ڈاکٹر راحت ابرار
17 اکتوبر، 2014
اکیسویں صدی حقوقِ انسانی کی صدی ہے۔ پوری مہذب دنیا کے لوگ اپنے حقوق کے تئیں بیدار ہو رہے ہیں۔ حصولِ علم کو بنیادی حق کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ خواتین کو عطائے اختیار کے حوالے سے متعدد رضاکارانہ تنظیموں اور حکومتوں نے خواتین کی پسماندگی، معاشرے میں ان کے جائز حقوق اور ان پر ہونے والے جبر و استحصال کو ایک عالمگیر مسئلہ کے طور پر دیکھنا شروع کردیا ہے۔مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی علامت سرسید احمد خاں نے ڈیڑھ صدی قبل ہی مسلم معاشرے میں پھیلی خرابیوں کو دور کرنے اور عمدہ تہذیب پیدا کرنے کے لئے29نکات کا منشور بھی تیار کیا تھا اور ان کی اصلاح کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا۔ ان نکات میں سے تین نکات خاص طور سے عورتوں سے متعلق تھے۔ سرسید چاہتے تھے کہ لڑکیوں کی تعلیم اور دستکاری سکھانے کا انتظام ہونا چاہئے۔ وہ رفاہِ عورتوں کی حالت میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے پر زور دیتے تھے۔ وہ کثرتِ ازدواج کے بھی قائل نہیں تھے جب کہ اسلام چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے مگر سرسید کا خیال تھا کہ ’’ احکام خدا وندی کے خلاف کئی بیویوں سے سلوک کرنے سے بہتر ہے تعداد ازدواج سے پرہیز کیا جائے۔‘‘سرسید احمد خاں نے تہذیب الاخلاق سے وہی کام لیا جو اٹھارھویں صدی میں اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلر نے لندن کی فرسودہ رسم و رواج کو دور کرنے اور ان میں اعلیٰ اخلاق و کردار کے لئے کیا تھا اور یہ اخبارات انگلینڈ کی سماجی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔
سرسید کو لندن میں اپنے قیام کے دوران دو مرتبہ ملکہ وکٹوریہ سے بھی ملنے کا موقعہ ملا۔ پہلی مرتبہ6؍نومبر1869ء کو جب وہ ایک پل کا افتتاح کرنے آئی تھیں اور دوسری مرتبہ11؍مارچ1870ء کو ملکۂ معظمہ کے شاہی محل میں جہاں سرسید نے ملکہ کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔ ملکہ وکٹوریہ سرسید سے دو سال چھوٹی تھیں اور وہ ملکہ کی شان و عظمت کو ان کی مادرِ مشفقہ کی تعلیم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور ان کی شخصیت سے متاثر ہوکر ہی سرسید نے بھی اپنے اسکول کا افتتاح ملکہ وکٹوریہ کی سالگرہ تاریخِ پیدائش24؍مئی1875ء کو کیا تھا۔سرسید کے ایک خط سے پتہ چلتا ہے کہ1869ء میں ہندوستان میں عورتوں کی تعلیم سے متعلق مضامین اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے تھے۔22؍اکتوبر1869ء کو سرسید لندن سے ایسے ہی ایک مضمون سے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’میری دانست میں ایسا سچا اور ٹھیک اور بالکل درست آرٹیکل عورتوں کی تعلیم کی نسبت کوئی نہ چھپا ہوگا۔‘‘ اپنے اس خط میں سرسید کہتے ہیں کہ ’’ پس ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو کون منع کرتا ہے کہ خود بلا مداخلت لڑکیوں کو پڑھانے کا انتظام کریں اور تمام مذہبی اخلاق اپنے اپنے مذہب کے موافق تعلیم دیں۔ کیا ہندوستان ایسا نہیں کرسکتا۔ بے شک کرسکتا ہے۔ کسی طرح ان کاموں کے لئے بلکہ اور اس سے بہت بڑے بڑے کاموں کے لئے وہ محتاج نہیں ہے۔ صرف شوق اور ہمت اور ارادہ چاہئے۔پس امید ہے کہ آپ ہندوستان کی بھلائی کے لئے صرف اوروں پر ہی نگاہ نہ رکھئے بلکہ اس سے بالکل قطع نظر کیجئے اور خود اپنے ہم وطنوں کو ایسی نصیحت کیجئے جو وہ ان نیک کاموں پر خود مستعد ہوجاویں اور یہ بھی آپ خوب یاد رکھئے کہ جب تک کوئی قوم خود اپنی بھلائی اور ترقی و تہذیب کی طرف متوجہ نہیں ہوتی کبھی اس کو عزت و ترقی نصیب نہیں ہوتی ۔‘‘سرسید احمد خاں کے اس خط سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ تعلیمِ نسواں کے لئے کتنے فکر مند تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ہندو اور مسلمان خود لڑکیوں کے تعلیمی ادارے قائم کریں۔
لندن میں اپنے قیام کے دوران ہی سرسید نے ہندوستان میں پھیلی ہوئی سیاسی ابتری، معاشی بحران، تعلیمی بے مائیگی اور تہذیب ، شکست و ریخت کا اعلان مغربی تعلیم کے حصول میں دیکھا اور فکر ونظر کے پیمانوں کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھال دینے کا احساس دلایا۔ سرسید احمد خاں اور ان کے رفقأ کی کوششوں سے1875ء میں علی گڑھ میں ’’ مدرسۃالعلوم مسلمانانِ ہند ‘‘ کے قیام کے بعد12؍نومبر1875ء کو سرسید نے سر ولیم میور کو وزیٹر کی حیثیت سے ابتدائی مدرسہ میں مدعو کرکے شاندار استقبالیہ دیا اور بیگم میور کے ہاتھوں ایک درخت لگواکر میور پارک کا افتتاح فرمایاگویا مدرسہ کے ابتدائی زمانے میں ہی اس ادارے میں عورت کی عظمت اور اس کے رتبے کو تسلیم کیا گیا۔یہی ہی نہیں8؍جنوری1877ء کو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے سنگِ بنیاد کی تقریب میں حصہ لینے کے لئے وائسرائے لارڈ لٹن کی آمد کے موقعہ پر سرسید ہاؤس میں ناشتے کی میز پر وائسرائے کی اہلیہ اور مسٹر دون کی بیگم جو وائسرائے کی پارٹی کے ساتھ ہی آئی تھیں وہ بھی ناشتے کی میز پر سرسید کے ساتھ شریک ہوئیں۔ایم اے او کالج کے سنگِ بنیاد کی تقریب کے مہمانِ خصوصی لارڈ لٹن تھے مگر لیڈی لارڈ لٹن نے کالج کی بنیاد کا پہلا پتھر رکھا۔ جس کے لئے خان بہادر محمد حیات خاں نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ سر جان اسٹریچی معہ اپنی بیگم کے10دسمبر1880ء کو علی گڑھ کالج تشریف لائے۔ ان کی بیگم ایک اچھی آرٹسٹ تھیں۔ انہوں نے سر سید کا ایک روغنی پورٹریٹ بھی بنایا۔ سرسید اس پورٹریٹ کے لئے اکثر الہ آباد جاکر آرٹسٹ کے سامنے بیٹھتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرسید دقیانوسی نہیں تھے بلکہ بہت ہی لبرل اور ماڈرن شخص تھے۔ایم اے او کالج کے پرنسپل اور زیادہ تر اساتذہ کیمبرج اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ انگریز تھے اور ان کی بیگمات بھی اپنے شوہروں کے ساتھ کالج کیمپس کے بنگلوں میں ہی رہتی تھیں۔
خود سرسید اکثر بعض معاملات میں ان خواتین سے بھی مشورے طلب کرنے لگے تھے۔ ان خواتین نے آئندہ کیمپس کی زندگی میں ایک نمایاں رول ادا کیا تھا۔ کالج کے اساتذہ اور طلبأ مختلف مواقعوں پر ان پروفیسروں کے بنگلوں پر ان خواتین کی مہمان نوازی سے بہرہ مند ہوتے رہتے تھے اور ان کے رہائش کے طور طریقوں اور زندگی گذارنے کے سلیقہ سے متاثر ہوتے تھے۔ یہ انگریز خواتین گھوڑوں پر سواری بھی کرتی تھیں اور رات کو بعض طلبأ کو انگریزی کا درس بھی دیتی تھیں۔ تھیوڈر ماریسن کی بیگم نے چند طلبأ کو انگریزی میں خطوط نویسی کے فن سکھانے کے لئے ایک کلاس بھی اپنے بنگلے میں شروع کر رکھی تھی جس میں سجاد حیدر یلدرم، ابو محمد اعجاز علی، محمد ظریف اور سر رضا علی شامل تھے۔ میر ولایت حسین اور سید جلال الدین حیدر بھی کبھی کبھی اس غیر رسمی کلاس میں شامل ہوجاتے تھے۔ تھیوڈر ماریسن کی سفارش پر سر رضا علی کو جب سہارنپور میں سرکاری ملازمت مل گئی تو مسٹر ماریسن اور ان کی بیگم نے انہیں دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔1891ء میں سڈنس کلب کے قیام کے سات سال پورے ہونے پر جشن کا اہتمام کیا گیا جس میں تمام یوروپین لیڈیز کو بھی مدعو کیا گیا۔ خود سرسید بھی شریک ہوئے۔ اسی عرصہ میں کالج کے پرنسپل مسٹر بیک لندن سے پہلی مرتبہ اپنی بیگم کو علی گڑھ لے کر آئے تو اس جلسہ میں ایک طالب علم خوشی محمد نے ایک نظم پیش کی جس میں بیگم بیک کا خیر مقدم کیا گیا۔
