New Age Islam
Thu Sep 19 2024, 05:43 AM

Urdu Section ( 8 Aug 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Under the Shadow of Sectarianism مسجد ضرار کے سایے میں

 

ڈاکٹر راشد شاز علی گڑھ یونیورسٹی

مسلمان جو گزشتہ کئی صدیوں سے مسلسل مدافعت کی جنگ لڑرہے ہیں وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کی جد و جہد اتنی بے شمار قربانیوں کے باوجود آخر ثمر بار کیوں نہیں ہوتی؟ اس میں شبہ نہیں کہ گزشتہ تین سو برسوں میں نو آبادیاتی اور استبدادی نظام کے خلاف مسلمانوں نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں اور آج بھی دنیا میں بھر میں سرمایہ دارانہ نظام جبر کے خلاف لوگ بر سر پیکار ہیں ان کا تعلق اسی قوم مسلم سے ہے ۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ صورت حال میں کوئی خوشگوار تبدیلی تو کیا آتی خود مسلمانوں کی تلواریں آپس میں الجھ کررہ جاتی ہیں ۔ جہاد افغانستان کے خاتمے پر مجاہدین کے مختلف گروہ جس آپسی خانہ جنگی کا شکار ہوگئے اس نے یہ خیال کو مزید مستحکم کردیا کہ اہل قبلہ کا باہمی اتحاد خیال عبث ہے۔

جو لوگ سوویت یونین کو شکست دے سکتے تھے ان کے لئے اس گرہ کی عقدہ کشائی ممکن نہ ہوسکی کہ آخر کیا چیز ہے جو ان کے اندرون سےان پر ضرب لگا تی ہے اور جس کے سبب ان کا اتحاد تمام تر امکانی کوششوں کے باوجود وجود میں آنے سے رہ جاتا ہے ۔ اہل فکر مسلمانوں کو یہ سوال بھی پریشان کرتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اہل ایمان کے ایک گروہ کو جب اللہ تعالیٰ زمین میں اقتدار سے نوازتا ہے تو وہ اہل قبلہ کے دوسرے گروہوں پر خدا کی زمین تنگ کردیتے ہیں ؟ طالبان کے افغانستان میں اہل قبلہ کے دوسرے گروہوں کا ایمان اور ان کی مذہبی فکر جس طرح قابل استراد قرار پائی یا موجودہ سعودی عرب میں سلفی اسلام کے علاوہ دین کی دوسری تعبیروں کو جس طرح لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا، ان باتوں سے عام مسلمانوں پر دین اور اس کے احیاء کے سلسلے میں یک گونہ مایوسی طاری کردی ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ خدا مذہبی مسلمانوں کو آج اگر دنیا کے کسی خطے میں اقتدار کل سے نوازدے تو یہ سوال کلیدی اہمیت اختیار کرلے گا کہ دین کی کون سی تعبیر کے مطابق نئی ریاست کا انتظام و انصرام چلایا جائے۔

مسلم اہل فکر اس بات کا احساس تو ضرور دلاتے رہے ہیں کہ کہیں کوئی بڑی گڑبڑی ہمارے فکری سرمائے میں در آئی ہے جس کی وجہ سے آج ہم من حیث الامۃ ’ ام سر نو اٹھ کھڑے ہونے کی پوزیشن میں خو د کو نہیں پاتے ۔ البتہ اس بڑی گڑبڑی یا فکری انحراف کے سد باب کی یا تو ہم اپنے اندر ہمت نہیں پاتے یا یہ سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں کوئی انقلابی قدم اٹھانا امت کے رہے سہمے تنظیمی ڈھانچے کو بھی تباہ و برباد کردے گا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اصل مرض کے علاج سے اعراض پر ہم خود کو مسلسل مجبور پاتے ہیں ۔ بھلا جب کسی مرض کاعلاج ہی نہ کیا جائے اور اس سلسلے میں کوئی معمولی قدم اٹھانے سے بھی ہمیں خوف آئے تو مستقبل میں کسی خوشگوار تبدیلی کی بات کیسے سو چی جاسکتی ہے؟

