ڈاکٹر ارشد شاز
مئی ، 2013
شیعہ مصادر میں گو کہ یہ بات تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہےکہ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت کی ابتداء شہادت کے چالیسویں دن خود اہل بیت کے افرادکے ذریعہ انجام پائی اور اس طرح بالکل ابتدا سے ہی گویا محدود پیمانے پرمشہد حسین رضی اللہ عنہ کی سالانہ زیارت کاسلسلہ چل نکلا ۔ لیکن مجموعی تاریخی مصادر سے اس خیال پر دلیل لانا مشکل ہے۔سب سے پہلی بات تو یہ کہ ابتدائی صدیوں میں قبروں کو پختہ کرنےیا قبہ بنانے کا مسلمانوں میں کوئی رواج نہ تھا ۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اہل بیت کے بہتر شہدا ء کو اجتماعی طور پر دفن کر دیا گیاتھا۔فریق مخالف کے بیاسی مقتولین کی تدفین بھی اسی طرح اجتماعی قبر میں ہوئی تھی ۔کربلا ایک غیر آباد زمین تھی جہاں نہ کوئی باضابطہ آبادی تھی اور نہ ہی کوئی فوجی چھاؤنی۔سو تدفین کے بعد عین اس مقام کی شناخت جہاں یہ المناک حادثہ پیش آیاتھا پختہ نشانیوں یا عمارت کی تعمیر کے بغیرممکن نہ تھی۔ابتدائی عہد میں قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کے علاوہ ، اور وہ بھی مسجد نبوی کے جوار میں ہونے کے سبب، مسلمانوں میں کسی مرقد خاص کی زیارت کا رواج پیدا نہ ہوا تھا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بیٹی سکینہ اپنے شوہر مصعب بن زبیر کے ساتھ عرصہ تک عراق میں قیام پزیر رہیں لیکن تاریخی مصادر میں کربلا کی ان کی زیارت کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔عہد اموی میں خاص مرقد حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لیے سفر کرنے کا کسی کو خیال بھی نہ آیا یہاں تک کہ عہد عباسی میں ابو مخنف(متوفیٰ270ھ) نے مقتل حسین رضی اللہ عنہ مرتب کر ڈالا۔
یہ گویا پہلی اینٹ تھی جس نے آنے والے دنوں میں فلسفہ تربت حسین رضی اللہ عنہ کی نظر ی عمارت تعمیر کی ۔نوبت بہ اینجارسید کے اہل بیت کی محبت کے دعویدار عباسی خلافت کے لیےخطرناک سمجھے جانے لگےمیمون القداح جس نے ابتدا کربلا سے ہی اپنی خفیہ سرگرمیوں کی کمان کی تھی حکمرانوں کے سخت تیور دیکھ کر شمالی افریقہ کی طرف جا نکلا ۔اس تحریک کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں باطنی دعوت کے بطن سے فاطمی خلافت کا ظہور ہوا ۔بلا آخر 263ھ میں متوکل نے ، بقول طبری، حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی قبر ڈھانے کا حکم دے دیا ۔آس پاس کی تمام عمارتیں منہدم کر دی گئیں۔اس پورے علاقہ کو مزروعہ بنادیا گیا۔عہد متوکل سے آل بویہ کی امیرالامرائی کے عہد تک کوئی سو سال سے زیادہ کا عرصہ ایسا گزرا جب کربلا کی سرزمین زائرین سے محروم رہی ۔یہاں تک کہ آل بویہ نے 370ھ میں باضابطہ مشہد حسین رضی اللہ عنہ کو پورے جاہ و حشم سے تعمیر کر ڈالا ۔قبر حسین رضی اللہ عنہ کے تعین میں بھی اساطیری منہج سے کام لیا گیا۔کہتے ہیں کہ جب اس علاقہ کو مزروعہ بنا کے پانی چھوڑ دیا گیاتو اس کے چالیس دن بعد بنی اسد کا ایک اعرابی آیا جو جگہ بہ جگہ زمین سونگھتا جاتا پھر ایک جگہ رک کر کہنے لگا یہی ہے وہ جگہ جہاں قبر حسین رضی اللہ عنہ واقع ہے ۔ابو نعیم فضل بن دکینجو مسلکاً شیعہ تھے اس شخص کے قول کو نہیں مانتے تھے جو قبر حسین رضی اللہ عنہ کی شناخت کا دعویٰ کرے ۔بقول ملاّ باقر مجلسی ،متوکل نے جب قبر حسین رضی اللہ عنہ کے نشانات مٹانے کی کوشش کی تو بعض اہل کشف نے اس حقیقت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ قبر زمین و آسمان کے ما بین ہوا میں استادہ تھی ۔(کہ قبر درمیانِ زمین و آسماں در ہوا ایستادہ است)۔
