ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی
4 جون، 2013
عالمی صورت حال پر ایک نظر اٹھائیں تو معلوم ہوگاکہ سب سے زیادہ مصائب کا شکار مسلم امت ہے ۔ سب سے زیادہ تشدد کا شکار بھی وہی ہے اور سب سے زیادہ دہشت گردی کا الزام بھی اسی کے سر منڈھا جارہاہے ۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں مگر ایک وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ عملی سطح پر مسلمانوں نے ان کی تحریکوں اور اداروں نے جو طرز اپنا رکھا ہے وہ بھی حقیقت پسندی سے بہت دور ہے۔ اب اسی کو لیجئے کہ دوسری قوموں اور ملکوں نے مکالمہ اور گفتگو کے ذریعہ اپنے مسائل کو حل کر نے کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ مسلح جد و جہد اور تشدد کو انہوں نے خیر باد کہہ دیا ہے مگر مسلمان ابھی تک اس مخمصہ سے باہر آنے کو تیار نہیں ۔ حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ مکالمہ ، گفتگو اور ڈائلاگ علمی سطح پر بحث و گفتگو کا موضوع تو تازہ تازہ دیتے ہیں تاہم ڈائلاگ عملی سطح پر انسانوں کے درمیان ہمیشہ ہوتا رہا ہے ۔ ادیان و مذاہب اور مختلف معاشروں ، قوموں ، قبیلوں اور مختلف تہذیبوں میں اس کے نقوش بآسانی مل جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر دو مذہبوں اور دو الگ تہذیبوں کے نمائندہ بادشاہوں کے درمیان سفارتی لین دین یا مذہبی وفود کا آنا جانا اور بعض اوقات دو مختلف حریفوں کے نمائندوں کا کچھ مسائل میں مناظرہ کرنابھی مکالمہ اور گفتگو کی ایک شکل تھی ۔چونکہ گفتگو و مکالمہ انسانوں کی عملی ضرورت ہے اس لیے وہ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں ۔ اس لیے یہ سمجھنا سراسر نادانی ہوگی کہ یہ کوئی نئی چیز ہے جس کو مفروضہ اسلام دشمنوں نے شروع کیا ہے۔ آج جب مسلمان علماء بعض استثنا ء ات کو چھوڑ کر اس پر بات کا آغاز کرتے ہیں تو ان کی شروعات ہی یہ ہوتی ہے کہ موجودہ دورمیں گفتگو یا ڈائلاگ کی ابتداء وینکن سٹی سے ہوئی ہے لہٰذا اس کے محرکات قابل اطمینان نہیں ۔ اور تان اس پر آکر ٹوٹتی ہے کہ ڈائلاگ دراصل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودی سازش کا حصہ ہے۔ بعض حضرا ت یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ مکالمہ اور ڈائلاگ سے اصل میں وحدت ادیان کے تصورکو تقویت دی جارہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مذہبی حلقہ سےپیش کی جانے والی یہ ساری باتیں محض ہوائی ہے۔ ہمیں مفروضات اور تو ہمات میں پھیلنے کی عادت ہے اور قوم کی ا س عادت کو بلند کرنے میں ہماری ماضی پرستی پر مبنی مذہبی فکر سب سے توانا کردار ادا کرتی ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ مکالمہ اور گفتگو کا تعلق مذہب و عقیدہ یا نظریات سے خواہ مخواہ جوڑا جاتا ہے مکالمہ اور گفتگو کا تعلق اصل میں سماجی ضرورت سے ہے۔ وہ انسانوں کی فطری او ر سماجی ضرورت ہے ۔ اب اس بحث میں پڑنے کی قطعاً ضرورت ہی نہیں کہ کس نے ڈائلاگ کو شروع کیا اور کیوں شروع کیا ۔ دوسرے اسلام مسلمان کو زمان و مکان میں مقید نہیں کرتا بلکہ اس کا پیغام آفاقی ہے اور وہ مسلمان کو ایک یونیورسل شہری قرار دیتا ہے ۔ پوری ز مین کو اس کے لیے سجدہ گاہ بنایا گیا اور پوری زمین کو اس کے لیے مسخر کردیا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ اللعالمین اور اللہ تعالیٰ کو رب العالمین بتایا گیا ہے ۔ یعنی اللہ سارے جہانوں اور سارے انسانوں اور ساری مخلوقات کا رب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔قرآن نے کلمۃ سواء ( مشترک کلمہ) کی بنیاد پر اہل کتاب کو مشترک امور کی طرف بلایا ہے اور اس کو ایسا محور قرار دیا ہے جن پر ان سے بات چیت اور گفتگو ہوسکتی ہے مطلب یہ ہے کہ توحید اہل اسلام اور اہل کتاب کے درمیان ایک قدر مشترک ہےلہٰذا اس بنیاد پر وہ یا ہم مل بیٹھ کر بہت سے مسائل میں گفتگو کر سکتے ہیں۔
غیر مسلم انسانیت سے مسلمانوں کا تعامل کیا ہو موجودہ زمانہ میں اس سوال کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے کیونکہ گلو بلائزیشن کے اس دور میں یہ کسی کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ اپنے گھیٹو (Ghetto) بنا کر الگ تھلگ رہ لے۔ مسلمان علماء جن فقہی کتابوں کی طرف اس سلسلہ میں رجوع کرتے ہیں وہ اس زمانہ میں لکھی گئی ہیں جس جس میں دنیا کے بڑے حصہ پر مسلمانوں کا اقتدار تھا۔ اب صورت حال بالکل مختلف ہے اس مقصد کے تحت اب اس سے مختلف اقدامات کی ضرورت ہے جو گزشتہ زمانہ میں تجویز کیے گئے تھے ۔ ڈائلاگ اور گفتگو عام انسانوں کی عملی ضرورت ہے اس کی وضاحت عصری تناظر میں کرنے کے لیے عملی مثال سامنے رکھیے تو بات اور واضح ہوجائے گی کہ انتہا پسند عناصر ہر جگہ اور ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سبھی مذاہب میں اکثریت امن پسندوں کی ہے ۔اب انتہا پسندوں کو سائڈ لائن کرنے اور غیر مؤثر کرنے کے لیے مختلف مذاہب کی امن پسند اکثریت کو باہم مل کر دہشت گردی کے اس خطرہ کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ یہ صحیح ہے کہ دہشت گردی نا انصافی اور سماجی نا برابری کا رد عمل ہوتی ہے۔ یہ بات درست تو ہے مگر آدھا سچ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی غلط تعبیر بھی انتہا ء پسندی ککا اہم سبب ہے ، کہ مذہبی نظریاتی انتہا پسندی امکانی ( potentially) دہشت گردی ہے جس کو آپ بآسانی عملی دہشت گردی میں بدل سکتے ہیں۔ ہم دوسری قوموں پر جانے کے بجائے خود مسلمانان عالم کو ہی دیکھیں ہوکیا رہا ہے ۔ پاکستان، عراق اور دوسری جگہوں پر آج سنی شیعوں کا اور شیعہ سنیوں کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ شیعہ لٹریچر میں صحابہ رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں منفی چیزیں موجود ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں زبان پر بھی آہی جاتی ہیں۔ رد عمل میں سنی شیعوں کی تکفیر کرتے ہیں ان کو مباع الدم قرار دے ڈالتے ہیں اور ان کے قبرستانوں امام باڑوں مجالس اور بارگاہوں اور جلوسوں کو بموں کا نشانہ بنادیتے ہیں اور اس کو ثواب کا کام سمجھتے ہیں ۔ اس کے جواب میں شیعہ سنیوں پر حملے کرتے ہیں اور یہ سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہتا ہے ۔ دونوں ہی فرقوں میں منہ زور نوجوان اور جذباتی الفاظ علما اور خطیبوں کی کھیپ کی کھیپ ہے جن کو اپنے حلقے کے اکابر علما ء کی تائید و حمایت حاصل ہے اور جو اس صورت حال کو بڑھاوا دیتے ہیں ۔ اس صورت حال کا کوئی سیاسی فوجی یا او رکوئی حل ممکن بھی نہیں ۔ یہاں تک کہ اگر مسلم ملکوں میں so called اسلام پسند بھی اقتدار میں آجائیں تو بھی مسئلہ جوں کا توں ہی باقی رہے گا۔
میری نظر میں اس کا حل صرف مذہبی ہے اور اس میں بھی دیر لگے گی۔ او روہ یہ ہے کہ دونوں طرف کے علماء باہم گفتگو کریں اور ڈائلاگ کے ذریعہ مسئلہ کا کوئی حل نکالیں۔ اب تو یہ مسئلہ شام ، لبنان اور اردن تک بھی دراز ہورہا ہے جہاں فرقہ وارانہ تشدد اب تک لاکھوں انسانوں کی بلی لے چکا ہے ۔ اور یہ عفریت رو کے نہیں رک رہا ہے بلکہ شام میں تو اب اس کو ایک زبردست پناہ گاہ اور انڈے بچے دینے کے لیے ایک تیار ماحول مل گیا ہے۔ ہم اس حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے ریت میں منھ چھپائے او رمغربی طاقتوں او ریہودی سازشوں کے سر ساری ذمہ داری ڈال کر پلہ جھاڑ نے کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں ۔ اگر کہیں کوئی سازش ہے بھی تو وہ بھی اسی لیے کامیاب ہوجاتی ہے کہ ہمارے معاشرہ میں پہلے ہی اس کے لیے امکان موجود ہے۔
اگر ہم انسانی مسائل کے حل کےلیے گفتگو اور ڈائلاگ کو ایک بہتر متبادل مان لیں اور اس سے استفادہ کرنے لگیں تو یقین سے یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس سے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے اور سارے دکھ دور ہوجائیں گے مگر اتنا تو یقین سے ضرور کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی شدت میں ضرور اس سے کمی آجائے گی ۔ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے ۔ آج جنگ فوجی مداخلت یا تشدد سب کا انٹر پروڈکٹ (النا نتیجہ دینے والے) ثابت ہورہے ہیں امریکہ جیسی بڑی اور مہیب طاقت کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ فوجی مداخلت سے اور جنگ سے سب کو مفتوح کرلے اور مسئلے حل کرلے۔ اس لیے آج سب مجبور ہیں کہ صورت حال کا از سر نو جائزہ لیں ۔ آج سے پچاس پچھتڑ سال بعد کی دنیا اس سے بہت مختلف ہوگی جو آج سے پچاس پچھتڑ سال پہلے اُس زمانہ میں تھی جب موجودہ اسلامی تحریکوں کو داغ بیل پڑی تھی ۔ آنے والے وقت میں اس دنیا میں امریکہ اور اس کے حلیفوں کی چودھراہٹ ختم ہوچکی ہوگی، اقتصادی طور پر وہ دوسرے یا تیسرے مقام پر پہنچ چکے ہونے کے سبب کسی فیصلہ کن عالمی رول کے قابل زدہ جائے گا ۔ دوسرے امریکی تسلط کے خاتمہ کے ساتھ عالم اسلام سے فوجی حکمرانوں ڈکٹیٹروں اور ۔۔۔۔۔بادشاہوں کا بوریا بستر بھی بندھ چکا ہوگا۔ اس آنے والی صورت حال میں بھی وہی پٹی پٹائی راہ اختیار کرنا او رمسائل کے حل کے سلسلہ میں قدیم سانچوں پر ہی انحصار کرنا خود کشی کے مترادف ہوگا جس میں ہمار مذہبی طبقہ عام طور پر مبتلا ہے ۔ اس نئی صورت حال کے مقابلہ کے لیے نئی فقہ اقلیات کی شدید ضرورت ہے اسی طرح صدیوں سے ذہن کو کھولنے اور اجتہاد کا راستہ پھر سے اپنانے کی ضرورت ہوگی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر فلپائن کی حکومت مسلمانوں کے ساتھ مل کر نصف صدی سے ان کے مسئلہ کو حل کرسکتی ہے تو مسلمان فلسطین ،بیت المقدس اور دوسرے مسائل حل کے لیے اس راستہ کوکیوں اختیار نہیں کرسکتے؟
پھر آسمانی مذاہب کے سلسلہ میں تو اسلام ایک inclusive دین ہے جو مسلمان موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ رکھتا ہو وہ مسلمان ہی نہیں ، یوں اسلام کی انبیانیات میں اسلام، عیسایت او ریہو دیت تو اپنے آپ جمع ہوجاتے ہیں ،تاریخ میں بھی علمی ہو یا سیاسی مسلمانوں نے جنگیں یہودیوں او رعیسائیوں سے خوب لڑی ہیں مگر کبھی بھی کسی عیسائی یا یہودی شخصیت اور پیغمبر کی انہوں نے توہین نہیں کی کیونکہ ان کا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ ہاں عیسائیوں اور یہودیوں کی جانب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کے قصے کہیں تاریخ میں بھی ملتے ہیں اور آج بھی سامنے آتے رہتےہیں ۔ جن کے بارےمیں ہمارے لیے صحیح رویہ ان پر پرُ تشدد و احتجاج کے بجائے اعراض کرنا ہی ہے ۔ ایران کےساتھ اسلام کا عملی تعامل اہل کتاب کا سارہا ۔ اور خود ہندواس کے بارےمیں ایک سے زیادہ علماء اسکالروں کی رائے پہ موجود ہے کہ ان کو بھی شبہ اہل الکتاب کا درجہ دیا جائے ۔جیسا کہ محمد بن قاسم علیہ السلام نے عملی نظیر اس کی قائم کی جس سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ۔ مغلیہ دور کی عمومی فضا ، پر اکبر کی خیر سگالی اور مذہبی روا داری اور قومی یک جہتی کی کا غلبہ رہا ہے۔
مسلمانان عالم کی اپنی موجودہ صورت حال تو خود اس کا مطالبہ کرتی ہے کہ بین مسالک اور بین جماعتی ڈائلاگ اور گفتگو کی ضرورت ان کو دوسروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر ان کے ہاں شیعہ سنی اور دیوبندی بریلوی ، تحریکی غیر تحریکی اہل تصوف اور اہل حدیث کے مابین بامعنی گفتگو اور ڈائلاگ کا سلسلہ شروع نہیں ہوتا تو عملاً یہ ہوگا کہ آج دنیا بھر کے 95 فیصد پناہ گزیں مسلمان ہیں کل وہ سو فیصد ہوں گے کیونکہ مختلف قسم کے تشدد کا شکار ہیں اور یہ تشدد کرنے والے انہیں کے ممالک یا انہیں کے گروپ ہیں کہیں یہ تشدد مسلکی ہے کہیں ریاستی کہیں لسانی اور کہیں نسلی ، عرب لیگ او آئی سی اور رابطہ عالم اسلامی جیسی تنظیمیں اور ادارے نہ آج اس صورت حال کا کوئی مدد کر پارہے ہیں او رنہ کل کر پائیں گے ۔ مسلمانوں کو آج بھی پناہ مغرب میں مل رہی ہے کل بھی یہی عالم ہوگا ۔
4 جون ، 2013 بشکریہ : روز نامہ قومی سلامتی ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/realistic-approach-problems-needed-/d/11894