ڈاکٹر
نسرین بیگم علیگ
6 فروری 2022
منشی پریم چند نے چھوٹے
چھوٹے قصوں کو نہایت سادگی کے ساتھ دیہاتی زندگی اور ہماری روز مرہ کی ضرورتوں پر
خوب لکھا ہے ۔وہ ایک غریب گھر میں پیدا ہوئے تھے ۔اس وجہ سے بہت ساری مشکلات کا
سامنا کرنا پڑا ۔وہ اس طرح کی آنے والی پریشانیوں سے خوب واقف تھے ۔یہی ساری
چیزیں اس کے حالات اورمسائل ہی نے انہیں ایک کامیاب ادیب بنا دیا ۔اگر وہ کسی امیر
کے یہاں پیدا ہوتے تو صرف اپنی زندگی اچھی طرح گزار کر خاموشی سے اس دنیا سے چلے
جاتے ۔
منشی پریم چند نے ایک طرف
افلا س کی مار دوسری طرف ظلم و بر بریت کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا ۔اسے عوام تک
پہونچایا ۔اور دھنپت رائے سے منشی پریم چند بن گئے ۔منشی پریم چند کو یاد کرنا
انکی تحریروں کو پڑھنا آج کی ضرورت ہے ۔پریم چند کا ادب بیسویں صدی کا ہی نہیں
بلکہ ہمارے عہد کا بھی سچا ادب ہے ْاردو میں تو افسانہ نگاری کی ابتدا ہی منشی
پریم کی مختصر کہانیوں سے ہوئی ۔انکے افسانوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ
ہمارے سامنے ہماری روز مرہ زندگی کا جیتا جاگتا نمونہ اور اسکا کوئی نہ کوئی روشن
پہلو پیش کرکے ہمارے دلوں پر لافانی نقش چھوڑ دیتے ہیں ۔
پریم چند کا مشہور افسانہ
’ کفن ‘ جس کے بارے میں ہم کہ سکتے ہیں کہ اگر منشی ہریم چند افسانہ کفن کے علاوہ
کچھ بھی نہ لکھتے تو بھی وہ اتنے ہی مشہور ہوتے جتنے آج ہیں ۔پریم چند نے اس
حقیقت کو سامنے رکھا کہ اگر آدمی کا پیٹ خالی ہوتا ہے تو اسے بھوک کی آگ بجھانے
کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ۔گھیسو ،مادھو اور بدھیا اس ٖافسانے کے بنیادی
کردار ہیں ۔بدھیا درد زہ سے تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے تو اسکے کفن کے لئے دونوں باپ
بیٹے آپس میں کچھ اس طرح گفتگو کرتے ہیں :
’’ ہاں لکڑی تو بہت ہے اب کپھن چاہئے تو کوئی ہلکاسا کپھن لے لیں ہاں
اور کیا لاش اٹھتے اٹھتے رات ہو جائے گی ، رات کو کپھن کون دیکھتاہے کیا برا رواج
ہے جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے اسےمرنے پر کپھن چاہئے ۔کپھن لاش
کے ساتھ جل ہی تو جاتا ہے اور کیا رکھا رہتا ہے ۔یہی پانچ روپئے ملتے تو کچھ دوا
دارو کرتے ‘‘( کفن )
وقت کی ستم ظریفی دیکھئے
کہ بھوکے کا پیٹ بھرنا ہمارے لئے اہم نہیں مگر جب وہی بھوکا پیٹ کی آگ میں جھلس
کر دم توڑدیتا ہے توہم کفن کے لئے اسے کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہیں ۔ایسا کیوں ہے ؟ کیا
ہم اپنی اس عادت کو سدھار نہیں سکتے۔جس کے پاس دولت ہے اس کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے
کہ وہ اپنی کمائی کا کچھ حصہ اپنے غریب بھائیوں میں تقسیم کرے خواہ وہ کسی مذہب کا
ہو ۔آج ہمیں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جو بات پریم چند نے اپنے افسانوں
اور ناولوں میں سو سا ل پہلے کہ دیا تھا ۔ آج بھی ہمارے سا منے وہی سوال ہے ۔
پریم چند کو لوگوں کی تکلیفوں کا فوراــ
احساس ہو جاتا تھا ۔ان کے دل میں اس قسم کے سوالات پیدا ہو جاتے تھے کہ بیچارہہ
سوکھی روٹی کیسے کھائے گا ؟ اس طرح کے بے شمار سوالات انکے دماغ میں گھومتے رہتے
تھے ۔اور انہوں نے اپنے عہد کے ہندوستانی سماج کے سبھی سوالوں جیسے زبان ،ادب
،سیاست ،صحافت ،مزہب ،سرمایہ دارانہ نظام ،فاشسٹ نظریہ ،حب الوطنی ،زمینداروں کے
ظلم و ستم ،کسانوں اور مزدوروں کی فاقہ کشی جیسے موضوعات کو اپنے افسانوں اور
ناولوں کا موضوع بنایا ہے ۔
پریم چند نے ’ اماوس کی
رات‘ میں ان لوگوں پر طنزکیا ہے جو پیسے کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ۔انسانوں کی
اہمیت پیسے کے مقابلے کچھ بھی نہیں اور آج کے دور میں جس کے پاس پیسہ نہیں وہ
اپنی بیماری کا علاج تو کر ہی نہیں سکتا ،مجبوراّ وہ موت کو گلے لگا لیتا ہے ۔آج
ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں اس طرح کے وید اور ڈاکٹر نظر آئیں گے جنہیں روپیوں سے
مطلب ہے ،انسان کی زندگی سے نہیں ۔اس کی مثال ہمیں کورونا مہاماری کے قہر کے دوران
دیکھنے کو ملے ۔جس نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔
آج بڑی سے بڑی غلطی کرنے
کے بعد بھی نہ ہماری نگاہ ندامت سے جھکتی ہے نہ ہمیں اپنے کئے پر افسوس ہی ہوتا ہے
بلکہ ہم ایک غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے غلطی پر غلطی کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ ہم
نے اپنی عادت میں شامل کر لیا ہے ۔مگر پریم چند کے افسانوں میں انسا ن اپنی غلطی
پر شرمسار ہوتا ہے ۔اور آیندہ ایسی غلطی نہ کرنے کا عہد کرتا ہے ۔اس پیغام کو
پریم چند نے بآواز بلند لوگوں تک پہونچایا ۔ پریم چند نے اپنے افسانوں کے ذریعے
نوجوانوں کے سوئے ہوئے جزبات کو بیدار کرنے کا کام کیا ۔وہ ایک سچے ہندوستانی کی
طرح سب سے یکساں طور پر ملتے تھے ۔انکے یہاں جو چیز سب سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے
وہ دیہاتی زندگی کی صحیح تصویر ہے ۔کسانوں کی زبوں حالی ،زمیداروں،پولس والوں اور
سرمایہ داروں کا ظلم ان تمام سچائیوں کو پریم چند نے بے نقاب کیا ہے ۔انکے جتنے
بھی کردار ہیں مثالی ہیں ۔انکے افسانوں میں بڑے گھر کی بیٹی ،رانی سارندھا ،نمک کا
داروغہ ،سوت ،پرائشچت ،کامنا ،کفن ،مندر اور مسجد ،گھاس والی ،مہا تیرتھ ،ستیاگرہ
،لانچھن ،ستی ،لیلی منتر وغیرہ ان کے شاہکار افسانے ہیں ۔
پریم چند افسانہ نگار
ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب ناول نگار بھی تھے ،وہ سچے مگر انتہا پسند تھے انکی
بلندیاں ستاروں سے باتیں کرتی ہیں ۔انکے ناولوں میں جلوہٗ ایثار ،غبن ،گوشئہ عافیت
،پردئہ مجاز ،بازار حسن ،نرملا ،بیوہ ،چوگان ہستی ،میدان عمل ،گئودان وغیرہ خاص
ہیں ۔ ۱۹۳۳ء
اور ۱۹۳۴ء
میں پریم چند نے ہنس میں جو مضامین اور اداریے لکھے وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری
دنیا کی سیاسی صورت حال پر بہت گہرائی سے نظر ڈالکر لکھا ۔وہ فرقہ پرست عناصر کے
دشمن تھے ۔انکی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ہندو مسلمان ذہنی اور جزباتی طور پر ایک
دوسرے کے زیادہ قریب آئیں ۔انہیں اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ چند مفاد پرست
لوگوں کی سازشوں سے ہندو اور مسلمان غلط فہمیوں کا شکار ہیں ۔ان غلط فہمیوں کو دور
کرنے کے لئے انہوں نے افسانہ عید گاہ ،ہنسا پرما دھرم،حج اکبر ،ادیب کی عزت ،مندر
مسجد ،فاتحہ جیسی کہانیاں لکھیں ۔پریم چند کو مشترکہ ہندوستانی تہزیب اور قومی
یکجہتی کی بنیادوں سے محبت تھی ۔انہوں نے ہندوستان کے سماجی تہذیبی مسائل کا جو حل
پیش کیا تھا اگر ہم اس پر عمل کرتے تو آج ہمیں طرح طرح کے مسائل سے دو چار نہ
نہونا پڑتا ۔
منشی پریم چند کا ادب
ہمارا قیمتی اور انمول اثاثہ ہے اسے بچا کر رکھنا اسے عوام تک پہونچانا ایک ذمہ د
ار ہندوستانی کا فرض ہے ۔ہمیں اس اثاثے کو بچا کر رکھنا ہے ۔آ ئیے ہم منشی پریم
چند کے جلائے ہوئے چراغ کو روشن کریں ۔آج ہم منشی پریم چند کے یوم وفات پر انکو خراج
عقیدت پیش کرتے ہیں ؎
جو لہو سے جلائے ہم نے
چراغ
کتنی صدیوں کے کام آئے ہیں
6 فروری 2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism