ڈاکٹر مشتاق صدف
16اکتوبر،2017
سرسید احمد خاں کی خدمات و کمالات اور افکار و نظریات کے مختلف پہلو گفتگو کا موضوع بنتے رہے ہیں ۔ ان کے تصورات زندگی اور بندگی پر بھی لو گوں نے لکھا ہے۔ مگر وحدت ادیان اور سرسید کے حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے جبکہ آج کے تناظر میں اس موضوع کی زیادہ ضرورت اور اہمیت ہے۔ سرسید کے بارے میں یہ سب کو معلوم ہے کہ وہ مختلف قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق ، باہمی روابط اور مراسم کے ہمیشہ قائل رہے ۔ انہوں نے لفظ ’ قوم‘ سے مراد ہندو اور مسلمان دونوں کو لیا ۔ ان ہی کے الفاظ ہیں :
’’لفظ قوم سے میری مراد ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے۔ یہی وہ معنی ہیں جس میں لفظ نیشن کی تعبیر کرتا ہوں ۔ میرے لیے یہ امر چند اں لحاظ کے لائق نہیں ہے کہ ان کا مذہبی عقیدہ کیا ہے۔ ہم سب کے فائدے کے مخرج ایک ہیں ۔1
’’ ہندو ہونا یا مسلمان ہونا انسان کا اندرونی خیال یا عقیدہ ہے جس کو بیرونی معاملات اورآپس کے برتاؤ سے کچھ تعلق نہیں ‘‘۔2
مذکورہ دونوں مختصر اقتباسات سے سرسید کا ایک واضح وژن ہمارے سامنے آجاتاہے۔ سر سید نے ہمیشہ قومی اتحاد ، قومی یگانگت اور مذہبی مطابقت و موافقت پر زور دیا ۔ ان کی فکر کی بنیادی مذہبی مناسبات اور اجتہاد پر تھی ۔ انہوں نے مذہب کی اساس کو استحکام بخشنے کے لئے عقلیت (Rationalism) اور تطبیق کو ترجیح دی ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دین و مذہب کو عقل کی کسوٹی پر پہلے پرکھا پھر اس پر گفتگو کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو مذہب انسان کے لیے نہ بنا ہو یا انسان کی بھلائی کے لیے نہ ہو یا فطرت انسان کے مطابق نہ ہو اسے کیوں کر تسلیم کیا جاسکتا ہے ۔ اسے اگر آنکھ بند کر کے لوگ تقلید کرتے رہیں گے تو پھر کسی بھی مذہب کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ ان کا ماننا تھا کہ مذہبی اصول فطرت انسان کے مطابق ہونا چاہئے ورنہ اس کی کیا ضرورت ۔ وہ فرماتے ہیں :
’ میں نے مذاہب کی صداقت دریافت کرنے کے لئے یہ اصول قرار دیا ہے کہ وہ فطرت انسانی کے مطابق ہے یا نہیں ‘‘ ۔3
سرسید چاہتے تھے کہ مذہبی تصورات اور مروجہ فکری رجحانات میں ایک ایسی مطابقت ہو جو انسانیت کے لیے سود مند ثابت ہوسکے ۔ یعنی مذہبی افکاف اور دور حاضر کے علمی و تحقیقی نظریات کے مابین وحدت ہونی چاہئے ۔ اسی لیے انہوں نے مذہب اور سائنس کے درمیان رشتے کو بھی استوار کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے مذہب اور سائنس کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی پوری سعی کی ۔ یوروپی ممالک میں جس طرح سے علماء کی کوششوں سے مذہب اور سائنس کے معرکے ختم ہوچکے تھے اسی طرح سرسید نے ہندوستان میں بھی مذہبی تصورات کو سائنسی رجحانات کے مطابق بنانے کی بھرپور کوشش کیں ۔ حالانکہ ہندوستان میں اس طرز فکر کی بہتوں نے مخالفت بھی کی ۔ خود مولانا ابوالکلام آزاد نے سرسید کا نام لیے بغیر اس نوع کی طرز فکر کو غیر ضروری قرار دیا ۔ سرسید نے مذہب کی تطبیق کے لیے سائنسی رجحان کو فروغ دینے کی جد وجہد کی ۔ سرسید وقت کے نباض تھے ، انہیں معلوم تھا کہ آنے والے دنوں میں وہی مذہب زندہ رہے گا جس میں وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ چلنے کی طاقت ہوگی۔
سرسید کی مذہبی فکر طبقہ علماء سے مختلف تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ سرسید کے مذہبی خیالات کو خوب مخالفت ہوئی ۔ شدید مخالفت کے سبب ہی سرسید نے اسے ایم او کالج کے نصاف دینیات میں اپنے مذہبی خیالات کی مخالفت کے سبب ہی’تہذیب یالاخلاق‘کو بند کرنا پڑا۔ سرسید کی یہ اعلیٰ فہم تھی کہ انہوں نے تہذیب الاخلاق کو بند کردیا او رکالج کے نصاب دینیات میں اپنی مذہبی فکر کو شامل نہیں کیا تاکہ ان کی جدید تعلیم کے حصول کا بڑا مقصد متاثر نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ’ تفسیر القرآن‘ حاشیے پر چلی گئی ۔ سید حامد نے سرسید کے مذہبی افکار کے موضوع پر لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ سرسید کی تفسیر القرآن جس پر خوب واویلا مچا، مخالفتیں ہوئیں اس پر از سر نو غور و فکر کی ضرورت ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ سرسید نے اسلام کی جو تعبیر انیسویں صدی میں کی اس نے فہم دین کو ایک نیا رخ دیا لیکن ان کی بعض بے بنیاد توجیہات اور تاویلات سے خائف ہوکر ہندوستان میں ملت اسلامیہ نے ان کی تفسیر کو سر بمہر کر کے طاق نسیاں پر رکھ دیا ۔ کیا ان لوگوں پر جنہیں خذماصفا اور دع ماکدر کی ہدایت کی گئی ہے یہ لازم نہیں کہ آتا کہ وہ ان کی تفسیر سے بالخصوص او ران کی مذہبی افکار سے بالعموم صالح اور حوصلہ خیز اور دیدہ کشا اور دل انگیز عناصر نکال کر عوام کے سامنے لے آئیں ۔‘‘4
سرسید تمام مذاہب کی یکساں اہمیت پر زور دیتے تھے ۔وہ ہر مذہب کے بارے میں علم حاصل کرنے کی متمنی نظر آتے ہیں۔ مذاہب کی الہامی کتابوں کے ساتھ ان کی انبیاء کے تعلق سے زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے تھے ۔ سرسید کے زمانے میں مذہبی ماحول بہت کشید ہ تھا ۔ عیسائی مبلغین او رمسلم علماء کے درمیان کافی تلخی آگئی تھی ۔سرسید مذاہب کے مابین کشیدگی سے بخوبی واقف تھے ۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر یہ حالات نہیں بدلے تو خسارہ فقط انسانیت کا ہے اور یہ قرآن اور رسول کی تعلیمات کے خلاف بھی ہے ۔اس لیے انہوں نے جی توڑ کوشش کی کہ کشیدہ مذہبی ماحول کو بہتر بنایا جائے ۔ وہ چاہتے تھے کہ عیسائی او رمسلمان دونوں مل جل کر رہیں ۔ ان کے درمیان مذہبی اختلافات کسی بھی طور پر مناسب نہیں ۔ وہ مذہبی مجادلہ کے بجائے بین المذاہب مکالمہ پر زور دیتے تھے ۔ اسی لئے انہوں نے تہذہب الاخلاق‘ کے ذریعے غیرمہذہب مذہبی مناظرے اور مناقشہ کی صورت بدلنے کی پوری کوشش کی ۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے تہذیب الاخلاق کی اس کوشش کو ان لفظوں میں بیان کیا :