قوموں کی کامیابی کے لئے باہمی اتحاد محض کوئی سزا الہامی نہیں بلکہ دل و دماغ کو لگتی بات ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ہمارے اہل فکر اور عامی مسلمان ان نکتہ سے واقف نہیں ۔ قرآن مجید میں جہاں حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے اور انتشار سے اجتناب کی تلقین کی گئی ہے وہیں اس بات کی وضاحت بھی موجود ہے کہ باہمی اختلاف اہل ایمان کے لئے سم قاتل ثابت ہوگا، ان کی ہواا کھڑ جائے گی۔ مسلمان جو خود کو حامل توحید کہتے ہیں وہ اس نکتہ سےبھی نا آشنا نہیں کہ توحید نظری طور پر انسانوں کو جوڑتا ہے جب کہ اس کے برعکس شرک انسانوں کو خانوں میں بانٹتا ہے۔ ایک ربانی معاشرے میں جو تقویٰ کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے، شعوب و قبائل کی شناختیں ، تفرقے اور گروہ بندیوں کی نفسیات پر صبغۃ اللہ کا غلبہ اس بات سے عبارت ہے کہ مختلف شعوب و قبائل پر مشتمل یہ امت اب بنیان مرصوص میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس کے برعکس اہل ایمان کے ربانی معاشرے میں اگر اس کیفیت کا فقدان ہو اور انہیں بار بار یہ احساس ہوتا ہو کہ کوئی چیز ان کے اندرون سے ان کے اتحاد کو مسلسل تار تار کئے دے رہی ہے تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ جس چیز کو حبل اللہ سمجھ بیٹھے ہیں وہ دراصل کچھ او ر ہے۔

ہم مسلمان اگر ایک سخت ایمان دارانہ محاسبہ پر آمادہ ہوسکیں تو ہمیں شاید یہ سمجھنے میں زیادہ دشواری پیش نہ آئے کہ اہل قبلہ کے مختلف گروہوں نے جس چیز کو و ثوق و اعتماد سے تھام رکھا ہے وہ دراصل حبل اللہ نہیں بلکہ حبل الرجال یا حبل الاحبار ہے۔ وہ دین جو یہودی نصرانی جیسی شناختوں کو لائق استراد ٹھہراتا ہو اور جسے یہ بھی گوارا نہ ہو کہ متبعین محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود کو محمدی کی حیثیت سے پیش کریں بھلا اس دین میں اس بات کےلئے کیسے گنجائش نکل سکتی ہے کہ متبعین محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود کو حنفی شافعی، شیعہ سنی یا تحریکی اور جماعتی کہلانا گوارا کرلیں ۔ ربانی معاشرے میں ان غیر ربانی شناختوں کا ظہور گویا اس بات سے عبارت ہے کہ قرآن مجید نے جس حبل اللہ کو سختی سےتھامے رہنے کی تلقین کی تھی وہ اب ہمارے ہاتھوں سےبد قسمتی سے پھسل گئی ہے۔

آج ہم جن چیزوں کو مذہب کا لازمہ سمجھ بیٹھے ہیں اور جن شناختوں کے بغیر یہ سمجھتے ہیں کہ فریضۂ دین کو ادا کرنا شاید ممکن نہ ہو ذرا غور کیجئے اس کی تاریخی اور نظری حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ فقہی اور مسلکی شناختیں واقعی اس لائق ہیں کہ ہم نسلاً بعد نسل اس غیر ضروری بوجھ کو اپنے کمزور کندھوں پر اٹھائے پھریں ۔ ابتدائی عہد میں جب مسلمانوں میں فرقوں او رمسلکوں کا ظہور نہ ہو ا تھا پوری امت وحی ربانی کےنظر ی ماحول میں سانس لیتی تھی۔ بسا اوقات مختلف امور میں اہل فکر مسلمانوں کے مابین اختلاف بھی ہوتا لیکن اس اختلاف کی بنیاد پرکوئی مستقل مدرسۂ فکر وجود میں نہیں آتا بلکہ امر ہم شوریٰ بینہم کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اہل ایمان کسی ایک فیصلہ پر پہنچ جاتے ۔ تیسری صدیوں کے وسط تک فقہی یا نظری اختلاف کی بنیاد پرالگ الگ فرقے بنانے کا کوئی رواج نہ تھا ۔ شیعہ سنی کی روایت کی کتابیں بھی مشترکہ تھیں ۔ یہی وجہ کہ صحاح ستہ میں آج بھی شیعہ مسلک کی روایتیں پائی جاتی ہیں۔

فقہی شناخت کے مسئلہ پر ایک او رپہلو سے غورکیجئے ۔ ابو حنیفہ جن کا سال وفات 150 ہجری ہے اور ادریس شافعی جن کا انتقال 204 ہجری میں ہوا اور جن کی بنیادوں پر ہم مسلکی شناخت کو روارکھتے ہیں ان حضرات کے ظہور سے پہلے اہل ایمان کوجو نسل اس سرزمین پر موجود رہی آخر ان کی مذہبی زندگی کی مشین کیسے متحریک رہی۔ اگر رسول اللہ کے وصال کے سو سال بعد بھی مسلمان ائمہ فقہاء کے بغیر مذہبی زندگی کی تنظیم و ترتیب کرسکتے تھے تو پھر اکیسویں صدی کی ابتداء میں ہم بالکل اسی طرز کی ایمانی زندگی کیوں نہیں جی سکتے ؟ بالخصوص جب ہمارا یہ ایمان ہو کہ اسلام ایک آسمانی دین کی حیثیت سے عہد رسول میں اپنے اتمام پہنچا او ریہ کہ عہد رسول کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ اہل فکر مسلمانوں کی تاریخ ہے اور یہ کہ نبی کے علاوہ کسی اور شخص کو یہ مقام حاصل نہیں کہ اس کی ذات ہمارے لئے ناگزیر حوالہ بن جائے۔

افسوس کہ فقہی بنیادوں پر جب ایک بار گروہ بندی کو اعتبار مل گیا تو یہ سلسلہ کسی طرح نہ رو کا رجاسکا۔ بظاہر چار ائمہ فقہاء کو canonize کئے دینے سے پانچویں یا چھٹے امام کے ظہور کا راستہ تو رک گیا لیکن عملاً مسلکی گروہ بندیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ وہ امت جسے حبل اللہ تھامنے کی سخت تاکید کی گئی تھی وہ آج بھانت بھانت کےشیوخ و مصلحین کا دامن تھامے افتراق و انتشار کی بد ترین تصویر پیش کررہی ہے۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ فرقہ وارانہ شناخت کے قیام او ران کی تبلیغ کے لئے باقاعدہ مسجدیں اور مدارس وجود میں آگئے ہیں جو شب و روز اپنے اپنے قلعوں سے اپنے مسلک اور اپنے شیوخ کی سربلندی کےلئے ایڑی چو ٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں ۔ بد قسمتی سے ان تمام گروہوں کو اپنے بارے میں اس بات کی غلط فہمی بھی ہےکہ وہی فرقۂ ناجیہ ہیں اور یہ کہ ان کے علاوہ اہل ایمان کے دوسرے تمام گروہوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اگر دنیا بھر میں مساجد کی کثرت اور قال اللہ و قال الرسول کی درسگاہوں کی موجودگی کے باوجود مسلمانوں کا زوال روکے نہیں رکتا اور ان کا انتشار مسلسل بڑھتا جاتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان مساجد و مدارس سے ربانی بننے کی دعوت دی ہی نہیں جارہی ہے۔ حبل اللہ کے بجائے ہمارے علماء و قائدین کھلے عام حبل الرجال تھام لینے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں ۔ تمام ہی فرقوں اور جماعتوں کی دعوت کا لب لباب یہ ہے کہ ہمارے گروہ میں شامل ہوجاؤ کہ یہی نجات کا راستہ ہے او ریہی وہ واحد طریقہ ہے جس کےذریعہ بقول ان فرقہ پرو روں کے امت کی صفوں میں اتحاد پیدا ہوسکتا ہے ۔ مساجد ہوں یا مدارس عملی طور پر اس پر کسی نہ کسی گروہ یا جماعت کا قبضہ ہے۔ بھلا جو مسجدیں مسلمانوں میں فرقہ بندی کو ہوا دینے کےلئے بنائی گئیں ہوں اگر وہ مسجد ضرار جیسے تنائج پیدا نہ کریں تو اس بات پر ہمیں تعجب کرنا چاہئے۔

افسوس تو اس بات پر ہے کہ مسلم معاشرے میں مسجد ضرار کی اس عمومی فضا کا احساس بھی ہمیں کم ہی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کو نواربانیین کی دعوت دینے والی امت اس راہ پرکیسے چل نکلی کہ اس کے درمیان الگ الگ شیعہ و سنی مسجدوں کا قیام عمل میں آگیا اور پھر یہ سلسلہ بریلوی، دیوبندی ، جماعتی اور سلفی مسجدوں کے قیام پر منتج ہوا۔ ایک خدا کی بندگی کی طرف بلانے والے لوگ فرقہ پرستی کے شرک میں کچھ اس طر ح کیسے مبتلا ہوگئے کہ انہیں اس بات کا پتہ بھی نہ چلا کہ وہ اب صبغۃ اللہ کے بجائے جماعتی، سلفی، حنفی یا شافعی بننے کی دعوت دینے لگے ہیں اور یہ کہ ان کے اس عمل پر اب قرآن مجید کی یہ آیت بڑی حد تک صادق آنے لگی ہے ( والذین اتخذو ا مسجد ا ضرارا و کفرا و تفریقا بین المؤمنین) جو مسجدیں مسلمانوں کو ضرر پہنچائیں ’ جہاں کے خطبے اتحاد اسلامی کو پارہ پارہ کردیں، بھلا ایسی تفریق پرور مسجدوں سےکسی خیر کی توقع کیسے ہوسکتی ہے؟ فرقوں کے زیر اثر آج جو مختلف مسجدیں وجود میں آرہی ہیں ان کے داعی بظاہر تو یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ہماری نیت تو بھلائی کی ہے ( ان اردنا الاالحسنی) لیکن اللہ تعالیٰ کہتا ہے ( واللہ یشھد انھم لکاذ بون) کہ خدا گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں ۔

صورت حال اب اتنی خراب ہوگئی کہ دینی اداروں کے اشتہارات اب کھلے عام یہ مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ درخواست دہندگان کےلئے لازم ہے کہ اس کا تعلق ان کے مسلک سےہو ۔گزشتہ ماہ پاکستان سے شائع ہونےو الے یا مؤ قر تحریکی رسالہ میں جدید تکنیکی تعلیم کےلئے نوجوانوں سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں جہاں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ یہ سہولت تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کے بچوں کےلئے مخصوص ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کیا وہی امت ہے جس کی پہلی نسل جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے اس وسعت قلبی کی حامل تھی کہ وہ عالمی نظام انصاف کے قیام میں اہل کتاب کے صالحین کو بھی شرکت کی دعوت دیتی اور تمام انسانوں کو ایسا محسوس ہوتا کہ اسلام اور مسلمانوں کے دروازے ان پر کھلے ہیں ۔ مسجد ضرار کی فرقہ وارانہ فضا نے اب اہل فکر مسلمانوں اور دعوت دین کے حاملین کو بھی اس تنگ نظری میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ اپنے فرقے سے باہر اہل قبلہ کے دوسرے گروہوں کےلئے کسی فلاحی منصو بے کی بات سوچنے سے عاجز ہیں ۔

جب تفرقہ بندی کی جڑیں اتنی مضبوط او رگہری ہوں تو یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ مسلمان کسی مصنوعی طریقے سے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرسکتے ہیں۔ جب تک تفرقے کی ان بنیادوں پر تیشہ نہیں چلایا جاتا امت کا بنیان مرصوص میں تبدیل ہوناامر محال ہے۔ اوّل تو ان چار فقہا ء کے لازمۂ دین ہونے کے لئے قرآن مجید سےکوئی دلیل نہیں لائی جاسکتی ۔ ثانیا ً یہ خیال بھی لغو ہے کہ ائمہ فقہا ء یا متکلمین جن کے فہم دین پر مختلف جماعتیں وجود میں آگئی ہیں، کے بغیر ہماری مذہبی زندگی کی مشین متحرک نہیں رہ سکتی ۔جب دوسری صدی کی ابتداء تک مسلمان ائمہ فقہاء کے بغیر کہیں بہتر دینی زندگی جی سکتے تھے تو آج قرآن مجید اور اسوۂ رسول کی موجودگی میں یہی کام آخر کیوں نہیں انجام دیا جاسکتا؟ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ان انسانی حوالوں کو دین کا لازمہ قرار دے دیا جائے جن پر کتاب اللہ سے کوئی دلیل نہیں لائی جاسکتی اور جن کے ظہور پر یقیناً رسول اللہ نے ہمیں کوئی اطلاق نہیں دی تھی ۔ اس منتشر پر اگندہ حال امت کو اگر بنیان مرصوص میں تبدیل کرنامقصود ہے اور اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ امت کو تفرقہ بندی اور جماعت سازی جیسے شرک سے نجات ملے اور تفریق بین المؤمنین کے اس ضرار ی سلسلے پر یکسر روک لگادی جائے تو ہمیں خود کو ایک بڑے نظری آٖپریشن کےلئے آمادہ کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تمام کوششیں تو فرقوں کے استحکام کےلئے جارہی ہوں او راس کے نتیجے میں ایک متحد امت یا ربانی معاشرے کا ظہور عمل میں آجائے۔

اگست 2016 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/under-shadow-sectarianism-/d/108206

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..