New Age Islam
Mon Feb 17 2025, 12:05 AM

Urdu Section ( 7 Nov 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Violence, Islam And The Islamic Movement: Can Terrorism Be At All Justified In Islam? -Part 4 (تشدد ، اسلام اور تحریک اسلامی ( آخری قسط

 

 

ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی

آئندہ لائحۂ عمل

بجا طور پر کہا جاسکتاہے کہ تشدد سےمکمل اجتناب اگر ممکن  بھی ہو تو صرف ایسا کرنے سے مسلمانوں کی صورت حال نہیں بدل جائے گی ۔ ہندوستان ہو یاعالمی  سماج، دونوں میں  باعزت زندگی کی بحالی کے لیے کچھ اوربھی کرناہوگا۔ دوسرے کب تشدد سے باز آئیں گے اس کافیصلہ ہمارے ہاتھوں میں  نہیں ہے البتہ یہ بات بہت اہم ہے  کہ عام انسانوں کےدلوں سے یہ بات نکل جائے کہ اسلام او رمسلمان ان کے لیے بہت کچھ کرناہوگا۔ ایسا کرنے میں ساری دنیا  کے مسلمانوں کو یورپ اور امریکہ کے مسلمان شہریوں اور وہاں مقیم مسلمانوں کی مدد کرنا چاہئے۔ لیکن مسلمان خود اپنے طرز عمل کی اصلاح سےبھی فضاکو بہتر بنا سکتے ہیں ۔ ذیل میں ہم تین  ایسی باتوں کا ذکر کریں گے جن کا اہتمام آسانی کے ساتھ اور فوری طور پر کیا ہوسکتا ہے ۔ اور جن کےنتیجہ  میں اسلام او رمسلمانوں کی تصویر عام انسانوں کی نظر میں بہتر ہوسکتی ہے۔

شفافیت ( Transparency)

اسلام اور مسلمانو  ں کےبارے میں بہت سی غلط فہمیاں اس لیے پھیلائی جاسکی ہیں کہ یورپ اور امریکہ کے تمام انسانوں  کو، بلکہ خود ہمارے ملک ہندوستان  کے عام غیر مسلموں کو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں ۔ مسلمانوں کی ماضی کی تاریخ کے بارے میں صحیح  معلومات عام کرنا مشکل کام ہے اور اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے ، لیکن مسلمانوں کے حال کےبارے میں پیدا کی جانے والی غلط فہمیاں جلد دور کی جاسکتی ہیں۔ مدرسوں میں کیا پڑھایا جاتاہے؟  مسجدوں کے اندر کیا ہوتا ہے؟ تبلیغی سفر اور دعوتی اجتماعات میں کیا سکھایا جاتا ہے؟ ان کے بارے میں  غلط پروپیگنڈے کا جواب یہ ہے کہ جو کچھ ہے سب کےسامنے ہو۔ ہر انسان کےلیے یہ ممکن ہو کہ وہ ان اداروں اور ان جیسے دوسرے اسلامی اداروں او رمسلم سرگرمیوں  کا براہ راست مشاہدہ کرسکے ۔ یہی نہیں  بلکہ امت کی داخلی بہتری اسی میں ہے کہ ان تمام اداروں  کے مالیات اور نظم و انصرام (Management ) میں بھی شفافیت پائی جائے کوئی ابہام ،غموض یا راز داری (Secretivenes) نہ باقی رہے ۔ ان اداروں  کے مالیات کو خاص طور پر شفاف رکھنا ہوگا تاکہ ہندوتو کے علمبردار یا امریکی  تسلط پسند یہ الزام نہ لگا سکیں کہ یہ ادارے مذہب اور تعلیم کے نام پر جو فنڈ جمع کرتے ہیں وہ پر تشدد کاروائیوں کی انجام دہی میں صرف ہوتا ہے ۔ خود ہمارے مدارس، مساجد اور خیراتی اسپتالوں وغیرہ  فلاحی اداروں کو کرپشن سے بچانے کاطریقہ بھی یہی  ہے کہ ان کی آمد و خرچ کا حساب قاعدہ کے مطابق رکھا جائے ، آڈٹ ہو، اور عوام کے معائنہ کے لیے کھلا رہے۔

جمہوریت

جب کسی اسلامی ادارہ میں فیصلہ کا اختیار تمام تر ایک آدمی کے ہاتھوں میں ہوتو اس کے مالیات اور نظم و انصرام میں شفافیت نہیں برقرار رہتی ۔ شفافیت کے لیے ضرور ی ہے کہ اہل معاملہ کے مشورہ سے فیصلے کیے  جایا کریں ۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں کا مسلمان ملکوں اور اداروں کے خلاف یہ الزام ہے کہ یہ غیر جمہوری ہیں ۔ ان میں اہم فیصلے متعلقہ لوگوں کے مشورہ سے نہیں طے پاتے ۔ ان کے وسائل پر مکمل تصرف کا اختیار ایسے لوگوں کو حاصل ہے جن کو عوام نے اس کام کے لیے نہیں چنا ہے بلکہ انہیں یہ پوزیشن موروثی بادشاہت یا فوجی انقلاب کے ذریعہ ملی ہے۔ اکثر یہی ماڈل مسلمانوں کے دوسرے  اداروں میں بھی  دہرایا جاتاہے ۔ ان کی جماعتیں  ہوں یا دوسری دینی ادارے،  ایک شخص تا حیات سربراہ رہ کر جب رخصت ہوتا ہے تو اس کی اولاد اس کی جگہ لے لیتی ہے، الاماشاء اللہ۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ غیر جمہوری طریقہ سے مقام سربراہی پر آئے ہوں وہ فیصلے کرنے میں جمہوری طریق کار کی  پابند ی نہیں کرسکتے ۔ ایسی  صورت حال میں اس تصور میں جان آجاتی ہے کہ مسلمان عوام اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں میں او رمسلمانوں کے قومی فلاحی وسائل مسلم اداروں کے روایتی  سربراہوں کے ہاتھ میں یرغمال ہیں ، ان کو آزاد کرانے کی ضرورت ہے۔

یہ عجیب بات ہے کہ جس صفت کو قرآن حکیم نے مسلمانوں کا مزاج بتایا ہے ، بمصداق آیت کریمہ :

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ( الشوریٰ: 38)

‘‘ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں ۔ نماز قائم کرتے ہیں ،اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں اور ہم نےجو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔’’

اس صفت شورائیت  کے فقدان کو بنیاد بنا کر مسلمان ملکوں اور اداروں پر حملے کیے جارہے ہیں!

جس طرح شفافیت کااہتمام خود مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے گا اور ان کے ادارے زیادہ کار کردگی  کے ساتھ چلنے لگیں گے، اسی طرح شورائی طریقۂ فیصلہ اختیار کرنے سے بھی ان اداروں کی کارگردگی بہتر ہوگی اور ان کو بیش از بیش عوامی تعاون حاصل ہوگا۔ مسلمان جماعتوں اور دینی اداروں میں اگر ہر سطح  پر متعلقہ افراد سے مشورہ کرنے اور فیصلہ میں ان رایوں کو ملحوظ رکھنے کا طریقہ اختیار کیا جائے تو ان اداروں کی مصداقیت (Credibility) میں اضافہ ہوگا۔ آج صورت حال اس سےمختلف  ہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو ان اداروں کو تمام مسلمانوں کا خوش دلانہ تعاون نہیں حاصل ہوتا دوسری  طرف وہ ہندوستان میں ہندوتو کے حاملین اور بین الاقوامی سطح پر امریکہ اور اس کے حاشیہ برداروں کو اس بات کاموقع فراہم کرتےہیں کہ ان اداروں کی طرف ایسے عزائم ، سرگرمیاں اور خیالات منسوب کریں جو حقیقت سے دور ہیں ۔غیر نمائندہ قیادتوں کی نگرانی میں چلائے جانے والے فلاحی خیراتی اداروں، مدرسوں اور دوسری تعلیم گاہوں ،اور جماعتوں کی طرف انسانیت دشمن، رجحانات، عدم رواداری کاسلوک اور پر تشدد عزائم منسوب کرناآسان ہے ۔ چونکہ مسلمانوں کےملک ، جماعتیں ، تعلیم گاہیں اور دوسرے ادارے دنیابھر میں معروف جمہوری طریقوں سےنہیں چلائے جاتے اس سے وہ شک و شبہ کا ہدف آسانی سے بن جاتے ہیں۔ اگر مسلمان اپنی تمام سیاسی  اور ثقافتی سرگرمیوں میں شفافیت کےساتھ جمہوری کلچر ۔ اظہار رائے کی آزادی، اختلاف رائے کا احترام ، فیصلہ میں سب کی رائے کی رعایت ملحوظ رکھنا ۔ اختیار کرلیں تو غیر وں کے لیے ان کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ وہ یہ جان سکیں گے کہ کب ان سے کیا کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے اس طرح وہ خوف و خطر زائل ہوجائے گا جو آج کل ایک بند کتاب ہونے کی وجہ سے دوسروں میں ان کی طرف سے پایا جاتاہے یاپیدا کرا دیا گیا ہے۔

عام انسانوں میں نفوذ

اصلاح امت اور ملّی اٹھان کے کسی بھی جامع منصوبہ پر عمل در آمد کی تمہید کے طور پر شفافیت اور جمہوریت کےساتھ جس تیسری خصلت کی ضرورت ہے وہ ہے عام انسانوں سےمیل ملاپ بڑھاناان کےدکھ درد میں شریک ہونا اور حتی الامکان مسلمانوں کے مسائل کو بھی عام انسانوں کے مسائل کے طور پر حل کرنے کی کوشش کرنا ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان ہو یا عالمی سماج مخصوص ‘‘ مسلم مسائل ’’ کی فہرست بہت محدود ہے۔ زیادہ تر ہمیں وہ مشکلات و مسائل در پیش ہیں جو دوسرے انسانو ں کو بھی درپیش ہیں : غربت، مرض ، مناسب  مکان اور حفظان صحت کے بنیادی  اہتمام سے محرومی ، ناخواندگی ،عدم تحفظ ( Insecurity) بے چینی جس میں بڑا دخل مستقبل  کے غیر یقینی حالات کا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن سے آج ہندوستان کے اکثر لوگ اور جنوبی مشرقی ایشیا اور افریقہ کی بیشتر انسان دو چار ہیں۔ مسلمانوں پر کچھ زیادہ آفت ہے۔ ان مسائل کے حل وہ کوششیں زیادہ موثر ہوں گی  جو مسلمان اپنے پڑوسیوں اور اہل ملک کے ساتھ  مل کر کریں، مسلمان اپنی الگ دنیا  نہیں بساتے بلکہ دنیا بھر کو اپناوطن سمجھ کر اس کے سدھار اور ترقی کی کوشش کرتے ہیں ۔ موجودہ صورت حال میں، جس کا ایک اہم عنصر ہے عام انسانوں میں مسلمانوں  کی طرف سے شک و شبہ اور بےاعتمادی ، اس انداز کار کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی کوئی  ( Neighborhood) آبادی ہو یا ہندوستان کاکوئی محلّہ ، ایک دوسرے کی طرف سے شک و شبہ اور خطرناک اندیشوں کی فضا ختم کرنا اور مسلمانوں اور غیر مسلم انسانوں میں باہمی اعتماد بحال کرنا بہت اہم ہے۔ تشدد ایک مظہر ہے جس کی جڑیں اس اندیشہ ناک فضا میں پائی جاتی ہیں ۔ تشدد کے ازالہ کے لیے اس فضا کو درست کرنا ضروری ہے۔

آج کل اس بات کابڑا رواج ہے کہ سماجی خدمت اور فلاحی سرگرمیوں کے لیے ایسی تنظیمیں قائم کی جائیں جو حکومت کے تابع نہ ہوں۔ یہ غیر حکومتیں تنظیمیں ( NGOs) اکثر اوقات کئی ملکوں میں ایک ساتھ کام کرتی ہیں ۔ ان میں سے بعض تنظیموں نے بین الاقوامی طور پر اتنا وزن حاصل کر لیا ہے کہ دنیا میں کوئی ملک ان کو آزادانہ عمل کے مواقع فراہم کرنے پر مجبور ہے۔ ان  میں بعض تنظیموں کو مجلس اقوام متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی اداروں  میں بھی نمائندگی ملتی ہے ۔ ماحول کو کثافت سے بچانا ۔ امن عالم، انسانی حقوق کی پاسداری ،غربت، مرض اور نا خواندگی کا ازالہ، عورتوں کو سماج میں با عزت مقام دلوانا ،لوگو ں کو بندھوا مزدوری سے آزاد کرانا،بچوں کی مزدوری کا رواج ختم کرنا ، خود کا ر لوگوں کو کریڈٹ کی فراہمی ، ہرے بھرے جنگلات کو کاٹے جانے سے بچانا ، انہی ( NGOs) کے ذریعہ انجام پارہے ہیں،ہمارے دین کا مزاج ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم ان کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ،مزید براں موجودہ شبہوں سے بھری  فضا کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں سےہاتھ ملانے اور ان کے دوش بدوش کھڑے ہونے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی اسلامی مالیاتی ادارے ( Islamic Financial Institutions) اپنادروازہ تمام انسانوں کے لیے کھلا رکھتے ہیں اور بالفعل کچھ غیر مسلم افراد بھی اسلامی بنکوں اور دوسرے  مالیاتی اداروں سے وابستہ ہیں ، کوشش کرناچاہئے کہ اس وابستگی میں وسعت اور گہرائی پیدا ہو اور یہی ماڈل دوسرے اسلامی اداروں میں بھی دہرایا جائے ۔

حرف آخر

تشدد سے دست کشی مسلمانوں کے جملہ مسائل کا حل نہیں  ہے مگر ایسا کرنے سے بہت سے ان مسائل سےچھٹکارا ضرور حاصل ہو جائے گا جو مسلمانوں میں تشدد یا جوابی اور انتقامی تشدد کے رجحان سے پیدا ہورہے  ہیں ۔ رہی یہ بات کہ ہمارا موجودہ زوال عروج سےکب بد لے گا اور ہماری وہ کمزوریاں  کیوں کر دور ہوں گی جن کی وجہ سے ہم ترقی نہیں کر پارہے ہیں تو اس عرصہ سے بحث ہورہی ہے ۔ اور اس سلسلہ میں تعلیم و تربیت ، صحت، معاش ، سیاست وغیرہ مختلف میدانوں میں بہت سی کوششیں بھی کی جارہی ہیں لیکن یہ کام لمبی مدّت چاہتا ہے اسے صبر کے ساتھ کیے جاناہوگا ۔ عارضی حالات سے متاثر ہوکر تشدد کا راستہ اختیار کرنابے صبری کی علامت ہے او ربے حکمتی کامظہر ۔ اس مقالہ میں ہماری کوشش رہی ہے کہ امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ ہند کو اس وقتی لغزش پا سے بچا کر ایک بار پھر صبر و شکست کے ساتھ اپنی اصل راہ پر گامزن ہونے کی دعوت دیں۔

(یہ مضمون اردو ماہنامہ زندگی میں مارچ ۲۰۰۴ میں شائع ہوچکاہے اور اب ان کی کتاب اکیسویں صدی میں اسلام، مسلمان اور اسلامی تحریک میں شامل ہے۔)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ایک ممتاز ہندوستانی عالم اور ماہر اسلامی معیشت ہیں۔ انہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور کنگ عبد العزیز یونیورسٹی، جدہ میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں اور انہیں کنگ فیصل ایوارڈ سے نوازا جا چکاہے۔انکا ای میل پتہ ہے:mnsiddiqi@hotmail.com

URL for English article Part 1:

 https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-1/d/99731

URL for English article Part 2:

https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-2/d/99845

URL for English article Part 3:

https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-3/d/99861

URL for English article Part 4:

https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-4/d/99877

URL for Urdu article Part 1:

https://newageislam.com/urdu-section/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-1/d/99860

URL for Urdu article Part 2:

https://newageislam.com/urdu-section/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-2/d/99871URL for Urdu article Part 3:

https://newageislam.com/urdu-section/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-3/d/99882

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-4/d/99896

 

Loading..

Loading..