ڈاکٹر نفیس احمد صدیقی اور شاہد پرویز
30مئی،2017
راقم کو ہندوستان کے کئی دانشور وں نے اصرار کیا کہ آپ اپنی رائے اس تین طلاق کے بارے میں نہیں دے رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ اول تو یہ میں نے اس کیس کی بریف قبول نہیں کی نیزمختلف مسالک کے فتووں میں اس نزاع میں نہیں پڑناچاہتا تھا۔ پھر بھی دور درشن اردو اور ANPچینل نے راقم کا انٹرویو کیا جو سارے ہندوستان میں دیکھا گیا۔ میری رائے جگر کے اس شعر سے تبدیلی کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔
ان کا جو کام ہوا ہل شریعت جانیں
میرا پیغام قانونی ہے جہاں تک پہنچے
’’ مسلم لاء کچھ بنیاد میں قرآن ، حدیث ،اجماع اور اجتہاد نماز کے متعلق قرآن اور حدیث دونوں کاسہارا لینا پڑتاہے تب یہ موضوع صاف ہوتا ہے۔ جہاں تک قانونی نقطہ نظر کا سوال ہے اس موضوع پر 1937میں محمد احمد کاظمی ممبر سینٹرل اسمبلی کی کوشش کے Application Act Muslim Lawپاس ہوا جس میں میراث اور طلاق دونوں کا تذکرہ ہے لیکن اس کی تفصیل سے گریز کیا گیا ہے غالباً انہیں مسلکی اختلافات کی وجہ سے ۔ یہ قانونی درجہ ہوگیا او رآئین ہند میں دفعات 25/26وغیرہ میں تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس لیے دفعہ 14آئین ہند اس کو باوجہ دیا نہ حق کی بات کو نفی نہیں کرسکتا ۔ اس کے علاوہ پریوی کونسل میں جسٹس امیر علی نے بھی کئی مقدمات میں متنبہ کیا ہے یہ بہت ہی خطرناک ہوگا اگر غیر مستند تا ویلات پر عمل کیا گیا صرف مستند اتھارٹی کونافذ کرنے کو کہا گیا ہے۔ یہ بات جسٹس سرسلمان نے بھی کہی ہے فیڈرل کورٹ سوال کا خیال رکھتے ہوئے ہندوستان کے مختلف ہائی کورٹوں نے فیصلے دیئے ہیں ۔
راقم چونکہ اس کیس میں بحیثیت وکیل عدالت عظمیٰ میں حاضر نہیں ہوا تھا اس لیے میں ان مقدمات میں فریقین کے دلائل محض یا قانونی جواز وغیرہ پر کوئی رائے نہیں دو ں گا۔ لیکن اپنے نقطہ نظر سے اپنی رائے عوام کے سامنے لاتا ہوں جو بالکل نجی ہے۔ اس سے فریقین اتفاق کریں یا نہ کریں ۔ راقم کی رائے جو بحیثیت ایک معمولی طالب علم برائے مسلم پرسنل لاکے پیش کرتا ہے۔
فلم نکاح میں بھی تین طلاق کا تذکرہ تھا جس میں راقم نے حسرت موہانی کی غزل بغیر اجازت شامل کرنے کا مقدمہ برائے Copyrightکے جرم کے لیے داخل کیا تھا لیکن طلاق موضوع نہیں البتہ کاپی رائٹ کے جرم کا مقدمہ چلا تھا 1985ء کی بات ہے۔
دوسرا مقدمہ شاہ بانو کاتھا اس میں تین طلاق شاہ بانو کے شوہر نے عدالت میں دی تھی لیکن اس مقدمے میں بھی محض نان نفقہ کامسئلہ زیر غور تھا لیکن پانچ رکنی عدالت عظمیٰ نے ایک جملہ اور اضافہ برئے یونیفارم سول کوڈ کردیا جس سے سپریم کورٹ کے 40-50وکلاء نے راجیو گاندھی وزیر اعظم سے مل کر بتایا یہ یونیفارم کا تو ایشوز زیر غور نہیں تھا جس پر کئی مسلم رہنماؤں نے بھی پارلیمنٹ او رباہر احتجاج کیا جب 1986ایک ایکٹ پاس ہوا۔
میری اپنی رائے میں مسلم پرسنل لاء میں ’’ طلاق تفویض ‘‘ جو بیوی او رشوہر کے ذریعہ نکاح کے وقت تا بعد میں باضابطہ طو رپر معاہدہ ہوسکتا ہے جس میں بیوی بھی کسی وقت اس معاہدے کے تحت طلاق کا استعمال کرکے رشتہ ازدواج ختم کرسکتی ہے ۔ لیکن اس میں بھی شرائط ہیں کہ شوہر بالغ اور Saneہو اور یہ بھی ایک حدیث کے لیے یامستقل لائف بھر کہ لیے یہ اور اسلامک لاء کے خلاف نہ ہو اور نہ پبلک پالیسی کے متصادم ہو۔
