New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 11:58 AM

Urdu Section ( 20 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Dr. Muhammad Hamidullah’s Writings: A Testament to Law and Human Rights ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تحریریں قانون بین اور انسانی حقوق کی ضامن

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

20 اپریل 2025

ڈاکٹر محمد حمید اللہ  (1908-2002)  نے علم و ادب اور سیرت نبوی کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو بین الاقوامی قوانین اور مجدد سیرت کے نام سے جانتے ہیں ۔ اُردو ، عربی ، انگریزی کے علاوہ فرنچ ، ترکی  وغیرہ پر بھی قدرت رکھتے تھے ۔ آپ کی تالیفات و تصنیفات اور تحقیقات و نگارشات کی تعداد خاصی طویل ہے ان میں چند نمایاں کتب کے نام یہ ہیں ۔ عہد نبوی کے میدان جنگ ، عہد نبوی کا نظام حکمرانی ، محمد صلی اللہ علیہ کی سیاسی زندگی ، Introduction to Islam، اور پیغمبر اسلام  جیسی شاہ کار تصنیفات نے علم و ادب کی دنیا کو تحقیق و تدوین اور ریسرچ و تدقیق کے خطوط متعین کیے ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان گوشوں سے ارباب علم و دانش کو متعارف کرایا جن تک رسائی نہیں ہوئی تھی ۔  تحقیق کی دنیا میں جس منہاج اور طریقے کو سامنے رکھ کر ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے کام کیا آج اس کی ضرورت ہمارے اداروں ، جامعات اور مدارس کو ہے ۔ تحقیق میں بلا تعصب اور جانب داری سے گریز کرتے ہوئے کوئی علمی کام انجام دینا امانت و دیانت داری کی واضح علامت ہے ۔ لیکن آج کا جو منظر نامہ ہے اس میں بہت حد تک چیزوں اور باتوں کو یوں ہی نقل کرنے کی روایت کثرت سے رواج پارہی ہے ۔  اس کا مشاہدہ ہم اپنے معاشرے میں کرتے رہتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تحریریں اور ان کی علمی و فکری مساعی کا اولین پیغام یہ ہے کہ باحثین و اسکالرس اور محقیقین و مصنفین جب کوئی تحقیق و تدوین پیش کریں تو اس کا انداز خالص علمی ، سنجیدہ اور محققانہ ہو ۔ جو بات پیش کی جارہی ہے اس میں وزن  ہو ، یا معاشرتی سطح پر اس کا اثر اسی وقت مرتب ہوگا جب کہ اس کی پوری طرح تحقیق کرلی گئی ہو ۔ برعکس اس کے اگر کوئی تحریر اس طور پر پیش کی جائے کہ اس کے اندر نہ علمی گہرائی ہو ، نہ فکری توازن اور نہ معاشرتی تقاضوں کی رعایت تو پھر اس ادب کا اثر دیر پا نہیں رہتا ہے ۔ سماج اور معاشرے کو فکری ، نظریاتی طور پر ہم آہنگ کرنے کے لیے تحقیق کے مسلمہ اصولوں کی رعایت رکھنی ضروری ہے ۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم جو بھی علمی و تحقیقی عمل انجام دے رہے ہیں اس کا رشتہ سماج سے وابستہ ہونا ضروری ہے۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے علمی ورثے کا امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں اپنی تحریروں میں انسان دوستی اور سماجی تنوع کی روایتوں نیز تہذیبی تنوع کے تمام ضابطوں کو مد نظر ہی نہیں رکھا بلکہ قومی مفاہمت کے عناصر ان کی تحریروں میں ہمیں جابجا ملتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ چاہتے ہیں کہ ہم جس معاشرے میں وقوع پذیر ہیں اس میں جہاں علمی فکر و نظر فروغ پائے تو وہیں سماج میں کسی بھی نوعیت سے انتشار و افتراق بپا نہ ہو، جو بات بھی سماج  تک پہنچے وہ حقائق کی آئینہ دار ہو۔ گویا مجدد سیرت ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی نگارشات اور علمی ورثے کے ذریعہ جو پیغام دیا ہے اس میں رواداری ، اعتدال ، توازن  اور توسع و ہمہ گیری ہے۔ اسی  نظریہ کی ترویج و اشاعت  سے علمی و فکری دنیا میں عملی اور سماجی سطح پر استحکام برپا ہوگا ۔ قومی و فکری ہم آہنگی کا بین ثبوت ڈاکٹر  محمد حمید اللہ کی صرف تحریریں ہی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے مغرب کی سرزمین میں رہ کر سماجی تعدد اور ادیان ومذاہب و افکار و نظریات کی رنگا رنگی  اور لسانی و فکری تنوع کو بہت قریب سے دیکھا اور وہاں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیا،  اس لیے ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے فکری توازن اور سماجی ہم آہنگی کے لیے جو عملی و ادبی اقدامات کیے ہیں انہیں آج کی معاصر دنیا میں زیادہ سے زیادہ نشر و اشاعت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا سماج باہم احترام کی کیفیت سے محظوظ ہوسکے ۔ علم و ادب کا کوئی بھی گوشہ ہو اس کا واحد مقصد انسانی حقوق کی حفاظت اور سماجی تقاضوں کی رعایت ہونا بہت ضروری ہے لیکن یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ سماجی تقاضوں کی رعایت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مذہب و دین کے مسلمات کو پس پشت ڈال کر سماجی تقاضوں کی رعایت رکھی جائے ۔ اس تناظر میں جب ہم ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تحریروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ نے علم و تحقیق کے میدان میں ان رویوں اور رجحانات کو کبھی بھی قابل اتباع نہیں سمجھا جن کی بدولت سماج میں کوئی  مسئلہ انتشار کا باعث ہو۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی شخصیت گونا گوں صلاحیتوں کی مالک تھی انہوں نے قرآن و سیرت کے ساتھ ساتھ قانون بین الممالک پر  گراں قدر کام کیا ہے اس حوالے سے آپ کی تحریریں وقیع ، علمی اور فکر انگیز ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوام عالم میں قانونِ بین الممالک کی اہمیت کا شدت سے احساس پیدا ہوا۔ چنانچہ اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی ایک منشور ترتیب دیا گیا، جس میں باہمی تعلقات کی استواری اور دوسرے مسائل اور نزاعات کے حل کے لیے قوانین وضع کیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اقوام متحدہ کے اس منشور کو بھی اردو میں منتقل کیا۔ (ڈاکٹر حمید اللہ، خطبات بہاو ل پور، ص ۱۱۵)

علامہ ابنِ القیم کی کتاب احکام اہل الذمہ ڈاکٹر صجی الصالح کی تحقیق سے شائع ہوئی۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اس پر جو پُرمغز مقدمہ لکھا، وہ بھی اُن کے قانون بین الاقوامی اور  بقائے باہم کے شعور کا بین ثبوت ہے۔ اس میں انھوں نے اسلام کے ملکی اور بین الاقوامی قوانین، غیر مسلم حکومتوں سے تعلقات اور ’اہل ذمہ‘ کے حقوق و معاملات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس موضوع پر قدما میں امام سرخسی کی شرح الکبیر معرکہ آرا کتاب ہے۔ دراصل اس میں صلح و جنگ کے طریقے، غیر مسلم اقوام سے تعلقات اور تجارت وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔ اسلام کے بین الاقوامی قانون کو جاننے کے لیے یہ کتاب بہت اہم ہے۔ امام سرخسی کے زمانے میں، جب کہ صلیبی جنگیں لڑی جارہی تھیں، بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قوانین یقینا زیر بحث رہے ہوں گے۔ اس وقت کے اہم تقاضے کو  امام سرخسی نے اس طرح پورا کیا کہ امام محمد کی کتاب کتاب السیر کی شرح لکھوائی۔یہ شرح جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے حیدر آباد دکن اور مصر سے کئی بار شائع ہوچکی ہے۔

اسی حوالے سے ڈاکٹر حمید اللہ کی دو حصوں پر مشتمل ایک اور اہم تصنیف الوثائق السیاسیۃ فی العھد النبوی و الخلافۃ الراشدہ ہے۔ اس کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوبات و مراسلات ، فرامین، معاہدے، عمّال کا تقرر، اراضی کے عطیات، امان نامے، وصیت نامے وغیرہ شامل ہیں۔ دوسرے حصے میں عہدِخلافتِ راشدہ کی دستاویزات کو یک جا کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں بین الاقوامی تعلقات یا قانون بین الممالک پر ڈاکٹر محمد حمید کی  تصنیف  The Muslim Cunduct of state میں قانون بین الممالک پر بڑی علمیئ گفتگو کی گئی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک اور کتاب First Written Constitution in the World ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’میثاق مدینہ‘ پر سیرحاصل بحث کرتے ہوئے اُسے ’پہلا عالمی دستور‘ قرار دیا گیا ہے اور مدلل انداز میں ثابت کیا ہے کہ یہ پہلا کثیر قومی و نسلی اور مذہبی وفاق تھا ۔  گویا سماجی ہم آہنگی اور رواداری کا عملی مظاہرہ کیا گیا ۔ یہ بات ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی کتابوں اور ان کی تحریروں کا پیغام عہد حاضر میں یہ ہے کہ  قوموں اور معاشروں کے مابین  خوشگوار تعلقات  کا وجود ، صالح اور صحت مند معاشروں کی علامت ہے۔ انسانیت کی بنیاد پر باہم تعاون و نصرت کی بھی افادیت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہم آ ہنگی اور باہمی اخوت و رواداری سے  مملکتوں اور ریاستوں کے تعلقات بہتر خطوط پر استوار ہوتے ہیں ۔ اگر افکار و نظریات یا معاشرتی تعلقات باہم متصادم و کشیدہ ہوں تو اس سے قوموں اور معاشروں کے مابین بد امنی اور ابتری کے فروغ پانے کا زیادہ امکان رہتا ہے۔  بد عنوانی یا اس سے مشابہ کسی بھی فعل وعمل اور قول حرف پر قدغن لگانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ نوع انسانیت کسی بھی طرح کی زیادتی اور تشدد کا شکار نہ ہوسکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب قومیں ، خاندان اور ریاستیں  پر امن روایات کی اتباع کریں۔ سنجیدہ اور بقائے باہم کے لیے درخشاں اصول و قانون مرتب کریں۔ زیادتی پھیلانے والے افراد و اشخاص کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ سماجی ، سیاسی ، اقتصادی اور مذہبی رابطوں کے دوام کا انحصار صرف اور صرف باہمی ہم آہنگی اور بین الاقوامی تعلقات  پر ہے۔ موجودہ دور میں دنیا نے مادی اعتبار سے ترقی کی منازل تو طے کرلی ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ جو اخلاقی اور روحانی قدریں ہمیں ہماری تہذیب و ثقافت سے ورثہ میں ملی تھیں وہ اب بہت حد تک متاثر ہوچکی۔ ہماری ہوس اور بد اخلاقی نے بین الاقوامی تعلقات کو بھی بری طرح مجروح کیاہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی بدلتی صورتحال حال پر کنٹرول کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ عموماً معاشرتی اقدار اور باہمی الفت و محبت اسی وقت بے اثر ہوتی ہےجب حکومتوں اور قوموں کے مفادات متصادم ہوں۔ نیز انسانیت کی خدمت اور ہمدردی کا جذبہ نابود ہوجائے۔ المیہ یہ کہ جو طاقتیں آ ج اپنی حیثیت کا دعویٰ کرتی ہیں اوراپنے آ پ کو حقوق انسانی  کی محافظ بتاتی ہیں ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو انہوں نے ہی اپنے محدود مفادات کی خاطر انسانیت کی بنیاد پر ترتیب دیئے گئے رشتوں اور تعلقات میں دراڑ پیدا کی ہے۔

