوئی ابتدائی سات سو سال تک رسول اللہ کی قبر مبارک کسی قبہ سے خالی رہی ۔ ساتویں صدی ہجری میں پہلی بار لکڑی کا قبہ تعمیر ہوا۔ پھر سفید قبہ کی باقاعدہ شکل قائم ہوئی ۔ سبزرنگ کا قبہ ترک خلافت کی یاد گار ہے۔ رہی یہ بات کہ سبزرنگ اسلامی رنگ ہے تو اس کی بھی کوئی سند نہیں کہ ابتداً اسلامی لشکر کے علم کا رنگ سفید تھا ۔ عباسیوں نےسیا ہ جھنڈے کو اختیار کیا ۔ اور اس کے بالمقابل فاطمی خلفاء نےاپنے لیے سبز جھنڈوں کو منتخب کیا ۔ عہد فاطمی میں ملتان کی اسمٰعیلی ولایت میں قاہرہ سے سبز جھنڈوں کے ارسال کیے جانے کی بات تاریخی مصادر میں موجود ہے اور یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ صدیوں بعد بر صغیر میں پاکستان کے نام سے جو نئی ریاست وجود میں آئی اس کے قومی جھنڈے کا رنگ بھی سبز قرار پایا۔
میری یہ باتیں سن کر اللہ یار خاں چند لمحوں کے لیے ایسا لگا جیسے مبہوت سے ہوگئے ہوں ۔ کہنے لگے معاف کیجئے گا مجھے سبزرنگ کی اس تاریخ کا اندازہ نہ تھا ۔ ہماری یہ سبز پگڑی تو بس سبز گنبد سے فیض حاصل کرنے کے لیے ہے۔ آقا کی کچہری میں بھی میری حاضری لگ جائے، اپنا تو بس یہی خواب ہے۔
لیکن حاضری تو تب لگے گی جب وہاں کچہری بھی قائم ہوتی ہو۔
ارے تو اس میں کوئی شبہ کی بات ہے۔ یہ تو بزرگوں کا مشاہدہ ہے ۔مختلف اولیاء کی زبانی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی کچہری کی تفصیلات ہم تک پہنچی ہیں۔ ہر جمعہ کو نماز کے بعد اولیاء و صلالحین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضری دیتے ہیں ۔ امت کے حال و احوال کا تذکرہ ہوتا ہے ۔ کیا آپ کو ان باتوں کا پتہ نہیں؟
پتہ تو جب ہوگا جب میری بھی حاضری لگ جائے ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میں نےاہل صفا کی صحبت میں یہی سیکھا ہے کہ شنید پر نہیں وید پر یقین رکھو۔ مگر اس بات پر تو تمام امت کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں اپنےجسمانی وجود کے ساتھ زندہ ہیں ۔ کبار اولیاء اللہ اور مشائخ ان سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں ۔ بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باقاعدہ حدیثیں سنی ہیں ۔ بعض اہل دل جب چاہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرلیتے ہیں اور بعض مجلسوں میں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری بھی ہوتی ہے، بالکل اسی طرح گوشت پوست کے انسان کی حیثیت سے جیسے ہم اور آپ گفتگو کررہے ہیں۔
خیر یہ تو صوفیاء کی گپ شپ ہوئی ۔ اہل دل کے دعوے ہوئے ۔ عقل اور وحی کی روشنی میں اگر حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد از وصال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرکوئی دلیل قائم ہوتی تو بتائیے۔
میری یہ بات سن کر اللہ یار خاں کےنقشبندی دوست، جواب تک بڑے تحمل کے ساتھ ہماری گفتگو انگیز کیے جارہے تھے ، اپنی خانصاحبیت کو نہ روک سکے۔ فرمایا اجی عقل کا یہاں کیا کام؟ یہ سب عشق کی باتیں ہیں ۔ عقل والوں کو یہ دولت نہیں ملتی ۔ ویسے قرآن میں، حدیث میں ہر جگہ آپ کو اس بات کے دلائل مل جائیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں ۔ ہمارے صلوٰۃ و سلام کے توشے ہر جمعرات کو ان کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں ۔
اچھا تو قرآن میں بھی اس بارےمیں کوئی آیت موجود ہے میں نے ان کی نقشبندی دوست سے پوچھا ۔
فرمایا جی ہاں! کیا قرآن میں نہیں ہے کہ شہیدوں کو مردہ نہ کہو؟.............. لیکن یہ تو شہیدوں کی بابت ہے ۔ میں نے اپنا اعتراض باقی رکھا ۔ بولے: جب شہیدوں کا یہ مقام ہے کہ وہ مرے نہیں اور انہیں خدا کی طرف سے رزق عطا ہوتاہے تو انبیاء کا درجہ تو اس سے بھی اونچا ہے ۔ بخاری میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج کو جارہے تھے اور وہ حضرت موسی علیہ السلام کی قبر سے گزرے تو دیکھا کہ موسیٰ قبر میں کھڑےنماز پڑھ رہے ہیں ۔ اور یہ حدیث تو معروف ہے کہ الانبیاء احیافی قبورھم یصلون ۔ ایک اور حدیث میں یہ آیا ہے ان اللہ حرّم علی الارض ان تاکل اجسار الانبیاء ابودردا کی ایک روایت میں تو اس بات کی تخصیص بھی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں او رانہیں رزق بھی دیا جاتا ہے ۔ اور بیہقی کی ایک روایت میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ من زار قبری بعد موتی کان کمن زارنی فی حیاتی ۔
