New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 06:12 PM

Urdu Section ( 5 Nov 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Violence, Islam And The Islamic Movement: Can Terrorism Be At All Justified In Islam? -Part 3 (تشدد ، اسلام اور تحریک اسلامی ( تیسری قسط

 

 

ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی

اقلیتی مسلمانوں کا مسئلہ

3۔ تیسری  صورت حال وہ ہے جو ہمارے ملک ہندوستان میں در پیش ہے اگر کسی غیر مسلم اکثریت کے جمہوری ملک میں وہاں کی مسلمان اقلیت کو تشدد بنایا جائے اور حکومت ان کی جان و مال کی حفاظت سے قاصر رہے یا جان بوجھ کر کوتاہی برتے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کبھی کہیں تشدد کرنے والوں کی پشت پناہی کرتی نظر آئے جیسے کہ 2002ء میں گجرات میں ہوا تو مسلمان کیا کریں ۔ کیا وہ تشدد کے جواب میں  تشدد کرسکتے ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسرے ہندوستانیوں کی طرح مسلمانوں کو بھی اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کے دفاع کاحق حاصل ہے ۔ ملکی قانون  حملہ آوروں کے روکنے کے لیے ہر ممکن تدابیر اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے چاہے اپنی جان بچانے کی کوشش میں حملہ آور کی جان چلی جائے ۔ لیکن حالات  کے دباؤ کے تحت بعض مسلمان اقدامی تشدد کی رائے بھی پیش کرتےہیں جسے وہ انسدادی تدبیر (Preventive Strike) کا نام دیتے ہیں مگر ہمارے خیال میں یہ درست نہیں ہے کہ :

ایک مقام پر ہندو جارحیت کو روکنے کے لیے ہندوؤں کے حملہ سے پہلے ہی اس مقام پر یا کسی دوسرے مقام پر ہندوؤں پر حملہ کیا جائے۔

یا کسی مقام پر جارحانہ حملہ کے بعداس کےجواب میں کسی دوسرے مقام پر کسی دوسرے گروہ پر حملہ کیا جائے۔

یا مسلمان اپنے اوپر ہونے والے جارحانہ تشدد کا انتقام لینے  کےلیے کسی بھی ہندو فرد یا گروہ کو تشدد کا نشانہ بنانا درست سمجھیں ۔

 اس طرح سوچنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ ایسا کرنے سے حملہ آوروں کو مزید حملوں سے روکا جا سکے گا۔ عام ہندو آبادی مسلمانوں کے انتقامی یا جوابی حملوں کے ڈر سے اپنے جارحیت پسند عناصر کو لگام لگائے گی اور فرقہ پرستانہ عناصر کی حمایت کرنے والی ریاستی حکومتیں یا پولیس افسران بھی مسلمانوں پر جارحانہ حملوں کو روک تھام کرنے لگیں گے ۔ بعض لوگ بعض مقامات کے تجربوں کابھی حوالہ دیتے ہیں جہاں ان کے خیال میں مذکورہ بالا تینوں طریقے جارحیت پر روک لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ Deterrence یا انسدادی نظریہ کی توثیق یا تردید کے لیے بری چھان بین او رمیدانی  تحقیق  (Empirical Research) کی ضرورت ہے جس کے ذرائع ہمیں نہیں میسر ہیں۔ اس مقالہ میں صرف اس کے اخلاقی پہلو پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے اور افادی پہلو پر رائے ظاہر کی جاسکتی ہے۔

ہمارے خیال میں مذکورہ بالا تین مواقف میں سے تیسرا موقف یعنی انتقامی کاروائی کے طور پر ہندوؤں کے خلاف تشدد کا استعمال اسلامی تعلیمات  کے سراسر خلاف ہے۔ معصوم سے مجرم کا انتقام نہیں لیا جاسکتا ۔ ایک جمہوری ملک کے شہری ہونے کے     ناتے بھی ہم  پابند ہیں کہ ایسا نہ کریں ۔ اس معاملہ  میں ملکی قانون کی صریح خلاف ورزی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ با اقتدار ملکوں کے درمیان جنگ کے اصول ایک ہی ملک میں بسنے والے فرقوں کی باہمی  کشمکش پر منطبق  نہیں کیے  جاسکتے ۔ رہا مذکورہ بالا پہلا اور دوسرا موقف تو ہمارے نزدیک وہ بھی اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کومستلزم ہے۔ ایک حملہ آور گروہ کے جواب میں کسی غیر حملہ آور پر امن گرو ہ پر حملہ نہیں کیا جاسکتا نہ حملہ سے پہلے نہ حملہ کے بعد۔

رہا یہ سوال کہ اگر مسلمان اپنے اوپر کیے جانے والے تشدد کےجواب میں تشدد کاراستہ اختیار کرنے سے گریز کریں تو وہ اس تشدد کو روکنے او ر مسلمانوں  کے خلاف ہندو جارحیت کے سیلاب پر بند لگانے کے لیے کیا کریں تو مقالہ نگار نے اس کا جواب ایک دوسرے مقالہ میں دیا ہے۔ (1) کچھ مزید تجاویز آئندہ صفحات میں پیش کی جائیں گی۔( 1؎ تحفظ ملت کا مسئلہ جو ‘‘ تحریک اسلامی عصر حاضر میں ’’ نامی کتاب کےصفحات 92:110 پر شائع ہوا ہے ۔ یہ کتاب دہلی سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نے 1995 ء میں شائع کی ہے۔)

مسلمانوں کے خلاف امریکی جارحیت

 4۔ امریکہ نے 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹاگن پر ہونے والے حملہ کو بنیادبنا کر پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کااعلان کر رکھا ہے ۔ اس مہم میں اس کا اصل ہدف وہ مسلمان افراد اور گروہ ہیں جو امریکہ سے ناراض ہیں، یا اپنے ملک کی حکومت سےناراض ہیں، یاپوری دنیامیں امریکہ کےبڑھتے ہوئے اثرات کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ سمجھ کر امریکہ اور اس کےمفادات کونقصان پہنچانا طے کرچکے ہیں ۔ چونکہ امریکہ بعض ملکوں کو ایسے افراد اور گروہوں کی سرپرستی کا مجرم گردانتا ہے لہٰذا وہ  ملک بھی اس کا ہدف قرار پا چکے ہیں ۔ چنانچہ پہلے افغانستان پھر عراق پر حملہ اور قبضہ کےبعد اب امریکہ اور اس کے حلیف ممالک ایران ، شام اور بعض دوسرے عرب ممالک پر نظریں جمائے ہوئے ہیں ۔ ساتھ ہی وہ پاکستان اور جنوبی مشرقی ایشیا کے ممالک سےایسے افراد کو پکڑنے  اور سزا دینے میں مصروف ہیں جو امریکہ کے خلاف دہشت گردی کر چکے ہیں یا کرسکتے ہیں ۔ امریکہ کے زیر اثر ، اور دہشت گردی کےخلاف جنگ میں اس کےشریک کا ر کے طور پر پاکستان ، سعودی عرب اور مصر جیسے ممالک میں حکومتیں  اپنے ملک کی اسلامی جماعتوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ سختی برت رہی ہیں اور دینی مدارس  کے سلسلہ میں ان حکومتوں کا رویہ بدل رہا ہے۔ ان باتوں کی وجہ سے دنیابھر میں مسلمان امریکہ کی طرف سے سخت اندیشہ ناک ہیں۔ ان کو ڈر ہے کہ جس طرح 11 ستمبر 2001 کےقابل مذمت مجرمانہ حملوں کی سزا دینے کی آڑ میں امریکہ میں فی الوقت حکمراں ٹولے نےاپنے پہلے سے طے کردہ ایجنڈے کے مطابق پہلے افغانستان پھر عراق پر حملے کیے اسی طرح وہ  پوری دنیا میں ان اسلامی  حلقوں کو ختم کردیناچاہتا ہے جن کو وہ اپنے مفادات کےلیے خطرہ سمجھتا ہے ۔ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں ان رجحانات کوبھی دبا دیناچاہتا ہے جو امریکی تسلط پسندی ( Hegemony) کو چیلنج کرتے ہوں اور خاص طور پر، امریکی اباحیت پسندی سے اپنے معاشرہ کو دور رکھنا چاہتے ہوں ۔ ان اندیشوں کی تائید میں مسلمان یہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ امریکہ کے ایماء پر مصر اور سعودی عرب جیسے ممالک میں دینی تعلیم کی درسی کتابوں پر نظرثانی کی  جارہی ہے او رائمہ مساجد اور جمعہ کا خطبہ دینے والوں کی تطہیر عمل میں لائی جارہی ہے۔

امریکہ کے ارادوں کے بارےمیں اندیشے ساری دنیا کے مسلمانوں کو ہیں مگر ہندوستانی مسلمان خاص طور پر پریشان ہیں۔ کیونکہ خود ہندوستان کے اندر جارحانہ ہندوتو کا پرچار کرنے والے بھی کچھ ایسے ہی ارادےرکھتےہیں ۔ یہ لوگ دینی مدارس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔مدارس کا سروے کرا رہے ہیں ، تبلیغی سرگرمیوں پر کڑی نگرانی رکھے ہوئے ہیں اور تبدیلی مذہب کے خلاف قانون لارہے ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اندیشہ ہے کہ جارحیت پسند ہندو تو دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی مہم کو اپنے مخصوص اسلام دشمن ایجنڈے کے تکمیل کے لیے استعمال کرے گی اور اس کام میں اسے اسرائیل اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کابھی تعاون حاصل رہے گا۔

ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ اس مقالہ میں ان اندیشوں کا معروضی تجزیہ کرسکیں  کیونکہ یہ بحث کافی طویل ہوسکتی ہے ۔ امریکہ اور اسلام یا امریکہ اور مسلمانان عالم کے باہمی تعلقات  کو صرف حالیہ واقعات کی روشنی میں نہیں  سمجھا جاسکتا ، نہ ہی ان تعلقات کو امریکہ کے موجودہ حکمراں ٹولہ کے عزائم کااسیر سمجھنا درست ہوگا۔ امریکہ اور اسلام یا امریکہ اور مسلمانان عالم کے باہمی تعامل کو سمجھنے کے لیے ہمیں مستقبل کے مختلف ممکنہ مناظر (Scenarios ) کو سامنے رکھنا ہوگا۔ یہ کام مستقل مقالوں بلکہ کتابوں کاطالب ہے۔ زیر نگاہ مقالہ میں ہمارا مرکز توجہ صرف یہ ہے کہ کیا امریکی تشدد کے جواب میں مسلمانوں کو تشدد کا راستہ اختیار کرنا مناسب ہے۔ باقی رہے مسئلہ کے دوسرے پہلو جن میں سے صرف چند کااوپر ذکر کیا جاسکا ہے تو اس سلسلہ میں بعض اچھی تحریریں میسر ہیں جن کامطالعہ مفید رہے گا۔ (1) (1؎  ڈاکٹر محمد فاروق خاں: امریکہ کاکردار، ماہنامہ اشراق ، لاہور۔ قسط اوّل جلد 15، شمارہ 3، مارچ 2003، صفحات 37۔61، قسط دوم ، جلد 15، شمارہ 4، اپریل 2003 ، صفحات 31۔55)

ہمارا موقف یہ ہے کہ موجودہ حالات میں امریکہ کے خلاف تشدد کااستعمال مسلمانوں کےلیے نہ تو جائز ہے نہ مفید بلکہ اس کےبرعکس اس سے خود اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا  ہے ۔ البتہ جب امریکہ کسی مسلمان ملک پر علی ناحق حملہ کرے جیسا کہ اس نےعراق پر کیا تو بے شک مسلمانوں  کواپنے ملک کےدفاع میں لڑنے کااختیار ہے مگر یہ طریقہ متعلقہ لوگ ہی اختیار کرسکتے ہیں ،او رانہی حدود کے اندر رہتے ہوئے کرسکتے ہیں ، جو دوبااقتدار ملکوں کےدرمیان ہونے والی جنگوں کے سلسلہ میں معروف ہیں، جن کا بیان متعدد بین الاقوامی ضوابطہ عرفی ( Conventions ) میں موجود ہے۔ کسی مسلمان ملک کے خلاف امریکی جارحیت کی بنیاد پر عام مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دیناکہ جہاں کسی امریکی شہری کو پاؤ  سےمارو اور دنیا میں جہاں بھی امریکی مفادات ، تنصیبات یا سفارت خانوں پر حملے کرسکتے ہو کرو، جیسا کہ بعض مسلمان گروہوں نے مبینہ طور پر کہہ رہا ہے ، خلاف اسلام ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ کاروائیاں ان حدود سے متجاوز ہیں جن کے اندر رہ کر ہی تشدد کا استعمال جائز ہوسکتا ہے بلکہ جیسا کہ ہم آئندہ مزید وضاحت کریں گے ان کا روائیوں سے اسلام اور مسلمانوں کو اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے جتناامریکہ کو پہنچا ہے یا پہنچ سکتا ہے ۔

تشدد سےمکمل اجتناب ضروری ہے

ہمارے خیال میں امریکہ کے خلاف مسلمانوں کو تشدد کاراستہ نہیں اختیار کرناچاہئے ۔ جن مسلمان افراد اور گروہوں نے یہ راستہ اختیار کر رکھا ہے ان کو ایسا کرنے سے روکنا چاہئے ۔ تشدد کا راستہ موجودہ حالات میں اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہے اس لیے یہ راستہ اختیار کرنےوالوں کےساتھ کسی طرح کاتعاون نہیں کرناچاہئے ۔ نہ ان کی مالی  امداد ہونی چاہیے ، نہ ان کو افرادی طاقت فراہم کی جانی چاہئے۔ تشدد سےباز رہنے      کے بارےمیں ہمارا موقف درج ذیل امور پر مبنی ہے۔

موجودہ حالت میں امریکہ کے خلاف مسلمانوں کا تشدد لازماً ایسی شکلیں اختیار کرلیتاہے جو حرام ہیں اور فساد فی الارض کی تعریف میں آتی ہیں ۔ ایسے طریقے کبھی بھی کسی بھی  مقصد کے لیے استعمال نہیں کیے جاسکتے ۔

امریکہ کے خلاف بعض مسلمان افراد یا گروہوں نے جو پر تشدد کاروائیاں  اب تک کی ہیں ان سے اسلام او رمسلمانوں کو بہت نقصان پہنچتا ہے ایک طرف تو میڈیا نے ان کا روائیوں کو اسلام کی تصویر بگاڑنے اور مسلمانوں کو بےرحم ، سنگ دل، انسانی شرف کے تصور سےمحروم ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جس کے نتیجہ میں عام انسانوں میں اسلام سے دوری بڑھی اور دوسری طرف حکمراں ان کارویوں کو بنیاد بنا کر امریکی  عوام اور ان کی نمائندہ مجالس کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر مسلمانوں کےخلاف جارحیت کے لیے اپنے ساتھ لینے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس طرح یہ پر تشدد کاروائیاں دراصل دائیں بازوں کے امریکی  عیسائیوں نیز صیہونی اور اسرائیلی لابی کے لیے دلیل فراہم کرنے کا کام کررہی ہیں ۔

مسلمانوں کے پاس ایسی طاقت نہیں ہے کہ وہ امریکی تشدد کامقابلہ تشدد کے ذریعہ کرسکیں ۔ تشدد کے میدان میں امریکہ سے لڑائی اپنی شکست کو دعوت دینا ہے ۔ مسلمانوں کی بھلائی اس میں ہے کہ اگر امریکہ سے ٹکراؤ ہونا ہی ہے ( جو اس مقالہ نگار کےنزدیک ضروری نہیں ہے) تو نظریات و افکار تہذیب و ثقافت کے میدان میں مقابلہ ہو نہ کہ جنگ کے میدان میں ۔

مزید براں یہ خیال بھی درست نہیں ہے کہ امریکہ کے خلاف تشدد کا استعمال سد باب ( Deterrence) کا کام کرے گا اور امریکہ کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کےمزید استعمال سے روکے گا۔ اب تک یہ تجربہ ایسا نہیں ہے اور طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں اتنا زیادہ ہے کہ یہ بات ناقابل تصور ہے کہ مسلمانوں کا امریکہ کے خلاف کیا جانے والا تشدد اتنازبردست اور با اثر ہو جو امریکہ جیسی طاقت کو مسلمانوں کے خلاف مزید تشدد سے روک دے۔

ہم مسلمانوں کو تشدد سے مکمل اجتناب کی دعوت اس لیے بھی دے رہے ہیں کہ تشدد کا طریقہ اختیار کرنے سے داخلی طور پر مسلم معاشرہ کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے ۔ان کی قیمتی وسائل اور اچھی افرادی طاقت تعلیم و تربیت ، میڈیا ، سیاست اور معاشی ترقی جیسے تعمیر ی کاموں میں لگنے کی بجائے خفیہ کاروائیوں ، اسلحہ حاصل کرنے اور حملہ کے منصوبے بنانے اور نافذ کرنے میں صرف ہورہی ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ جب کوئی فرد یا گروہ کسی ملک کا شہری ہونے کے ساتھ اس ملک یا کسی دوسرے ملک کے خلاف پر تشدد کاروائیوں کا اہتمام کرتا ہے تو یہ کام لازماً خفیہ انجام دینا پڑتا ہے اور اس میں قدم قدم پر قانون کی خلاف ورزی کرنا پڑتی ہے۔ ایک کھلے معاشرہ میں جیسا کہ ہندوستان ، امریکہ اور دوسرے جمہوری یانیم جمہوری ممالک میں پایاجاتاہے خفیہ اور خلاف قانون کاموں کے لیے ایک نئی قیادت ابھرتی ہے ۔ کسی ملک میں بھی مسلمانوں کی جو دینی اور سیاسی قیادت گزشتہ نصف صدی سے کام کررہی ہے وہ خفیہ خلاف قانون اسلحہ سازی،  اسلحہ حاصل کرنے ، اور پر تشدد کاروائیاں کرنے کرانے کاکام نہیں کرسکتی ۔ چنانچہ  ان کاموں میں ان لوگوں سے مدد لینا پڑتی ہے جو جانتےہیں کہ قانون کس طرح توڑا جاتاہے، اسلحے کس طرح اسمگل کیے جاتے ہیں ، فرضی ناموں اور جعلی پاسپورٹوں کے ساتھ کس طرح سفر کیا جاتا ہے، وغیرہ ...... جلد یا بدیر ان لوگوں کو بین الاقوامی مجرموں اور اسمگلنگ کے ماہرین کا تعاون بھی حاصل کرنا پڑتا ہے ۔ تشدد کی کوئی خفیہ کاروائی ان حدود کے اندر رہ کر نہیں کی  جاسکتی جن کا اسلام نے ہمیں پابند بنایا ہے، نہ یہ کاروائی ‘‘صالحین ’’ کے ذریعہ عمل میں آسکتی ہے۔