البتہ ایک بار جب مشہد حسین رضی اللہ عنہ کی پختہ عمارت وجود میں آ گئی تو عقیدت مندوں کو اس بات سے کچھ غرض نہ رہی کہ مشہد حسین رضی اللہ عنہ اپنے اصل محل پر واقع ہے یا نہیں ۔زائرین کے لیے یہ ہی کافی تھا کہ تربت حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت انھیں نوے حج کا ثواب بخشتی اور انہیں اس بات کی امید دلاتی کہ روزمحشر ان کی یہ زیارت امام کے لیے اس بات کا جواز بن سکے گی کہ وہ اللہ کے حضور ان کی شفاعت کریں ۔بعض روایتوں میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ عاشورہ کے دن مشہد حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت کی مثال ایسی ہے گویا کسی نے اللہ کے عرش کی زیارت کی ہو یہ دیکھتے دیکھتے شیعی ذہن میں کربلا کی سرزمین نے ارض مقدس کی حیثیت اختیار کر لی ۔ایسی روایتیں وجود میں آئیں جو اس خیال پر دلیل لاتی تھیں کہ کربلا میں حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت تخلیق کائنات کی اسکیم کا نقطہ عروج ہے اور یہ کہ آدم سے لے کر ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام اور موسیٰؑ و عیسیٰؑ تک مختلف عہد کے پیغمبر صحرائے کربلا کی اذیت ناکی کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں کرتے رہتے ہیں ۔
شیعی اور سنیّ مآخذ اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ پہلی بار ماتم حسین رضی اللہ عنہ کی باضابطہ ابتداء معزالدولہ کے ہاتھوں 352ھ میں ہوئی ۔ بقول ابن اثیر اس نے روز عاشورہ کو بازار بند رکھنے کا حکم دیا اور اس کے حکم کی اطاعت میں عورتیں پراگندہ لباسی اور منتشر بالوں کے ساتھ ماتمی جلوس کا حصہ بنیں ۔پھر عہد بہ عہد ماتم حسین رضی اللہ عنہ کو ترقیّ ہوتی گئی ۔اس قسم کی روایتیں سامنے لائی گئیں کہ جس شخص کے لیے عاشورہ کا دن غم واندوہ کا دن ہوگا اس کے لئے اللہ روز محشر کو خوشیوں کا دن بنائے گا اور اسے جنّت میں امام کی معیت نصیب ہو گی ۔فضیلت البکاء کو باقاعدہ دینی بنیاد فراہم کی گئی اور یہاں تک کہا گیا کہ من بکی او تباکی علی الحسین وجبت علیہ الجنّہ یعنی جو حسین کے غم میں رویا یا جس نے رونی سی صورت بنائی اس کے لئے جنّت واجب ہو گئی۔
ماتم حسین کو باقائدہ ایک دینی اور تہذیبی مظہر کے طور پر رائج کرنے میں شاعری اور فنون ِ لطیفہ نے بھی بڑا مؤثر رول انجام دیا۔اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آل بویہ سے پہلے اہل بیت کے نتعلق سیاسی خیالات کی آبیاری کے لیے نثر اور تقریر کے مقابلے میں شاعری میں کہیں زیادہ گنجائش تھی ۔
دوسری اس سے کہیں اہم تر سبب یہ تھا کہ عاشورہ ،اربعین اور زیارت کے مواقع بنیادی طور پر شیعی شناخت کے استحکام اور اس کے تہذیبی مظاہر سے عبارت تھے ۔جوں جوں شیعی شناخت مستحکم ہوتی جاتی ادب کی نئی صنفیں اور فنون لطیفہ کے نئے قالب ان عوامی تقریبات کا حصّہ بنتے جاتے۔ابو مخنّف کے مقتل حسین رضی اللہ عنہ کے بعد جس کتاب نے شہدائے کربلاکے سلسلے میں شیعی ذہن پر سب سے گہرا اثر مرتب کیا وہ حسین رضی اللہ عنہ واعظ کاشفی کی فارسی زبان میں تالیف کردہ روضۃالشہداء ہے جو عہد صفوی کے ابتدائی دور میں منظر عام پر آئی اور جس نے دیکھتے دیکھتے روضہ خوانی کی ایک رسم کی نئی بناڈال دی ۔اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو حبّ حسین رضی اللہ عنہ کا سماجی اظہار جو آج شیعیت کا اصل الاساس سمجھا جاتا ہے اس کی تعمیر و تشکیل میں تاریخ کے مختلف ادوار نے اپنا حصہ ڈالا ہے ۔آل بویہ کے زمانے میں ماتم حسین رضی اللہ عنہ کی ابتداء اور مشہد حسین رضی اللہ عنہ کی تعمیر ہوئی ۔اسی عہد میں ابو مخنف کی تقلید کرتے ہوئے مقاتل پر مشتمل مؤثر شاعری کا ظہور ہوا۔خود رضی شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنا مشہور قصیدہ کربلاء لازلت کرباًو بلاجب قبر حسین پر پیش کیا اور اس شعر پر پہیچے :