ہیں مسز بیک تازہ مہمان آج رات
خیر مقدم کر رہا ہے یونین
نومبر1892ء کو پروفیسر آرنلڈ کے اعزاز میں سڈنس کلب میں ایک جلسہ کا اہتمام کیا گیا۔ وہ29؍ فروری 1892ء کو لندن میں اپنی شادی کے بعد اپنی بیگم کو بھی علی گڑھ لائے تھے۔
آرنلڈ آگئے لندن سے ہندوستان میں
اک فرشتہ ساتھ لائے صورتِ انسان میں
ایم اے او کالج کے پرنسپل تھیوڈر بیک کی بیگم بھی کالج کے معاملات میں گہری دلچسپی لیتی تھیں۔ انہوں نے ہی انگلش ہاؤس بورڈنگ کے لئے مسز گری فیتھس (Griffiths ) کو اس نئے ہاسٹل کا لیڈی سپرنٹینڈینٹ بنانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ بدقسمتی سے انہیں ہندوستان کی آب و ہوا راس نہیں آئی اور1904ء میں مس ہیرس (Harris) کو ان کی جگہ لڑکوں کے اس ہاسٹل کا لیڈی سپرنٹندینٹ مقرر کیا گیا۔یوروپین پروفیسروں کی بیگمات کا ایم اے او کالج کے بعض طالب علموں سے اتنا گہرا ربط و ضبط ہوگیا کہ وہ اپنے بنگلوں پر ان طالب علموں کی چائے اور ٹوسٹ سے خاطر و مدارات کرتیں اور انہیں پڑھاتی بھی تھیں۔ بیگم ماریسن خطوط نویسی کا فن سکھاتیں، بیگم آرچبولڈ انگریزی بولنا سکھاتیں اور بیگم ٹول( Towl) انگریزی کا تلفظ درست کراتیں لاہورمیں منعقد مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے تیسرے جلسہ1888ء میں وہ تعلیمِ نسواں کے متعلق فرماتے ہیں’’میں نے لندن میں اپنے دوستوں کی مہربانی سے ایسے زنانہ مدرسوں کو جہاں اشراف لڑکیاں پڑھتی اور رہتی ہیں دیکھا ہے۔ آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو حالت عمدگی، طمانیت اور تعلیم و تربیت کی ان مدرسوں میں ہے ہندوستان کو وہاں تک پہنچنے کے لئے ابھی سینکڑوں برس درکار ہیں ۔‘‘اپنے افکار و نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے تہذیب النسواں، لاہور کے ایڈیٹر سید ممتاز علی کو ایک خط میں کہتے ہیں۔’’
میری دلی آرزو ہے کہ عورت کو بھی نہایت عمدہ اور اعلیٰ درجے کی تعلیم دی جاوے مگر موجودہ حالت میں کنواری عورتوں کو تعلیم دینا ان پر سخت ظلم کرنا اور رنج و مصیبت میں مبتلا کردینا ہے۔ عورت کی تعلیم قبل مہذب ہونے مردوں کے نہایت ناموزوں اور عورتوں کے لئے آفت بے درماں ہے یہی باعث ہے کہ میں نے آج تک عورتوں کی تعلیم کے لئے کچھ نہیں کیا۔‘‘ایم اے او کالج کے ممتاز طالب علم اور اردو کے نامور ادیب پروفیسر رشید احمد صدیقی سرسید کی تعلیمی پالیسی کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ اس زمانے میں انہوں نے’’ مصافِ زندگی‘‘ کے لئے جو ’’ شمشیریں ‘‘ بنائیں وہ تمام تر مسلمان لڑکوں پر مشتمل تھیں۔ مسلمان لڑکیوں کے بارے میں شاید اسی طرح سوچا ہو جیسا کہ اب تک ہوتا آیا تھا کہ لڑکوں کی تعلیم وتربیت مقتضیات زمانہ کے مطابق صحیح خطوط پر ہونے لگے گی تو لڑکیاں از خود اسی رنگ میں ڈھل جائیں گی۔ یہ گمان بے سروپا نہ تھا، اس لئے کہ ایک موقعہ پر لڑکوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق جو سرسید نے کیں وہ اسی گھریلو نظامِ تربیت کی تائید میں تھیں جو ان کے عہد کی دلّی میں عام طور پر شرفأ میں رائج تھا۔ ممکن ہے ان کو اس کا بھی اندیشہ رہا ہو کہ جب لڑکوں کی تعلیم کے نظامِ نو پر مخالفت کا ایسا طوفان کھڑا کیا گیا ہے تو لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر عجب نہیں اگر پورا بیڑا ہی غرق ہوجائے۔
اس لئے انہوں نے اپنی پوری توجہ لڑکوں کی طرف مائل رکھی۔ ممکن ہے سرسید لڑائی کے اس اصول سے واقف ہوں کہ حالتِ جنگ میں پوری احتیاط اور کوشش اس کی کرنی چاہئے کہ حتی الوسع جنگ کم سے کم محاذ پر لڑنی پڑے۔یہ وہ مشکل مقام تھا جہاں سرسید کے فیضانِ نظر سے بہرہ یاب نوجوان شیخ عبداللہ ’’ آہ و فغاں نیم شب کا پیغام آیا ‘‘ سرسید کی تحریروں اور تقریروں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے پر یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ تعلیمِ نسواں کے مخالف نہیں تھے مگر اس وقت کے حالات ان کو اس بات کی اجازت نہیں دے رہے تھے کہ تعلیمِ نسواں کی شروعات کرکے وہ علمأ کے سامنے ایک نیا محاذ کھولیں۔ سرسید کے سامنے پوری دنیا کی مہذب قوموں کی تاریخ بھی تھی اور انہیں اس بات کا مکمل یقین تھا کہ لڑکوں کی تعلیم کے بعد لڑکیوں کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اس لئے انہوں نے اپنی تمام تر توانائی لڑکوں کی تعلیم پر مرکوز کی۔1882ء کو ڈبلیو ایچ ہنٹر کی سربراہی میں ایجوکیشن کمیشن کے سامنے جو گواہی دی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرسید نے ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے تعلیمِ نسواں کے تمام پہلوؤں پر کھل کراپنی رائے کا اظہار کیا ۔سرسید عورتوں کی تعلیم کی جانب توجہ دیتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ’’ علم بلا شبہہ انسان کی حیات ہے اور جہل اس کی موت۔ پس کیا لطف ہے کہ جو خود زندہ دل ہوں اور ان کی عورتیں جو مدار عیش و زندگانی ہیں مردہ دل رہیں۔ البتہ اس تحریک سے ہماری یہ غرض نہیں ہے کہ وہ اپنی عورتوں کی وارستگی اور بے پردگی اور بے حیائی بھی پسند کرنے لگیں اور تعلیم یافتہ بناکر ان کو خود مختار کردیں اور خود ان کے پابند ہوجائیں۔
بلکہ ہماری صرف یہ عرض ہے کہ باوجود ملحوظ رکھنے ان مراتب کے ان کو تعلیم دینا اور شائستہ بنانا کیسی عمدہ بات ہے اور کیا کچھ ان کی ترقی کا باعث ہے .... پس ہم امید کرتے ہیں کہ جس طرح ہمارے شریف ہم وطنوں نے بعض موقع پر مدارس جاری کئے ہیں اسی طرح خود بھی بشوق و ذوق اس میں شریک ہوکر کل ہندوستانیوں کی ترقی میں سعی و کوشش کریں۔‘‘سرسید نے جس وقت اپنی تعلیمی تحریک شروع کی تھی اس وقت ہندوستان میں اسلام تین خطروں سے گھرا ہوا تھا۔ ایک طرف مشنری اس کی گھات میں لگے ہوئے تھے۔ سب سے بڑا خطرہ عیسائیوں کی طرف سے اسلام پر یلغار تھا۔ اسلام کی تعلیم کی طرح طرح سے برائیاں ظاہر کرتے تھے۔ دوسرا خطرہ سیاسی حالت سے علاقہ رکھتا تھا۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا اس لئے مسلمان ہمیشہ حکمراں قوم کی نگاہ میں کھٹکتے تھے۔ انگریز مسلمانوں کے مذہب کو باغی اور فساد کا سرچشمہ اور امن و عافیت کا دشمن خیال کرتے تھے اور تیسرا سب سے بڑا خطرہ مذہب اسلام کو انگریزی تعلیم سے تھا۔ کیونکہ عیسائی مشنریاں گھر گھر جاکر جبراًتعلیم کے لئے لوگوں سے رابطہ قائم کئے ہوئے تھیں اور ان کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں کو عیسائی بنانا تھا۔ سرسید چاہتے تھے کہ عورتوں کو مشنری اسکولوں سے الگ رکھا جائے اور جب تک کہ مسلمان لڑکے تعلیم یافتہ نہ ہوجائیں اس وقت تک ان کو جدید علوم و فنون سے دور رکھا جائے۔ یہی اس وقت کی مصلحت کا تقاضہ بھی تھا۔ شیخ محمد عبداللہ نے دراصل سرسید کے اس خواب کو ہی شرمندۂ تعبیر کیا ہے اور ہندوستان میں تعلیمِ نسواں کے فروغ کو علی گڑھ تحریک کا ہی جز تصور کرنا چاہئے۔
17 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیزالہند، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/sir-syed-female-education-/d/99562