ڈاکٹر ادس ددریجا، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام
شعبہ اسلامک اسٹڈیز ، میلبورن یونیورسٹی
(انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
اکثر ہم میڈیا میں سلفی نظریہ یا سلفی مسلمانوں کے بارے میں سنتے ہیں۔ حال ہی میں سلفی نظریہ کی اصطلاح / تصور مصر میں میں مختلف 'سلفی' مسلم جماعتوں کی انتخابی کامیابی یا مالدیو میں افراتفری کے ساتھ نمایاں ہوا ہے۔ تاہم، اس تصور کو غیر تسلی بخش طور پر سمجھا گیا ہے۔ اس تصور کااسلامی روایت میں کیا مطلب ہے؟ یہ مضمون حال ہی میں سلفی نظریہ پر شائع ہوئی میری کتاب: کنسٹرکٹنگ اے ریلیجیئس آیڈیئل بیلیور اینڈ وومن ان اسلام...... .... (http://www.amazon.com/Constructing-Religiously-Ideal-Believer-Woman/dp/0230120571) کااقتباس ہے۔ اور میں نے اس مضمون میں مختصراً یہ وضاحت کی ہے کہ سلفی نظریہ کا اسلامی روایت میں کیامطلب ہے۔
اسلامی روایت میں سلفی نظریہ کے تصور میں کئی پہلو ہیں۔ اس میں سے ایک کا تعلق اسلامی روایت کی تشریح کا ‘ مستند’ طریقہ کار سمجھنے کے مضمرات سے ہے۔ دوسرے عنصر کا تعلق پیغمبر محمد ﷺ کے صحابہ کےسیاسی‑ سماجی افراتفری کے درمیان کردار کے بارے میں ایک سنی سیاسی نظریے سے ہے جو ابتدائی اسلام کی خصوصیت کو بتاتا ہے۔ تیسرے پہلو کا تعلق تاریخ اور زمانہ کی نوعیت پر ایک خاص نقطہ نظر کی بنیاد پر اسلامی روایات کے تصور سے ہے۔ آئیے ہم ان میں سے ہر ایک کا مشاہدہ کریں۔
سب سے پہلے اسلامی روایت میں 'مقدس ماضی' کے تصور کا اظہار سلفی نظریے میں ہوا۔ سلفی نظریہ نہ صرف یہ کہ کس طرح اسلامی روایت کے تصور کی تشکیل اور تشریح کی جائے بلکہ اس کے تصور سے مراد تاریخ اور وقت کی نوعیت کو پڑھنے کے سوالات سے متعلق ہے۔ اسلامی فقہ میں ‘السلف السلیح’ جملہ کے مختلف معنی ہیں جیسا کہ "ہر گروپ نے سلف کو اپنی واقفیت اور مکتب فکر کے مطابق تعریف کی ہے"۔ ‘السلف السلیح’ جملہ کے ایک تعریف کے مطابق اس سے مراد "مکتب فکر (مسلک)کےابتدائی مجاہد علماء کرام " سے ہےجنہوں نے قبول کر لیا اور اس کی نقل کی جیسے کہ، ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ابو یوسف اور الشیبانبی (حنفی مسلک) یا امام احمد بن حنبل (حنبلی مسلک)، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور تابعین۔ دوسری تعریف شافعی مسلک میں پائی جاتی ہے جو ‘السلف السلیح’ کی وضاحت ‘ وہ لوگ جو مسلمان امت کے ابتدائی لوگ تھے’ کے طور پر کرتا ہے۔ ‘السلف السلیح’ کی ایک اور تعریف کے مطابق صحابہ، طابعین، طبع طابعین جو نبی کریم ﷺ کی حد میں رہنے والوں سے مراد ہے: "میری صدی کی امت سب سے بہترین ہے، پھر اس کے بعد آنے والے امتی اور پھر اس کے بعد آنے والے امّتی۔ جدیدیت سے قبل خوب لکھنے والوإ ،میں سے ایک سنی مسلمان مصنف امام السیوطی (d.911/1505)، کے مطابق ‘السلف السلیح’ ایک زمانہ تھا جو تقریباً 220 ہجری برس قبل تک تھا، "جب عوام میں بدعات عام ہوگئی، المعتزلہ کو وہ بولنے دیا جو وہ بولنا چاہتے تھے، فلسفیوں نے اپنی آواز بلند کی، اہل علم حضرات کو قرآن کی تشکیل کی گئی ہے، کہنے پر مقدمہ کیا گیا اور معاملات بہت تیزی سے تبدیل ہوئے۔ ‘السلف السلیح’ کی ایک اور تعریف اس نظریے کو اس طرح واضح کرتی ہے،ایسے لوگ جو 400 ہجری سے قبل تک رہتے تھے اور اس کے بعد کی مسلامنوں کی نسل کو خلف کے طور پر نظریے کی وضاحت کرتا ہے۔ لہذا، ‘السلف السلیح’ نسلوں کی متعدد تعریفوں کے مد نظر اور کون سلفی نظریے سےتعلق رکھتا ہے، اس کا اسلامی روایت میں واضح طور پر تعریف نہیں دی گئی ہے۔
ایک اسلامی فکر کے طور پر سلفی نظریہ دوسری صدی ہجری کے اواخیر میں ترقی پایا۔ ایک نظریے کے طور پر سلفی ذہنیت کو مسلم طبقے کی پہلی صدی ہجری میں سیاسی اور فقہی فرقہ بندی کی روشنی میں اچھے طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس زمانے میں سلفی نظریے کو نظریاتی طور پر مقابلہ کر رہے مختلف گروپوں کے لئے مرکزی حیثیت کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، اور دوسروے لوگوں کے برعکس یہ تمام گروپ مسلم امت کے آغاز کے وقت کے ان تمام اعلی مرتبت لوگوں کے خیالوں کے مطابق خود کو ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ مثال کے طور پر ہے، حسن ا لبصری (ڈی 110/728) سے منسوب معاہدوں میں ‘السلف السلیح’ لفظ کے استعمال میں واضح ہے، جو اپنے مذاکرات کاروں کے بر عکس آزادانہ مرضی کے نظریے کی حمایت کرنے کے لئے مانتے تھے کہ ‘السلف السلیح’ نے اس اصول کو کو پیدا کیا تھا۔ کسی کے مذہبی، سیاسی یا قانونی خیالات کے لئے مذہبی جواز حاصل کرنے کے لئے اسے ‘السلف السلیح’ سے جوڑ کر پیش کیا جاتا تھااس طرح ان فرقوں نے معیار بندی، معتبریت اور مستند ہونے کے احساس سرایت کر گئے۔
تاریخی نقطہ نظر سے، ‘السلف السلیح’ کی اصطلاحات کا سب سے پہلے استعمال کو نبی کریم ﷺ کے پردہ کر جانے کے بعد کے تاریخی واقعات جن کا تعلق قرآن اور سنّت میں غیر حل شدہ مسائل پر ‘السلف السلیح’ کے بعد کی نسل کے مسلمانوں کا ایک خاص زاویہ نگاہ مانا جانا چاہئے، ساتھ ہی ساتھ نو زائد مسلم طبقے کو مندرجہ بالا سیاسی و نظریاتی تقسیم نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا، اسے بھی سمجھنے کا ذریعہ تھا۔ یہ سلفی نظریہ جسے اب بڑی حد تک مرکز ی دھارے کی سنّیت سمجھا جاتا ہے، کی تشکیل کے لئے کافی اہم رہا ہے، اور جسے چودھویں صدی میں اہل سنّت و الجماعت سے مراد کیا جاتا تھا۔ اس کی اہمیت سیاسی نظام کے طور پر اس کے کام کرنے کے سبب تھی جس نے مسلمانوں کے مختلف دھڑوں میں تنازعہ اور تشدد کے ما بعد نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام کو اس میں حصہ لینے یا ذمہ داری نبھانے سے نام نہاد طور پر صاف کرنے کی کوشش کی جس نے نو زائد مسلم طبقے کےسماجی تانے بانے کومنتشر کرنے کی دھمکی دی۔ یہ حدیث تنقید مطالعہ کی ترقی کے لئے بھی اہم تھا کیونکہ محدثین کے زریعہ اپنایا گیا طریقہ کار اثناد پر مبنی تھا اورصحابہ جنہوں نے یہ حدیث منتقل کی ان کے کردار پر انحصار تھا۔ ایک تیجے کے طور سلفی نظریے کو پہلی صدی کے مذہبی اور سیاسی حکام کے خیال میں تصور کیا جا سکتا ہے، جو لوگ ان سے منحرف ہوئے ان کے بر عکس ان کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ عقیدہ ، منھج اور عبادات کے معاملے میں قرآنی تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کی سنّتوں کے وفادار ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری اسلامی صدی کے آخر میں سلفی نظریہ سے متاثر عالمی منظر نے فلسفہ علمیاتی حدود کی شکل کو تشکیل دینا شروع کر دیا اور جلد ہی یہ ایک معمول بن گیا۔ (انہیں وجوہات کی بناء پر میں نے کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے)۔ مثال کے طور پر یہ اس حقیقت سے واضح ہےکہ مختلف اسلامی علوم کی بانیوں یا ابتدا کنندہ حضرات نے بطور دانشور اپنے متعلقہ مضامین کے جواز کے لئے ‘السلف السلیح’ کے درمیان میں سے ہی تصور اور خیالات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس تناظر میں اسلام کے ایک ممتاز عالم آئی گولڈزیہر نے اس بات پر زور دیا کہ جیسے کی سلف کی مشابہت کے طور پر، متقی آبائو اجداد نے جنہوں نے اپنی عادات و اطوار کو نبی کریم ﷺ کی نظروں کے سامنے اور انکی سنّتوں پر عمل کر تشکیل دی تھی وہ ممتقی مسلمانوں کے لئے مثالی بن گئے۔ آہستہ آہستہ سلفی یعنی، ایک جنہوں نے اپنے آبائو اجداد کی نقل کی اور نیک سماج میں تعریف کے سب سے اعلیٰ سند بن گئے۔