کم علی تربک لما صرعوا
من دم سال ومن قتل جری
تو شدت گریہ سے بے ہوش ہو گئے ۔نائح الحسین کے فروغ کے لیے یہ عہد بڑا زرخیز ثابت ہوا ۔آگے چل کر صفوی عہد میں نہ صرف یہ کہ عاشورہ کو ایک سرکاری مذہبی تقریب کی حیثیت حاصل ہو گئی بلکہ محرّم کے عوامی جلوس کے ساتھ ساتھ شبیہ نکالنے کی شروعات بھی ہوئی ۔انیسویں صدی کے وسط میں خونی اور زنجیری ماتم بھی محرم کے جلوس کا حصہ بن گیا۔گو کہ بعض شیعی علماء نےوقتاً فوقتاً زنجیری ماتم کی سختی سے مخالفت کی لیکن ان کی اس تنقید کو دوسرے علماء نے فتنہ پر محمول کیا اور اسے امویوں کی آواز کہہ کر سختی سے دبادیا گیا۔
عاشورہ اربعین کے ماتم ہوں یا نجف ،کربلا اور دوسرے ائمہ اہل بیت کے قبروں کی زیارتیں ،چوتھی صدی سے پہلے جب اثنا عشری شیعیت منقح نہیں ہوئی تھی ان آداب ورسوم کا کوئی وجود نہ تھا ۔اگر آل بویہ کے زمانے میں سیاسی مصلحتیں نجف اور کربلا کو دینی حیثیت عطا نہ کرتیں تو یقیناً آج اسلام کے متحدہ قالب کی شکل وصورت مختلف ہوتی ۔یہ نقطہ بھی توجہ کا طالب ہے کہ حضرت علی رضی اللہ کی اساسی حثیت کے باوجود ،جو انھیں بوجہ وصی و مولیٰ،پہلے امام و خلیفہ بلا فصل کی حیثیت سے شامل ہے ،ان کی مظلومانہ شہادت کا غم تو کہیں نہیں منایا جاتا جب کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی اندوہناک شہادت پر عاشورہ اور اربعین کے ایام میں مجالس عزا کی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں ۔اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہےکہ خلافت کے متحارب دعویداروں کے لیےعلی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے مقابلے میں حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کی مظلومانہ شہادت میں عوامی جزبات کی بر انگیختگی کا زیادہ امکان دکھائی دیتا تھا۔
اموی اور عباسی خلافتوں کی بساط پلٹی جا چکی۔فاطمی اور ترک عثمانیوں کی بھی خلافت کو زوال آ گیا۔آل بویہ اور صفوی حکومت کے بعد ایران میں ولی فقیہہ کی حکمرانی کے قیام پر بھی تین دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اب بھی شیعہ زائرین جن کی دینی حسّیت کا مدار مزار البحار،مفاتیح الجنان اور ضیاءالصالحین جیسی کتابوں پر ہے ،اپنی زیارتوں میں ان لوگوں کے خلاف نوحہ کناں ہیں جنھوں نے ،ان زیارتوں کے بقول ،ائمہ معصومین کے حق سیادت کو غصب کر رکھا ہے۔تاریخ جب دین بن جائے تو ایسی صورت حال کا پیداہونا عبث نہیں کہ جب کہنے والے کو یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ کیا کہ رہا ہے ۔سننے یا سمجھنے والے تووہ مصلحتاً یا تقیتاًاس لیے خاموش رہتے ہیں مبادہ ان کا کلمہ حق اتنا حق نہ ہو جس کے سہارنے کی صلاحیت ان کے فرقہ یا قوم میں نہ پائی جاتی ہو ۔اشھدانّ علیاً ولی اللہ۔اذان میں علی ولی اللہ کے جس اضافے نے آج اثناعشری شیعوں کی مسجدوں کو الگ شناخت عطا کر رکھی ہے یہ نسبتاﷺ ایک تازہ عمل ہے جس کے جواز پر دلیل لانا خود شیعہ فقہا ء کے لیے ایک مشکل کام رہا ہے ۔شیخ صدوق اذان میں اس قسم کے اضافہ کو مفوضہ کی غلوفکری سے تعبیر کرتے ہیں اور صراحتاً اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اس طرح کے عمل کا ہم شیعوں سے کوئی تعلق نہیں۔شیخ صدوق کو شیعہ فکر میں جو بنیادی مقام حاصل ہے اس کے تیئں اس بات کی توقع تو نہ تھی کہ ان کی تنبیہ کے باوجود آنے والی صدیوں میں اثناعشری شیعہ بھی مفوّضہ کی راہ پر چل نکلینگے۔فرقوں کی تاریخ اسی خیال سے عبارت ہے جب گروہی شناخت دین کا اصل الاصل قالب قرار پاتا ہے تو پھر مختلف حیل فقہی ،مکروہ کو مباح اور مباح کو وجوب کی حیثیت عطا کر دیتے ہیں ۔شیعی اذان کا معاملہ بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ۔
کلینی کی اصول اور فروع دونو ں ہی اذان میں علی رضی اللہ عنہ کے اضافہ کی بحثوں سے خالی ہیں ۔شیخ مفید کی مقنعہ اور شریف مرتضیٰ کے انتصار میں بھی اذان میں ہے کہ جو شخص اذان میں کلمہ ولایہ کا اضافہ کرے وہ خطاکار ہے ۔البتہ انکی ایک دوسری تصنیف مبسوط میں اس خیا ل کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ بعض شاذ روایتوں کی بنیاد پر جو لوگ اذان میں علی رضی اللہ عنہ کی امیرالمومنینی کا تذکرہ کرتے ہیں یا آل محمد کو دنیا کے تمام لوگوں پر فضیلت دیتے ہیں تو ایسا کرنا معمول کا عمل نہیں ہے ۔(فلیس بہ معمول علیہ)لیکن ایسا کرنے والا گنہگار نہ ہو گا۔البتہ ایسا کرنا فضیلت کا باعث بھی نہ ہو گا اور نہ ہی ایسا کرنے سے اذان زیادہ مکمل سمجھی جائے گی۔گو کہ طوسی کی اس گنجائش میں فقہاء کے لیے قیل و قال کا خاصاو سیع امکان تھا لیکن تب بھی کسی کو خیال نہ آیا کہ وہ عام مسلمانوں سے الگ شیعوں کی علیحدہ اذان مرتب کرتا ہے۔آل بویہ کا دور گزرا شیعی فکر کا ارتقا ء ان کی امھات الکتاب سے تحریک پا کر جاری رہا ۔ناصرالدین طوسی ، علّامہ حلی اور ابو منصور کے دوا وین فقہی کسی شیعی اذان کی ترغیب سے خالی ر ہے ۔محقق حلّی نے بھی اس بات کی صراحت ضروری سمجھی کہ اذان میں کسی نئی بات کا اضافہ بدعت سے عبارت ہے۔
نھایۃ الاحکام میں انھوں نے اس بات کی صراحت کی کہ اذان میں ولایت علی کے اظہار کی کوئی شرعی وجہ نہیں پائی جاتی اور اس لیے لعدم مشروعیتہ کے سبب اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔یہی موقف محمد بن جمال الدین الشہید الاول (متوفیٰ 786ھ)کا رہا ہے جو علی رضی اللہ عنہ کی علایت کو امر واقعہ سمجھنے کے باوجود اذان میں اس کے وجوب کے قائل نہیں کہ ان کے نزدیک بھی ایسا کرنا اہل غلو مفوضہ کا کام ہے ۔زین الدین بن علی بن احمد العاملی الشہید الثانی (متوفی 966 ھ)نے کسی قسم کے اضافے کو بدعت سے تعبیر کیا ہے۔ان کے مطابق ولایت علی کا مسئلہ ہو یا آل محمد کی فضیلت کا بیان یہ باتیں اپنی جگہ امر واقعہ ہیں لیکن صرف ان باتوں کا سچ ہونا اذان میں شمولیت کا جواز نہیں بن سکتا۔ایک دوسری جگہ نسبتاً سخت مؤقف کا اظہار کرتے ہوے الشہید الثانی نے اذان میں کسی قسم کے اضافے کو حرام قرار دیا ہے۔ملاّاحمد الاردابیلی (متوفیٰ993 ھ) نے اس قسم کے اضافے کو قدوہ عمر سے تعبیر کیا اور یہ سوال اٹھایاکہ اگر حضرت عمر کی تثویب یعنی الصلوۃ خیرمن النوم کا اضافہ شیعوں کو قابل قبول نہیں ہے تو خود انھیں قدوۂ عمر پر اتنا اصرار کیواں ہے ؟ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو تین عہد کے تین فقہا شیخ الصدوق ، علامہ حلی اور الاردابیلی بشمول جمہور فقہا ئے امامیون ،اذان میں ولایت علی کے اضافے سے سختی نکیر کرتے رہے ہیں ۔
نو سو سال تک شیعوں کی اذان ولایت کا اظہار سے خالی رہی یہاں تک کہ صفوی کے طور پر متعارف کرایا اور تب پہلی بار مسجد کے میناروں سے اشہد ان علیاً ولی اللہ کی آواز سنی گئی۔ فقہا ءاور مجتہدین مختلف حیل فقہی سے اس نئی اذان کے جواز پر دلائل شرعی تلاش کر لیا ۔کسی نے کہا کہ شیخ صدوق کا یہ موقف کہ اذان میں ولایت علی کا اضافہ مفوضہ کا عمل ہے جس سے ہم اثنا عشری شیعوں کو کوئی سروکار نہیں ،مسئلہ کی صحیح توجیہ نہیں بلکہ اسے ثبوت وجود کے طور پر لیا جانا چاہئے۔باقر مجلسی نے اس طریقہ تاویل سے ولایت علی کے اضافہ کو مستحب قرار دے ڈالا ۔انھوں نے اذان کے حصے بخرے کر دیے جہاں اذان کے دوسرے کلمات واجب پائے وہیں ولایت علی کی شہادت استجاب کے طور پر اذان میں شامل کرنے کی راہ نکال لی گئی۔انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اگر کوئی شخص اذان میں ولایت علی کی شہادت حصول برکت کے خیال سے کرے اور اسے اذان کا حصہ نہ سمجھےتو وہ خطاکار نہ ہوگا۔آنے والے دنوں میں مجلس کے اس حیل فقہی کو مستند دینی فہم کے طور پر دیکھا جانے لگا جس کے مطابق محض نیت کی تبدیلی سے ایک بدعت حصول برکت کا ذریعہ سمجھی جانے لگی ۔اور اس طرح عہد صفوی کے ایک تاریخی سیاسی عمل نے مجتہدین کے حیل فقہی کے ساتھ مل کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محبان اہل بیت کی اذان کو عہد رسول ؐ ، عہد علی اور ائمہ معصومین کی اذانوں سے الگ کر ڈالا۔
شیعہ فکر کے عہد ارتقاء کا قدرے تفصیلی تذکرہ ہم نے اس لیے کیا تاکہ اس خیال کی وضاحت ہو سکے کہ کس طرح ایک سیاسی نزاع نے رفتہ رفتہ مذہبی اور دینی اختلاف کی صورت حاصل کر لی ۔کسے معلوم تھا کہ مسئلہ خلافت پر ہونے والا سیاسی اختلاف آگے چل کر امت واحد کی مذہبی تقسیم در تقسیم پر منتج ہوگا۔مہذب انسانی معاشرے میں اجتماعی امور پر اختلاف کا پیدا ہونا اور سیادت کے مسئلےپر گروہوں میں بٹ جانا اور اس پورے عمل میں کسی مخصوص نقطہ نظر کا غلبہ حاصل کر لینا ایک فطری عمل ہے ۔خلفائے ثلاثہ کے عہد میں انصار اور ہاشمی حلقوں میں نسبتاً حاشیہ پر رہنے کا جو احساس پایاجاتا تھا اور جس کی تلافی خلافت علی کے قیام سے ہو گئی تھی ، ہماری ملی تاریخ میں محض واقعات و حوادث کے طور پر دیکھے جاتے ،جمل اور صفین کی خانہ جنگیوں کو ایک volatile سیاسی صورت حال کا شاخسانہ سمجھا جاتا ، تاریخ کی تفہیم و تعبیر پر تو اختلاف باقی رہتا البتہ کسی کو اس بات کی ضرورت محسوس نہ ہوتی کہ وہ ما ضی کی ان معرکہ آرائیوں سے اپنا نظری تعلق استوار کرے ۔لیکن سیاسیdiscourse کو مذہب کی زبان مل جانے اور مناقب کی روایتوں کو اقوال و آثار کی حیثیت عطاکئے جانے کے سبب مستقبل میں ہماری تمام پیش رفت ماضی کی اثیر بن کر رہ گئی ۔حالانکہ ہمارے محدثین کو اس حقیقت کا بخوبی احساس تھا کہ تفضیل و مناقب کی تمام روایات سیاسی ماحول کی پیدا وار ہیں اور شاید اسی لیے عثمان و علی اور معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی فضیلت کی تمام روایتیں باہمی خانہ جنگی پر روک نہ لگا سکیں۔اس کے برعکس ان روایتوں نے سیادت کے سلسلے میں کنفیوزن میں اضافہ ہی کیا ۔البتہ آنے والی صدیوں میں جب ان روایتوں کو سیاسی پروپیگنڈہ کے بجائے مذہبی بیان کے طور پر پڑھنے کا رواج پیدا ہو چلاتو ان روایتوں سے فرقہ بندی اور گروہی تعصب کے استناد کا کام لیا جانے لگا۔