’’ تہذیب الاخلاق نے جہاں تک ہوسکا تعصب کی جڑ کاٹی ۔ تقلید کی بندشیں توڑیں ،مذہبی تحریروں میں آزادی کی روح پھونکی ، مذہبی حمایت کا فرسودہ طریقہ جو اس زمانے میں کچھ کار آمد نہ تھا اس کی جگہ دوسرا طریقہ جو زمانے کے مناسب حال تھا جاری کیا ۔ مناظرہ کے ناپسندیدہ طریقہ کی اصلاح کی ۔‘‘ ۔5
سرسید احمد خاں نے تمام مذاہب کے درمیان افہام و تفہیم کے جذبے کو فروغ دیا ۔ ان کی یہ سوچ تھی کہ مذہب کے نام پر جو فاصلے بڑھ گئے ہیں ان کو کم کیا جائے ۔ اس کے لیے انہوں نے مختلف جماعتیں قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور مقدس او رالہامی کتابوں پر بحث و مباحثے کی خاطر ساز گار فضا تیار کرنے کے لیے بھی کافی جد و جہد کی ۔ ایک دوسرے کی زبانیں سیکھنے او رسکھانے کے ساتھ ان کی الہامی کتابوں کی تعلیمات سے آشنا ہونے کی بات کی ۔ وہ اس بات کے کبھی قائل نہیں رہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف لفظی کی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں مانتے تھے کہ زبور کی آمد سے توریت او رانجیل کی آمد سے زبور اور قرآن کے نزول سے انجیل کی اہمیت ختم ہوگئی ۔ انہوں نے مسلمانوں کے اس عام رویے کو کبھی تسلیم نہیں کیا ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ جو لوگ یہ بات سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے مذہب میں یہ بات ہے کہ زبور کے آنے سے توریت اور انجیل کے آنے سے زبور اور قرآن کے آنے سے انجیل اس مراد سے منسوخ ہوگئی کہ ان میں کچھ نقص تھا، یہ ان کی سمجھ محض غلط ہے۔ نہ ہم مسلمانوں کے مذہب میں یہ بات ہے نہ ہمارا یہ اعتقاد ہے اور اگر کوئی جاہل مسلمان ان کے برخلاف کہے تو اپنے مذہب اور اپنے مذاہب کے احکام سے واقف نہیں ‘‘۔6
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’ میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف لفظی کی ہے اور نہ علمائے متقدمین و محققین اس بات کے قائل تھے مگر علمائے متاخرین اس بات کے قائل ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتاب مقدسہ میں تحریف و تبدیل کی ہے‘‘۔7
یہی نہیں بلکہ انہوں نے توریت اور انجیل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے پیشن گوئیوں کا ذکر کیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ کتب مقدسہ میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو نبی برحق قرار دیا گیا ہے۔ جن کتب مقدسہ کو ہمارے علمائے اسلام نے علماء نبی اسرائیل کی جانب سے تحریف کا الزام عائد کرکے غیر مستند بتایا انہیں کے حوالے سے سرسید نے ایک اہم فریضہ کو انجام دیا ۔ ’’ نیچری ‘‘ لقب کی بھی سرسید نے کھل کر حمایت کی ۔ وہ اسے حقارت کا نام نہیں دیتے بلکہ ان کا ماننا تھا کہ کسی کی طرف سے کوئی حقارت کا لقب دینے سے اس کے مذہب اور عقائد کو حقارت حاصل ہو تی ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے ۔ خدانہ ہندو سے نہ عرفی مسلمان، نہ مقلد نہ لامذہب ، نہ یہودی نہ عیسائی ، وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے۔و ہ خود اپنے نیچری کہتا ہے ۔ پھر اگر ہم بھی نیچری ہوں تو اس سے زیادہ ہم کو کیا فخر ہے !‘‘8
سرسید نے ہمیشہ دیگر مذاہب کے پیشواؤں کا ادب و احترام کیا اور اس کی تلقین بھی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی دوسرے مذہب کے پیشوا کا ذکر بے ادبی کے ساتھ کرے گا تو دوسرے کا عمل بھی اس کے پیشوا کے ساتھ وہی ہوگا اور یہ طریقہ اسلام کے برخلاف ہے۔ وہ رقم طراز ہیں :
’’ ہم کو نہایت افسوس ہے کہ جب ہم مذہبی مباحثوں کی کوئی کتاب دیکھتے ہیں تو اس میں ایک مذہب والا دوسرے مذہب کے پیشواؤں کا بری طرح ذکر کرتا ہے ۔ یاہ امر مذہب اسلام کے بالکل برخلاف ہے۔ اس مذہب کے جو پیشوا ہیں جب ہم اپنے مذہبی مباحثوں میں ان کا ذکر کریں تو ہم کو لازم ہے کہ ان کو برانہ کہیں بلکہ ادب و تعظیم سے ان کا ذکر کریں خواہ وہ لوگ ہندو ہوں یا پارسی ،عیسائی ہوں یا یہودی یا خود مختلف عقائد کے مسلمان ہی ہوں ۔ اگر ہم ان بزرگوں و پیشواؤں کیساتھ گستاخی سے پیش آئیں گے تو کیا وجہ ہے کہ وہ اسی طرح ہمارے بزرگوں او رپیشواؤں کے ساتھ گستاخی او ربے ادبی سے پیش نہ آئیں؟ اس لیے خدا تعالیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ..... ’’ مت برا کہوں ان کو جو خدا کے سوا او رکسی کی عبادت کرتے ہیں، پھر وہ نادنستگی سے خدا کو برا کہیں گے ۔‘‘ پس حقیقت میں غیر مذہب والوں کے پیشواؤں کوبرا کہنا خود اپنے مذہب کے پیشواؤں کو برا کہنا ہے۔‘‘9
سرسید نے اپنی تصنیف ’ تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ والا نجیل علی ملۃ الاسلام ‘ میں توریت و انجیل کا گہرا مطالعہ اسلامی نقطۂ نظرسے کیا ۔ کتاب میں انہوں نے عیسائی دانشوروں او رمسلم علماء کی تحریروں سے استفادہ کیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے توریت اور انجیل جیسی کتب مقدسہ سے سرسید کی واقفیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں انہوں نے قرآن ، توریت ، انجیل ، بائبل کی معتبریت پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ نیز صحف انبیا ء کا تعارف پیش کیا ہے ۔ کتب مقدسہ میں تحریف کے مسئلے ، بائبل کے یونانی ، عبرانی اور انگریزی ترجمے وغیرہ کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ نیز سامی مذاہب میں بنیادی عقائد کے درمیان میل ملاپ کی جستجو بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ سرسید نے اس کتاب میں مختلف مذاہب کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور مشترکات امور کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اس میں سرسید نے بائبل میں تحریف لفظی سے انکار کیا ہے۔ سرسید نے اپنے مطالعے کی بنیادپر موجودہ توریت ، انجیل اور زبور کو ہی اصل قرار دیا ۔
سرسید نے ’ تبیین الکلام ‘ میں توریت اور انجیل کا مطالعہ قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا، جس سے دوسرے مذاہب کی مقدس کتابوں کے بارے میں مسلمانوں کامذہبی موقف ہمارے سامنے آتا ہے ۔ انہوں نے مسلمانوں او رعیسائیوں کے مابین مذہبی افہام و تفہیم کی ایک نئی بنیاد ڈالی اور اس سنجیدہ کوشش سے غیر ضروری مذہبی معاملات سے نجات کا راستہ دکھایا ۔ یہی نہیں بلکہ سرسید نے یہودیت اور عیسائیت کے ساتھ ساتھ ہندو مذہب کی تفہیم میں بھی اہم رول ادا کیا ۔ انہوں نے ویدوں سے براہ راست استفادہ کیا اور ان پر خاطر خواہ گفتگوکی ۔انیسویں صدی میں یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان فاصلے کم ہوئے ۔
سرسید کے ہر دور کی تحریروں میں تفکر و تعقل کی مثالیں مل جاتی ہیں ۔ انہوں نے اس فکر کو ترجیح دی جو سب کے لیے قابل قبول تھی ۔ انہوں نے مذہب اسلام اور سائنس کے درمیان موافقت کی نشاندہی کی اور قرآن کی عظمت کو نمایاں کیا اور اسے تمام موجودات کے لیے سرچشمہ قرار دیا ۔ نیز انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تمام الہامی کتابوں میں انسانیت کا درجہ بہت بلند نظر آتا ہے او رحق و انصاف کی آواز واضح طور پر سنائی دیتی ہے۔ سرسید کے سامنے جو سیاسی و سماجی حالات تھی او رملی و مذہب صورت حال تھی اس کی روشنی میں یہ بہت ضروری تھا کہ اسلام کے ماننے والوں او رانجیل و توریت پر ایمان رکھنے والے عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین محبت اور اتحاد قائم کرنے کی مخلصانہ کوشش کی جائے او رانہوں نے یہ کام انجام بھی دیا ۔سرسید کی تصنیف تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ والا نجیل علی ملۃ الاسلام اور رسالہ‘ احکام طعام اہل کتاب ‘ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ سرسید کے ذہن میں یہ بات بہت پہلے سے تھی کہ انگریزوں کی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جو غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے اسے قرآن کی تفسیر سے دو رکیا جاسکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی جب واضح تصویر پیش کی جائے گی تو وہ دور ہونے کے بجائے قریب آئیں گے ۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو انجیل و توریت کی تعلیمات سے آگاہی حاصل ہو او راس کے لیے انہوں نے انجیل کی تفسیر بھی کی اور اس کے اردو اور انگریزی تراجم بھی کیے ۔ ان کے لیے یہ زیادہ اہم بات نہیں تھی کہ انگریزوں میں مذہب اسلام کی تشہیر کی جائے بلکہ اہم بات یہ تھی کہ مذاہب کے درمیان کے اختلافات مٹ جائیں او رایک خوشگوار فضا قائم ہوسکے ۔ اسی لیے انہوں نے صحف سماویہ میں تحریف معنوی کو فوقیت دی جانی چاہئے ۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت بھی کی اگر کسی کو اسلام کی سچائی پر یقین ہے تو اسے وہ ثابت بھی کرے ۔ ہر مذہب سچا ہے کیونکہ ان میں سچائی کے عناصر پائے جاتے ہیں ۔ سرسید کے یکم جنوی 1884کے لاہور میں ’ اسلام‘ کے موضوع پر دیے گئے لکچر کا یہ مختصر اقتباس مختلف مذاہب کے درمیان اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کی جانب ایک اہم اشارہ ہے۔ ملاحظہ کیجئے :
