New Age Islam
Sun Jan 26 2025, 03:05 PM

Urdu Section ( 2 Jun 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Let’s Now Look Within اب بننے پر نہیں بلکہ بگڑنے پر تنقید ہونی چاہیے

 

 

ڈاکٹر غلام زرقانی

31 مئی 2014

جمہوریت کے آداب میں سے ہے کہ انتخابات سے پہلے نمائندوں پر جتنی چاہیں تنقیدیں کرلیں ، تاہم انتخاب میں کامیاب ہونے والی شخصیت کو بہر کیف سب کا مشترکہ نمائندہ تسلیم کرنا چاہیے ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کے زیر سایہ علاقے میں انتخاب لڑنے والے تمام نمائندے آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کیا کچھ نہیں کہتے ، تاہم انتخاب ہارنے والے سارے نمائندے فتحیاب ہونے والے کو مبارک باد دینے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ یہ علامتی طور پر اس بات کا اظہار ہے کہ اب سے نہ صرف وہ سارے علاقے کا نمائندہ ہے ، بلکہ ملک کے قانون ساز اداروں میں خود اس کا نمائندہ بھی ہے۔تھوڑی دیر کے لیے غور کریں تو محسوس ہوگا کہ یہ جمہوری آداب ملک کی سالمیت کے لیے نہایت ہی ضروری ہے ۔ اگر یہ نہ ہو، تو انتخابات کے بعد ہارنے والے نمائندے احتجاجات کا دروازہ کھول دیں اور ملک افراتفری، رسہ کشی اور باہمی رقابت کے گرداب میں پھنس کر رہ جائے ۔

ٹھیک اسی آداب جمہوریت کا تقاضہ یہ ہے کہ ملک کے سارے لوگ ، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی پارٹی سے ہمیشہ کے لیے وفاداری کا دم بھرتے ہوں ، بادل ناخواستہ ہی سہی، وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کا استقبال کریں ۔دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک وہ وزیر اعظم نہ بنے تھے، ہمارا جمہوری حق تھا کہ ہم ان کی مخالفت کریں ، تاہم جب وہ بن گئے ہیں تواب ان کے وزیر اعظم بننے پر تنقید کسی طور مناسب نہیں ہے ، بلکہ اب اگر وہ ایسے اقدامات کرتے ہیں ، جوہمارے ملی مفاد ات کے خلاف ہو، توپھر بلاشبہ ان پر تنقید کی جائے ۔ ایسی صورت میں ان کے وزیر اعظم بننے پر تنقید نہیں ہوگی ، بلکہ ان کے اقدامات پر ہوگی اور یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے ۔

از راہ کرم نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ سنیے ۔ اخبارات ، برقی میڈیا اور سماجی تعلقات کی ویب سائٹ پر میں دیکھ رہاہوں کہ بعض لوگ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات فسادات کے حوالے سے نہایت ہی جوشیلے بیانات لکھ رہے ہیں اور افسوسناک تصاویر لوڈ کی جارہی ہیں ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں پرانے زخموں کو بھول جانا چاہیے ، تاہم یہ موقع ان زخموں کے کریدنے کا نہیں ہے ۔ یقین کریں کہ مذہبی جذبات کی بیداری ہمارے مفاد میں نہیں ہے ، بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ اگر اکثریتی طبقہ مذہبی جذبات ابھارنے کی کوششیں کرے ، تو ہم حکمت عملی کے ساتھ اسے دبادیں ۔ ابھی فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہیں ، ایسے حالات میں ہماری چھوٹی سے لغزش ہمیں ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کرسکتی ہے ۔ اب یہی دیکھیے کہ پچھلے انتخابات میں انہوں نے ’’ ہندوئیت ‘‘ کی تقویت کے لیے ووٹ مانگے اور سیکولر پارٹیوں کے زیادہ تر عمائدین نے بھی مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے انہیں حکومت سے دور رکھنے کے لیے ووٹ مانگے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے نعرے تو بلاشبہ ان کے مفاد میں گئے ، تاہم ہمارے منفی نعرے بھی ان کے مفاد میں چلے گئے ۔ یہ تجرباتی واقعہ متنبہ کرتاہے کہ ملک میں باوقار زندگی گزارنے کے لیے ہمیں کس طرح کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔

ابھی حال ہی میں اخبارات کے ذریعہ یہ اطلاع ملی کہ انڈیا کلچر سنٹر دہلی میں وزیر اعظم کے استقبالیہ کے حوالے سے اراکین میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں ۔ بعض چاہتے ہیں کہ نریندرمودی کو استقبالیہ نہ دیا جائے اور بعض انہیں استقبالیہ دینے کی حمایت کررہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ بات ہندوستانی مسلمانوں کے مفاد میں ہے کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی نہ بلائیں کوئی حرج نہیں ، تاہم وزیر اعظم کی حیثیت سے انہیں بلانا چاہیے ۔ سردست تسلیم کرلیجیے کہ کم ازکم انہیں پانچ سالوں تک تو وزیر اعظم رہنا ہی ہے ، بلکہ ہوسکتاہے کہ بہتر کارکردگی کی بنیاد پر مزید پانچ سالوں کا موقع بھی انہیں میسر آجائے ۔ ہر دو مفروضات کے آئینے میں غور کریں کہ کیا اتنے لمبے عرصہ تک مسلمان ا ن کی مخالفت کرتے رہیں ؟ اور کیا یہ بائیکاٹ ملت اسلامیہ کے مفاد میں ہے ؟ یاد رہے کہ جواب دینے سے پہلے ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی چھوٹی چھوٹی مسلم آبادیوں کے واقعی حالات پیش نظر رکھیے ۔ بہت ممکن ہے کہ آپ بڑے شہروں کے فصیل بند علاقوں میں رہتے ہوں ، جہاں تا حد نگاہ ہم مذہب آباد رہتے ہیں ، تاہم شک نہیں کہ ملک میں ایسے بے شمار علاقے ہیں ، جہاں مسلم آبادیاں گنے چنے گھروں پر مشتمل ہوتی ہیں او ر وہ پورے طور پر اہل وطن کی گھنی آبادیوں کے درمیان گھرے رہتے ہیں ۔ لہذا ہماری کوئی بھی جذباتی لغزش ان کے لیے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے ۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم صرف اپنی ذات کے بارے میں نہ سوچیں ، بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی فلاح وبہبودہمارے پیش نگاہ رہے ۔