یہ داخلی خرابی بڑے دور رس نتائج  کی حامل ہے ۔ ہم اسےاپنے ملک ہندوستان کی نسبت سےبہت بری بات سمجھتے ہیں کہ ہندو جارحیت کے نبرد آزما ہونے کی خاطر ہم اپنی قیادت اپنے غیر اسلامی کردار رکھنےوالے عناصر کے سپرد کریں ۔ ہم چاہیں گے کہ اس کے برعکس ہندوستان کی غیر مسلم آبادی سے تعامل میں ہمارے بہترین لوگ آگےہوں جو اپنے قول و عمل دونوں سے اسلام کی نمائندگی کرنے والے ہوں یہاں تک کہ اگر اپنے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھائیں تو بھی اسلامی کردار کے ساتھ اٹھائیں ۔ علاوہ اس کے کہ ہم کو ایسا ہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے امر واقعہ بھی یہ ہے کہ فسادات میں جب مسلمان اخلاقی رویہ اختیار کرتے ہیں ، مثلاً بے گناہ، غیر متعلق غیر مسلم افراد اور گروہوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں تو ان کےساتھ بھی ایسا ہی کرنے والے غیر مسلم اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جو کمزور مسلمانوں کو پناہ دیتے ہیں اور جارحیت  پر آمادہ اپنے مذہب کے لوگوں کو روکتے ہیں ۔ موجودہ ہندوستان  ہو جہاں ہمیں  جارحانہ ہندوتو سے سابقہ                ہے یا موجودہ  عالمی صورت حال جس میں ہمیں صہیونی ۔ دائیں بازو کے عیسائی اور امریکی تسلط پسندی (Hegemony) کے قائل ایک ٹولہ         کی قیادت میں امریکی جارحیت سےواسطہ ہے،دونوں میدانوں میں ہمارے اصل ہتھیار ہمارا اخلاق و کردار اور وہ نظریات و اقدار ہیں جن کے ہم امین ہیں، جنہیں پوری انسانیت تک پہنچانے پر ہم مامور ہیں ۔ جب ہم کسی وقتی دباؤ کے تحت تشدد کا راستہ اختیار کرلیتے  ہیں تو ہماری اخلاقی حیثیت مجروح ہوتی ہے ۔ اور ہمیں اسلام کے انسانی مشن کو کنارے رکھ کر اس سے مغایر کاموں کو اپنا نا ہوتاہے ۔

(یہ مضمون اردو ماہنامہ زندگی میں مارچ ۲۰۰۴ میں شائع ہوچکاہے اور اب ان کی کتاب اکیسویں صدی میں اسلام، مسلمان اور اسلامی تحریک میں شامل ہے۔)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ایک ممتاز ہندوستانی عالم اور ماہر اسلامی معیشت ہیں۔ انہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور کنگ عبد العزیز یونیورسٹی، جدہ میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں اور انہیں کنگ فیصل ایوارڈ سے نوازا جا چکاہے۔انکا ای میل پتہ ہے:mnsiddiqi@hotmail.com

URL for English article Part 1:

 https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-1/d/99731

URL for English article Part 2:

https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-2/d/99845

URL for English article Part 3:

https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-3/d/99861URL for Urdu article Part 1:

https://newageislam.com/urdu-section/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-1/d/99860URL for this article Part 2:

https://newageislam.com/urdu-section/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-2/d/99871

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/violence,-islam-islamic-movement-terrorism-part-3/d/99882

 

Loading..

Loading..