New Age Islam
Sun Mar 26 2023, 03:15 AM

Urdu Section ( 13 Feb 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Evolution Of The Concept Of Imamate In Shia Theology (رسالہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم گروہی اسلام (باب سوم

 

ڈاکٹر راشد شاز

فروری، 2013

( اِنَّ الَّذیِنَ فَرَّ قُوْ ادِیْنھَمْ وَکَا نُوْ اشِیَعًا لَّسُتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْ ءٍ)

ہمارے خیال میں  باقر کے عہد تک  امام منصوص کے عقیدے  پر ایمان لانے والے کم  تھے۔ ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کے بعض معتمد اصحاب اور شاگرد ابولجاروت، زیاد بن منذر ، فضیل  بن رسّان اور ابوالخالد الواسطی جیسے حضرات باقر کو چھوڑ کر ان کے بھائی زید بن علی کی تحریک میں شامل  ہوجاتے ۔30؎  حتیٰ کہ جعفر الصادق جن کی امامت  پر اثنا عشری  اور اسمٰعیلی گروہوں  کا اتفاق  ہے ان  کی موت کے بعد خود ان کے ماننے ولے کسی ایک امام منصوص کی اتباع  میں متحد نہ رہ سکے ۔ 31؎  جن لوگوں نے ان  کے بڑے صاحبزادے  عبداللہ الافتح  کی امامت  قبول  کی وہ فتحّیہ  کہلائے ۔ جن لوگوں  نےاسماعیل کو اپنا پیشوا بنایا وہ آگے چل کر اسمٰعیلی کے نام سے  ملقب  ہوئے اور جن لوگوں نے موسیٰ کا ظم کو ساتویں  امام منصوص کی حیثیت  سے قبول کیا وہ آگے چل کر اثنا عشری کہلا ئے ۔ پھر موسیٰ کا ظم کی موت پر بعض  لوگ ان کے بڑے صاحبزادے علی بن موسیٰ الرضاء کی قیادت میں سرگرم ہوگئے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے  کہ وہ عباس خلیفہ  مامون  کے ولیعہد  بھی نا مزد ہوئے تھے۔ اگر ائمہ مامورین کی تعداد اور شناخت متعین ہوتی تو اہل بیت کے جاں فروشوں  کے لیے یہ کیسے  ممکن ہوتا کہ وہ اپنی قوت  و صلاحیت  کومختلف  ائمہ غیر مامورین کی قیادت  میں ضائع کریں۔

عقیدۂ امامت کی نظری اساس

آثار و روایات کےمشتر کہ مجموعوں ( صحاح ستہّ ) میں شیعی  روایتوں  کی موجودگی کے باوجود امام غائب  کا کوئی تصور نہیں ملتا ۔ حالانکہ ان ہی کتابوں میں تفصیل اہل بیت کی بے شمار  روایتیں موجود ہیں۔ امامت کا وہ سلسلہ جو بالآخر بارہویں  امام پر آکر منقطع ہوجائے آخر  کس عہد میں منقطع  ہوا اور یہ کہ ابتدا میں جب غیبتِ امام کا تصور پہلی بار سامنے آیا تو اس وقت  عالم اسلام کے سیاسی حالات کیا تھے؟ کیا غیبتِ  صغریٰ اور غیبتِ کبریٰ کا مروجہ  تصور اسی  طرح رائج  چلا آتا ہے یا ا س میں حالات و زمانے  کے اعتبار سے تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں؟  ہمارے لیے ان سوالات کے جوابات کی فراہمی اس تقدیسی تاریخ  کی تفہیم  میں ممدو معاون ہوسکتی ہے جس کے سر تشیع کی تشکیل  کا سہرا ہے۔ تاریخ کے اس تنقید  ی مطالعہ میں ہم صرف ان مآخذ پر انحصار کریں گے جنہیں  اہل تشیع  کے ہاں استناد کا درجہ حاصل ہے۔