یہ تورہی ایک بات ، دوسری بات یہ ہے کہ مرکز میں حکومت سیکولر طاقتوں کی ہو یا فرقہ پرستوں کی ، ہمیں آگے بڑھنے کے لیے اپنی سی کوششیں بہر کیف کرنی پڑیں گی۔ یہ خیال نہ کریں کہ مرکز میں سیکولر جماعت کی حکومت ہوگی ، تو ہمیں گھر بیٹھے بیٹھے من وسلویٰ ملے گااور بہتر روزگار کے مواقع میسر آجائیں گے ۔ یقین نہیں آتا تو پیچھے مڑ کر دیکھیے کہ پچھلے دس سالوں تک کانگریس کی حکومت رہی ہے۔ ملک کے کتنے فیصدی مسلمانوں کا بھلا ہوا ہے ؟ برسوں سے اتر پردیش میں سیکولر جماعتیں برسر اقتدار رہی ہیں ، بتاسکتے ہیں کہ اس دوران کتنے مسلمان عروج پر پہنچے ہیں؟ بہار میں بھی سیکولر جماعت کی حکومت ہے ، یہاں مسلمانوں نے کون سا تیر مار دیا ہے ؟ مغربی بنگال میں بھی مسلمانوں کی نجات دہندہ پارٹی کی حکومت سمجھی جاتی ہے ، یہاں کتنے مسلمان عیش وعشرت سے ہمکنار ہوگئے ہیں؟ یہ زمینی حقائق خموش زبان میں سرگوشی کررہے ہیں کہ یہ دنیا ہے ، یہاں وہی گروہ کامیاب ہوتاہے ، جو سنجیدگی کے ساتھ کوششیں کرتاہے ۔ صنعت وحرفت، علم وہنر اور تحقیق وجستجو کے میدان میں آگے بڑھنے کا جذبہ صادقہ لے کر کوشش کرنے والے ہی کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔یہ اور بات کہ برسر اقتدار جماعت کی پالیسی مثبت ہو ، تومعمولی کوششوں کے بھی نتائج سرعت کے ساتھ اور مکمل طورپر ظاہر ہوتے ہیں ، تاہم سیاسی پالیسی منفی ہو، تو چاہیے کہ کوششوں کی رفتار بڑھا کر’’معمولی سے غیر معمولی ‘‘ کی منزل تک پہنچادی جائے ، مجھے یقین ہے کہ خیرخواہ نتائج ہماری نگاہوں کے سامنے ہوں گے ۔

صاحبو! ہیوسٹن میں میرے ایک نہایت ہی قریبی دوست ہیں ، جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ وہ ایک بہت ہی بڑی امریکی کمپنی میں کام کرتے ہیں، جہاں ان کے علاوہ کوئی اور مسلم چہرہ نہیں ہے ۔ابتداء میں ان کے آفیسر نے انہیں جمعہ کے دن میٹنگ میں شرکت کرنے کی نوٹس دے دی ۔ انہوں نے ہمت کرکے عرض کیا کہ جمعہ کے دن ہمیں نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جانا ہوتاہے ۔ ایسے میں میرے لیے میٹنگ میں شرکت مشکل ہوگی ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے ہر جمعہ کو وہ آفیسر خود انہیں مخاطب کرکے کہتاہے کہ آپ کو تو نماز کے لیے جانا ہے ، جلدی جائیے ۔ جانتے ہیں کہ ایک غیر مسلم کے دل میں اپنے ملازم سے اس قدر ہمدردی کے جذبات کیوں پیداہوئے ؟ وہ بتاتے ہیں کہ میں کمپنی میں تنہا مسلمان ہوں ، اس لیے اپنے وجود کی ضرورت ثابت کرنے کے لیے میں دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ محنت کرتاہوں ۔ چونکہ میری ذات سے کمپنی کو قابل قدر فائدہ ہوتاہے ، اس لیے وہ میری ناز برداری کرتے ہیں ۔ یہاں پہنچ کر میری بات آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ غلط بات پر’’ احتجاج‘‘ کرنا معیوب نہیں ہے ، تاہم صرف’’ احتجاجات ‘‘ہی کرتے رہنا بلاشبہ ہمارے مفاد میں ہرگز نہیں ہے ۔ اٹھیے اور اپنے اپنے کاموں میں پوری دلچسپی کے ساتھ لگ جائیے ۔ کیا عجب کہ کل کا سورج ہمارے لیے نوید مسرت لے کر طلوع ہوجائے !

31 مئی 2014  بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/let’s-now-look-/d/87311

 

Loading..

Loading..