New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 08:41 PM

Urdu Section ( 18 Sept 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islam’s View of Life اسلام کا نظریۂ زندگی

ڈاکٹر محمد حمید اللہ

31 اگست، 2012

کسی معاشرے ، قوم یا تہذیب کی قوت حیات یا زندہ رہنے کی اہلیت کا دارو مدار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ ان کے ہاں زندگی کا نظریہ کیا ہے اور وہ کس حد تک اس نظریہ پر عمل پیرا ہیں ، فطری طور پر انسان  بہت کم اپنے  انفرادی فائدہ کے سواء کوئی اور بات سوچتا ہے۔حتیٰ کہ اس کے قریبی رشتہ داروں  کا نمبر بھی اس کے بعد ہی آتا ہے۔ تاہم ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہیں، جن کا رویہ عام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے۔ جب ہم ماضی کی تہذیبوں کا احوال پڑھتے ہیں  ( اور شاید اب ہم ایک اور تہذیب کی صبح دیکھ رہے ہیں ) تو ہم اس نیتجے پر پہنچتے ہیں کہ گو بر گزید ہ لوگوں کی ایک تعداد اپنے دور کی تہذیب میں روشنی کے میناروں کا مقام رکھتی ہے ، مگر اس کا  مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ہم عصر دوسرے لوگ محض و حشیوں کی زندگی گزاررہے ہیں  ، بلکہ وہ تہذیبوں کی درجہ بندی میں مختلف درجہ ہائے فضیلت پرفائز ہیں، یعنی کچھ اگر زیادہ مہذب ہیں تو دوسرے ذرا اس سے کم۔  مثال کے طور پر جب فونیشنز (قدیم شامی باشندے ) منظر عام پر آئے اور انہوں نے ایک شاندار تہذیب کو پروان چڑھا یا تو متعدد دوسری قومیں تھیں، جو ان کی طرح مہذب تھیں، مگر انہیں اظہار عمل کے لئے مواقع اور میدان میسر نہ ہوئے ۔

جب عرب اسلامی تہذیب اپنے عروج پر تھی تو یونانی ، رومن ، چینی ، ہندوستانی اور دوسری قومیں بھی مہذب لوگوں کی تمام خصوصیات سے بہرہ ور تھیں۔ تاہم وہ اپنے زمانے کی ‘‘تہذیب کے آسمان پر چمکنے  والی اقوام’’ کے مقام تک نہ پہنچ سکیں۔ ہم اپنے زمانے میں ہی دیکھ لیں ، اگر امریکہ اور روس اپنی جوہری قوت کے ساتھ دنیا کی صف اول کی طاقتیں  ہیں تو برطانیہ ، چین ،فرانس اور جرمن بھی ان سے چند ہی قدم پیچھے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں جب  کہ بعض اقوام ترقی میں بہت  آگے جاچکی ہیں،دنیا کے بعض حصے ایسے ہیں ، جہاں اگر حقیقی طور پر آدم خوری باقی نہیں تو کم از کم وحشیانہ پن ضرور موجود ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض کے ہاں ارتقا ء کاعمل  تیز ، جب کہ کسی دوسری جگہ سست کیوں ہے؟۔ ایک دور میں جب یونانی ایک شاندار تہذیب کے علمبردار تھے تو جنوبی یورپ میں بربریت کا دور دورہ کیوں تھا  اور  جب عربوں پرعظمت کا آفتاب کرنیں بکھیر رہا تھا تو روس پر وحشت کیوں چھائی ہوئی تھی؟

یہ صورت حال کئی ادوار میں بہت سے ممالک کو درپیش رہی ہے۔ کیا یہ محض حسن اتفاق اور حالات کا نتیجہ تھا؟ یا پھر اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی خاص مقام پر اعلیٰ ترین خصوصیات کے حامل افراد اور شخصیات نے جنم لے لیا کہ ان کے مقابل دوسرے لوگ پس منظر میں چلے گئے؟۔ اس صورت حال کی شاید مزید تو ضیحات بھی ممکن ہوں، کثیر الجہت اور کثیر الوجوہ ، یا ایسے حالات پیدا ہوگئے ، جن کے نتیجے میں کچھ لوگوں کو کامیابیاں اور کامرانیاں ملیں  اور بعض  کو ناکامیاں ،بلکہ بعض کا وجود ہی ختم ہو گیا۔ایک اور سوال بدستور جواب طلب ہے کہ بعض اوقات ایک عارضی عظمت کے بعد لوگ کیوں نیم وحشیانہ سہی، مگر قعر مذلت میں گرنے کی راہ اختیار کر لیتے ہیں؟  ہماری تجویز ہے کہ متعلقہ ادوار میں اسلام کے حوالے سے ان  سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لئے تحقیق کیا جائے اور اگر ممکن ہوتو اس (اسلام) کی بقاء کے امکانات کو بھی زیر بحث لایا جائے۔اگر ہم ابن خلدون پریقین کریں تو حیا تیاتی عنصر ایک اہم وجہ ہے۔ ایک پیڑھی (نسلی سلسلہ) کے اختتام پر نسل انسانی، قوت حیات کھو بیٹھتی ہے اور اس میں نئی روح پھونکنے کے لئے کم از کم ان مردوں کے خاندان میں تبدیلی ناگزیز ہوتی ہے، جو ارباب حل و عقد کے مقام پر فائز ہوں۔

 اس نسلی نظریہ کو اگر عالمانہ مبالغہ بھی تصور کیا جائے تو بھی نسلی  تہذیبوں اور تبدیلی مذہب کو تسلیم نہ کرنے والے ادیان پر ان کے اثرات مسلمہ ہیں، مگر خوش قسمتی  سے اسلام زوال کے اس نظریہ سے متاثر نہیں ہوتا، کیونکہ اس کے ماننے والے ہر نسل میں پائے جاتے ہیں اور اس کے فروغ کا سلسلہ زیادہ کم بہر حال دنیا میں  ہر جگہ جاری رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہےکہ اسلام نے امت مسلمہ کے اندر نسلی تعصب کاکم و بیش خاتمہ کردیا ہے، جس کے باعث مسلمان بلا تا مل اپنے قائدین  کی اطاعت کرتے ہیں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی نسل سے ہو اور قرآنی حکم کے تحت غلامی کو جس طرح بتدریج ختم کیا گیا،یہ اس کی ایک روشن مثال ہے اور تاریخ میں ان گنت ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آزاد کردہ غلاموں کے کئی  خاندان نسل در نسل مسلم رعایا کے حکمراں رہے۔ کسی بھی تہذیب کی زندگی اور موت کا انحصار اس کی بنیادی تعلیمات کے معیار پر ہے۔ اگر یہ اپنے پیرو کاروں کو دنیا تیاگ دینے کا سبق دیتی ہے تو روحانی سطح پر بلاشبہ  اس کو فروغ حاصل ہوگا ، مگر انسان کے دوسرے حصوں یعنی  اس کے جسم اور اس کی ذہنی صلاحیتوں کو آزادانہ اور فطری انداز میں کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی،جس سے  ان پر بہار آنے سے پہلے ہی ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔اس کے برعکس اگر کوئی تہذیب زندگی کے صرف مادی پہلوؤں کو مرکز توجہ بنائے گی تو انسان صرف مادی مفادات کوہی مطمح نظر بنالے گا ، جس سے زندگی کے دوسرے پہلو اور معاملات متاثر ہوں گے اور یہ تہذیب بالآخر  خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔

 اس لئے کہ مادیت پرستی، خود پسندی اور دوسروں کے حقوق کا احترام نہ کرنے کے جذبات کو جنم دیتی ہے۔اس سے آپ کے دشمن اور حریف پیدا ہوتے ہیں، جو حساب چکانے کے لئے موقع کے انتظار میں رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں۔ دو ڈاکواؤں کی مشہور کہانی تو سب کو یاد ہے کہ انہوں نے کہیں سے مال اڑایا ۔ بھوک لگی تو ایک سامان لینے شہر گیا اور دوسرا آگ جلانے کے لئے لکڑیاں جمع کرنے لگا۔ اب دونوں کے دل میں فتور پیدا ہوگیا کہ دوسرے سے چھٹکارا  پاکر پورے مال کو کیوں نہ ہڑپ کر لیا جائے۔ چنانچہ جو کھانا پکانے کا سامان لینے شہر گیا تھا، اس نے کھانے میں زہر ملادیا ، تاکہ دوسرا کھا کر مر جائے گا او رمال اس کے قبضہ میں آجائے گا ۔ جب کہ اس کا ساتھی بھی بری  نیت کے ساتھ اس کا انتظار کررہا تھا۔ جو نہی وہ سامان لے کر آیا گھات میں بیٹھے  اس کے ساتھی نے حملہ کر کے اس کا  کام تمام کردیا۔ پھر اس کے لائے ہوئے سامان سے کھانا تیار کرکے کھایا تو زہر نے اسے بھی اپنے دوست کے پاس پہنچا دیا۔

31 اگست، 2012   بشکریہ: روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/islam’s-view-life-/d/8720

Loading..

Loading..