طلاق تفویض کے مندرجہ ذیل اقسام ہیں:۔
(1) اختیار (By option of choice)
(2) امربی ۔ یاد (The affair is in your hands or your are all like stop)
(3) مشیعت ( Musheeat) کے معنی آپ کے فرضی یا خواہش پر یہ معاہدہ شادی کے وقت، بعد میں بھی نکالا جاسکتا ہے۔ اس میں اگر شادی کے وقت کیا جائے گا تو دلہن کی قباحت ہوگی اس لیے نکاح نامہ میں ہی اشاعت ہوتو اچھا ہوگا کیونکہ اس میں دونوں کے ستخط ہوتے ہیں ۔
یہ معاہدہ شرائط یا بغیر شرائط کے ہی ہوسکتا ہے ۔ یہ معیادی یا مستقل ہوسکتا ہے لیکن معاہدہ تحریری ہونا بہتر اور دونوں میاں بیوی کی رضا مندی ضروری ہے۔ یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ اگر طلاق تفویض کا استعمال ہو جائے تو انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 494میں مقدمہ نہیں چل سکتا ہے ۔ یہ کہ اس طرح کی طلاق تفویض کے لیے عدالت کورجوع ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔Dissolation of Muslim Marriage 1939کی دفعہ (ix) 2سابقہ اسلامک حقوق کو تحفظ فراہم کرتا تو ہے لیکن بقول Mr. Brubleنے Otiver Twistکو قانونی گدھا اور IDIOTکہا ہے جو صحیح نہیں ہے اور میرا اس سے اختلاف ہے کیونکہ Berstrand Rusedنے طلاق کو Law & Custom کا درمیانی وجودبتایاہے۔ موصوف نے بھی کیا ہے شادی محض جنسی پارٹنر شپ نہیں بلکہ یہ ایک طرح کی بچوں کی پرورش کی ضمانت ہوتی ہے۔ ( راقم یہ اضافہ کرنا چاہتا ہے کہ یہ سوسائٹی کے استحکام کے لیے ضروری ہے)۔
اس معاہدے کے نفاذ سے نہ کوئی قانون بنانے کی ضرورت ہے بس دونوں فریق کی رضامندی شادی کے وقت یا بعد میں تحریر کیا جاسکتا ہے KAZI ACT 1880سرسید احمد خاں کا ڈرافٹ ہے جو محض دفعات پر مشتمل ہے اس میں اگر اس طلاق تفویض کو اضافہ ہوتا تو یہ مسئلہ پیدا نہ ہوتا لیکن سر سید احمدخاں اس کو کیسے نظر انداز کرگئے جب کہ وہ تمام سماجی برائیوں سے نبرد آزما رہے ہیں یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ اس معاہدے کے باوجود PRE ISLAMICقو انین و رسم و رواج ختم ہوتے شوہر کو اپنے اختیارات طلاق کی کتب میں حاصل ہیں ۔ یہ طلاق تفویض عملی طور سے رائج نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس کرشنا ایر نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے:۔
’’ جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ اطمینان سے یہ سیکولر اور Pragramaticجومسلم لاء میں طلاق کے متعلق درج ہے یہ ''Happily Hormonises with concept of advanced countries''جرمن ڈیوکرٹیک رپبلک حال ہی میں اپنے فیملی کوڈ میں ان کو اسلامک لاگو اپنا یا ہے اور Family Code میں درج کرایا ہے۔
ڈاکٹر نفیس احمد صدیقی ( ایڈوکیٹ سپریم کورٹ)
شاہد پرویز (سوشل اکٹیوسٹ)
Reference.
1-- 1953 crl.L.J 1504(TRI) Suraj milan ahmad major for excefction u/s 4942 Pc
2- AIR 1955 H.P.32 Aziz u/s MST NARO
3 -AIR 1955 Assam.153-Saifuddin soweka
4 -AIR 33 Cal. 22-Ahmed karim Khatun
5- AIR 1962 (Ks) 341 F.B-CANNORE Disstt Motor Trusted Explorer coop.soc. u.o vs malator public for using edit
6- AIR 1971 Karda 2017 A. Yusuf Raw ther us sowramma (for apperception Muslim Law)
30مئی،2017 بشکریہ : روز نامہ اخبار مشرق ، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism