ڈاکٹر خالد ایم بیترفی
17 نومبر 2015
میری اہلیہ نے مجھ سے پوچھا کہ "کہ ہم کس مقام پر کسی بات کی حد بندی کرتے ہیں اور یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اب بہت ہو گیا؟"۔ "دہشت گرد مختلف طریقوں سے ہر روز ہماری جانیں لے رہے ہیں۔ یہ بدترین قسم کے قتل کی وارداتیں ہیں جو اس لیے انجام دی جا رہی ہیں کہ ہم مسلسل محتاط رہیں۔ اس کی وجہ سے ہم اپنا طرز زندگی بدلنے پر مجبور ہیں، خطرے کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں اور بدترین حالات پیدا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں –گویا کہ ہم مستقل طور پر حالت جنگ میں زندگی گزار رہے ہیں۔
"اس کی وجہ سے ہم اپنے معمولات زندگی اور دن رات کی سرگرمیوں کو اپنے خاندان اور معاشری کی سہولیات کے مطابق نہیں بلکہ اپنی حفاظت اور اپنے خاندان کے تحفظ کے مطابق منظم کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ کوئی زندگی نہیں ہے! اور آخر کار اس سے پہلے کہ وہ ہمیں یا ہمارے کسی چہیتے یا ہمارے کسی محبوب شخص کی جان لیں، وہ پہلے ہی کئی بار ہماری جان لے چکے ہیں"۔
"سب سے بدترین حالت یہ ہے کہ وہ یہ تمام شیطانی سرگرمیاں اللہ کے نام پر انجام دیتے ہیں –جو کہ انتہائی رحم فرمانے والا اور مہربان ہے۔ چوں کہ آج دہشت گردوں کی اکثریت خود کو مسلمان کا نام دے رہی ہے، اسی لیے ہم میں سے ہر ایک شک کے دائرے میں ہے۔
"آپ تعلیم حاصل کرتے ہیں، محنت مزدوری کرتے ہیں، تعمیر کرتے ہیں، لوگوں کی امداد اور حمایت کرتے ہیں؛ دانشمندی اور انصاف کے ساتھ کام لیتے ہیں، اپنی زندگی کو امن سکون کے ساتھ دوستانہ اور تعاون کے ماحول میں بسر کرتے ہیں، اپنے معتقدات اور معمولات کو انتہائی مہذب اور معیاری بناتے ہیں، اور اسلام کے یہ تمام قوانین بھلائی، خیر اور فلاح و بہبود پت مبنی ہیں۔ اس کے بعد، جب آپ صبح جاگتے ہیں اور آپ کو یہ خبر سننے کے لیے ملتی ہے کہ آپ کے نیک نام پر بم دھماکے انجام دیے گئے جس میں فلاں فلاں جگہ وہ پرامن اور معصوم لوگ مارے گئے ہیں جو آپ کی ہی طرح زندگی بسر کر رہے تھے۔
"مساجد، گرجا گھروں، بازاروں، اسٹیڈیم، ریستوران، کیفے اور ان مقامات پر جہاں عام انسان اپنے بچوں کے ساتھ چہل قدمی کررہے ہیں، پڑھ رہے ہیں، دوپہر کا وقت گزار رہے ہیں یا ایک ٹھنڈی رات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ذریعہ معاش کما رہے ہیں یا دوسروں کی خدمت کر رہے ہیں...... اچانک ایک پاگل نوجوان خود کو اور وہاں موجود دوسرے لوگوں کو بم دھماکے سے اڑا دیتا ہے!"
انہوں نے پوچھا کہ ؛ "اس خسارے، خون خرانے اور پاکل پن کا ذمہ دار کون ہے؟ "ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں!" اس نے جواباً کہا۔ "ایسے جنونی لوگ یونہی کہیں سے نہیں بلکہ وہ ہمارے درمیان ہی جنم لیتے ہیں۔ وہ ہمارا ہی ایک حصہ ہیں۔ کچھ ماؤں کو معلوم تھا کہ میرا پیارا بچہ کچھ تباہی مچانے جا رہا ہے۔ کچھ مکان مالکوں نے اپنے گھر میں مشکوک سرگرمیوں کو محسوس تھا۔ کچھ پڑوسیوں، اسکول کے اساتذہ، دوستوں یا راہگیروں نے ایسا کچھ ضرور دیکھا ہے جس کی انہیں رپورٹ درج کروانی چاہیے تھی۔ لیکن وہ حکام کو اس سے آگاہ کرنے میں ناکام رہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں پر اس بات کا خطرہ گزرا ہو کہ انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، یا انہیں مشتبہ افراد کے خلاف سخت برتاؤ یا سزا کا خطرہ محسوس ہوا ہو، یا ایسا کرنے سے انہیں ایسے پر خطر معاملات کا اندیشہ ہو کہ جن کی وجہ سے خود ان کو یا ان کے خاندان کو کوئی خطرہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ "پھر بھی، ان سب کے باوجود ہمیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ کوئی عذر نہیں ہے"۔ ایک گمراہ بیٹے کے لیے دہشت گردوں کے چنگل میں پھنسنے سے بہتر ہے کہ اس کو قانون کی زنجیر میں جکڑ دیا جائے"۔ متعلقہ حکام کو کسی بھی رپورٹ کی اچھی طرح چھان بین اور اس بات کو تلاش کرنے کے لئے تمام سراغ کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے کہ اس مذموم عمل کے پیچھے کس کا ہاتھا ہے، اور ان کا عظیم منصوبہ کیا ہے۔ عدالت اسے شک کا فائدہ دے کی شرعی قوانین کے مطابق اس کا فیصلہ کرے گی۔ اسے وکلاء تک رسائی حاصل کرنے، خود کا دفاع کرنے اور اپنی اس کارروائی کی وضاحت کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔"
انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ: "تاہم، اگر ان کی رپورٹ درج نہیں کرائی گئی تو وہ خود کو اور معصوم لوگوں کو دھماکے سے اڑا سکتے ہیں۔ جیل میں، کم از کم وہ اپنے اس طرح کے انجام سے محفوظ رہے گا۔ اس دوران اسے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور خود کو بدلنے کا موقع ملے گا۔ جیل میں اپنا وقت گزارنے اور معاشرے کو اپنا قرض ادا کر دینے کے بعد، وہ محفوظ اپنے خاندان اور اپنے لوگوں کے پاس واپس آ سکتا ہے، اور اپنی تعلیم یا اپنے کام کو دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ اپنے خاندان کے ایسے افراد ، دوستوں اور پڑوسیوں کے خلاف رپورٹ کروانے میں ہی ان کی بھلائی ہے – ان کی پردہ پوشی کرنے میں نہیں۔ ہم انہیں نظر انداز کرنے اور ایسا کرنے میں ناکامی کے نتائج کو دیکھ چکے ہیں!" انہوں نے سعودی عرب، یمن، تیونس، لیبیا، ترکی، مصر، لبنان اور فرانس میں، حالیہ دہشت گردانہ حملوں پر اپنی گفتگو کو ختم کیا۔
میری اہلیہ کی باتیں حق و صداقت پر مبنی ہیں! دہشت گردی اب ایک کھلی، خون ریز اور تباہ کن جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے! اور پوری انسانیت کو اس سے خطرہ لاحق ہے۔ اس طرح کے حملوں میں جان جانے والوں سے زیادہ اس کے نقصانات ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان ہماری پرامن بقائے باہمی کو ہے۔ فرانس، یورپ اور دوسری جگہوں کے مسلمانوں کو اس کا ملزم ٹھہرایا گیا۔ عیسائی اور یہودی مسلم ممالک میں خطرے میں ہیں۔ ایران کی مداخلت اور عراق پر حملے سے پہلے پرامن بقائے باہمی میں رہنے والے شیعہ اور سنی فرقے اب متحارب خیموں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
ہماری تہذیب سے جو بچ گیا ہے اسے کس طرح برباد ہونے سے محفوظ کیا جائے؟ جیساکہ میری اہلیہ نے نشاندہی کی کہ سب سے پہلے دہشت گردی کے خلاف ہماری مہم ہمارے گھروں سے شروع ہونی چاہئے۔ اس کے بعد، ہمیں اپنے باہمی دشمن کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دشمن کا مقصد ہی یہی ہےکہ ہم خود آپس میں لڑیں۔ ہمارا اتحاد ان کے لیے نقصاندہ ہے۔ اس کے بعد ہمیں کھل کر انہیں نشانہ بنانا چاہئے۔ اب تک ہم مایوسی، الجھن، تذبذب اور تقسیم کا شکار رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر پلٹ وار کرنے کا فیصلہ کیا، تو اس شدت کے ساتھ نہیں کیا جتنی اس کی ضرورت تھی۔ محض فضائی حملوں سے آپ دہشت گردی کے خلاف جنگ کبھی نہیں جیت سکیں گے۔ ہمیں اسی طرح علاقائی اور بین الاقوامی افواج سے زمینی مدد کی ضرورت ہے جس نے 1991 میں کویت کو آزاد کرایا تھا، جب فوج عدن میں اتری تبھی شہر کو بحال کیا جا سکا تھا۔ عراق اور شام کو غیر ملکی دہشت گردوں اور فوجیوں سے آزاد کرانے کے لیے سلامتی کونسل کے ایک حکم کے تحت ایک بین الاقوامی فوج کو اکٹھا کرنے کا وقت آ چکا ہے۔
ڈاکٹر خالد ایم بیترفی جدہ میں مقیم ایک سعودی قلم کار ہیں۔
ماخذ:
saudigazette.com.sa/saudi-arabia/defeating-terrorism-campaign-starts-at-home
URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/defeating-terrorism-campaign-starts-home,/d/105306
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/defeating-terrorism-campaign-starts-home,/d/105310