سعید بن مسیّب کے حوالے سے سنن الدارمی میں ایک روایت منقول ہے کہ ایام حرّہ میں جب مسجد نبوی تین دن تک اذانوں سےمحروم رہی، سعید بن مسیّب جو اس دوران مسجد کے اندر تھے، انہیں نمازوں کے اوقات کاپتہ اس طرح چلتا کہ خاص نماز کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے ھمھمہ یعنی کھسپھساہٹ کی آواز آنے لگی۔اسی حدیث کی بنیاد پر ابن تیمیہ جیسے وہابی نے بھی حیات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیدے کو تسلیم کیا ہے ۔ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس عقیدے کا اظہار کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی موت کے سبب ختم نہ ہوگئی بلکہ ان کی زندگی جاری ہے اورانبیاء اپنی قبر وں میں زندہ ہیں ۔ ابن القیم ، ابن الجوزی ، جلال الدین سیوطی، امام سبکی اور امام شوکانی، یہ سب کے سب حیات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قائل ہیں ۔ اب اس کے بعد ناکی گنجائش کہاں ہے حضور ! یہ کہتے ہوئے انہوں نے میری طرف فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔
میں نے پوچھا : اچھا یہ بتائیے کہ قرآن مجید کی یہ آیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ (3:144) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک رسول ہیں اور وہ مر گئے تو کیا تم دین سے پھر جاؤگے یا خدا کا یہ کہنا کہ کل نفس ذائقۃ الموت ، یا یہ آیت کہ افان مت فھم الخالدون کہ اے محمد اگر تمہیں بھی مرنا ہے تو کیا یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ان آیات کو آپ حیات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مروجہ عقیدے سے کس طرح ہم آہنگ سمجھتے ہیں ۔ پھر یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ بعد کے لوگوں نے عالم بیداری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے سینکڑوں دعوے کر رکھے ہیں ۔ کسی کی بزرگی کا یہ عالم ہے کہ وہ جب چاہتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں جا بیٹھتا ہے ۔ بعض نے خود کو اس کچہری کا عہدیدار بھی باور کرا رکھا ہے ، لیکن اس کے برعکس عہد صحابہ میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جب کبار صحابہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشاورت کے لیے کبھی آپ کی کچہری میں حاضر ہوئے ہوں ۔حالانکہ عین وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے مسئلہ پر امت میں وقتی طور پر نزاع پیدا ہوا۔ پھرآگے چل کر صفین اور جمل کی جنگوں میں مسلمانوں کی تلواریں آپس میں الجھ گئیں لیکن ایسے سخت حالات میں بھی کسی کو اس بات کا خیال نہ آیا کہ وہ ان نازک ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف رخ کرتا اور ان سے مداخلت کا طالب ہوتا ۔اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے اندر واقعی زندہ ہوتے اور ان کے ہاں امورِ دنیا پر کچہری لگ رہی ہوتی تو پھر یہ کیسے ممکن ہوتا کہ صدیوں بعد احمد الرفاعی سے ملاقات کے لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ قبر سے باہر آجائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اپنے باہمی تنازعات کو سلجھانے کے لیے آپ کی کچہری میں آنےسے احتراز کریں ۔
میرے اس اعتراض پر اللہ یار خاں اور ان کے نقشبندی دوست کچھ بجھ سے گئے ۔ بولے : یہ بھی تو دیکھئے کہ جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عالم بیداری میں ملاقات کی باتیں کہیں یہ بڑے بڑے نام ہیں ۔ انہیں جھوٹا بھی تو نہیں کہہ سکتے ۔
ہاشم جو میری بات کو اب تک بڑے غور سے سن رہے تھے ، کہنے لگے ہاں یہ بات تو غور کرنے کی ہے، ادھر میرا ذہن بالکل نہیں گیا تھا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، عین عالم بیداری میں ، بعد کے اولیاء کی مجلسوں میں اس قدر کثرت سے آتا ہوں اس کی آمد کا چرچا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عہد میں کیوں سنائی نہیں دیتا؟
یہ رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بعد موت کا مسئلہ جس پر تمام شواہد بعد والوں نے قائم کیے ۔ تمام روایتیں بعد کے عہد میں ایجاد ہوئیں ۔ حالانکہ ابتدائی عہد کے مسلمان اس بات کے کہیں زیادہ سزا وار تھے کہ خلافت کے مسئلہ پر باہمی نزاع کو سلجھانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسمانی وجود کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی مجلس میں آوارد ہوں یا کم از کم قبر مبارک کے اندر منعقد ہونے والی ہفت روزہ کچہری میں ان حضرات کو طلب فرمالیں ۔ بات یہ ہے کہ اگر حیات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ وضع نہ کیا جائے تو پھر ان تمام روحانیوں کااپنی قبور میں زندہ ہونے اور فیض پہنچانے کی باتیں اپنا جواز کھو دیں گی۔ میری اس بات پر اللہ یار خاں نے خاموشی میں عافیت جانی ۔ ان کے دوست کچھ بجھے بجھے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ فرمایا : یقین کی باتیں ہیں جی، یقین کی ۔ دلائل اور ریسرچ سے یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں ۔ ہاشم کچھ گم صم سے تھے ۔ ان کے چہرے پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا ۔ ان کا اصرار تو یہ تھا کہ ابھی یہ گفتگو اور چلے لیکن میں نے کبھی اور کے وعدے کے ساتھ ان سے اجازت لے لی۔
ستمبر 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/eleven-days-spiritual-city-istanbul-part-13/d/99043