نظریہ ٔ امامت پر تمام ہی معتبر  شیعی  و ثائق جنہیں علماء اہل تشیع حّجت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جن پر شیعیت کے مدار قائم ہے چوتھی او رپانچویں  صدی ہجری  میں مرتب ہوئے ۔ یہی  وہ عہد  ہے جب عباس خلافت کے اضمحلال کے نتیجے میں آل  بویہ کا ظہور  ہوا جو ابتداً تو زیدیہ شیعہ  تھے لیکن بہت جلد ان کی سرپرستی میں علمی  سرگرمیوں  نے انہیں اثنا عشری عقیدے  کے پاسبان کے طور پر  متعارف کرایا۔ شیعوں  کی بعض  اہم بنیادی  کتابیں  بجزالکافی کے جس کی تالیف کا زمانہ  320 ھ کے قریب  ہے، ان ہی کی سیاسی سر پرستی  میں مدون ہوئیں۔ جس وقت امام غائب  کے سلسلے میں دلائلِ شرعی مرتب  ہورہے تھے  او ربارہ اماموں کو عقیدے  کامسئلہ  باور کرایا  جارہا تھا عین ان ہی ایام میں اسمٰعیلی شیعوں کی عظیم الشان سلطنت  اپنا دائرہ اثر وسیع  کررہی تھی۔لیکن آلِ بویہ جو اہلِ بیت  کی اتباع کا دم بھرتے تھے ان کے لیے فاطمیوں  کی خلافت  کے مقابلے میں عباسیوں  کا سنّی  خلیفہ  کہیں زیادہ  قبول تھا ۔ اس کا اصل سبب شیعانِ اہل بیت  کے مابین اماموں  کے تعین کے سلسلے میں زبردست اختلاف تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حسن العسکری کی موت کے بعد ان کے متبعین چودہ یا بیس مختلف  گروہوں  میں بٹ  گئے تھے۔ ؎  زیدی او راسمٰعیلی  شیعوں  کی علیحدہ شناخت  اس پر مستز اد تھی ۔ آل ِ بویہ کے لیے اسمٰعیلیوں  کی قیادت  اولاً تو اس لیے ناقابل قبول تھا کہ ایسی  صورت میں  عقیدے ، عمل اور سب سے بڑھ کر سیاسی خود مختاری کی کہیں بہتر  ضمانت  مل سکتی تھی ۔ آلِ بویہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ فاطمی  حکمراں  ہوں یا عباسی خلفاءان دونوں نے اپنے سیاسی  استحقاق  کے لیے مذہب  کو کام پر لگارکھا ہے ۔ آلِ بویہ ایک ایسے  ریاستی عقیدے  کی ضرورت تھی جو ان کی حکمرانی او رخلافتِ عباسیہ سے ان کے رشتہ کو جواز عطا کرسکے۔ حسن عسکری کی موت کو ابھی نصف صدی گزری ہوگی کہ منتشر  شیعہ گروہ آلِ بویہ  کی سرپرستی میں ایک متحد ہ منشور کی تشکیل میں مصروف ہوگئے۔ ایک ایسے امام  کا تصور جو اپنے  متبعین  کی نگاہوں  سے پوشیدہ  ہو اور جس کے متبعین  کے لیے یہ ممکن ہو کہ وہ ظہور امام تک عباسی خلیفہ  کی بیعت قبول کرلیں ، آل بویہ  کی سیاسی ضرورت  تھی۔ اس نظریہ  کے مطابق  امام کی غیبت میں ان کے متبعین کاکام اگر انتظار قرار پاتا ہے تو دوسری طرف حکمرانوں  کے لیے اس  بات کا جواز  بھی کہ وہ امام عادل کی عدم  موجودگی میں  روز مرّہ کے انتظامی امور بجالاتے رہیں  خواہ اس کے لیے  جابر خلیفہ  کی بیعت  ہی کیوں نہ قبول کرنی پڑے۔

ابتداء  میں جب غیبۃ کا تصور وضع ہوا تو یہ خیال کیا جاتا تھا کہ امام غائب کے ظہور  کی مدت بہت  طویل نہ ہوگی۔ المفید کے مطابق ان کے ظہور کی نشانیوں میں السُفیانی کی بغاوت ، آلِ حسن  کے سلسلے  سے ایک سیدّ کاقتل اور خلافت عباسی کا داخلی انتشار ہونا چاہئے تھا؎  عباسی خلافت جب قصۂ پارینہ  بن گئی تو غیبت کے اس تصور کو مزید طول عطا کیا گیا اور اس کے لیے دوسرے عقلی  دلائل  فراہم کئے گئے ۔

شیعیت  کے اس سیاسی او رسماجی منظر  سے اختلاف  کی  یقیناً گنجائش موجود ہے کہ جو لوگ صدیوں سے تاریخ کو عقیدے کے طور پر پڑھنے کے خوگر ہیں ان کے لیے یہ کچھ آسان نہیں کہ وہ ان توجیہات کو بآسانی قبول کرلیں ۔ آئیے یہ دیکھا جائے کہ اس بارے میں خود شیعوں کی امہات الکتب کیا  کہتی ہیں لیکن اس کے سے پہلے ان مصنفین  کے عہد پر بھی ایک نظر ڈالیے ۔ محمد بن یقوب کلینی (متوفیٰ 329ھ ) اور ابو جعفر القمی (متوفیٰ 343 ھ ) جنہیں شیعہ رو ایتوں  کی جمع و تدوین  کا شرف  حاصل  ہے، ان کی حیثیت شیعیت  کے مؤ سسین کی ہے۔ محمد بن علی بن حسین طوسی کی تاریخ وفات 460ھ ہے نہج البلاغہ  کے مرتب  ؎  شریف مرتضیٰ کا سالِ وفات بھی 436 ھ ہے۔خود عقیدۃ الشیعہ کے مؤلف کابیان ہے کہ ‘‘ تدوین احادیث الشیعہ فی ابتداء الا مرعلی زمن البویھیین  ثم علی  زمن الصفویین ’’ جیسا کہ  ہم نے عرض کیا آلِ  بویہ  کا اقتدار  جو کوئی  ایک صدی  سے زیادہ عرصہ پر محیط  تھا شیعیت  کے اثنا  عشری  قالب کی تشکیل کااصل عہد ہے۔ اسی عہد  میں ان کی اساسی کتابیں  مرتب  ہوئیں، عقائد کی تشکیل  و تدوین ہوئی، ماتمِ حسین رضی اللہ عنہ ایک دینی رسم  کے طور پر جاری ہوا،  عید غدیر کی ابتداء ہوئی، حتیٰ کہ مشہدِ علی رضی اللہ عنہ  اور مشہد حسین رضی اللہ عنہ  کی شکل میں  شیعی اسلام کے نئے کعبے وجود میں آگئے۔ اس سماجی  پسِ منظر  سے قدرے واقفیت عقیدۂ امامت  کی تفہیم  میں خاصی  معاون ہو سکتی ہے۔

شیعہ علماء امامت کے وجود پر سمعی (شرعی) اورعقلی ہر دو طرح  سےدلیل لاتے ہیں۔اول الذ کر کا سب سے مستند  مظہر ابن  بابو یہ کی کتاب کمال الدین و تمام النعۃ ہے جہاں ابن بابویہ ( موفیٰ 981ھ ) نے حدیث  ثقلین کے حوالے سےاس خیال کی پر زور وکالت کی ہےکہ امت  پرکتاب اللہ کے ساتھ ساتھ عترت آلِ بیت کی اتباع  آخری لمحے  تک لازم کی گئی ہے۔ یہاں تک  کہ حوض پر مومنین  کی رسول اللہ سے ملاقات ہوجائے۔ بقول ابن  بابویہ اس حدیث  کے ماننے سے  لازم آتا ہے کہ  امت میں  ہر زمانے میں آلِ بیت کا ایک امام موجود ہو جو قرآن  کی صحیح تعبیر امت تک پہنچا  سکے اور جس کی رشد و ہدایت کے نتیجے  میں وہ اس  یقینِ واثق کے ساتھ کہہ سکے ( قل ھذا سبیلی .....) کتا ب کے ساتھ جب تک اس کا مخبریا صاحب تاویل  نہ ہو ہدایت کی صحت کا یقین  واثق کیسے ہوسکتا ہے ۔؟ بقول ابن بابویہ  ،حدیث ثقلین کومسئلہ  امامت پر برہانِ قاطع کی حیثیت حاصل ہے۔

عقلی دلائل  کے لیے شیعی  علماء میں المفید (متوفیٰ 1022ھ) اور شریف المرتضیٰ  (متوفیٰ 1045ھ) کو استناد کا مرتبہ حاصل ہے ۔ المفید کی الشافی فی الاامامہ اور المرتضیٰ کی رسالۃ الغیبۃ کا مطالعہ  کرتے وقت یہ  حقیقت نگاہوں  سے اوجھل نہیں  ہونی چاہئے  کہ ان دونوں  حضرات کے مراسم بُوَ یہمی  حکمرانوں  کے ساتھ ساتھ  عباسی  خلفاء سے بھی خوشگوار  رہے ہیں۔ امام جب تک ظاہر نہ ہوجائے  ان کے متبعین  کے لیے یہ جائز  نہیں  کہ وہ  جابر حکمرانوں  کے خَلاف تلوار اٹھائیں۔غیبتِ امام کے  اس  تصور میں شیعہ علماء ، ان کے متبعین  ، بویہمی حکمران اور عباسی  خلفاء سبھوں  کے لیے عافیت کا یکساں سامان  پایا جاتا تھا۔ رہی یہ بات  کہ امام کی عدم موجودگی میں عدل  کے تقاضوں  سے کیسے عہد  بر آہو جائےتو اس کاجواب بھی اسی انتظار  میں پوشیدہ تھا ۔ یہ توقع  کی جاتی تھی کہ جلد ہی  امام  کا ظہور ہوگا اور حالات  درست ہوجائیں گے۔ البتہ ان کے ظہور  تک متبعین  خروج  سے باز رہیں۔ مفید اور مرتضیٰ  کے عقلی دلائل کو سب سے بڑا چیلنج اشعریت  کے ہمنواؤں نے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر امام معصوم  کا وجود خدا کے لطف کامظہر ہےتو پھر ایسے امام کو پردۂ غیبت میں رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟ مرتضیٰ نے اس قسم  کےعقلی دلائل کا یہ جواب  دیا کہ ساز گار حالات میں امام کا غیبت میں چلے  جانااسلامی تاریخ میں  کوئی  پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ اس سے پہلے بھی نامساعد حالات کے تحت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل خانہ نے معاشرے سے کٹ کر شعب ابی طالب میں پناہ لی ہے اور پھر  جب آپ کی جان کو خطرہ ہوگیا تو آپ لوگوں کی نگاہوں  سے بچ کر غار میں پناہ کے طالب ہوئے ہیں۔

امام غائب کا یہ عقیدہ ، جو رفتہ رفتہ  مہدیٔ موعود  کی پر امید واپسی کا علامیہ  بن کر اہل تشیع کے دل و دماغ پر چھاتا رہا  ، ان روایات کی پیداوار تھا جو خالصتاً شیعی حلقوں میں گردش کررہی تھیں او ر جنہیں اہل تشیع کے علاوہ دوسرے  گروہ لائق  استنا د نہ سمجھتے تھے۔ شریف مرتضیٰ نے الدلیل  السمعی کی موجودگی  کے باوجود جب غیبت کے مسئلہ  پر الدلیل العقلی  کا سہارا لیا  تو اس  کا سبب یہی تھا  کہ وہ چاہتے تھے کہ جو لوگ صرف روایتوں  کی بنیاد پر  امامت کے عقیدے پر قائم نہیں ہوسکتے انہیں معقولات کی بنیاد پر قائل  کرنے کی کوشش  کی جائے۔ یہی وہ عہد  تھا جب سنّی  دنیا  میں اشعر یت سرکاری سرپرستی  میں اپنی  سبقت کے لیے سرگرم تھی۔ امامت کے عقلی دلائل شیعہ  حلقوں  سے باہر لوگوں  کو مطمئن نہ کرسکے۔ جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا جاتا تھا اور غیبت  کی مدت طویل ہوتی جاتی تھی  لوگوں کے لیے عقلی  طور پر اس بات کو تسلیم  کرنا مشکل ہوتا جاتا تھا کہ جس امام کی قیادت پر عالم کامدار  ہے وہ آخر ایک طویل مدت سے منظر نامے سے کیوں غائب ہے ۔ شیخ الطّوسی ( متوفیٰ 1067ء ) نے عقلی اور سمعی  دونوں منہج کے امتزاج سے غیبت امام کو ایک باقاعدہ  عقیدے کا اعتبار کردیا۔ انہوں نے کتاب الغیبۃ میں اسی خیال کااظہار کیا کہ راویوں نے بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب  روایتوں میں اپنی پسند و ناپسند کو داخل کردیا ہےاور بسا اوقات  پوری بات کہنے  سے  محترز رہے ہیں ایسی صورت  میں محض سمعی واسطوں پر اعتبار  کرنے کے بجائے عقلی دلائل کا سہارا  تلاشِ  حق میں ہمارا  معاون ہوسکتا ہے۔ بظاہر تو شیخ طوسی کا یہ منہج علمی  عقل ونقل کے امتزاج سے عبارت ہے لیکن یہ ہے کہ کتاب الغیبۃ نے ایک بار پھر مسئلہ  امامت پر روایت سازوں کی گرفت مضبوط کردی۔ شیعہ ائمہ فن  کی تفسیری  تعبیری  اور کتب روایات میں مسئلہ امامت پر پائی جانے والی بحثیں حتمی حوالہ بن گئیں۔ اب یہ خیال  جاتا رہا کہ یہ روایتیں جو شیعہ حلقوں  میں پید ا ہو ئیں اور جن کا نمووار تقاء متبعین  اہل بیت کے حلقوں  میں ہوتا رہا وہ دوسرے حلقوں  کے نزدیک قابلِ استناد نہیں تھیں۔ اہل تشیع   کو دوسرے مذہبی  گروہ  کی طرح اب اپنے سے باہر دیکھنے  کی ضرورت  بھی نہ تھی کہ یہ وہ عہد  تھا جب سنّی اشعریت اور فاطمی  اسلام کا قالب بھی بڑی سرعت  کے ساتھ متشکل ہوتا جاتا تھا ۔ جب  ( کُلُّ حِرْبٍ بِمَا لَدَ بْھِمْ فَرِ حْوْ نَ ) کی صورت حال پیدا ہو جائے تو اس بات کی گنجائش کہاں باقی  رہتی ہے کہ لوگ اپنے خود ساختہ عقائد پر معروضی اور تنقید ی  نگاہ ڈال سکیں۔

آل بویہ کے عہد  میں شیعیت  کے سماجی مظاہر جس قدر عام ہوتے جاتے  تھے او رشیعی ثقافت کی گرفت  معاشرے پر جس قدر مضبوط  ہوتی  جاتی  تھی شیعہ  امہا ت الکتب کی علمی  اور تعبیری  حیثیت  بھی مستحکم  ہوتی جاتی تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ  شیعیت اب اپنے خول میں بند ہوچکی تھی۔ اہل  فن کی کتابوں پر غیر  شیعہ تناظر کی اہمیت  جاتی رہی تھی ۔ گروہی  تعصب کے اس ماحول میں تحلیل  و تجزیہ نے دم توڑ دیا تھا نیتجہ  یہ ہوا کہ تفسیر و روایات کی کتابوں میں کبار  مؤسسین  نے جو کچھ لکھ  دیا تھا وہ علمی  گفتگو کا حوالہ بنتا گیا۔ بو یہمی  عہد سے پہلے، جب نہ تو امامی شیعوں  کو پوری  طرح اپنے نظری خدو خال متعین کرنے کا موقع ملا تھا اور نہ فاطمین  مصر کی کی حکومت قائم ہوئی تھی ، شیعہ حلقوں  میں یہ خیال عام تھا کہ مروجہ قرآن مصحفِ عثمانی ہے جس میں  اہلِ بیت کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لیے آیتوں  میں ردّ بدل کردیا گیا ہے۔ فتنے کے لمحات میں جب اہل قبلہ کے مختلف گروہ ایک دوسرے کے خلاف بر سرِ پیکار ہوں اس قسم کے اتہا مات اور پروپیگنڈے کا جواز سمجھ میں آتا ہے۔ آل ِ بویہ کی سرپرستی میں امامی شیعوں  کو پہلی بار ریاست کی قوت ملی ۔ اس سے یہ تو ضرور ہوا کہ تحریف قرآن  کے پروپیگنڈے میں  وہ پہلے کی سی شدت نہ رہی البتہ  مفسرین اور راویوں  نے نظریۂ امامت پر دلیل لانے کے لیے متن او رمعنیٰ  میں جن متہمہ تبدیلیوں کا اشارہ کیا تھا اور حتمی دلائل کے طور پر  دیکھے جانے لگے۔مسئلہ امامت پر اس منہج علمی نے دلیل السمعی  تو قائم کردی البتہ شیعہ  ذہنوں میں وحی  ربّانی کی صحت کے سلسلے میں سخت التباسات پیدا ہوگئے ۔ جب رسالۂ محمد ی کے بنیادی و ثیقہ کے بارے میں یہ خیال عام ہوجائے کہ وہ اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ہے تو متبعین کے لیے اس کے علاوہ اورکوئی چارۂ کا رنہیں رہ جاتا کہ وہ امام غائب کے ہاتھوں اصل مصحف کی بر آمدگی تک ائمہ مجتہدین کی بتائی گئی راہ پر بلا سوچے سمجھے چلتے رہیں ۔

روایتوں کے ذریعہ امامت پر دلیل قائم کرنا شیعہ ذہن  کے لیے سمِّ قاتل  تھا کہ یہ تمام روایتیں مختلف  حوالوں سے یہ بتاتی تھیں کہ قرآن کی فلاں اور فلاں  آیتیں دراصل یوں نازل ہوئی تھیں جس سے دراصل اثباتِ امامت پر دلیل لانا مقصود تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ اگر مذکورہ آیتیں شیعہ مفکرین کے مطابق مختلف شکلوں میں نازل ہوئی تھیں تو پھر وہ ان آیتوں کو اسی طرح کیوں نہیں پڑھتے  یا اسے مصحف کا حصّہ کیوں نہیں بنا لیتے ۔ کہا جاتاہے کہ ایک بار جعفر الصادق کے سامنے ایک شخص نے قرآن مجید کے بعض الفاظ کی اس طرح تلاوت کی جیسی  کہ عام طور پر لوگ نہیں پڑھتے ( لیس علی  مایقرؤ ھا الناس) آپ نے فوراً اسے روک دیا۔ فرمایا اسی طرح پڑھو جس طرح لوگ پڑھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ قائم کا ظہور ہوجائے کہ وہ قرآن کو اپنی اصل حالت میں پڑھے گا اور اس مصحف کو عام کردے گا جوعلی رضی اللہ عنہ  کا تحریر کردہ ہے۔ ان روایتوں نے شیعہ  ذہن میں قرآن مجید کے سلسلے میں ایک تضاد او رمخمصے کو جنم دیا ہے۔ ایک ایسی  کتاب جس کے بارے میں وہ یہ سمجھتے ہوں کہ وہ اپنی اصل حالت میں باقی  نہیں مگر نظری طور پر اسے اسی شکل  میں پڑھنا تا آنکہ قائم کاظہور نہ ہوا ن کامذہبی فریضہٍ قرار پاتاہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ مروجہ قرآن جسے وہ مصحفِ عثمانی کہتے ہیں اور جس سے یقیناً شیعہ  عقائد کی عمارت استوار نہیں ہوتی اس کی حیثیت  اہل تشیع کے ہاں صرف کتاب تلاوت کی ہے ورنہ عقائد کی تمام تربنیاد یں تو ان آیات محرّفہ پر قائم ہیں جن کے بارے میں تاویلی ادب میں جا بجا ‘‘ ھکذا نَزَلَت’’ ‘‘ علی خالِف ما انزل اللہ’’ فیما حْرِّفَ مِن کتاب اللہ ۔ 92؎  کی صدائے احتجاج سننے  کو ملتی ہے۔ قرآن مجید کو مصحفِ عثمانی بتانا یا تفسیری  حواشی میں اختلاف قرأت کی خبر  کاپایا جانا، ناسخ ومنسوخ ، خاص وعام اور شان نزول کی روایتوں سے اپنے مطلب  کا مفہوم بر آمد کرنا یا یہ کہناکہ بعض  آیتیں تو قرآن  سے محو کردی گئیں البتہ  ان کا حکم باقی  ہے جیسا کہ آیت رجم کے بارے میں  کہا جاتاہے ایسے سنگین التباسات ہیں جن کے لیے صرف اہل تشیع کو مطعون  نہیں کیا جاسکتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں  کے تمام فرقے  جو دین کے متحدہ  نبوی  قالب  کو خیر باد کہتے ہوئے مختلف گروہ بندیوں  کے اسیر ہوگئے انہیں  اپنے نظری  جواز کے لیے تحریف قرآن جیسے مذموم عمل کا سہارا لینا پڑا۔ اہل تشیع کے ہاں دوسروں  کے مقابلے  میں تاویل و تحریف کاحصّہ  کہیں زیادہ  ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ان کے ہاں تاویل  کی کمان پوری  طری ائمہ اہل بیت کے ہاتھوں  میں ہے جن کے بارے میں  یہ خیال کیا جاتاہے کہ صرف انہیں ہی آیات کے اصل مطالب سے آگہی تھی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت تک  پہنچنے  کے تمام راستوں پر راویوں  کا پہرہ  سخت ہے جن کی ثقاہت پر تاریخ کے مختلف ادوار میں خود شیعہ  علماء انگلی اٹھاتے رہے ہیں۔ اس صورت حال نےاہل تشیع کے لیے قرآن مجید پوری  طرح کتاب منجمد میں تبدیل کردیا ہے۔ اس خیال کے مطابق جب تک قائم الزماں کاظہور نہیں ہوتا نہ صرف یہ کہ مصحف عثمانی کا متبادل ہاتھ نہیں آسکتا بلکہ مصحف عثمانی کو روایات و آثار کے محاصرے سے نجات دلانا بھی ممکن نہیں۔

