ڈاکٹر مرضیہ عارف
27 مئی ، 2013
ایک زمانہ تھا جب معاشرہ میں لڑکیوں کی حیثیت منقولہ جائیداد سے زیادہ نہیں تھی ۔ اس کی مثال قدیم متمدن رو م میں جاری شادی کے طریقہ سے سمجھی جاسکتی ہے وہاں شادی کے وقت مرد اپنے لیے لڑکی کو عام اشیاء کی طرح خرید کر لاتا اور اس کا طریقہ یہ تھا پانچ گواہ کے ساتھ وہ ایک ترازو لے کر بیٹھ جاتا او رلڑکی کے بارے میں اعلان کرتا یہ میری ملک ہے ، میں نے اس کو ترازو اور سکہ کے ذریعہ خریدا ہے ۔ اس تقریب کے بعد لڑکی اس کی زر خرید جائیداد تصور کی جاتی، وہ کسی عوامی عہدہ پر نہیں رہ سکتی تھی، نہ اسے سماج میں گواہ بننے اور و لی مقرر کرنے کا حق حاصل تھا ۔برطانیہ میں تو ماضی قریب تک لڑکی شادی ہونے کےبعد اپنی ہستی کھودیتی تھی، قانون کے مطابق وہ کسی جائیداد کی مالک نہیں بن سکتی تھی ، یہاں تک کہ بیوی کی کمائی اور تنخواہ بھی خاو ند کی ہوجاتی تھی ، قانونی نظریہ یہ تھا کہ شادی کے بعد عورت کی اپنی کوئی شخصیت نہیں رہتی بلکہ خاوند میں مد غم ہوجاتی ہے ، اسی لئے آج بھی برطانیہ میں یہ رواج ہے کہ شادی کے بعد بیوی خاوند کا نام اپنا لیتی ہے جیسے مسز ابراہم، مسنر بار کلے اور مسنر انتھونی وغیرہ۔
برطا نیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس آکسفورڈ کے اسلامی سینٹر میں تقرر کرتے ہوئے اس کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ‘‘ چند دہائی قبل تک میری دادی کو بھی جو حقوق حاصل نہیں تھے، اسلام چو دہ سو سال پہلے وہ تمام حقوق عورتوں کو عطا کر چکا ہے’’۔
مغربی ممالک میں زمانہ قدیم سے عورت زبو ں حالی او رپائمالی کا شکار رہی ہے اسے تیسرے درجہ سے بھی کمتر سمجھا جاتا تھا، ایسا کھلونا جس سے جب جی چاہا کھیلا اور دل بھر گیا تو پھینک دیا، اپنا حق مانگنا تو دور، اپنے اوپر ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی اسے اجازت نہیں تھی۔ اگر یوروپ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہاں کے معاشرہ میں عورت کو کوئی مقام و مرتبہ حاصل نہ تھا ، مسیحی کلیسا نے تو عورت کو گناہِ آدم کا مجرم قرار دے کر عزت و احترام کا مقام دینے سے انکار کر دیا تھا، حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام نے شادی نہیں کی اس لئے عیسائی معاشرہ میں عائلی اسوہ موجود نہیں ہے تو رات میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ملتی لہٰذا مسیحیت عورتوں کے تعلق سے کلیسا ئی رویہ کے تابع رہی ہے، یہاں تک کہ کلیسا کے ذمہ داروں کے لیے تجرد کو لازمی سمجھا گیا، چنانچہ کلیسا میں مرد اور عورت دونوں ایک غیر فطری مجرد زندگی گزارنے لگے ، جس سے سنگین مسائل پیدا ہوئے ان کی خانقا ہوں میں جنسی بے راہ روی اتنی بڑھی کہ اس کے واقعات ہر خاص و عام کی زبان پر آگئے، وقت کے ساتھ کلیسا میں بھی تبدیلیاں آئیں لیکن مغربی معاشرہ میں آج بھی عورت صرف ایک جنسی کھلونا ہے، عورت کی آزادی کے نام نہاد نعرو ں کے ساتھ اسےنائٹ کلب، شراب خانے ، فلم اور ٹی وی ہر جگہ نیم عریاں بلکہ برہنہ کرکے پیش کیا جارہا ہے۔
یہی حال ہندوستان کا رہا کہ یہاں صنفِ نازک مرد کے مقابلہ میں نہایت ذلیل و خوار تھی، مرد خدا تھا، معبو دتھا، آقا تھا اور عورت محض ایک داسی ، جس کا اپنا کوئی وجود تھا، نہ رائے اور نہ پسند، ساری زندگی وہ مرد کی خدمت کرتی اور اس کے مرنے کے بعد، اسی کےساتھ زندہ جلا دی جاتی جسے ‘‘ ستی’’ کی رسم کہتے تھے ،بیوہ کی شادی کا تصور تو دور اسے زندگی بھر ہر آسائش و رنگینی کو اپنے اوپر حرام کرنا پڑتا بلکہ بیوگی کے بعد اس کا سر مونڈھ دیا جاتا تاکہ وہ بد صورت نظر آئے ، اسے اپنی مذہبی کتابیں پڑھنے یا ہاتھ لگانے کی اجازت بھی نہ تھی، آج بھی بنارس میں ایسی عورتوں کو دیکھا جاسکتا ہے، ہندوؤں کے رہنما اور مصلح راجہ رام چندر رائے نے اپنی کوششوں سے ‘‘ستی’’ کی اس رسم کو ختم کروایا ، پھر بھی آزادہندوستان میں ‘‘ ستی’’ کے واقعات اکثر ہوجاتے ہیں ، بیوہ عورت کو شوہر کی جائیداد میں حق او ر لڑکیوں کو حق وراثت تین ساڑھے تین ہزار سال پرانے ہندو مذہب اور تہذیب کو 1938 اور 1956 میں کافی جد و جہد کے بعد فراہم ہوئے، جسے اسلام اور مسلمانوں کے اثرات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اسلام کی آمد سے پہلے عرب میں بھی صنف نازک کی حالت بہتر نہیں تھی ،لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اسے زندہ در گور کردیا جاتا تھا ، اسلام نے وحشیانہ اسی رسم کو سختی کے ساتھ ختم کردیا، اہل عرب بے شمار شادیاں بھی ترکے کی طری تقسیم ہوجاتیں ، سوتیلی مائیں بیٹیوں کومل جاتیں ، شعر و شاعری میں صنف نازک کورسوا کیا جاتا، ان کی سر عام تضحیک کی جاتی گویا معاشرہ میں عورتوں کی عزت و احترام کا کوئی تصور نہ تھا۔
اسلام جب طلوع ہوا تو اس کے سورج کی کرنیں دوسرے شعبوں کے ساتھ عورتوں کیلئے بھی سماجی اور اقتصادی مساوات کے حقوق کی روشنی لے کر نمودار ہوئیں، اہل اسلام نے ا س پر عمل کرکے عورتوں کو نہ صرف عزت و احترام دیا بلکہ اس کی عفت عصمت کے محافظ بنے او ر عورتوں کو وہ حقوق عطا کئے جن کا تصور بھی دوسری اقوام میں نہیں ملتا ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ عورت کو اپنے معاملات میں پورا اختیار حاصل ہے۔ جس میں پسند کی شادی بھی شا مل ہے، کنواری لڑکی کے بارے میں اس کے ولی کو ضرور حق ملا ہے لیکن یہ اختیار نہیں کہ وہ زبردستی شادی کیلئے اسے مجبور کردے۔ وہ حقوق جو اسلام نے مسلمان عورت کو دیئے ہیں ان میں چند یہ ہیں، ملکیت و میراث کا حق، خرید و فروخت کا حق ہے، شوہر سے علاحدگی کا حق اگر ضروری ہو، عید ین و جمعہ کی نمازوں میں شرکت کا حق، اسلام عورت کو ایک صالح سوسائٹی کا سنگ بنیاد قرار دیتا ہے، اس کو معاشرتی ، تمدنی، تعلیمی اور معاشی حقوق حاصل ہیں اور ان سے متعلق آزادی عمل بھی عورت کو میسر ہے لیکن شرط صرف اتنی ہے کہ اس کا عمل شریعت کے حدود کے اندر ہو، باہر نہیں، اسلام کے نزدیک عورت ایک شمع ہے، جو بد تہذیبی کے اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کر سکتی ہے ایک جگہ اللہ تبارک تعالیٰ مرد اور عورت کو ایک درجہ دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔
( ترجمہ) ‘‘ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو ، ایک اور جگہ ارشاد بانی ہے (ترجمہ) ‘‘ اللہ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا ’’ ۔ یہاں یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اسلام جس خدا کی بندگی کی طرف بلاتا ہے ، وہ عورتوں کابھی ویسا ہی خدا ہے، جیسا کہ مردوں کا ہے، جس دین کو وہ حق قرار دیتا ہے عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے وہ حق ہے۔ اسلام میں عورتوں او رلڑکیوں کو معاشی، تعلیمی اور دیگر ضروری حقوق میسر ہیں۔ اسلامی نظام میں وہ منقولہ جائیداد نہیں بلکہ خود جائیداد کی مالک ہیں، انہیں اپنی ملکیت اور دولت سےمفید کا م سر انجام دینے اس کو ہبہ کرنے اور وقف کرنے کا بھی حق ہے یعنی جس معاشی تنگی کی وجہ سے وہ غلام بن کر رہتی ہیں، اسلام نے اس کا خاتمہ کردیا ہے۔
دنیا میں عورت کا کردار تین طرف سے سامنے آتا ہے ماں، بیوی اور بیٹی، ۔ عورت بحیثیت ماں ایک مقدس مقام کی مالک ہے، جنت اس کے قدموں کے نیچے رکھ دی گئی ہے، اگر ماں ناراض ہو تو ایک مسلمان اپنے تمام تر نیک اعمال کے ساتھ جنت میں نہیں جاسکتا ، ماں کا درجہ باپ کے مقابلہ میں تین گنا زیادہ ہے، بیوی کی حیثیت سے عورت کو جہاں شوہر کا شریک ٹھہرا یا گیا وہیں یہ بھی کہا گیا کہ تم میں سے وہ لوگ اچھے ہیں ، ‘‘ جو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں’’ ، ہر مسلمان کو یہ حکم دیا گیا کہ جو تم کھاؤ ، وہ بیوی کو کھلاؤ ، جو تم پیو وہ بیوی کو پلاؤ ، ان کو نہ مارو، اور نہ ان کی برائی کرو، عورت خود کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو، شوہر کے ذمہ اس کی کفالت ٹھہرائی گئی ہے، بیٹی کی حیثیت بھی عورت کو باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنایا گیا ہے۔ اس کی تعلیم ، تربیت ، خوراک، لباس، شادی، بیاہ تمام امور کی ذمہ داری باپ پر ڈالی گئی ہے، یہاں تک کہ اس کی وراثت میں حصہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور خوش خبری سنائی گئی ہے کہ جو اپنی بیٹیوں کی اچھی پرورش کرے گا اور شادی کردے گا ، وہ جنت کا حقدار ہوگا، بہنوں کےبارےمیں بھائی کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنی بہنوں کی ناموس کےمحافظ ہیں، ان کا یہ فرض قرار دیا گیا کہ وہ بہنوں کےساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ شریک بہن اگر آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے اپنی چادر بچھا دیتے تھے ۔
موجودہ دور میں عورت نے بظاہر مرد کے غلبہ سے آزادی حاصل کرلی، گھر کے چہار دیواری سےنکل کر وہ ملازمت کرنے لگی، تعلیم پانے لگی، اپنی مرضی سے رہنے ، دوستی کرنے لباس پہننے کی اسے آزادی مل گئی لیکن مرد کی نگاہ میں عورت آج بھی اس عزت کی مستحق نہیں جو اسے ملنا چاہیئے ۔ مغرب تو اسے نمائش کی شئے بنادیا، اس پر ذمہ داریاں ڈال دیں ، مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتو عورت قابل عزت ہے، ورنہ ماں، بیوی بیٹی کی حیثیت سے اس کا کوئی مقام نہیں، پہلے عورت سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا، آج وہ خود جانوروں کی طرح کام کرنے پر مجبور ہے۔
اس ساری تفصیل سے یہ اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ تمام مذاہب میں اسلام نے صنف نازک کو ہر حیثیت سے وہ مقام و مرتبہ عطا کیا ہے جو کسی اور مذاہب میں نہیں ملا ہے، اسلام عورت اور مرد میں انسان کی حیثیت سےکوئی امتیاز نہیں کرتا، اس میں نہ کوئی آقا ہے، نہ کوئی لونڈی ہے،دونوں کے کام کرنے کے شعبے ضرور الگ ہیں لیکن اپنی جگہ اہمیت کے مالک ہیں اور دونوں یکساں طور پر انسانی حقوق، عزت و شرف کے مستحق ہیں۔
27 مئی، 2013 بشکریہ : روزنامہ صحافت ، لکھنؤ
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/social-religious-status-women-islam/d/11876