جو مسلسل معاشروں کی تباہی اور غارت گری کا سامان بن رہی ہیں۔ یہ بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ جب بھی انسانی رشتوں کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے تو اس کے انتھائی ضرررساں نتائج بر آ مد ہوئےہیں۔ مل جل کر رہنا ، حسن اخلاق اور خندہ پیشانی سے پیش آ نا ہمارے روابط کو بڑھاتاہے۔ میٹھی زبان کے جو اثرات سماج اور معاشرے  پر اثرانداز ہوتے ہیں اس کی خوشبو اور رنگت، نسلیں یاد رکھتی ہیں۔ دوسرے چیز یہ بھی ہیکہ جن معاشروں میں  باہم اچھے روابط ہوں ان کی شناخت  و امتیاز بھلائی اور ایثار و ہمدردی کے طور پر کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تحریروں کی عصری معنویت اس لیے بھی ہے کہ آ ج پوری دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔  اس لیے اس موضوع پر لکھنے ، بولنے اور فروغ دینے کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کی وسعت و تفہیم اور عصری تناظر میں اس کے فوائد سے عوام کو روشناس کرانا باہمی رابطوں کو جلا بخشے گا۔  بین الاقوامی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ، آ ج بڑے پیمانے پر مذاکرات و مکالمات ہورہےہیں۔ مقالات و کتب تحریر کی جارہی ہیں ۔ ان تمام باتوں کا مقصد صرف یہ کہ قومیں دین، افکار و نظریات کی تفریق و مغایرت کے باوجود باہم دست گریباں نہ ہوں ۔ رواداری اور سلامتی وسکو ن کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ مکالمات و مذاکرات کے اختتام پر باقاعدہ متفقہ طور پر قراردادیں پاس ہوتی ہیں ۔ اسلئے کہ ہم اپنے اپنے فکر و عقیدہ اور دین دھرم  پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، سماجی رشتوں اور باہمی تعلقات کو پائدار بنائیں  گے۔ اس لئے معاشرتی اقدار کو برقرار اور دوام و استحکام بخشنے کے لئے مذاکرات ومکالمات  کی معنویت سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم جب ہم اس مسئلہ کا حل اسلام کی مقدس تعلیمات میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے اقوام کی سلامتی اور امن و امان کے لئے جوقوانین وضع کئے ہیں ، وہ اساس و بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام نے باہمی اتحاد واعتبار کی وسعت و کشادگی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس پر قانون سازی بھی کی ہے ،اسی  قانون سازی  کی طرف اشارہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی متعدد تصانیف میں کیا ہے ۔ موجودہ عہد میں جس تیزی سے حالات ملکوں ، معاشروں اور قوموں کے خراب ہورہے ہیں ، اجنبیت بڑھ رہی ہے ان حالات میں امن و امان اور اتحاد و اتفاق سے رہنے کے لیے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تحریروں میں روشن خطوط موجود ہیں

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/dr.-muhammad-hamidullah-law-human-rights/d/135236

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..