امام حسین کی شہادت کو تاریخی تناظر میں دیکھنا اس اندوہ ناک حادثہ کی شدت میں کمی کا باعث تو نہیں ہو سکتا، البتہ اس سے ہمیں اس نکتہ کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے کہ الاءئمہ من القریش کے التباس فکری نے آنے والے دنوں میں ہمارے فکری اور نظری سفر پر کتنے منفی اثرات مرتب کئے ۔الائمہ من القریش امر واقعہ کا بیان تو ہو سکتا تھا لیکن فلسفہ خلافت کی کلید نہیں کہ اس کی زد راست قرآن کے آفاقی پیغام (انّ اکرمکم عنداللہ اتقاکم)پر پڑتی تھی ۔پھر قریشی سیادت کا یہ تصور اپنے اندر تقسیم در تقسیم کے امکان کا حامل تھا۔آگے چل کر سیادت کے قریشی دعویدار ہاشمی ،علوی اور بلآ خر حسینی دائرے میں محصور ہو گئے۔
تاریخ کے تحلیل و تجزیہ میں ہمیں اس نکتہ کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ قرشی سیادت کے تمام دعویدار خواہ وہ آگے چل کر اموی ،عباسی اور فاطمی خلافتوں میں متشکل ہوے ہوں یا ابن زبیر کی نو سالہ خلافت ہو ائمہ اہل بیت کے وقتاً فوقتاً خروج ، یہ سب کے سب قرابت رسول کے حوالے سے ہی اپنی سیادت پر دلیل لاتے تھے ۔اگر ایک طرف یہ حضرات ایک دوسرے کے مقابل اور متحارب تھے تو دوسری طرف آپس میں ان کی قریبی رشتہ داریاں تھیں گویا مسئلہ قیادت پر ان کا یہ اختلاف خالصتاً سیاسی نوعیت کاتھا جو بنیادی طور پر اس discourse کا پیدا کردہ تھا جس کے مطابق قریشی ہونا سیادت پر دعویداری کے لیے کلیدی حوالہ بن گیا تھا ۔ایک بار جب قرابت رسول ؐ کی یہ بحث چل نکلی تو پھر ہاشمی ،طالبی ،علوی فاطمی جیسے مزید چھوٹے دائروں کا پیدا ہونا فطری تھا۔ابتدائے عہد کی سیاسی تاریخ میں جہاں قرشی اقارب کی تلوار یں آپس میں الجھ گئیں بڑی قیمتی زندگیوں کے زیاں کا سبب بنیں۔طلحہ اور زبیر خانہ جنگی کا شکار ہوئے ، ابن زبیر کی نو سالہ خلافت با لآخر ان کی اندوہناک شہادت پر ختم ہوئی ۔حسین ابن علی وطن سے دور صحراے کربلا میں مظلومانہ شہید کر دیے گئے۔
سیاسی نزاع نے خود اموی عباسی حکمراں خانوادوں کے اندر باہمی خونریزی کو جنم دیا۔یہ وہ حوادث تھے جو امت کو پیش آتے رہے ۔اسے اگر محض تاریخ کے طور پر پڑھا جاتا تو ہمارے لیے اپنےفکری انحراف اور عملی غلطیوں کی نشاندہی کچھ مشکل نہ ہوتی ۔لیکن ہوا یہ کہ ہم ابتداے عہد کے سیاسی اختلافات کو جسے تفصیل و مناقب کی روایتوں کے سبب مذہب کی زبان مل چکی تھی ،تاریخی بیان کے بجاےتقدیس کا حامل سمجھنے لگے۔ہم ان معرکہ آرائیوں میں فریق بن گئے جس کے لئے اللہ نے ہمیں مکلف نہ کیا تھا اور زمانی بعد کے سبب ہماراداخلہ ممکن نہ تھا۔
تیسری صدی کے خاتمے تک تفضیل و مناقب کی روایتوں کو محض سیاسی ڈسکورس کا حصہ سمجھا جاتاتھاتب انھیں معتبر دینی بیانات کے طور پڑھنے کی روایت قائم نہیں ہوئی تھی ۔روایتوں کے مجموعے تو مرتب ہونے لگے تھے جن میں ہر فرقے اور ہر نقطہ نظر کی تسکین کا کچھ سامان پایا جاتا تھا البتہ تب کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آتی تھی کہ آگے چل کر ان مجموعوں کو تقدیسی تاریخ کے لا زوال ماخذکی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور مختلف فرقے کے چھٹے امام منصوص کی روایت کو اہل سنت کے مجموعہ روایت میں داخل کر رہے ہیں ۔امام مالک کے عباسی خلفاءسے خاصے خوشگوار تعلقات رہے ۔دوسری طرف جعفر الصادق کی سند پر کوئی دس روایتیں نقل کیں اس وقت یہ بات ان کے ہم شہر اور ہم عصر تھے انھوں نے اپنی تالیف مؤطا میں جب جعفر الصادق کی سند پر کوئی دس روایتیں نقل کیں اس وقت یہ بات ان کے گمان میں بھی نہ تھی کہ وہ اثناعشری کے چھٹے امام منصوص کی روایت کو اہل سنت کے مجموعہ روایت میں داخل کر رہے ہیں ۔امام مالک کے عباسی خلفاء سے خاصے خوش گوار تعلقات رہے ۔دوسری طرف جعفر الصادقؒ سے مالک بن انسؒ اور ابو حنیفہؒ کےخوشگوار مراسم پر بھی تاریخ کے اوراق شاہد ہیں ۔زید بن علی کے خروج کو ابو حنیفہؒ کی اخلاقی حمایت حاصل تھی ۔گویا ابتدائی عہد میں فکرونظر کے باہمی اختلاف کے باوجود امت مسلمہ کامتحدہ قالب برقرار تھا۔
البتہ چوتھی صدی کی ابتداء میں تخصیص کے ساتھ ائمہ اہل بیت کی روایتوں کی جمع و تدوین نے دین کے شیعی قالب کی گویا بنیاد رکھ دی ۔محدثین نے اب تک قبول روایت کے جو مختلف اصول و ضوابط مرتب کئے تھے ان کی بنیاد پر روایتوں کے قبول و استرداد میں ان کے یہاں اختلاف پیدا ہو چلا تھا ۔قلینی نے صرف ان روایتوں کو لائق استناد سمجھاجو ائمہ اہل بیت کے حوالے سے ان کے محبین کے حلقہ میں گردش کرتی رہی تھیں ۔مالک بن انس ؒ ہو ں یا ابو حنیفہ ؒ اور سفیان ثوری ان کا حلقہ ارادت ان کے اپنے شہر میں قائم تھا۔اس کے برعکس جعفر الصادق ؒ کا قیام تو مدینہ میں تھا لیکن محبین اہل بیت کا روایتی گڑھ کوفہ اور عراق کے دوسرے شہر تھے جو خلافت علی کا پایہ تخت ہونے کے سبب اہل بیت سے تعلق خاص کا اظہار کرتے تھے ۔اپنے عہد میں الصادق ؒایک جلیل القدر عالم کی حیثیت سے خاص مقام کے حامل تھے ۔مسجد نبوی میں ان کا حلقہ درس قائم تھا جہاں دور دراز سے حجاز کے سفر آنے والے لوگ ان سے اپنی اپنی فہم کے مطابق اکتساب فیض کرتے ۔
پھر یہی روایتیں کچھ حاشیہ آرائی کے ساتھ شیعان اہلبیت کے حلقوں میں گردش کرتیں ۔کوفہ میں ان روایتوں کی خاصی مانگ تھی ۔راوی کبھی اپنی کم فہمی کے سبب اور کبھی کبھی چھوٹے چھوٹے مادی فوائد کی خاطر وہ باتیں بھی الصادق سے منسوب کر دیتا جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتیں ۔بسا اوقات ایسا بھی ہوتاکہ الباقر ؒ اور الصادق ؒ سے منسوب ان روایتوں یا اقوا ل کو مختلف حلقوں کی طرف سے چیلینج کیا جاتا یا لوگ تصدیق کے لیے براہ راست الصادق سے رابطہ کرتے لیکن کوفی راوی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتا۔اس قبیل کی ایک مشہور مثال زرارہ بن عیان کی ہے جس نے الباقر سے بعض ایسی روایتیں منسوب کر رکھی تھیں جو خود جعفر الصادق کے نزدیک قابل اعتناء نہ تھیں۔کوفہ اور عراق کے دوسرے شہروں میں ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جنہوں نے سیاسی مقاصد اور مادی منفعت کے لیے شیعان اہل بیت کا نقاب اوڑھ رکھا تھا۔اور جو کسی سیاسی تحریک کی کامیابی کے لیے آل بیت کے نمایاں افراد کے ناموں کا استعمال کرنے سے نہ چوکتے تھے ۔
مختارالثقفی کی کیسانیہ تحریک اس phenomenon کی ایک بین مثال ہے جو ابن حنفیہ کی شمولیت کے بغیر شورش برپاکرنے میں کامیاب رہی ۔الباقر الصادق کو ایسے لوگوں کا بھی سامناتھا جو خود ان کے متبع بتاتے لیکن ان کے غلو آمیز افکار و خیالات کے سبب باقر کو ان سے قطع تعلق کا اظہار کرنا پڑتا۔جعفر الصادق کے لیے مدینہ سے دور اس قسم کی روایتوں پر کنٹرول کرنا مشکل تھا جو مخصوص حلقہ میں خفیہ طریقہ سے ان سے منسو ب کی جا رہی تھیں ۔ان میں وہ روایتیں بھی تھیں ۔جو راوی کو اس بات سے سختی سے تاکید کرتی تھیں کہ ان روایتوں کو محبان اہل بیت کے علاوہ کسی اور سے بیان نہ کیا جائے۔جعفر الصادق نے اپنی روایتوں کا کوئی مجموعہ بھی ترتیب نہیں دیا اور نہ ہی بعد کے ائمہ اہل بیت میں سے کسی نے علوم اہل بیت کا کوئی مخزن مدون کیاجس سے اس صورت حال کےازالہ کا کوئی راستہ نکلتا۔کلینی نے چوتھی صدی کے ابتدائی ربع میں جب ان روایتوں کی تدوین کا کام شروع کیا تو ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھاکہ وہ بغداد اور قم کے راویوں پر پوری طرح تکیہ کریں۔
تاریخ کو تقدیسی بیان کے طور پر پڑھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی الکافی کی تدوین کو نصف صدی نہ گزری تھی کہ اسلام کا ایک علیحدہ شیعہ قالب وجود میں آگیا ۔تفضیل علی اور مناقب اہل بیت کی تمام رواہتیں جو کبھی سیاسی ڈسکورس کا حصہ سمجھی جاتی تھیں ،دین کی اصل الاساس قرار پا گئیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا اس زورو شور سے چرچہ ہوا کہ بسا اوقات محبان اہلبیت کا اسلام مذہب اساسین کے طور پر دیکھا جانے لگا جہاں محمد ؐاور علی دو روشنی کی حیثیت سے ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم ہوں ۔وصی کے بعد کے بغیر نبی کا تصور ناممکن قرار پایا ۔بعض آزاد منش غالیوں نے تو یہاں تک کہہ ڈالاکہ نبوت تو علی کے لیے مخصوص تھی البتہ غلطی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ ہو گئی۔کسی نے کہا کہ نبوت تو ختم ہو گئی البتہ علی اور ان کےسلسلے کے ائمہ کی ولایت جاری ہے ،جنھیں محدث اور مفہم کا مقام حاصل ہے۔اور یہ کہ حضرت علی کا مقام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے چار درجے آگے ہے۔اس قسم کے خیالات نے مسلمانوں کے مختلف حلقوں کے لئے پراگندہ فکری کاوا فر مواد فراہم کیا۔وہ دین جو کبھی اقوام عالم کے مابین مساوات ،شعوب و قبائل کی ہم آہنگی اور الہ واحد کی عبودیت سے عبارت تھا،نسلی تعصب اور فرقہ وارانہ تنگ نظری کا نقیب بن گیا۔
ایسا محسوس ہوا گویارسالہ محمدی ؐ کا بنیادی ہدف قرشی ،عباسی ،طالبی علوی،برتری اور سطوت کا پیام ہو ۔اہل بیت کی مظلومیت کی تحریک جب مذہب کی شکل میں جلوہ گر ہوئی تو وہ حسینیت میں محصور ہو کر رہ گئی۔حسین کے لئے رونا رلانا باعث اجر قرار پایا۔اہل بیت کے دوسرے شہداءجنھوں نے خروج بالسیف کی راہ اختیار کی مجلس عزاء کا موضوع نہ بن سکے۔دوسری طرف حبّ علی میں ایسی روایتیں دین کا معتبر فہم سمجھی جانے لگیں جو یہ بتاتی تھیں کہ اس وقت تک کوئی شخص پلسراط سے نہیں گزر سکتا جب تک کہ اس کے پاس علی کا پروانہ نہ ہو ۔بعض روایتوں میں علی رضی اللہ کے چہرے کی طرف دیکھنے کو عبادت بتایا گیا اور بعض روایتوں نے علی کے ذکر کو بھی عبادت قرار دیا۔
جوں جوں شیعیت کا علیحدہ قالب متشکل ہوتا گیااور جیسے جیسے شیعیت کے سماجی مظاہر اور رسوم دوسرے فرقوں سے علیحدہ ہوتے گئےعاشورہ اور اربعین کی مجلسوں میں شاعروں ،ذاکروں اور نوحہ خوانوں کی مبالغہ آرائی کے لئے میدان وسیع اور زرخیز ہوتا گیا۔مبالغہ کی یہ لےاتنی بلند کرناپڑا ۔ذاکروں اور نوحہ خوانوں نے تحریک اہل بیت کی سمت گم کر دی ۔وہ اس بنیادی نکتہ کو نظر انداز کرتے رہے ۔کہ سیاسی حالات کے یکسر بدل جانے کے سبب اب صدیوں پرانے گلے شکووں کا کچھ حاصل نہیں ۔جن لوگوں نے سلمان فارسی ،مقداد بن اسود الکندی اور عمار بن یاسر کو شیعان علی کی حیثیت سے دیکھاوہ اس حقیقت کو بھلا بیٹھے کہ یہ تمام حضرات جنھیں سیاسی اختلاف کے لیے کتنا بھی متہم کیاجاے امت واحدہ کا حصہ تھے جس طرح جمہور مسلمان اور اسی امام کی اقتداء کرتے جس پر تمام لوگ متفق تھے ،اور یہ کہ حضرت علی جب خلیفۃالمسلمیں کے منصب پر فائز ہوے اور جب انھیں مقتدر حکمراں کی حیثیت سے کوئی ساڑھے چار سال تک حکمرانی کا موقعہ ملاتب بھی آپ نے دین کے مختلف قالب کی تشکیل کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔
(ادراک زوال امت سے ۔جاری ہے)
مئی ، 2013 بشکریہ: صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/social-phenomena-shi’ite-islam-/d/11570