اسلامی ضمیر کے اندر ایک ناقابل تبدیل عنصر کے طور پر بھی سلفی نظریہ نے اسلامی روایت کے مذہب اور اہل حدیث پر مبنی طریقے کو قبول کرنے کے لئے تصوراتی بنیاد قائم کی۔ سابق کو حقیقی روایت پسندی کہا گیا جس نے مثالی ماضی اور موجودہ حال کی کشیدگی سے منسلک ارتقاء کے اثرات کو بے اثر کرنے کی کوشش کی اور بعد میں سلفیہ ، قدیمی اور جدید، جو مسلسل تبدیلی پر تجدید کرتی ہے‑ جو انحراف اور بدعت کے سلسلے میں ضروری تبدیلی مانی جاتی ہیں‑ جو سلف کے مثالی ماضی واپس لانے کے لئے ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ (ہر مخصوص مدت کے مطالبات کے سلسلے میں کم یا زیادہ آزادانہ طور پر وضاحت کی گئی ہے)
جیسا کہ یہ دونوں طریقے صداقت کے لئے مقابلہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مسلسل چیلنج کرتے ہیں اور موجودہ وقت میں بھی ایک دوسرے کو چیلنج کرنا جاری رکھیں گے جو کہ موجودہ دور کے مباحثے میں نام نہاد مذہب پر مبنی علماء کرام ، خلف یا اہل حدیث پر مبنی علماء کرام ، سلف۔
سلفی نظریے کا تصور قبل جدید اسلامی تفکر میں زمانے اور تاریخ اور ان کا موجودہ سے تعلق (اور مستقبل) کی فہم کے طور پر سرایت کر گیا ہے۔ یہ تصور چند احادیث کے مطالعہ سے لئے گئے ہیں اگر دوبارہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی جائے تو جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ، سب سے بہترین لوگ آپ کے زمانے کے تھے پھر اس کے بعد کے زمانے اور اسی طرح اس کے بعد کے زمانے کے لوگ تھے سوائے اس کے کہ کوئی سال یا دن نہیں تھا جو بعد میں آیا اس سے بدتر تھا۔ اس افہام و تفہیم کے مطابق قرآن پاک کے مقابلے میں یہ سنت تھی، جس نے priori کے تصور کو مسلط کر اسلامی بصیرت سب سے زیادہ خصوصیت والی خصلت قائم کی اور اس تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ناگزیر ہے اسلامی بصیرت کی تاریخ کے سب سے زیادہ خصوصیت میں سے ایک معیار سے انحراف، اور آخر میں ڈویژن کا قیام تھا
مزید برآں، اس سلفی ذہنیت کے مطابق وقت کو اپنے آپ میں تبدیلی کا ذریعہ اور آلہ تصور نہیں کیا گیا۔ لیکن التواء کی ایک مدت، تنزّلی اور توہّم پرستی اور غیر معقولیت تک جانے کے بعد پھر سے ظاہر ہونا، دوبارہ عمل ہونا تصور کیا جاتا ہے۔
یہ سلفی نظریہ دونوں مذھب اور اہل حدیث پر مبنی فکر میں واضح ہے، لہذا، تمام جوابات فراہم کرنے کے لئے ماضی کو تلاشتہ ہے اور مسلسل خود کو موجودہ پر عائد کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مسلم تشخص کی صداقت کو تاریخی زمانے کے ایک مقررہ نقطہ پر واپس آنے یعنی نبی کریم ﷺ اور ابتدائی مسلم طبقے کے زمانے پر ہی قائم کی جا سکتی ہے۔
سلفی نظریہ پر مندرجہ بالا بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تصور کا آپس میں کئی جڑے ہوئے رجحانات سے مراد ہے۔ سب سے پہلے، یہ اسلامی روایات کی تشریح کا ایک مخصوص طریقہ کار ہے جو ‘السلف السلیح’ پر مبنی نہیں مانے جاتے ہیں ان طریقہ کاروں سے اسے الگ کرنا ہے۔ دوسرے، یہ ایک مذہبی اور سیاسی نظریہ ہےجس کی منشاء محدثین کے ذریعہ تیار کئے گئےتنقید حدیث کے طریقہ کار کا درست ٹہرانے کے لئے اور جو ابتدائی اسلام کی خصوصیات رہی سماجی سیاسی افرا تفری میں نبی کریم ﷺ کے تمام صحابیوں کو عام معافی عطا کرنے کی ہے۔ آخر میں، یہ اسلامی روایات کے تصور کی تشکیل کرنا ہے جو تاریخ اورزمانے کے رجعت پسند خیالات پر مبنی ہے۔
خلاصہ یہ کہ سلفی نظریہ ایک قابل بحث تصور ہے جو قرآن اور سنّت کی تشریح کے ایک مخصوص طریقہ ، ایک مخصوص عالمی منظر اور اسلام کی ابتدائی تاریخ کی ایک مخصوص تشریح پر زور دیتا ہے۔
ڈاکٹر ادس ددریجا میلبورن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/the-war-within-islam/salafism/d/6624
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/salafi-ideology-/d/6709