’’ جو شخص یہ بیان کرتا ہے کہ اسلام سچا ہے تو اس کو یہ بھی کہناچاہئے کہ وہ اسلام کی سچائی کیونکر ثابت کر سکتا ہے ۔ کوئی مذہب ہو اسلام یا عیسائی یا ہندو جس وقت ان میں کوئی اپنے مذہب کی تائید یا تصدیق کرنا چاہتا ہے تو ضرور ہے کہ اول و ہ اس کی صداقت ثابت کرے ۔ یہ کہنا کہ فلاں شخص کے ثابت ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہے اور ہم اس مقدس کے قول پر ایمان رکھتے ہیں اس مذہب کی صداقت ثابت کرنے کو کافی نہیں ۔ یہ تو صرف ایک اعتقادی بات ہے ۔ جو لوگ جس کسی کی پیروی کرتے ہیں خواہ وہ اوتار ہو یا پیغمبر یا عیسائیوں کا خدا ہر ایک کا پیر داس کو جس کی پیروی کرتا ہے ایسا ہی مقدس اعتقاد کرتا ہے ۔ ہر ایک مذہب والے کو اپنے مذہب پرایسا ہی یقین ہے جیسے دوسرے مذہب والے کو اپنے مذہب پر ۔ پھر کیونکر ہم ایک کو سچا اور دوسرے کو غلط کہہ سکتے ہیں ‘‘۔10
دراصل سرسید وحدت ادیان کے تصور پر پورا یقین رکھتے تھے ۔ خلیق احمد نظامی اس حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ وحدت ادیان کے تصور پر سب سے پہلے سرسید نے موثر گفتگو کی تھی ۔ مولانا آزاد نے اپنے زور بیان سے اس نظریہ کو ایک ادبی شاہکار بنا دیا ہے ۔ لیکن جس ذہن نے اس مسئلے کی فکری او راجتماعی اہمیت کو سب سے پہلے محسوس کیا وہ سرسید کا تھا ‘‘۔11
جانتے تھے کہ جب مذہب میں منفی سوچ داخل ہوگی تو ان کی ترقی رک جائے گی ۔ اس لیے انہوں نے مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا او ربہت سی غلط فہمیوں کو دور کیا ۔ مذہب کو عقلیت سے جوڑ کر دیکھا ۔ وہ مذہب کو بنیاد بنا کر انسانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے ہمیشہ خلاف رہے ۔ وہ مذہب کو نہ عقلی دشمن سمجھتے تھے نہ عقلیت مخالف ۔ ان کامذہبی شعور یہ تھا کہ ہم مذہبی اصولوں کو من و عن قبول کرنے سے پہلے غور و فکر کریں ، اسے عقل کی کسوٹی پرپرکھیں پھر اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں او راپنے مذہب کی طرح دوسرے مذاہب کو بھی تعظیم کی نظر سے دیکھیں ۔ مذہب کے توسط سے انسانی رشتوں کو پائیدار بنائیں ۔ کیونکہ کوئی بھی مذہب نفرت اورخون خرابہ نہیں سکھایا کرتا ۔ مختلف مذاہب کے مابین ہم آہنگی سے ہی ایک بہتر معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکتی ہے ۔
حواشی :
(1) لاہور کی انڈین ایسوسی ایشن کی تقریر سے ماخوذ
(2) لیکچرس ، ص :232-233
(3) ایضاً ،ص :213
(4) سرسید: باز یافت ، مرتبہ عتیق احمد صدیقی ،1990،ص:219
(5)حیات جاوید ، الطاف حسین حالی ، نئی دہلی 1979،ص:358
(6) تبیین الکلام (1) ص:268، مشمولہ خود نوشت افکار سرسید ، ضیاء الدین لاہوری ،ص :40
(7) تفسیر القرآن ، مشمولہ خود نوشت افکار سید، ضیاء الدین لاہوری ، ص۔41
(8) مقالات سرسید (15) ص: 147،مشمولہ خود نوشت افکار سرسید ،ضیاء الدین لاہوری ،ص۔57
(9)آخری مضامین ،ص :149،مشمولہ خود نوشت افکار سرسید ، مرتبہ : ضیاء الدین لاہوری ،ص:40
( 10) مکمل مجموعہ لیکچز و اسپیچیز ، مرتبہ مولوی محمد امام الدین گجراتی ،طبع ثانی ، سرسید اکادمی علی گڑھ ،ص :296-97
(11) علی گڑھ تحریک کا پس منظر ،مشمولہ ناموران علی گڑھ پہلا کارواں ،طبع سوم ، مارچ 2009،فکر و نظر، ص :394-95
16اکتوبر،2017 بشکریہ : میرا وطن ، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism