ڈاکٹر اسرار احمد
(پہلا حصّہ)
18 جون 2021
سورۃ العصر میں اللہ
تعالیٰ نے نہایت اختصار لیکن انتہائی جامعیت کے ساتھ انسان کی نجات کے لوازم اور
اس کی فلاح اور کامیابی کی شرائط کو بیان کر دیا ہے۔ یعنی ایمان، عمل صالح، تواصی
بالحق اور تواصی بالصبر۔
ان چاروں لوازمِ نجات یا
شرائطِ نجات کی تشریح و توضیح ہمیں قرآن حکیم کے دوسرے مقامات سے ملتی ہے جن میں
سے چیدہ چیدہ مقامات کو اس مضمون میں شامل کیا گیا ہے۔
یہ سورۂ مبارکہ قرآن
حکیم کی مختصر ترین سورتوں میں سے ہے۔ اس لئے کہ یہ کُل تین آیات پر مشتمل ہے، اور
قرآن مجید میں کوئی سورۃ تین سے کم آیات پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ عجیب حسنِ اتفاق
ہے کہ کل تین ہی سورتیں قرآن مجید میں ایسی ہیں جو تین تین آیات پر مشتمل ہیں۔
انہی میں سے ایک سورۃ العصر ہے ،اور اتنی مختصر ہے کہ اس کی پہلی آیت صرف ایک لفظ
پر مشتمل ہے ، یعنی وَ الۡعَصۡرِ ۔
سہل ممتنع کی اعلیٰ مثال
دوسرے یہ کہ ترتیبِ نزولی
کے اعتبار سے یہ قرآن مجید کی اوّلین سورتوں میں سے ایک ہے۔ قرآن نے اپنے بارے
میں سورۂ ھود کے آغاز میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی
آیات پہلے محکم کی گئیں اور اس کے بعد اُن کی تفصیل بیان کی گئی۔
فرمایا گیا: ’’ الف
لام را، کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم بنا
دی گئی ہیں، پھر حکمت والے باخبر (رب) کی جانب سے وہ مفصل بیان کر دی گئی
ہیں۔‘‘گویا ابتداء ً قرآنِ مجید میں وہ
سورتیں اور آیتیں نازل ہوئی ہیں جو انتہائی جامع ہیں اور اس کے بعد انہی کی تفصیل
لمبی سورتوں میں وارد ہوئی ہے۔ اس اعتبارسے گویا سورۃ العصر کا شمار بھی ان
انتہائی جامع سورتوں میں ہوتا ہے جو ابتدا ءمیں نازل کی گئیں۔
تیسری بات یہ کہ اگرچہ
ویسے تو پورا قرآن مجید عربی ادب کی معراج اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزہ
ہے، لیکن طالبانِ قرآن جانتے ہیں کہ قرآن مجید کے مختلف مقامات ادبیت اور فصاحت
و بلاغت کے اعتبار سے مختلف اور منفرد کیفیات کے حامل ہیں۔ گویا معاملہ وہی ہے کہ
؏ ’’ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است۔‘‘
اس پہلو سے غور کیا جائے
تو معلوم ہو گا کہ سورۃ العصر کی انفرادی شان یہ ہے کہ یہ سورۃ قرآن حکیم میں سہل
ممتنع کی ایک نہایت اعلیٰ مثال ہے۔ انتہائی دقیق اور اعلیٰ علمی مضامین نہایت سادہ
الفاظ میں بیان ہوئے ہیں۔ کوئی بھاری بھرکم لفظ یا کوئی ثقیل اصطلاح اس سورۂ
مبارکہ میں وارد نہیں ہوئی۔ تاہم اس کی سلاست کے پردوں میں علوم و معارف کے دریا
موجزن نظر آتے ہیں۔ اس حقیقت پر غور و فکر کے نتیجے میں واقعہ یہ ہے کہ قرآن
مجید کے اعجاز اور اُس کی عظمت کے سامنے انسان کا سر بے اختیار جھک جاتا ہے۔
جامع ترین سورہ
تمہیدی اُمور میں سے
چوتھی، آخری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ سورۂ مبارکہ قرآن مجید کی جامع ترین
سورہ ہے۔ اس لئے کہ قرآن مجید کا مقصد ِ نزول ہدایت و رہنمائی ہے۔
اس دنیا میں زندگی بسر
کرنے کا صحیح طریقہ بتانا اور صراط ِ مستقیم اور سواء السبیل کی طرف رہنمائی کرنا
قرآن مجید کا مقصد ِ نزول ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اس اعتبار سے سورۃ العصر قرآن
مجید کی جامع ترین سورہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ
ہوگا کہ یہ ایک ایسے بیج کی مانند
ہے کہ جس میں قرآن مجید کا پورا شجرۂ طیبہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ کے بارے میں حضرت
ابومزینہ دارمی کی یہ روایت طبرانی کی ’معجم الاوسط‘ اور امام بیہقی کی ’شعب الایمان‘ میں منقول ہے
کہ :
’’ نبی کریم ﷺ کے اصحابؓ میں سے کوئی دو صحابہؓ جب بھی باہم ملاقات
کرتے تھے تو وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوتے تھے جب تک ایکدوسرے کو سورہ العصر نہ سنالیں، اس کے بعد
ایکدوسرے کو سلام کرتے اور رخصت ہوتے۔‘‘
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ
صحابہ کرامؓ کو اِس سورۂ مبارکہ کے ساتھ
کس قدر قلبی اُنس تھا۔
ائمہ اربعہ میں سے امام
شافعیؒ کا ایک قول اس سورۂ مبارک کے بارے میں ملتا ہے جسے حافظ ابن کثیر نے اپنی
تفسیر میں نقل کیاہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں :
’’اگر لوگ صرف اس ایک سورہ پر غور و فکر کرلیں تو یہ ان کی ہدایت و
رہنمائی کے لئے کافی ہوجائے۔‘‘ امام شافعیؒ کا ایک اور قول مفتی محمد عبدہٗ نے
تفسیر پارہ ’’عم‘‘ میں نقل کیا ہے جس کی رو سے امام شافعیؒ فرماتےہیں:
’’اگر قرآن مجید میں سوائے
اس (سورۃ العصر) کے کچھ اور نازل نہ ہوتا تو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے
لئے یہی کافی ہوتی۔‘‘ ان دو اقوال سے
بآسانی اندازہ ہوجاتا ہے کہ امام شافعیؒ کی نگاہ میں اس سورہ کی عظمت اور اس کا
مقام کیا تھا!
دور حاضر میں بھی بہت سے
اصحاب ِ علم و فضل نے اس سورۂ مبارکہ کی عظمت کو پہچانا ہے۔ چنانچہ مولانا
عبدالباری ندوی نے اس سورۂ مبارکہ کی بنیاد پر ’’مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و
تربیت‘‘ کے عنوان سے ایک خاصی ضخیم کتاب تصنیف کی ہے۔ امام حمیدالدین فراہیؒ نے اس
سورۂ مبارکہ کو قرآن مجید کے جوامع الکلم میں شمار کیا ہے۔ میرا اپنا احساس یہ
ہے کہ جہاں تک صراط ِ مستقیم اور سواء السبیل کی نشاندہی اور انسان کے لوازم ِ فوز
و فلاح اور شرائط ِ نجات کےبیان کا تعلق ہے، یہ سورۂ مبارکہ قرآن مجید کی جامع
ترین سورہ ہے۔ جس طرح توحید کے بیان میں سورۃ الاخلاص قرآن مجید
میں نہایت اہمیت کی حامل ہے اور اسی وجہ سے اس کو قرآن مجید کی عظیم ترین
سورہ قرار دیا گیا ہے بالکل اسی طرح قرآن مجید کے مقصد ِ نزول یعنی لوگوںکی ہدایت
و رہنمائی کے اعتبار سے اور صراط ِ مستقیم کے سنگ ہائے میل کی نشاندہی کے اعتبار
سے یہ سورۂ مبارکہ انتہائی جامعیت اور عظمت کی حامل ہے۔
عبارت کا تجزیہ
اس سورۂ مبارکہ پر اگر
غور کیا جائے اور اس کا ترجمہ سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہو گی کہ اگرچہ اس
کی آیات تین ہیں لیکن ان تینوں کو جوڑنے سے ایک سادہ جملہ (simple
statement)
وجود میں آتا ہے۔اس لئے کہ اس کی درمیانی آیت اِنَّ
الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ نہ صرف یہ کہ عددی اعتبار
سے اس سورۂ مبارکہ کی مرکزی آیت قرار پاتی ہے بلکہ مضمون کے اعتبار سے بھی مرکزی
اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں انسان کے خسارے اور گھاٹے، اور اس کی ہلاکت و بربادی کا
ایک عجیب مایوس کن نقشہ سامنے آتا ہے۔
پہلی آیت ایک قَسم پر
مشتمل ہے جس سے نہ صرف یہ کہ زورِ بیان میںاضافہ ہوا ہے بلکہ آیت ۲ ؍
میں بیان شدہ حقیقت میں مزید تاکید کا مفہوم بھی پیدا ہو گیا ہے۔ یہ دونوں آیات
مل کر ایک قاعدہ کلیہ کے بیان کی حیثیت اختیار کرتی ہیں جس سے ایک استثناء کو
تیسری آیت بیان کر رہی ہے۔
گویا بالفاظِ دیگر پہلی
آیت محض ایک قَسم پر مشتمل ہے، اور سیدھی سی بات ہے کہ قَسم کا مفہوم واضح نہیں
ہو سکتا جب تک کہ یہ معلوم نہ ہو کہ وہ قَسم کس بات پر کھائی جا رہی ہے۔ اسی طرح
تیسری اور آخری آیت ایک استثناء پر مشتمل ہے اور اس استثناء کا مفہوم بھی واضح
نہیں ہوتا جب تک کہ یہ معلوم نہ ہو کہ یہ استثناء کس سے کیا جا رہا ہے، وہ قاعدہ
کلیہ کون سا ہے کہ جس سے یہ استثناء بیان ہو رہا ہے!
اس طرح یہ تینوں آیات مل
کر ایک سادہ جملے کی شکل اختیار کرتی ہیں: ’’زمانہ کی قَسم ہے‘‘، ’’یقیناً تمام
انسان گھاٹے اور خسارے میں ہیں‘‘، ’’سوائے
اُن کے جو ایمان لائےاور انہوں نے نیک عمل
کئے‘‘ اور انہوں نے ’’ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘ اس جملے
کو اگر ہم اپنے غور و فکر کا موضوع بنائیں، یا یوں کہہ لیجئے کہ اپنے لوحِ قلب پر
اسے نقش کر لیں یا اپنے لوحِ ذہن پر کندہ کر لیں اور اس پر ذرا سا غور کر یں تو
چار باتیں بادنیٰ تأمل ہمارے سامنے آئیں گی۔
زورِ کلام کی انتہا
سب سے پہلی بات یہ کہ اس
میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ انتہائی مؤکد پیرائے میں ہے۔ اس لئے کہ اوّلاً اس
سورۂ مبارکہ کا آغاز ایک قَسم سے ہو رہا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ قَسم ہمیشہ
تاکید کے لئے کھائی جاتی ہے۔
اگرچہ قرآن مجید کو اللہ
کا کلام ماننے اور اس پر ایمان رکھنے والوں کیلئے محض اللہ کا فرمانا ہی انتہائی
تاکید کا حامل ہے کہ ؏ : ’’مستند ہے ان کا فرمایا ہوا!‘‘ لیکن جہاں اللہ تعالیٰ
کسی بات کو مزید مؤکد کرنا چاہتے ہیں وہاں اس کے آغاز میں مضمون کی نسبت سے کسی
قَسم کا اضافہ فرما دیتے ہیں۔
ثانیاً آیت ۲ ؍
کا آغاز ایک حرفِ تاکید سے ہو رہا ہے۔ عربی زبان سے معمولی سی واقفیت رکھنے والے
حضرات بھی جانتے ہیں کہ حرفِ ’’اِنَّ‘‘
تاکید کے لئے آتا ہے جس کا ترجمہ بالعموم ہوتا ہے بالتحقیق، یقیناً، بلاشک
و شبہ۔
پھر اسی آیت میں لامِ
تاکید کا اضافہ بھی ہوا ہے۔ ’’ لَفِیۡ خُسۡرٍ‘‘ میں ’’ل‘‘ تاکید کا فائدہ دے رہا ہے۔ تاکید کے
مزید کئی اسالیب بھی اس سورۂ مبارکہ میں اختیار کئے گئے ہیں، لیکن اندیشہ ہے کہ
یہاں اُن کا بیان کچھ ثقالت کا حامل ہو جائے گا۔
تاہم عربی داں حضرات جانتے
ہیں کہ عربی زبان میں کسی کلام میں زور پیدا کرنے کیلئے جتنے ممکن اسالیب ہیں وہ
سب کے سب اس مختصر سی سورۃ میں جمع کر دیئے گئے ہیں، جو نحوی اعتبار سے ایک سادہ
جملے پر مشتمل ہے۔
18 جون 2021 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism