ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی
مکالمہ ،گفتگواورڈائلاگ علمی سطخ پر بحث وگفتگوکا موضوع توتازہ تازہ بنے ہیں تاہم ڈائلاگ عملی سطح پر انسانوں کے درمیان ہمیشہ ہوتارہاہے ۔ادیان ومذاہب اورمختلف معاشروں،قوموں،قبیلوں اورمختلف تہذیبوں میں اس کے نقوش بآسانی مل جاتے ہیں(1)تاریخ میں یہ مکالمے نظریات کی بجائے عملی شکل میں زیادہ موجودرہے ہیں ۔مثال کے طورپردومذہبوں اوردوالگ تہذیبوں کے نمائندہ بادشاہوں کے درمیان سفارتی لین دین یامذہبی وفودکا آنا جانا اور بعض اوقات دومختلف حریفوں کے نمائندوں کا کچھ مسائل میں مناظرہ کرنابھی مکالمہ اور گفتگوکی ایک شکل تھی ۔یہ بات اورہے کہ مناظرہ کے نتائج مثبت کم اورمنفی زیادہ ہوتے ہیں۔
چونکہ گفتگوومکالمہ انسانوں کی عملی ضرورت ہے اس لیے وہ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں موجودہ رہے ہیں ۔اس لیے یہ سمجھناسراسرنادانی ہوگی کہ یہ کوئی نئی چیز ہے جس کومفروضہ اسلام دشمنوں نے شروع کیاہے۔آج جب برصغیرکے اکثر مسلمان علماء، بعض استثناء ات کوچھوڑکر،اس پر بات کاآغاز کرتے ہیں توان کی شروعات ہی یہ ہوتی ہے کہ موجودہ دورمیں گفتگویاڈائلاگ کی ابتداویٹیکن سٹی سے ہوئی ہے لہٰذااس کے محرکات قابل اطمینان نہیں۔ اورتان اس پر آکرٹوٹتی ہے کہ ڈائلاگ دراصل اسلام اورمسلمانوں کے خلاف یہودی سازشوں کا حصہ ہے ۔بعض حضرات یہ خدشہ بھی ظاہرکرتے ہیں کہ مکالمہ اورڈائلاگ سے اصل میں وحدت ادیان کے تصورکوتقویت دی جارہی ہے۔
(2)حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مذہبی حلقہ سے پیش کی جانی والی یہ ساری باتیں محض ہوائی ہیں ۔ہمیں مفروضات اورتوہمات میں جینے کی عادت ہے اورقوم کی اس عادت کوپختہ کرنے میں ہماری بوسیدہ ،اورماضی پرستی پر مبنی مذہبی فکرسب سے بڑاکرداراداکرتی ہے۔تاہم یہ خوش آیندہے کہ دیرسے ہی سہی مگرمذہبی حلقوں میں بھی اس کی ضرورت کا ادراک ہورہاہے ۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ حال ہی میں اسلامی فقہ اکیڈمی ا نڈیانے ایسسکواورشعبہ عربی دہلی یونیورسٹی کے تعاون سے ڈائلاگ کی شرعی بنیادوں پر ایک دورزہ عالمی سیمینارمنعقدکیاتھا۔
(3)اس کے علاوہ سعودیہ عرب سرکاری طورپر اس پروجیکٹ کوآگے بڑھارہاہے ۔جدہ اورکویت میں بھی الوسطیہ کے نام سے مراکزقائم ہوئے ہیں۔اورشاہ عبداللہ نے کئی عالمی کانفرنسیں بھی اس موضوع پر منعقدکرائی ہیں۔
صحیح با ت یہ ہے کہ مکالمہ اورگفتگوکا تعلق مذہب وعقیدہ یانظریات سے خواہ مخواہ جوڑاجاتاہے ،سیدھی سی بات یہ ہے کہ آج کی دنیامیں ہرفرداورہرمذہبی گروہ کوعقیدہ کی آزادی اوراظہارخیال کی آزادی ہے اب جونظریہ سائنٹیفک ہوگاوہ اپنے آپ کوخودمنوالے گا۔مکالمہ اور گفتگوکا تعلق اصل میں سماجی ضرورت سے ہے۔وہ انسانوں کی فطری اورسماجی ضرورت ہے ۔اب اس بحث میں پڑنے کی قطعاضرورت ہی نہیں کہ کس نے ڈائلاگ کوشروع کیا اور کیوں شروع کیا۔بعض عرب اسکالروں کے نزدیک تومکالمہ نہ صرف ہماری ضرورت ہے بلکہ اہل اسلام کواس کے لیے پہل کرنی چاہیے کیونکہ اسلام ایک دعوتی اورتبلیغی دین ہونے کے ناطے نہ صرف اس کامکلف ہے بلکہ وہ پُرزور انداز میں اس پر ابھارتاہے اوراس کے لیے دوسروں کے ’’ تعارف ‘‘ کو ایک مقصدبتاتاہے۔مرادیہ ہے کہ قرآن کا کہناہے کہ:اے لوگوہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیااورتمہیں کنبوں اورقبیلوں کی شکل دی تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو(الحجرات :13 )
(4)دوسرے اسلام مسلمان کوزمان ومکان میں مقیدنہیں کرتابلکہ اس کاپیغام آفاقی ہے اوروہ مسلمان کو’ایک یونیورسل شہری ‘‘قراردیتاہے ۔پوری زمین کواس کے لیے سجدہ گاہ بنایاگیا اورپوری زمین کواس کے لیے مسخرکردیاگیاہے۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کورحمۃ للعالمین اوراللہ تعالی ٰکورب العالمین بتایاگیاہے ۔یعنی اللہ سارے جہانوں اورسارے انسانوں اورساری مخلوقات کا رب ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔
(5) ان عرب اسکالروں نے کلمۃ سواء (مشترک کلمہ )سے استدلال کیاہے جس کی بنیادپر قرآن نے اہل کتاب کومشترک امورکی طرف بلایاہے اوران کوایسامحورقراردیاہے جن پر ان سے بات چیت اورگفتگوہوسکتی ہے مطلب یہ ہے کہ توحیداہل اسلام اوراہل کتاب کے درمیان ایک قدرمشترک ہے لہذااس بنیادپر وہ باہم مل بیٹھ کربہت سے مسائل میں گفتگوکرسکتے ہیں۔
( 6) غیرمسلم انسانیت سے مسلمانوں کاتعامل کیاہو؟موجودہ زمانہ میں اس سوال کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے کیونکہ گلوبلائزیشن کے اس دورمیں یہ کسی کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ اپنے گھیٹو( Ghetto)بناکرالگ تھلگ رہ لے۔مسلمان علماء جن فقہی کتابوں کی طرف اس سلسلہ میں رجوع کرتے ہیں وہ اس زمانہ میں لکھی گئی ہیں جس میں دنیاکے بڑے حصہ پر مسلمانوں کا اقتدارتھا۔’’اب صورت حال بالکل مختلف ہے اس مقصدکے تحت اب اس سے مختلف اقدامات کی ضرورت ہے جوگزشتہ زمانہ میں تجویز کیے گئے تھے‘‘۔
(7) ڈائلاگ اور گفتگوعام انسانوں کی عملی ضرورت ہے ،اس کی وضاحت عصری تناظرمیں کرنے کے لیے ہم عملی مثالوں کا سہارالیتے ہیں۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ انتہاپسندعناصرمسلمانوں میں بھی ہیں،عیسائیوں،یہودیوں،ہندووں اوربودھوں میں بھی ،یہی بات دوسرے ادیان ومذاہب کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سبھی مذاہب میں اکثریت امن پسندوں کی ہے ۔اب انتہاپسندوں کو سائڈ لائن کرنے اورغیرمؤثرکرنے کے لیے مختلف مذاہب کی امن پسنداکثریت کوباہم مل کردہشت گردی کے اس خطرہ کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔
مثال کے طورپر فلسطین اوربیت المقدس کا مسئلہ پون صدی سے دنیاکے لیے ناسوربناہواہے ۔خاص کربیت المقدس دنیاکے تین بڑے مذاہب اسلام ،عیسائیت اوریہودیت کے لیے مقدس ہے ۔اب اس مسئلہ کوحل کرنے کے لیے تینوں مذاہب کے لوگوں کومل بیٹھ کراس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ اگرفلسطینی ریاست بن بھی جاتی ہے پھربھی بیت المقدس کا مسئلہ اٹکاہواہی رہے گا۔اس لیے اس مسئلہ کا غیرسیاسی حل ہی مؤثرہوسکتاہے جس تک پہنچنے کے لیے تینوں مذاہب کے نمائندوں کوinitiative لیناہوگااورمضبوط قدم اٹھانے ہوں گے ۔جس کے لیے مذاکرات کی میز ہی بہترین آپشن ہوسکتاہے ۔جس کے ذریعہ ایک بندگلی میں پہنچاہوابحران حل کیاجاسکتاہے ۔
مغرب میں رہنے والے مسلمانوں نے عیسائیوں اوریہودیوں کے ساتھ مل کرمقامی سطح کے چیلنجوں کا مقابلہ کیاہے اورکررہے ہیں۔مغرب کے مسلمانوں کواپنے اپنے معاشروں سے ہم آہنگ ہونے اوراپنے تشخص کوبرقراررکھنے کے لیے یہ مذاکرات بہترین پلیٹ فارم ثابت ہورہے ہیں اوروہ ان سے کام لے رہے ہیں۔دنیاکے عام لوگوں کوتباہی کے عام ہتھیاروں کے پھیلاؤ،گلوبل وارمنگ ، تشدداوران جیسی اوردوسری برائیوں اوربحرانوں کا سامناکرنے کے لیے باہمی مذاکرات کا سہارالیناہوگا۔عالم اسلام کے سامنے فلسطین ، چیچنیااوراراکان کے مسئلے ہیں ،راقم کی ناقص رائے میں ان بحرانوں کا کوئی فوجی یاسیاسی حل ممکن نہیں۔
ان کا حل بھی متعلقہ فریق مذاکرات کی میز پربیٹھ کرہی نکال سکتے ہیں۔جیساکہ حال ہی میں فلپائن کی حکومت اورمورومسلمانوں نے مل کر نصف صدی سے زائدسے چلے آرہے مسلم اکثریتی علاقہ مورولینڈ کا حل باہمی مذاکرات سے نکالا ہے ۔ جس طرح ویٹیکن سے انسانوں کی بہبوداورفلاح عام کی آوازیں اٹھتی ہیں اورمختلف انسانی مسائل پر وہ اپناموقف پیش کرتاہے سوال یہ ہے کہ کوئی مسلمان امام کعبہ یابڑامذہبی رہنماکیوں نہیں پیش کرتا؟موجودہ زمانہ ایساہے کہ آج نہ کوئی اپنے خول میں دبک کربیٹھ سکتاہے اورنہ دوسروں سے کٹ کراورالگ تھلگ زندگی گزارسکتاہے ۔سوال کیاجاسکتاہے کہ دنیابھرمیں مسلمان کیوں بس اپنے ہی مسئلوں میں الجھے ہوئے ہیں وہ عام انسانیت کوپیش آمدہ مسائل پر کبھی کیوں نہیں بولتے ؟
لوگوں کے ذہن میں یہ غلط بات بیٹھ گئی ہے کہ کہ دہشت گردی ناانصافی اورسماجی نابرابری کا ردعمل ہے ۔یہ بات درست توہے مگرآدھاسچ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی غلط تعبیربھی انتہاء پسندی کا اہم سبب ہے ،کہ مذہبی نظریاتی انتہاپسندی امکانی( potentially)دہثت گردی ہے جس کوآپ بآسانی عملی دہشت گردی میں بدل سکتے ہیں۔مثال کے طورپر پاکستان کا کیس لے لیں جہاں دہائیوں سے سنی شیعوں کا اورشیعہ سنیوں کا گلاکاٹ رہے ہیں۔شیعہ صحابہ رضی اللہ عنہ پرتبراپڑھتے ہیں ابوبکرعمراورعائشہ رضی اللہ عنہم کوبرابھلاکہتے ہیں۔یازبان سے نہ کہتے ہوں مگران کے لٹریچرمیں یہ چیز موجودہے اورکھل کرموجودہے جومجالس عزاء میں کسی نہ کسی طورپرآہی جاتی ہے ۔
ردعمل میں سنی شیعوں کی تکفیرکرتے ہیں ان کومباح الدم قراردے ڈالتے ہیں اوران کے قبرستانوں،امام باڑوں،مجالس اور بارگاہوں اور جلوسوں کو بموں کانشانہ بنادیتے ہیں اوراس کوثواب کا کام سمجھتے ہیں۔اس کے جواب میں شیعہ سنیوں پر حملے کرتے ہیں اوریہ سلسلہ بلاروک ٹوک جاری رہتاہے۔بظاہرایسی انتہاپسندتنظیموں کوسرکارنے کالعدم قراردیاہواہے مگردونوں طرف کے عوام میں ان کا سپورٹ بیس ہے اوربہت مضبوط ہے ۔اوراس کے دباؤ میں وہ علماء بھی جواس چیزکوغلط سمجھتے ہیں، مجبورہیں کہ ان کی ہاں میں ہاں ملائیں ۔دونوں ہی فرقوں میں منہ زورنوجوان اورجذباتی لفاظ علماء اورخطیبوں کی کھیپ کی کھیپ ہے جن کواپنے حلقے کے اکابرعلماء کی تائیدوحمایت حاصل ہے۔ اوراس صورت حال کا کوئی سیاسی ،فوجی یااورکوئی حل ممکن بھی نہیں ۔یہاں تک کہ اگروہاںso called اسلام پسندبھی اقتدارمیں آجائیں توبھی مسئلہ جوں کا توں ہی باقی رہے گا۔
میری نظرمیں اس کاحل صرف مذہبی ہے اوراس میں بھی دیرلگے گی۔ اوروہ یہ ہے کہ دونوں طرف کے علماء باہم گفتگوکریں اورڈائلاگ کے ذریعہ مسئلہ کا کوئی حل نکالیں۔یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدودنہیں تاہم وہاں صورت حال کچھ زیادہ ہی بگڑی ہوئی ہے اورسامنے کی ہے اس لیے اس کی مثال پیش کی گئی ہے ۔ورنہ یہی بات ایران ،عراق اورشام کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے ۔ جہاں فرقہ وارنہ تشدداب تک لاکھوں انسانوں کی بلی لے چکاہے ۔ اور یہ عفریت روکے نہیں رک رہاہے بلکہ شام میں تواب اس کوایک زبردست پناہ گاہ اورانڈے بچے دینے کے لیے ایک تیارماحول مل گیاہے ۔ہم اصل حقائق کا سامناکرنے کے بجائے ریت میں منھ چھپانے اورمغربی طاقتوں اوریہودی سازشوں کے سرساری ذمہ داری ڈال کرپلہ جھاڑنے کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔اگرکہیں کوئی سازش ہے بھی تووہ بھی اسی لیے کامیاب ہوجاتی ہے کہ ہمارے معاشرہ میں پہلے ہی اس کے لیے امکان موجودہے۔
اگرہم انسانی مسائل کے حل کے لیے گفتگواورڈائلاگ کوایک بہترمتبادل مان لیں اور اس سے استفادہ کرنے لگیں تویقین سے یہ تونہیں کہاجاسکتاہے کہ اس سے سارے مسئلہ حل ہوجائیں گے اورسارے دلدردورہوجائیں گے مگراتناتوتیقن سے ضرورکہاجاسکتاہے کہ موجودہ انتہاپسندی اوردہشت گردی کی شدت میں ضرور اس سے کمی آجائے گی ۔دنیابہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے ۔آج جنگ ،فوجی مداخلت یاتشددسب کاؤنٹرپروڈکٹ(الٹانتیجہ دینے والے )ثابت ہورہے ہیں ۔امریکہ جیسی بڑی اورمہیب طاقت کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ فوجی مداخلت سے اورجنگ سے سب کومفتوح کرلے اورمسئلے حل کرلے ۔اگرایساہوسکتاتونہ نائن الیون ہوتااورنہ بوسٹن کا تازہ حملہ ۔
اس لیے آج سب مجبورہیں کہ صورت حال کا ازسرنوجائزہ لیں ۔‘‘آج سے پچاس پچھترسال بعدکی دنیااُس سے بہت مختلف ہوگی جوآج سے پچاس پچھترسال پہلے اُس زمانہ میں تھی جب موجودہ اسلامی تحریکوں کی داغ بیل پڑی تھی ،آنے والے حالات کی تین خصوصیات خاص طورپر قابل توجہ ہیں پہلی یہ کہ اُس دنیامیں امریکہ اوراس کے حلیفوں کی چوھدراہٹ ختم ہوچکی ہوگی ۔۔۔اقتصادی طور پر وہ دوسرے یاتیسرے مقام پر پہنچ چکے ہونے کے سبب کسی فیصلہ کن عالمی رول کے قابل نہ رہ جائے گا۔دوسری خصوصیت آنے والی دنیاکی یہ ہوگی کہ امریکی تسلط کے خاتمہ کے ساتھ عالم اسلام سے فوجی حکمرانوں،ڈکٹیٹروں اورپشتینی بادشاہوں کا بوریابستربھی بندھ چکاہوگا۔۔۔۔تیسری اہم خصوصیت بساط عالم پر چین اورہندوستان کی معیشتوں کی بالادستی ہوگی ۔
(8) اس آنے والی صورت حال میں بھی وہی پٹی پٹائی ہوئی راہ اختیارکرنااورمسائل کے حل کے سلسلہ میں قدیم سانچوں پر ہی انحصارکرنا خود کشی کے مترادف ہوگاجس میں ہمارامذہبی طبقہ عام طورپر مبتلاہے۔اس نئی صورت حال کے مقابلہ کے لیے نئی فقہ یافقہِ اقلیات کی شدید ضرورت ہے ۔اسی طرح صدیوں سے بندذہن کوکھولنے اوراجتہادکاراستہ پھرسے اپنانے کی ضرورت ہوگی ۔آج یہ ضرورت ہے کہ جدید ترکی کے مذہبی رہنماشیخ سعیدنورسی رحمۃ اللہ علیہ کے افکارسے فائدہ اٹھایاجائے جنہوں نے ایمان کوسلامت رکھنے کے ساتھ ساتھ جدیدیت کواختیارکرنے کی دعوت دی ۔ ضرورت ہے کہ یوسف القرضاوی کے تفقہ اورمنہجِ فقہ کواختیارکیاجائے،حسن ترابی کی روشن خیالی سے کام لینے،طارق رمضان کے مشرق ومغرب کے درمیان پل بننے اوراعتدال ووسطیت کا راستہ اختیارکرنے اورمولاناوحیدالدین خاں کی انسانی اوردعوتی اپروچ اختیارکرنے کی کوشش کی جائے ۔کیونکہ بدلتے ہوئے حالات میں ان اسکالروں ا و ر مفکرین کے فکروخیال سے خوشہ چینی ایک ناگزیرعمل ہوگی ورنہ ہماراحال اس اعرابی کا ہوگاجوجاناتوچاہتاہے کسی اورمنزل کی طرف اورراستہ اس نے پکڑرکھاہے کسی اورمنزل کوجانے والا۔
مکالمہ میں یہ فرض کرنابالکل غیرضروری ہے کہ سبھی مذاہب سچے ہیں یامنزل ایک ہے راستے الگ الگ ہیں ۔درحقیقت یہ الفاظ صرف کہنے کی حدتک خوشگوارہیں ورنہ عملی دنیامیں کوئی ان کونہیں مانتااورمان بھی نہیں سکتاکیونکہ مذہب اعتقاد کامعاملہ ہوتاہے جوظاہرہے کہ کسی ایک مذہب کے بارے میں ہی ہوسکتاہے ۔اس لیے عملی بات یہ ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے مذہب وعقیدہ کوصحیح مانتے ہوئے بھی دوسروں کے مذاہب ،دوسروں کی کتابوں اور دوسروں کی مذہبی شخصیات کا احترام کریں ۔ایساممکن ہے کیونکہ اسلام نے اس کی تعلیم بھی دی ہے ۔چنانچہ فرمایا: ولاتسبواالذین یدعون من دون اللہ فیسبواللہ عدوابغیرعلم، ترجمہ:وہ اللہ کوچھوڑکرجن کوپکارتے ہیں تم لوگ ان کے لیے نازیباالفاظ استعمال نہ کروکہ وہ لوگ حدسے تجاوزکرکے بے علمی کی وجہ سے خوداللہ کے لیے نازیباالفاظ استعمال کرنے لگیں
(9) پھرآسمانی مذاہب کے سلسلہ میں تواسلام ایک inclusiveدین ہے جومسلمان موسیٰ علیہ السلام اورعیسیٰ علیہ السلام پرایمان نہ رکھتاہووہ مسلمان ہی نہیں ہوتا۔یوں اسلام کی ایمانیات میں اسلام ،عیسائیت اوریہودیت تواپنے آپ جمع ہوجاتے ہیں۔تاریخ میں بھی علمی ہویاسیاسی مسلمانوں نے جنگیں یہودیوں اورعیسائیوں سے خوب لڑی ہیں مگرکبھی بھی کسی عیسائی یایہودی شخصیت اورمقتداکی انہوں نے توہین نہیں کی کیونکہ ان کا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ہاں عیسائیوں اوریہودیوں کی جانب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کے کیس تاریخ میں بھی ملتے ہیں اورآج بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔جن کے بارے میں ہمارے لیے صحیح رویہ ان پر پُرتشدداحتجاج کے بجائے اعراض کرناہی ہے ۔
ایران کے مجوس کے ساتھ اسلام کا عملی تعامل اہل کتاب کا سا رہا ۔ اور خودہندوؤں کے بارے میں ایک سے زیادہ علماء واسکالروں کی رائے یہ موجودہے کہ ان کوبھی شبہ اہل الکتاب کا درجہ دیاجائے گا۔جیساکہ محمدبن قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے عملی نظیراس کی قائم کی جس سے کسی نے اختلاف نہیں کیا۔بعض محققین کے نزدیک بعدکے زمانے میں اکبرنے بھی اپنے دربارمیں یہی ڈائلاگ کی روش اختیارکی تھی ،چونکہ وہ خودپڑھالکھانہ تھا،اوراس کے مذہبی مشیرین نے اس کی تحریک کوکہیں کاکہیں پہنچادیااس لیے تاریخ میں اس کی صحیح نوعیت متعین کرنے میں ہمیشہ مختلف آراء رہی ہیں۔مگرمغلیہ دورکی عمومی فضاء پر اکبرکی خیرسگالی اورمذہبی رواداری اورقومی یک جہتی کی ذہنیت کا غلبہ رہاہے ۔
(10) مسلمانان عالم کی اپنی موجودہ صورت حال تو خوداس کا مطالبہ کرتی ہے کہ بین مسالک اوربین جماعتی ڈائلاگ اورگفتگوکی ضرورت ان کودوسروں سے کہیں زیادہ ہے۔اگران کے ہاں شیعہ سینی ،اوردیوبندی بریلوی ،تحریکی غیرتحریکی ،اہل تصوف اوراہل حدیث کے مابین بامعنی گفتگواورڈائلاگ کا سلسلہ شروع نہیں ہوتاتوجیساکہ دنیاکے مختلف ملکوں اورخطوں میں گزشتہ دوسوسالوں سے ان کی اکثرجانی قربانیاں اورمسلح جدوجہدناکام ہوتی آئی ہے یہ سلسلہ جاری رہے گااورعملا یہی ہوگاکہ آج دنیابھرکے 95 فیصدپناہ گزیں مسلمان ہیں کل وہ سوفیصدی ہوں گے کیونکہ وہ مختلف قسم کے تشدد کا شکارہیں اوریہ تشددکرنے والے انہیں کے ممالک یاانہیں کے گروپ ہیں ۔کہیں یہ تشددمسلکی ہے کہیں ریاستی کہیں لسانی اورکہیں نسلی ۔عرب لیگ ،اوآئی سی اوررابطہ عالم اسلامی جیسی تنظیمیں اورادارے نہ آج اس صورت حال کا کوئی مداواکرپارہے ہیں اور نہ کل کر پائیں گے۔مسلمانوں کوآج بھی پناہ مغرب میں مل رہی ہے کل بھی یہی عالم ہوگا۔ ڈائلاگ اورگفتگوکے بارے میں صحیح اسلامی موقف وہ ہے جس کی نمائندگی پروفیسرمحمدنجات اللہ صدیقی کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں:
’’درحقیقت اس بارے میں اسلام کا موقف دیگرمذہبی روایات کے موقف سے بہت مختلف نہیں ہے۔چنانچہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم بن سکتاہے ۔مختلف مذاہب کے پیروایک ایساایجنڈامرتب کرسکتے ہیں جوانسانیت کوبربادی کی طرف بڑھنے سے روکے ۔اس ایجنڈاکوہ لوگ بھی قبول کرسکتے ہیں جوانسانیت کے بہی خواہ ہیں مگرمذہب سے کوئی واسطہ نہیں رکھناچاہتے ۔تصادم اورباہمی آویزش سے پاک ،ہرایک کے لیے جگہ رکھنے والایہ پلیٹ فارم نہ صرف تہذیبوں کے درمیان گفت وشنیدکے لیے مناسب نقطۂ ارتکازبن سکتاہے بلکہ یہ امن وخوش حالی کے ایک نئے عہدکاپیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتاہے جو دنیا کو ظلم وزیادتی اورطرح طرح کی محرومیوں سے نجات دلاسکے ‘‘۔
(11) حواشی : ۱۔ڈاکٹرزکی المیلادکامقالہ،تطوراستراتیجیۃالحوار فی الحضارۃ الاسلامیہ قدیماوحدیثا۔(یعنی اسلامی تہذیب میں قدیم وجدیدمیں ڈائلاگ کے طریقہ کارمیں آتی تبدیلیاں)۔اس کا اردوترجمہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز ذاکرنگر نئی دہلی سے بھی شائع ہوچکاہے ۔
2۔ملاحظہ ہومولاناسیدجلال الدین عمری ،تجلیات قرآن ،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،فروری 2013ص199
3۔اپریل 2013کی 8،9تاریخ کویہ سیمنیارہوا،مگراس سے بھی اہم جمعیۃ علماء ہندکی وہ کوشش تھی جس میں بابری مسجدسمیت کئی ایشوزپر وشوہندپریشدسے اس نے گفتگوکی تھی ، اس وقت اس کوشش پر مسلم حلقوں کی طرف سے تنقیدیں ہوئیں اوربوجوہ اس کوشش کودوبارہ دہرایانہیں جاسکاحالانکہ اس کے فائدے مستقبل میں ظاہرہوتے۔اس سے قبل سرکاری وغیرسرکاری طورپر مسلم پرسنل لابورڈاوردوسری مسلم تنظیموں کے ساتھ بابری مسجدکے معاملہ پر انتہاپسندہندوتنظیموں کے مذاکرات ناکام ہوئے ۔بابری مسجدکے بعدیہ سلسلہ بند ہو گیا،حالانکہ کئی مسائل ایسے ہیں جن پر مذاکرات کا یہ سلسلہ جاری رہ سکتاتھا۔اوراگرجاری رہتاتواس کے اپنے فائدے ہوتے ۔
4۔ملاحظہ ہوڈاکٹرہشیم الکیلانی کا مقالہ بعنوان الحضارات صراع ام حوار(تہذیبوں کے مابین کشمکش یاڈائلاگ)ص45،اس مقالہ میں انہوں نے بہت تفصیل سے سموئل ہنٹگٹن،فوکویاما،ٹائن بی اورراجرگارودی کے خیالات کا جائزہ لیاہے ۔اس مقالہ کااردوترجمہ بھی آئی اوایس نے شائع کردیاہے۔
5۔قرآن ،الانبیاء :107
6۔ملاحظہ ہوڈاکٹرہشیم الکیلانی کا مقالہ بعنوان الحضارات صراع ام حوار(تہذیبوں کے مابین کشمکش یاڈائلاگ)ص45
7۔مقاصدشریعت ،پروفیسرنجات اللہ صدیقی شائع کردہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزمئی 2009ص 50
8۔ پروفیسرمحمدنجات اللہ صدیقی ،مقاصدشریعت شائع کردہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزمئی 2009ص322
9۔قرآن ،الانعام :108
10۔اسرارعالم،سرسیدکی بصیرت،دارالعلم نئی دہلی 2013ص99
11۔پروفیسرمحمدنجات اللہ صدیقی ،اکیسویں صدی میں اسلام،مسلمان اورتحریک اسلامی ،جولائی 2005ص111
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*سب ایڈیٹرافکارملی ،مصنف ،مترجم اورڈائرکٹرفاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیزC-303/3 شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی 25
ای میل mohammad.ghitreef@gmail.com
ghitreef1@yahoo.com
(یہ مقالہ انڈیامیں انٹرفیتھ ڈائلاگ کے لیے سرگرم تنظیم ’’ملاپ ‘‘کے زیراہتمام اسی موضوع پریکم جون 2013 کوانڈیااسلامک سنٹرنئی دہلی میں منعقدہ ایک سیمنارمیں پیش کیاگیا)
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/interfaith-dialogue-need-hour-/d/12217