قرآن مجید کی باطنی تعبیر ہو یا شان ِ نزول کی من گھڑت روایتیں   واقعہ  یہ ہے کہ ان تعبیر ی مناہج کے ذریعے  متن قرآن میں وہ کچھ  پڑھنے کی کوشش کی جاتی رہی  ہے جس کے بطان کے لیے قرآن مجید کا نزول ہوا تھا۔ اب اگر کوئی کہے کہ قرآن مجید  سے ائمہ اہل بیت کا منصوص ہونا ثابت  ہے تو بھلا  سادہ لوح مسلمانوں  کے لیے جو دین  کے معاملے  میں عقل  کے استعمال کے قائل نہیں ہوتے  ان التباسات پر یقین کرنے کے علاوہ او رکیا چارہ رہ جاتا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے قرآن مجید  سےجواز امامت پر کس طرح  دلیل  لائی گئی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ الباقر قرآن مجید کی آیت  (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّہُ وَرَسُولہُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَھُمْ رَاكِعُونَ) (5:55) میں والذی کے واؤ کو واؤ العطف کے بجائے واؤ الحال سمجھتے تھے ۔ جس کی وجہ سے آیت کےمفہوم میں بنیادی  تبدیلی  واقع ہوجاتی تھی یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ۔ اس تعبیر کےمطابق ولایۃ ان اہل ایمان کاحق تھا جو  زکوٰۃ اس حالت میں دیتے تھے  کہ وہ اللہ  کے آگے سجدہ  ریز ہوں۔ کہا جاتاہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ایک بار حالت نماز  میں تھے انہوں نے ایک فقیر کی صدا سن کر عین حالت نماز  میں اسے اپنی  انگوٹھی  عطا کردی۔ سویہ آیت ان  ہی کی شان میں  نازل ہوئی تھی ۔ الباقر  سے منسوب ایک روایت کے مطابق اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ جب ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل یہود  کے وفد سے مخاطب تھے جن  میں عبداللہ  بن سلام بھی تھے  تبھی یہ آیت نازل ہوئی ۔ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد تک پہنچے ہی تھے کہ ایک سائل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ملاقات ہوئی پوچھا  کیا تجھے  کسی نے کچھ دیا ہے ؟ اس نے مسجد  میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ،جو اس وقت محو عبادت تھے، کہاں ہاں اس شخص نے میری  ضرورت پوری  کی ہے۔ طبری میں ایسی کئی روایتیں  موجود ہیں جن کے مجموعی طور پر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اس آیت  میں علی رضی اللہ عنہ کا حوالہ بالواسطہ یا بلاواسطہ موجود ہے۔ کہا جاتاہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی اس منصوص ولایت کے اظہار کے سلسلے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو تامل تھا جو بوجوہ اس کا اظہار نہیں کرناچاہتے تھے یہاں تک کہ خدا کی طرف سے ان الفاظ  میں  انہیں  مبارزت کا سامنا  کرنا  پڑا۔ (يَا أَيّھا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ) (5:67) ۔ راویوں کےبقول  اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر علی رضی اللہ عنہ کی ولایت  کو افشا کردیا۔ القاضی النعمان نے الباقر کی مجلس میں ایک ایسے  آدمی کا تذکرہ کیا ہے جس نے ایک بار الباقر سے اس بات کی تصدیق چاہی آیا حسن بصری  کا یہ کہنا صحیح  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص پیغام پہنچایا گیا تھا جس کے اظہار میں انہوں نے تامل  سے کام لیا۔ باقر نے کہاکیا تمہیں حسن بصری نے یہ نہیں بتایا کہ وہ بات تھی کیا؟ خدا کی قسم وہ اس بات سے خوب واقف ہیں  لیکن عمداً اس کے اظہار سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ ایک بار جب ولایت کا تصور قرآن  سے بر آمد کرلیا گیا تو پھر یہ خیال بھی عام ہواکہ ولایۃ یا امامت کے بغیر تکمیل دین نہیں  ہوسکتی ۔ باقر سے منسوب ایک روایت کے مطابق  اظہار ولایت اور اس کے قیام کے بعد ہی قرآن کی آیت  الیوم اکملت ناز ل ہوئی جس میں تکمیل دین کا مژدہ  جانفز اسنایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آیت قرآنی ( اَطِیْعُو اللہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الا مْرِمِنْکُمْ) میں باقر اولوالامر سے امامت مراد لیتے تھے  ۔ 49؎  اور چونکہ وہ ائمہ اہل بیت کو علوم نبوی  کا منبع و ماخذ سمجھتے تھے اس لیے ائمہ  اہل بیت کو اس آیت کا مستحق  سمجھتے تھے جس میں کوئی اچھی یا بری چیز سن کر اسے پھیلانے کے بجائے اسے رسول اوراپنی جماعت  کے ذمہ دار اصحاب  تک  پہنچا نے کی تلقین  کی گئی ہے یعنی وہ لوگ جو ( الذین بستنبطونہ منھم) ( 4:83) کے مستحق ہیں۔ 50؎

امامت کو امر منصوص ثابت کرنے کے لیے اولوالامر اور اہل الذکر سےائمہ اہل بیت مراد لیے گئے ۔ کہا گیا کہ امام باقر نے ان آیتوں کو اسی طرح سمجھا اور سمجھایا ہے اور چونکہ  ان کا علم اہل بیت ہونے کے سبب راست سینہ بہ سینہ ان تک پہنچا ہے اس لیے تعبیر  سے مستند او رکون  سی تعبیر ہوسکتی ہے ۔ ان  روایتوں  کے بقول باقر سے یہ بات بھی منسوب ہے کہ آیت قرآنی   (أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلٰی مَا آتَھمُ اللّہُ مِن فَضْلہٖ  فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاھيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَۃ وَآتَيْنَھم مُّلْكًا عَظِيمًا) (4:54) دراصل اس بات کی طرف اشارہ  ہے کہ اہل بیت کو اللہ تعالیٰ نےاسی طرح خصوصی فضل کا مستحق  قرار دیا  ہے جس طرح آل ِ ابراہیم کے لیے کتاب و حکمت  اور اقتدار مقدر کردیا تھا۔ ؎  گویا انبیا ئے اہل  یہود کی طرح کتاب  و حکمت اور اقتدار  ائمہ اہل بیت کافطری  حق ہے کہ وہ ( الراسخون فی العلم) ہیں ، ( فاسأ لوا اھل الذکر)  کے مخاطب  ہیں لہٰذا صرف ان  ہی  کی تعبیر  مستند قرار دی  جاسکتی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اس خیال کےمطابق  ائمہ اہل  بیت  ہی قرآن  کے حقیقی  وارث ہیں ۔ کہ ان کی شان میں اللہ تعالیٰ خود کہتا ہے (ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ) (35:32) ۔ اور یہ کہ ائمہ  اہل بیت کی محبت خود اللہ  کو مطلوب و مقصود ہے ۔ ؎ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے (قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيہِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَی) ( 42:23) یہ بھی کہا گیا کہ قرآن مجید میں نور اللہ یا روح اللہ کا جہاں  بھی تذکرہ آیا ہے اس سے مراد ائمہ اہل بیت  ہیں لہٰذا  قرآن کی یہ دعوت (فَآمِنُوا بِاللّہِ وَرَسُولہٖ وَالنُّورِ الَّذِي أَنزَلْنَا ) ( 64:8)  دراصل ائمہ اہل  بیت  کے اتباع کی دعوت ہے اور ایسا کرنے والوں کو  اس بات کی بشارت   ہےکہ اللہ انہیں  وہ نور بخشے  گاجس کی روشنی  میں وہ چلیں  گے اور ان  کے قصور معاف کردے گا :

(وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بہٖ وَيَغْفِرْ لَكُمْ )( 57:28) ۔(یوم ندعواکل اُناس با ما مھم ) سے ائمہ اہل بیت مراد لیے گئے او رامام باقر سے یہ روایت منسوب کی گئی کہ اس آیت  کے نزول کے بعدجب لوگوں نے پوچھا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تمام لوگوں کے امام نہیں تو آپ نےکہا کہ میری حیثیت تمام لوگوں کی  طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہےمیرے بعد ہمارے اہل میں ائمہ پیدا ہوں گے جو مظلوم ومقہور ہوں  گے سو جوان سے محبت کرے گا اور ان کے احکام بجالائے گا وہ ان  میں سے ہوگا اور میں ان سے جنت میں  ملوں گا۔ ائمہ اہل بیت کی غیر مشروط اتباع کے لیے یہ قرآنی تاویل بھی پیش کی گئی کہ  (اِنَّمَا یْرِیْدُ اللہُ لِیْذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّ جْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ ) کی قرآنی آیت اس بات کی غماز ہے کہ ائمہ بیت معصوم ہیں ان سےلغزش کے صدور کا کوئی  امکان نہیں ہے۔ ان قرآنی تاویلات کے سہارے ایک ایسے مستند دین کا خاکہ منفح  کرنے کی کوشش کئی گئی جو راست رسول اللہ سے ائمہ مامورین کے توسط سےاہل ایمان کو منتقل کردیا گیا تھا اور جس میں کسی انسانی لغزش کے در آنے کا کوئی امکان  باقی نہیں  رہ جاتا تھا ۔ ان تاویلات سے صرف شیعی فکریا اہل تشیع کا کوئی فرقہ ہی متاثر نہیں ہوا بلکہ سنّی فکر اور اس سے باہر مختلف چھوٹے بڑے دائروں میں بھی اہل بیت کی خصوصی فضیلت کاچرچا عام ہوگیا ۔

اثبات امامت کے شوق میں روایتوں پر غیر معمولی اعتماد اور ان کی تاویلا ت کو کلمۂ حق سمجھنے کا نیتجہ  یہ ہوا کہ قرآن  مجید کا شیعی  مطالعہ بڑی حد تک قضیۂ امامت کی تاویلات میں محصور ہوکر رہ گیا ۔ ایسا محسوس ہونے لگا گویا وحی ربّانی کے نزول کا بنیادی  مقصد اہل بیت کی امامت پر دلائل لانا ہو۔تاویل و تعبیر کے شوقِ نامسعود میں بالآخر شیعہ  مفسرین تحریف کی وادیوں  میں جا نکلے ۔ گو کہ وہ تعبیرات جو سراسر تحریف متن پردال ہیں عام طور پر ثقہ علمی بحثوں  میں مباحثہ کی میز پر نہیں ہوتیں لیکن تفسیر ی اور تعبیری ادب  میں ان کی  جابجا موجودگی شیعہ ذہن پر مسلسل اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ جو لوگ قرآن مجید  کو مسئلہ امامت کی دستاویز کے طو  رپر پڑھنے کے عادی رہے ہیں انہوں نے ہمیشہ ان محرف تعبیر ات میں اطمینان قلب و نظر کا  سامان پایا ہے۔ مثال کے طور پر ( وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا )کو لیجئے جسے شیعہ تعبیری  ادب میں بالعموم ترابیاً پڑھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہاں  تراباً کے بجائے اصل عبارت ترابیاً تھی۔ مومنین سے  مطالبہ  ہے کہ وہ ابو تراب یا علی رضی اللہ عنہ والے بن جائیں۔ قرآن مجید میں ایسی آیتیں بھی دریافت کی گئیں جن میں قرأت کے معمولی اختلاف سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں کے لیے بیک وقت گنجائش نکلتی  تھی یا جن  کے محورِ خطاب میں دونوں  شخصیتوں  کی موجودگی  کا احساس ہوتاتھا۔ مثال کے طور پر (ھٰذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَق) (45:29) کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ آیت دراصل ھٰذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَق۔تھی اور تب اس نحوی ترتیب میں کتاب سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ لیے جاتے تھے ۔ ؎  اسی طرح قرآن مجید  کی ایک دوسری آیت  (أَلْقِيَا فِي جَھنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ )( 50:24) کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ دراصل اس طرح شروع ہوتی تھی  یا محمد یا علی القیافی جھنم کل کفار عنید ۔بعض آیتوں میں ولایت علی رضی اللہ عنہ کے امر منصوص ہونے کا حکم بھی ڈھونڈ نکالا گیا ۔ کہا گیا کہ آیت  قرآنی (وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي ھٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَیٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ) (17:89) در اصل اکثر الناس و لایۃ  علی الّا کفورا 62؎  نازل ہوئی تھی ۔ بعض راویوں  نے بولایۃ علی الا کفورا کی خبر دی تھی  ۔ ایک دوسری آیت قرآنی   (وَمَن يُطِعِ اللّہ  وَرَسُولہ  فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا )( 33:71) کے بارے میں یہ کہا گیا کہ وہ در اصل اپنی اصل شکل میں اس طرح تھی : ومن یطع اللہ ورسولہ فی ولا یۃ علی الائمۃ من بعدہٖ فقد فاز فوزا عظیما۔ اسی قبیل کی تحریف کامستحق آیت قرآنی (كَبُرَ عَلَی الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوھُمْ إِلَيہِ ۚ اللّہُ يَجْتَبِي إِلَيہِ مَن يَشَاءُ وَيھْدِي إِلَيہِ مَن يُنِيبُ ) ( 42:13) کو قرار دیا گیا ۔ جسے پڑھنے والوں نے  کبر علی کمشرکین بولا یۃ علی ماتد عوھم الیہ یا محمد من ولایۃ علی پرھنے کی کوشش کی۔ (سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِّلْكَافِرِينَ) (70:1) کے بارے میں کہا گیا کہ وہ دراصل( سَاَلَ سَآئِل بِعَذابٍ وَّاقِع لِّلْکٰفِرینَ بولایۃ علی) تھی۔ بعض مفسرین نے قرآن مجید میں لفظ امۃ کو ائمہ پڑھنے کی بھی کوشش کی لہٰذا آیت قرآنی (كُنتُمْ خَيْرَ أُمّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ) (3:110) کتنم خیر ائمۃ قرار پائی ۔ (تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمّۃٍ ھِيَ أَرْبی مِنْ أُمّۃٍ) ( 16:92) تعبیری حواشی میں اس طرح پڑھی گئی : تتخذون ایما نکم دخلا بینکم ان تکون الا ئمۃ ھی ازکی من الائمتکم۔ ؎ ایک دوسری آیت قرآنی  (يَا أَيّھَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّہِ حَقَّ تُقَاتہٖ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ) (3:102) میں بعض  اضافوں سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ آیت کااصل ہدف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ  ائمہ اہل بیت کے اتباع کی دعوت تھی کہ یہ آیت اپنی اصل شکل میں کچھ  اس طرح نازل ہوئی تھی: یا ایھا الذین آمنو اتقوا اللہ حق تقاتہٖ ولا تموتن الا وانتم مسلمون لدسول اللہ ثم الا مام من بعدہٖ ۔ اسی طرح (يَا أَيّھَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ) (5:1) کے بارے میں کہا گیا کہاس آیت  میں  اوفوا بالعقود کے بعد  التی عقدت علیکم لاَّ میر المومنین  علیہ السلام کی عبارت بھی شامل تھی ۔  کہنے والوں  نے یہاں تک کہا کہ خدانے آدم سے جو عہد لیا تھا، جس کا بیان آیتِ قرآنی  (وَلَقَدْ عَھِدْنَا إِلَی آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ ) (20:115) میں موجود ہے اس میثاق آدم   میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم، علی رضی اللہ عنہ، فاطمہ رضی اللہ عنہ ، حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ اور دوسرے ائمہ اہل بیت کا تذکرہ بھی  موجود تھا۔ تفسیری  حواشی میں اس آیت کے مطالب کو کچھ اس طرح پڑھنے  کی کوشش کی گئی :ولقد عھد نا الی آدم  من قبل کلمات فن محمد وعلی و فاطمہ و الحسن و الحسین و الائمۃ علیھم السلام من ذریتی فنسی ۔ ایسی آیتیں  جن میں فی علی یا آلِ محمد  کے اَلفاظ  محذوف بتائے گئے یا جن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ ان آیتوں میں اصلاً  فی علی یا آل ِ محمد کے الفاظ موجود تھے ان کی تعداد کوئی ڈیڑھ درجن سے زائد ہے۔  مثال کے طور پر ( یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک) (5:67) میں (بلغ ما انزل الیک من ربک)  کے بعدفی علی کا اضافہ بتایا گیا ۔ ( ولو تریٰ اذالظالمون فی غمرات الموت) ( 6:93) کو ولو تریٰ اذالظالمون آلِ محمد حقھم فی غمراتِ الموت پڑھنے  کی کوشش کی گئی۔

 ان حکایتی تاویلات اور اختلافاتِ قرأت کی روایتوں سے ائمہ آلِ بیت کا استحقاق ثابت ہوا ہو یا نہیں  البتہ وحی ربّانی کی عصمت خود شیعہ  متبعین  کے نزدیک بری طرح  مجروح ہوکر رہ گئی ۔ پھر اختلاف قرأت کی خبر دینے والوں اور آیات منزلہ کا پتہ لگانے والوں نے اپنی تمام تگ و دو مسئلہ امامت تک ہی محدود رکھی  ۔ یہ پتہ نہیں  چل سکا کہ قرآن مجید کی دوسری آیتیں ان راویوں  کے مطابق اپنی اصل شکل میں کس طرح نازل ہوئی  تھیں؟ اس پورے تعبیری  سرمایے میں فقہی  یا مسلکی اختلاف کاپتہ دینے  والی صرف دو آیتوں  کی نشاندہی  کی جاسکی۔ اور وہاں بھی آیت وضو میں قرأت کا اختلاف محض تلفظ اور اعرب تک محدود ہے جس کی بنیاد  پر فقہائے اہل سنت اور فقہائے جعفر  یہ کے مابین وضو کے سلسلے  میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے ۔ آیا آیت قرآنی 6/5 میں  وَاَرْ جُلُکْمْ پڑ ھا جانا چاہیے  یا وَاَرْجُلِکُمْ اول الذ کر قرأت کےمطابق جو اہل سنت کا شعار ہے پیروں  کا دھونا لازم آتا ہے  جب کہ ثانی الذ کر (استمتعتم بہ منھن ) (4:24) میں إلی اجل مسمیٰ  کا اضافہ اہل تشیع کے لیےنکاح  متعہ کو جائز ٹھہرانے کا باعث ہوا ہے۔اختلاف ِ قرأت  کی ان روایتوں کا بنیادی  مقصد قرآن مجید سے شیعی  نقطۂ نظر کی توثیق تھی۔ (ادراک زوال امت حصہ دوم سے ۔ جاری ہے۔)

فروری، 2013 ،  ماہنامہ صوت الحق  ، کراچی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/evolution-concept-imamate-shia-theology/d/10413

 

Loading..

Loading..