ڈاکٹرانیس الرحمٰن
5 مارچ 2021
آج جس طرح زندگی تیز
رفتار سرپٹ دوڑتی جا رہی ہے، اسی تیزی سے ہم متعدد مسائل کے شکار ہوتے جا رہے ہیں،
ہم اپنی پریشانیوں یا یوں کہئے خود پیدا کردہ مسائل کے بھنور میں ایسے گھر چکے ہیں
کہ ہمیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ہمارے سماج میں ایسے متعدد مسائل موجود ہیں جو
اجتماعی نوعیت کے ہیں اور ہماری توجہ کے طالب ہیں، ان میںایک اہم مسئلہ جہیز کا بھی ہے۔ جہیز ایسا
سماجی مسئلہ ہے جس سے واقف تو ہم سب ہی ہیں مگر اس کی پردہ پوشی اور پہلو تہی بھی
ہم ہی کرتے ہیں۔ یہ لعنت کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کا ایسا ناسور ہے جو
جڑ پکڑ چکا ہے۔
جہیزکے انتظامات نہ ہونے
کی وجہ سے یا تو غریب بیٹیوں کے رشتے نہیں آتے یا پھر دہلیز سے ہی واپس لوٹ جاتے
ہیں۔طلاق کی شرح میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کی وجوہات میں سے ایک
بڑی وجہ جہیز بھی ہے۔لڑکے والے جہیز کی جو فرمائش کرتے ہیں اگر وہ مکمل طور پرپوری
نہ ہو تو وہ خاندانی یا معاشرتی دباؤ کے زیر اثر شادی تو کرلیتے ہیں مگر بعد میں
ایسے اسباب پیدا کردیتے ہیں جو طلاق کا سبب بن جاتے ہیں۔
غیر طبعی اور پرتشدد
اموات بھی معاشرے میںبڑھ رہی ہیں، جہیز کم
لانے کی صورت میں شوہر اور سسرال کی طرف
سے لڑکی کو ذہنی ، جسمانی اور نفسیاتی
اذیت پہنچائی جاتی ہے بلکہ تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ نتیجتاً بسا اوقات ان
طعنوں سے بیزار ہو کر لڑکی خود کشی کرلیتی ہے۔ اس طرح کے واقعات غیر تعلیم
یافتہ طبقے اور خاندان میں ہی نہیں بلکہ
اپنے آپ کو مہذب اور تعلیم یافتہ کہلانے والے نام نہاد خاندان بھی اس کا شکار
ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ جہیز
کی موجودہ شکل ایک تباہ کن رسم بن کر رہ گئی ہے ، غیروں کی دیکھا دیکھی اب
مسلمانوں میں بھی یہ رسم بد جبری مطالبہ کی صورت اختیار کر چکی ہے ، جہیز کے
مطالبوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے نہ جانے کتنے گھر تباہ ہو چکے ہیں۔
لڑکی اگر اپنے والدین سے
ان کی بساط ووسعت کے مطابق کچھ مطالبہ کرے تو کرسکتی ہے کہ والدین سے کچھ طلب کرنا
اس کا پیدائشی حق ہے ،مگر ہونے والا داماد اور اس کے گھر والوں کو کہاں سے حق
پہنچتا ہے کہ لڑکی یا اس کے والدین سے کسی قسم کا سوال کریں، یہ تو یقیناً مہذب
بھیک ہے جسے رسم ورواج کے نام پر قبول کیاجا رہا ہے۔ جبکہ شرعاً مال کی مناسبت سے
عورت کا مرد پر حق ہے (جیسا کہ مہر ، نان ونفقہ وغیرہ سے وضاحت ہوتی ہے)لیکن مرد
کا عورت پر کسی طرح کا مالی مطالبہ شریعت میں ہرگز جائز نہیں۔ پھر نکاح کے موقع پر
جس اہتمام کے ساتھ اس کی نمائش ہوتی ہے وہ
بھی قطعی غیرشرعی ہوتا ہے۔
اسی کے ساتھ ہمیں اس بات
کا اعتراف بھی کرنا پڑے گا کہ بسا اوقات لڑکامطالبہ تو نہیں کرتا لیکن لڑکی کے
سرپرست واہ واہی اور نام ونمود کے لئے حیثیت سے زیادہ اس قدر جہیز دے دیتے
ہیںکہ پاس پڑوس کے دوسرے لوگ بھی متاثر
ہوکر اس سے بڑھ کر دینے اور بعض لینے کے خواہش مند ہو جاتے ہیں۔ غور کیا جائے تو
یہی مفاسد کی بنیاد ہے جس پر مناسب بندش ضروری ہے۔
افسوس کہ اس مادہ پرست
دور میں دین و مذہب، حسن کرداروعمل کو بالائے طاق رکھ کر محض سیم وزر او رمال
ودولت پر دھیان دیا جانے لگا ہے جس کا وبال وعذاب آخرت میں جو ہوگا وہ تو ہوگا
ہی، دنیا میں بھی اس کے مفاسد ومضرات شمار سے باہر ہیں، اس کے سد باب کیلئے سماج کے
سرکردہ افراد اور اہل دانش جو سماج میں اپنی بات منوانے کی پوزیشن رکھتے ہیں وہ
خاص طور پر آگے آئیں، علماء کرام اور ائمہ مسجد کے منبر سے اس کے خلاف آواز
اٹھائیں اور اس کی ہلاکت خیزیوں سے قوم کو بار بار آگاہ کریں تبھی اس رسم بد کا
خاتمہ ہو سکتا ہے۔
لڑکی کی پیدائش بلاشبہ پیغمبر
ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں خوش بختی کی علامت ہے۔ ہم نے اپنے ہاتھوں اسے بد
بختی میں بدل دیا ہے۔ بلاشک وشبہ عورت اللہ تعالیٰ کا حسین تخلیقی شاہکار، انسان کے
لئے قدرت کا بیش بہا عطیہ اور انس ووفا کا پیکر ہے۔
واضح ہو کہ یہ مسئلہ صرف
مسلمانوں کا نہیں بلکہ باشندگان ہند کا مجموعی مسئلہ ہے لہٰذا ہم سب کو مل کر اس
رسم بد کو مٹانے کے لئے کمر بستہ ہو جانا چاہئے۔
چند تجاویز جن پر عمل
کرکے اس پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اس طرح ہیں:
(۱) قانون
وراثت نافذ کیا جائے، عورت ماں ہو یا بہن، بیٹی ہو یا بیوی ہر کسی کو اس کا جائز
شرعی حق دیا جائے۔
(۲) اہل
دانش اور مصلحین کو اپنی تحریر وتقریر میں جہیز کے نقصانات کو
اپنا موضوع بنانا چاہئے۔
(۳) ذرائع ابلاغ سے منسلک افراد اپنا رول ادا کریں اور جہیز کی
قانونی وشرعی حیثیت لوگوں کو بتائیں بلکہ اس کے خلاف لوگوں کی ذہن سازی اوررائے
عامہ کو ہموار کریں۔
(۴) اسکولوں،
کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے ماہرین تعلیم، تعلیمی نصاب میں جہیز سے متعلق
مناسب مواد شامل کریں اور اساتذہ اپنے طلباء وطالبات کو اس کی خرابیوں سے آگاہ
کریں تاکہ یہ نسل آگے چل کراس کار ِبد کا حصہ نہ بنے بلکہ سماج کو اس سے پاک
رکھے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’بہترین نکاح وہ ہے جو زیادہ آسان
اور کم خرچ ہو۔ (ابوداؤد) لہٰذا ہمیں
نکاح کو آسان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے
اور صحیح عقیدہ وعمل اور دیندار گھرانے کی بااخلاق لڑکی تلاش کرنی چاہئے نہ کہ مال
و دولت دیکھیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نیک عورت سب سے بڑی دولت اور راحت وسکون
کا سامان ہے۔
5 مارچ 2021،بشکریہ:انقلاب،
نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/changing-mindset-youth-essential-end/d/124480
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism